میری پری میری جان — اقراء عابد

فرنٹ ڈوور پہلے سے کھلا تھا اس لیے وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ دل میں عجیب سا شور ہو رہا تھا۔
پورا راستہ خاموشی سے کٹا۔ سبحان نے ایک بڑے سے خوبصورت ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روک دی۔ ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کر اُس نے فرنٹ ڈوور کھولا اور عندلیب کو اترنے کا اشارہ تھوڑا جھک کر کیا جیسے کہہ رہا ہو۔۔ ”مادام چلیے!” اس وقت دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ یہ وقت لنچ کا تھا۔ مگر ہوٹل بالکل خالی تھا پہلا قدم ا ندر رکھتے ہی عندلیب نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا اور پھر ویران ہوٹل کو۔۔ جہاں مدھم سی روشنیاں جل رہی تھیں، موم بتیوں اور گلاب کے پھولوں سے تمام ٹیبل سجے ہوئے تھے۔ وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
سبحان اُسے گلاس ونڈو کی طرف والے ٹیبل پر لے آیا اور اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ویٹر کو آرڈر دینے کے بعد وہ سیدھا ہوا جب کہ عندلیب مسلسل ونڈو سے باہر دیکھ رہی تھی جہاں ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔
”آہمم۔۔۔” سبحان نے گلا کھنکارتے ہوئے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ تو عندلیب نے اُس کی طرف رُخ کر لیا۔
”اتنی حیران کیوں ہو؟ میں تمہیں کسی اور دیس میں نہیں لایا۔ ہم پاکستان کے شہر اسلام آباد میں ایک مشہور و معروف ہوٹل میں ہی بیٹھے ہیں۔ اب ذرا کام کی بات ہو جائے؟” عندلیب نے محض سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
”دیکھو! سب سے پہلی بات میں جانتا ہوں کہ تم کہیں نہیں جا رہیں نا ہی تمہاری کوئی لندن کی فلائیٹ ہے اور دوسری بات، تمہارے اِس بدلے ہوئے روپ کی وجہ میں بہ خوبی جانتا ہوں۔ اس لیے مجھ سے کچھ بھی چُھپانا بے کار ہے۔۔ تم ایک معمولی گھر میں بیاہی گئی تھیں۔ تمہارا شوہر تمہیں اپنی بہن یعنی انجلاء کو اپنے پاس رکھنے سے انکاری تھا۔ تم دن رات پارلر پر کام کرکے اُس کا اور اُس کے پورے خاندان کا پیٹ بھرتی تھیں یہی وجہ تھی کہ پری کو معمولی سے اسپتال میں ایڈمٹ کروا رکھا تھا تم نے۔ تمہارے ماں باپ بہت پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اور تمہیں تمہاری ماں نے بہت چھوٹی عمر میں بیاہ دیا تھا۔ سبحان احمد جیسے کسی کاغذ پر لکھی ہوئی تفصیلات اسے پڑھ کر سنا رہا تھا۔
”تمہارا شوہر ہر روز تم پر تشدد کرتا تھا مگر تمہارے پاس کو ئی ٹھکانا نہ تھا۔ اس لئے تم اُس کے ظلم سہتی رہیں اور۔۔ پرسوں جب اُس نے تمہیں طلاق دی تو پوری رات تم نے پارلر والی آمنہ کے گھر گزاری اور جب اُس کے شوہر نے تم پر گندی نظر ڈالی تو تم وہاں سے بھاگ آئیں۔۔۔۔ اور اب تم نے اپنے لئے رہائش کی تلاش میں ہو۔۔۔۔ رائٹ؟” سارا مدعا بیان کرنے کے بعد اُس نے پوچھا۔





