سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اُس کے قدموں میں واضح لرزش تھی۔ اُس نے لائن میں بنے ہوئے تین کمروں میں سے پہلا کمرہ کھولا۔۔۔۔ وہاں جا بہ جا چیزیں بکھری ہوئیں تھیں۔
سامنے لگی پیاری سی بچی کی تصویر سبحان سے بہت مشابہہ تھی۔
اُس نے قدم آگے بڑھایا تو کسی چیز سے ٹھوکر لگنے کے باعث وہ لڑکھڑا کر نیچے جُھک گیا نیچے پڑی ہوئی چیز دیکھ کر وہ ٹھٹھکا، وہ ایک ٹوٹا ہوا چھوٹا سا گٹار تھا۔
اس کے منہ سے بے اختیار یہ شعر نکلا۔۔
جانے والے مجھے کچھ اپنی نشانی دے جا
روح پیاسی نہ رہے آنکھ میں پانی دے جا
اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہو گئیں۔۔ ایک کے بعد ایک موتی اُسے ماضی کے جھروکوں میں لے گیا۔ ماضی بھی عجیب شے ہے، خوب صورت ہو تو بھی رُلاتا ہے اور بدصورت ہو تو بھی آنکھ میں نمی دے جاتا ہے۔۔
”نہیں نہیں! دیکھو پری یہ گٹار میری محبت کی پہلی نشانی ہے تم جانتی ہو، اس لیے اب یہ گٹار پھینکنا مت۔ پری۔” اُس نے چیخ دار واز دی مگر پری تو ہمیشہ اپنی ہی دُھن میں مست رہتی تھی۔۔ پٹاخ کی آوازآئی اور گٹار فرش پر گر کر چور چور ہوگیا۔
”بس بہت ہو گیا یہ تماشا اب میں ایک لمحہ بھی اس پاگل لڑکی کو اپنی گھر میں برداشت نہیں کروں گی۔۔”
گاڑی کے پہیوں کی چڑچڑاہٹ۔۔۔۔ دردناک چیخیں۔۔ اور وہ آخری بار پری کی نظریں اور لڑھکتا ہوا آنسو۔۔۔ بہت سی چیزیں اُس کی آنکھوں کے سامنے لہرا رہی تھیں۔۔ چھے سالوں سے ایک جملہ اُس کے کانوں میں مسلسل گونج رہا تھا۔۔
مجھے محبت نہیں چاہیے مجھے پری چاہیے۔ آج بھی یہی گونج اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اُس نے گھبرا کر کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔۔
بہت کچھ ایک ساتھ سبحان کو ستانے لگا۔ چھے سالوں سے وہ اس کرب سے گزر رہا تھا۔۔۔
لامتناہی سفر۔۔۔ پرُ پیچ رستہ۔۔
کوئی دکھ اپنوں کی چاہت کے دکھ سے بڑھ کر نہیں ہوتا۔۔ جب اپنے دور چلے جاتے ہیں تو لاکھ پکارو، لاکھ گڑگڑائو مگر وہ سنتے کیوں نہیں ہے یا رب؟ تو تو رحیم ہے، مجھ پر اپنا رحم فرما۔ میں بہت کمزور سا بندہ ہوں تیرا۔ میرے اللہ مجھے اس سفر میں سُرخرو کر دے مجھے میری غلطیوں کی معافی دے دے مالک مجھ سے میری آخری اُمید مت چھین۔ مت چھین۔۔ وہ وہیں فرش پر ڈھے سا گیا اور چیخ چیخ رونے لگا۔ اتنا کہ وہ کب سجدے میں چلا گیا اور کب وہیں نیند کی دیوی اُس پر مہربان ہوئی، اُسے کچھ پتا ہی نہ چلا۔
صبح اُس کی آنکھ تب کھلی جب کوئی اُسے جھنجھوڑ کر اُٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُسے کچھ ہوش سا آنے لگا مگر ساری رات کے رت جگے کے باعث اب اُس کا ذہن پوری طرح اُس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔
”پااااا۔۔۔ پااااا۔۔پاپا۔۔۔” ایک جانی پہچانی سی آواز اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو اُس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔ وہ دیکھ کر ششدر رہ گیا۔۔۔ جو وہ دیکھ رہا تھا وہ اُسے کوئی خواب ہی لگ رہا تھا۔
اُس کی پری اُس کی جان آج خود سیڑھیاں چڑھ کر اُس کے پاس آئی تھی۔ جو دو چار قدم چل کر گر جاتی اور بس اتنا ہی نہیں، اُس کی پری نے آج اُسے واضح الفاظ میں ”پاپا” کہا تھا۔ یہ اُس کے لئے چھوٹی بات نہیں تھی۔ پوری رات کی مزدوری رائیگاں نہیں گئی تھی، اُس پر رحم فرما دیا گیا تھا۔۔ اُس کی دعائیں رب العزت نے سن لی تھیں اور انہیں قبولیت بھی بخشی گئی تھی۔۔
اُس نے پری کو بانہوں میں بھینچ لیا اور کتنی ہی دیر تک سیال بہاتا رہا۔۔۔ درد سے۔۔۔ خوشی سے۔۔۔ حیرانی سے۔۔ شکر سے۔۔۔ اور۔۔ پیار سے۔۔