عندلیب جو اُس کے پہلے لفظ سے ہی نظریں میز پر گاڑے سر جھکائے آنسو بہانے میں مصروف تھی۔ اثبات میں سر تک نہ ہلا سکی۔
”عندلیب اس طرح سے کم زور بن کہ آنسو بہانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ میں بہت بڑی بڑی باتیں نہیں کروں گا صرف اتنا کہوں گا کہ میں پری کے بنا نہیں رہ سکتا اور تم اس معاشرے میں اکیلی نہیں رہ سکتیں، کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟” عندلیب کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اسے لگا تھا کہ سبحان اِس ویران ہوٹل میں اُس کی کم زوریوں سے فائدہ اٹھائے گا مگر شادی، وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
اُس کے آنسو بہنا بند ہو گئے تھے مگر نظریں ہنوز نیچے تھیں۔ ویٹر برتن رکھنے آیا تو سبحان نے اُسے انتظار کرنے کے لئے کہا تو وہ چلا گیا۔
”عندلیب جس طرح تم تنہا ہو ویسے ہی میں بھی اکیلا ہوں۔ جس طرح تم اذیتوں سے گزر رہی ہو ویسے ہی میں گزرتا آیا ہوں۔” سبحان بولتا بولتا بہت بہت پیچھے چلا گیا۔ اُسے لگا وہ کنویں کی گہرائی سے بول رہا ہے۔
”میرے بابا کا بہت اچھا بزنس تھا۔ میرے گھر میں بہت سے لوگ ایک ساتھ رہتے تھے ماما، بابا، دادی،تایا تائی ، دو چچا چچیاں اور ایک پھوپھو سب ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے۔ ہمارا گھر مثالی گھرانہ تھا مگر میرے گھر کو کسی کی نظر لگ گئی۔ بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ماما نے اسی صدمے میں میری چھوٹی بہن کو جنم دیا اور وہ بھی بابا کے پاس چلی گئیں۔ دادی کا بوڑھا وجود ہم سب کی ڈھال تھا۔ میں نے اور دادی نے نئی مہمان کا نام پری رکھا تھا۔ تب میں نو سال کا تھا اور مجھے پریاں بہت پسند تھیں اس لئے میں نے ضد کرکے اُس کا نام پری رکھا تھا۔” سبحان احمد ماضی میں کہیں کھو چکا تھا۔
”مجھے نا ابو کی کمی محسوس ہوتی تھی اور نہ ہی ماما کی مجھے ہر وقت بس پری ہی نظر آتی تھی۔ دو سال بعد میری دادی بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اب میں اور پری اپنے تایا تائی اور چاچاؤں اور چچیوں کے رحم و کرم پر تھے۔ کچھ دیر سب نے ناز اٹھائے مگر پھر سب نے بُھلا دیا۔ ماما نے جب پری کو جنم دیا تھا تب وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بہت کم زور تھیں۔ بابا کے اچانک چھوڑ جانے کی وجہ سے وہ اپنا خیال بالکل نہیں رکھتیں تھیں۔ بس ہر وقت کمرے میں بند روتی رہتیں تھیں اس لیے پری ابنارمل پیدا ہوئی تھیں۔ جب یہ بات سب کو پتا چلی تب ہر کوئی مزید دور ہوتا گیا کہ کہیں پری کی ذمہ داری اس پر نہ پڑ جائے۔ میں اس وقت ایف ایس سی کے امتحان سے فارغ ہوا تھا جب تایا نے مجھے بلایا اور کہا کہ:
”برخوردار! اب تم بڑے ہو، بالغ ہو۔۔ اس لیے اب اپنا اور اپنی بہن کا خرچ تم خود اٹھائو گے۔ ہم بہت جلد دبئی شفٹ ہو رہے ہیں۔ یہ تمہاری جائیداد اور بزنس کا حصّہ۔” تایا نے جو دیا جتنا دیا میں نے اُسی کو غنیمت جانا۔
”پھوپھو کی شادی ہو گئی۔ دونوں چچا بہت پہلے علیحدہ علیحدہ گھر لے کر وہاں شفٹ ہو چکے تھے۔ اب پیچھے بچے میں اور پری۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ہم کیسے رہیں گے بس کرم دین چچا جو ہمارے پرانے ملازم تھے وہ ہی ہمارے پاس رہا کرتے تھے۔” سامنے بیٹھی عندلیب پوری توجہ سے اُسے سُن رہی تھی۔
”مجھے جائیداد کے نام پر آبائی گھر دیا گیا اور بزنس کے نام پر کپڑے کی ایک دکان، باقی سب کہاں گیا کس نے کیا لیا اور کس نے کیا دیا میں کچھ نہیں جانتا۔ میرے اور پری کے لئے وہ چھت ہی کافی تھی۔ میں صبح دکان پر جاتا اور کرم دین چچا پری کو سنبھالتے۔ شام میں آکر میں پری کو سنبھالتا اور کرم دین چچا کھانا بناتے۔ پری کو کھلانے اور سلانے کے بعد میں اتنا تھک جاتا کہ میں بھی سو جاتا مگر پھر ہر روز دو بجے اُٹھتا، تہجد کے بعد میں اپنی کتابیں کھول لیتا اور فجر تک پڑھتا۔ پھر ناشتہ کرتا خود بھی اور پری کو بھی کھلاتا وہ ابھی صرف چار سال کی تھی۔ پھر میں دکان پر چلا جاتا۔ میں نے ایسے ہی گریجوایشن کا امتحان دیا اور آگے ایم بی اے میں داخلہ لے لیا۔ آدھا دن میں دکان کھولتا اور پھر شام کو کلاسز لینے کے بعد گھر لوٹتا۔ وہیں مجھے داراب ملی۔” سبحان آہستہ آہستہ اپنی زندگی کی کہانی کو آگے لے جا رہا تھا۔ عندلیب اسے ہنوز سن رہی تھی۔
”داراب بہت امیر گھر سے تعلق رکھتی تھی۔ اُس کے چلنے پھرنے بیٹھنے اٹھنے، بات کرنے حتیٰ کہ ہر چیز میں شاہی خون کی بو رچی ہوتی تھی۔” سبحان کا گلا رندھنے لگا مگر وہ رُکے بغیر بولتا رہا:





”پہلے دن سے ہی میں اُسے اچھا لگا تھا کیوں کہ میں صرف اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ باقی لڑکوں کی طرح چھچھوروں والی حرکات مجھے پسند نہ تھیں۔ ایک دن پارٹی میں ایک لڑکے نے مجھے اپنا گٹار پکڑایا اور کہنے لگا کہ اگر ہمت ہے تو بجا کر دِکھائو۔۔ مجھے گانے بجانے کا زیادہ علم نہیں تھا مگر جب میں نے بجایا تو سب دنگ رہ گئے اور میں خود بھی۔۔ اگلے روز داراب نے مجھے ایک خوب صورت گٹار گفٹ کیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہماری دوستی بڑھ گئی اور محبت کب ہم میں پنپنے لگی، ہمیں پتا ہی نہ چلا۔۔۔ ہمارا ایم بی اے کا آخری سمسٹر چل رہا تھا مگر اس مصروفیت میں میں پری کو بالکل بھی وقت نہیں دے پاتا تھا۔ جب میں صبح اٹھ کر دکان پر آتا تو وہ سو رہی ہوتی اور فیس ادا کرنے اور گھر کے خرچ کے لیے میں رات دیر تک دکان چلاتا تھا۔” سبحان نے کھنکھار کر گلا صاف اور بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