”سُبحان بابا ڈاکیا یہ دے کر گیا ہے۔۔” کرم دین نے ایک خاکی لفافہ آگے بڑھایا تو سُبحان ہوش میں آیا۔ اُس نے پری کو خود سے الگ کیا۔ ہاتھ بڑھا کر لفافہ تھاما۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔۔ وہ جانتا تھا اس میں کیا ہو سکتا ہے مگر اب اُسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔۔
اُس میں کورٹ کا نوٹس تھا کہ غیر قانونی طور پر کسی بچی کو آپ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ انجلا کو اُس کی بہن عندلیب کو واپس کر دیا جائے ورنہ اُن کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ مگر سُبحان اب پریشان نہیں ہوا تھا، وہ اب پُر سکون تھا۔۔ وہ جانتا تھا دنیا کی کوئی طاقت اب اُس کی بیٹی کو اُس سے چھین نہیں سکتی۔
”ٹھیک ہے بابا آپ جائیں ناشتہ لگائیں میں اور پری آتے ہیں” وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولا۔
ناشتے سے فارغ ہو کہ اُس نے کچھ ضروری ای میلز چیک کیںاور کچھ ہدایات اپنے مینیجر اور سیکرٹری کو بھیجیں، پھر وہ پری کو عفت آپا کے پاس چھوڑ کر وکیل سے ملنے چلا گیا۔
شہر کا سب سے بڑا وکیل کرنے کی وجہ یہی تھی کہ وہ پری کو کسی طور کھونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ پری کی بہن اُس پر مقدمہ ضرور کرے گی اس لیے وہ اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔
شام پانچ بجے وہ لوٹا تو اس نے سوچا پری اُس کا انتظار کر رہی ہو گی لیکن جب وہ گھر آیا تو گھر کا منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ ہر چیز صاف شفاف اور چمک رہی تھی۔ اس نے سوچا عفت آپا نے آج خوب دل جمعی سے صفائی کی ہے مگر جب وہ اپنے کمرے میں آیا تو پری کو وہاں موجود نہ پا کر وہ ششدر رہ گیا۔
”عفت آپا۔۔ عفت آپا۔۔” وہ عفت آپا کو ہر جگہ دیکھ آیا تھا مگر جب وہ لان سے واپس آرہا تھا تو اُسے اپنے ساتھ والے کمرے کے دروازے کے چھید سے لائٹ جلتی ہوئی محسوس ہوئی، اُس نے قدم کمرے کی جانب موڑ لئے۔۔
دروازہ اندر سے لاکڈ تھا، اُس کا دماغ کھٹکا۔ وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں گیا اور چابیوں کا گچھا اٹھا لایا۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے کا منظر اُسے چکرا دینے کے لئے کافی تھا۔
پری! ہٹو یہاں سے، تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری پری کو چھونے کی؟ اور آپ۔ واہ کیا خوب وفاداری نبھا رہی ہیں آپ عفت آپا۔ یہ بیگانی ہے اور پری تو ناسمجھ ہے، مگر آپ تو سمجھ دار ہیں نا، تو پھر یہ سب کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے؟” سبحان کو کم مگر شدید غصہ آیا کرتا تھا۔ اب اُس کا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔ وہ پری کا کمرہ تھا جو اُس نے بہت اشتیاق سے بنوایا تھا۔ عمدہ سیلنگ اور پینٹ اور چاروں طرف پری کی تصاویر اور بے شمار کھلونے وہاں بکھرے پڑے تھے۔
”سُبحان دیکھو عفت آپا نے کچھ نہیں کیا، اُن کو مت ڈانٹو میں نے ہی ضد کی تھی پری سے ملنے کی۔ آئی ایم سوری۔”
سبحان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں یہ وہی لڑکی تھی جو کچھ روز پہلے اپنے لہراتے بالوں کے ساتھ جدید لباس میں اُس پر چیخ چلا رہی تھی اور اب چند ہی دنوں میں یہ کایا کیسے پلٹ گئی، ادھ کٹے بالوں پر خوب صورتی مگر حیا سے لیا گیا حجاب اور جدید لباس کی جگہ پر ڈھیلا ڈھالا سکارف، وائٹ کرتا اور شلوار۔ اُسے لگا یہ وہ چالاک لڑکی ہے جو اُس روز پولیس کے ساتھ آئی تھی اور آج کسی منصوبے کے تحت آئی ہے، مگر اُس کا دل گواہی دے رہا تھا کہ ماجرا کچھ اور ہے۔
”مل لیا نا پری کو؟ اب آپ یہاں سے جا سکتیں ہیں۔۔” سبحان نے بے رُخی سے کہا۔ مگر وہ ٹس سے مس نا ہوئی۔