”آمدنی اچھی ہو رہی تھی اور سب خرچ پورے ہونے کے بعد بھی کچھ رقم ہر ماہ بچ جایا کرتی تھی۔ جو مجھے سمجھ نہ آتا کہ کہاں خرچ کروں تو میں نے بنک میں اکائونٹ کھلوا لیا۔ ہر ماہ باقی بچی رقم میں وہاں رکھوا دیتا تھا۔ اب پری سات سال کی ہو چکی تھی۔ میرے فائنل ایگزام ہو گئے تو داراب نے مجھے اپنے گھر والوں سے ملوایا۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے انہوں نے اُس کی پسند کو پسند کر لیا اور ہماری شادی ہو گئی۔ داراب کو پری کے بارے میں میں نے بہت پہلے ہی بتا دیا تھا اور وہ بھی اُس کا بہت خیال رکھتی تھی۔۔۔ مگر۔۔ پری۔” ایک کے بعد دوسرا آنسو میز پر رکھی عندلیب کی ہتھیلی پر گرا تو اُس نے سر اوپر اٹھایا۔ پانی گلاس میں انڈیلا اور سُبحان کے آگے کھسکا دیا۔۔ اُس نے ایک ہی سانس میں سارا گلاس ختم کر دیا جیسے صدیوں کا پیاسا ہو۔
”مگر پری۔ پسند نہیں کرتی تھی داراب کو۔۔۔” ٹیبل پر واپس گلاس رکھنے کے اُس نے پھر سے اپنے الفاظ جوڑے۔
”مگر!” عندلیب نے اُسے ہاتھ اُٹھا کر ٹوکا۔
”میں آگے نہیں سننا چاہتی۔ میں آپ سے شادی کے لئے تیار ہوں۔ مگر میری عدت پوری ہونے کے بعد۔۔ اب چلیں گھر۔۔۔” عندلیب یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”بیٹھ جائو عندلیب! مجھے ایک لمبے عرصے کے بعد کوئی ایسا انسان ملا ہے جو مجھے میرے دکھ میرے کرب کو سُن سکے، محسوس کر سکے، مجھے بولنے دو بولنے دو مجھے۔۔ ورنہ میں گُھٹ گُھٹ کر ایک دن ایسے ہی مر جاوں گا۔۔۔۔” سبحان نے کہا تو وہ تاسف سے دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔
”پری کو داراب سے نفرت تھی۔ وہ جب جب اُس کے پاس جاتی تو وہ چیختی چلاتی اور چیزیں اُٹھا اُٹھا کر پٹختی۔۔۔ پری مجھے میری جان سے بڑھ کر عزیز تھی تو داراب میری جان تھی۔ میں کسی کو بھی کچھ بھی کہتا تو تکلیف مجھ مجھے ہوتی۔ ساری ساری رات میں پری کے پاس بیٹھا رہتا۔ وہ مجھے داراب کے پاس جانے نہیں دیتی تھی۔ اُسے لگتا تھا میں اُس سے نہیں داراب سے محبت کرتا ہوں۔ داراب نے جیسے اُس سے اُس کا بھائی چھین لیا ہو۔ پھر بھی داراب کبھی اعتراض نہیں کرتی تھی۔
ایک سال ایسے ہی گزر گیا۔ جب میں اور داراب اپنی شادی کی پہلی سال گرہ منا کر گھر لوٹے تو پری نے ہمارے کمرے کی ہر ایک چیز کو زمین پر پھینکا ہوا تھا۔ وہ چل نہیں سکتی تھی مگر اُس کی نفرت کی شدت اتنی تھی کہ وہ وہیل چیئر کے ذریعے خود ہمارے کمرے میں پہنچی تھی۔” اتنا بتا کر سبحان کچھ دیر رکا پھر بولا:
”جب میں نے یہ سب چچا کرم دین کو دِکھانے کے لیے دوسرے کمرے میں جھانکا تو پری نے اپنے کمرے کی بھی ہر ایک چیز توڑ پھینکی تھی اور چچا کرم دین کے سر میں بھاری گل دان لگنے کی وجہ سے وہ بھی بے سُدھ پڑے تھے میں انہیں فوراََ ہاسپٹل لے کر گیا۔ وہاں ایڈمٹ کروانے کے بعد میں نے کچھ ضروری کارروائی کی۔ ڈاکٹر نے پٹی کر دی تھی مگر ابھی تک چچا کرم دین بے ہوش تھے۔ تبھی داراب کا فون آیا وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی:
پری اُسے مار دے گی۔ اُس پر جنون سوار ہے میں اُسے روکنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر وہ ہر چیز ملیامیٹ کر رہی ہے۔ میں ہاسپٹل سے برق رفتاری سے نکلا۔ گھر پہنچا تو پری نے بیڈ شیٹ سے لے کر پرفیوم تک سب اُٹھا اُٹھا کر پٹخ ڈالا تھا۔۔ داراب کو بھی کافی چوٹیں آئیں تھی مگر وہ پھر بھی مسلسل اُسے روک رہی تھی۔ جب میں کمرے میں داخل ہوا تو پری نے بیڈ سائیڈ پر رکھے گٹار کو اٹھایا اور وہ زمین پر پٹخنے ہی والی تھی جب میں چیخا:
”نہیں نہیں! دیکھو پری یہ گٹار میری محبت کی پہلی نشانی ہے۔ تم جانتی ہو داراب نے مجھے گفٹ دیا تھا اسے مت پھینکنا۔۔ پری۔۔” میں چیخا، داراب مجھ سے زیادہ بلند آواز میں چیخی۔۔۔
”بس بہت ہو گیا اب میں اس پا گل کو ایک لمحہ بھی اپنے گھر میں برداشت نہیں کروں گی۔ داراب نے پری کی چیئر کا رخ مُوڑا اور تیزی سی کمرے سے باہر نکل گئی۔ سیڑھیوں پر وہیل چئیر چھوڑ کر وہ اُسے بازوؤں میں بھر کر لے گئی۔ میں نہیں جانتا کہ اتنی طاقت اُس کم زور لڑکی میں کہاں سے آگئی۔” جو خوابوں کی دنیا میں جیتی تھی جو محبت دینا اور لینا جانتی تھی، وہ پری کے دل میں جگہ نہ بنا پائی مگر اُس کی خاطر خود کی جان ہار گئی۔۔ سبحان احمد نے آنکھوں کے نم گوشے صاف کئے پھر بولے۔
”داراب نے تیزی سے گاڑی میں پری کو بٹھایا میں بھی پیچھے لپکا مگر وہ گاڑی بھگا چکی تھی میں نے دوسری گاڑی نکالی اور اُس کے پیچھے لگا دی۔ داراب کو ڈرائیونگ آتی تھی مگر شادی کے بعد ہمیشہ میں ہی ڈرائیو کرتا تھا مگر نہ جانے کیسے۔” اس کی آواز رندھ گئی۔
”داراب ایک دروازے سے اور پری دوسرے دروازے سے باہر گری ۔۔۔ میں بھاگ کر داراب کے پاس گیا مگر اُس نے پری کی طرف اشارہ کیا۔ میں پری کی طرف لپکا مگر پری کی آنکھوں میں ابھی بھی وحشت طاری تھی۔ اُس کی آنکھ میں میں نے کبھی آنسو نہیں دیکھا تھا۔ وہ روٹھ جاتی تھی تو چیختی چلاتی تھی مگر رونا شاید اُسے نہیں آتا تھا لیکن اُس روز میں نے پری کی آنکھ سے لڑھکتا ہوا آنسو دیکھا جس نے مجھے آج تک سکون لینے نہیں دیا۔ میں جب بھی آنکھیں بند کرتا وہ میرے سامنے آجاتی۔ اُس کا لڑھکتا ہوا آنسو ہمیشہ مجھے بہت سے آنسوئوں کا سیلاب دے جاتا ہے۔ داراب کی وارفتگی، اُس کی محبت کا صلہ میں اُسے نہ دے سکا بلکہ اُسے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ سبحان احمد ایک بار پھر رونے لگے تھے۔




Loading

Read Previous

کردار —-ہاجرہ ریحان

Read Next

میں بے زباں —- رفا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!