”وہ دراصل، میری پرسوں کی فلائیٹ ہے لندن کی تو میں آج رات انجلاء کے پاس رکنا چاہتی تھی۔” بہت پاکیزہ لباس میں بھی وہ بہت لبرل لگ رہی تھی تبھی تو اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کہہ گئی۔۔
”میں اپنی پری کے لئے کافی ہوں۔ اس لیے اُسے آپ کی ضرورت نہیں ہے۔” اُس نے پری کو آگے بڑھ کر تھام لیا۔
”پاپا۔۔۔ ما۔۔ ما۔۔” پری نے ٹوٹے پھوٹے دو الفاظ بولے اور دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیا ں آپس میں جوڑ دیں۔۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ سبحان اپنی پری کا اشارہ نہ سمجھتا؟ وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ پوری رات اُس نے اوپر والے کمرے میں اپنی پری کی یادوں میں تڑپتے گزاری تھی۔
اگلی صبح وہ فریش ہو کر گھر سے فرار ہونے کے چکروں میں تھا جب پری اور عندلیب اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
”آپ کو کسی نے آداب نہیں سکھائے کہ کسی کے کمرے میں بغیر اجازت داخل نہیں ہوتے۔۔” مگر جب اُس نے نظر اٹھائی تو وہ نظر جھکانا بھول گیا۔۔ بڑی بڑی آنکھوں میں گہرے سُرخ ڈورے اور متورم سی آنکھیں ہلکی سی اٹھ کر جھک گئیں۔
”ایم سوری! وہ انجلا کو روکا بھی تھا میں نے۔۔ مگر۔۔” سبحان کو صاف سنائی دے رہا تھا اور دکھائی بھی کہ وہ لڑکی جو اُس کی کچھ نہیں لگتی پوری رات سو نہیں سکی اُس کی آواز میں بھاری پن اور تھکاوٹ تھی۔
”پاپا۔۔ آ۔۔ ج۔۔ئو ۔۔۔ نا۔۔ستہ (پاپا آجائو ناشتہ کر لو)” پری جانتی تھی اُس کے پاپا نے رات سے کچھ کھایا پیا نہیں ہے اس لیے رات سے اُس نے بھی ایک لقمہ نہیں کھایا تھا اور عندلیب شرمندگی سے نظریں جھکائی کھڑی تھی۔
”پاپا کی جان۔۔ آپ جائو ماما ساتھ میں ابھی آتا ہوں۔۔” سبحان نے عندلیب کی طرف اشارہ کیا تو وہ چونک اٹھی، مگر ایک لمحہ، صرف ایک لمحہ لگا سبحان کو فیصلہ کرنے میں۔
ناشتہ سب نے مل کر کیا مگر عندلیب بار بار اپنے فون کو دیکھ رہی تھی۔ گھبراہٹ اُس کے چہرے سے عیاں تھی۔۔ عفت آپا کل کی ڈانٹ کی وجہ سے آج نہیں آئیں تھیں اور ناشتہ بھی کرم دین کا بنا ہوا نہیں لگ رہا تھا۔ اُسے لگا کہ یہ ناشتا کسی سگھڑ ہاتھوں نے بنایا ہے۔۔
سبحان نے باہر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور چائے بنا کر ڈرائنگ روم میں آ گیا جہاں پری صوفے پر بیٹھی عندلیب کی گود میں سر رکھے کارٹون دیکھ رہی تھی۔
”آپ۔ آپ نے کیوں تکلیف کی۔۔ مجھے کہا ہوتا۔” سبحان نے چائے اس کے سامنے میز پر رکھی تو وہ چونک گئی۔
”محترمہ! شاید آپ بھول رہی ہیں یہ گھر میرا ہے اور میں نہیں آپ میری مہمان ہیں۔ پہلے ہی ناشتہ بنا کر آپ نے مجھے احساس دلا دیا کہ میں بہت برُا مہمان نواز ہوں۔” سبحان سامنے سنگل صوفے پر بیٹھ گیا۔
عندلیب نے چپ چاپ چائے کا کپ اٹھا لیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
”تو محترمہ کب تک جا رہی ہیں آپ؟” کچھ پل خاموشی کے بعد سبحان نے سوال کیا جو بہت دیر سے اُس کے اندر مچل رہا تھا۔
”کہاں؟ لندن؟” اس نے چونک کر پوچھا۔
”جی نہیں! میرے گھر سے۔” سبحان نے بے مروتی سے اپنا مُدعا بیان کیا تو وہ لاجواب سی ہوگئی۔۔
”آج، آج شام تک چلی جائوں گی۔” اُس کے جواب میں کچھ لڑکھڑاہٹ تھی۔ سبحان کو کچھ شبہ ہوا۔
”اوکے!” خالی کپ میز پر رکھ کر وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
جس دن عندلیب پولیس کو لے کر اُس کے گھر آئی تھی اُسی دن سبحان نے اپنے دوست شاہ نواز کو عندلیب کے بارے میں تمام معلومات لینے کے لیے کہہ دیا تھا۔ سبحان نے جیب سے فون نکالا اور شاہ نواز کا نمبر ڈائل کیا۔
”وعلیکم السلام! کیسا ہے جگر؟” کچھ لمحہ توقف کے بعد سبحان پھر بولا:
”ہاں جو کام بولا تھا تجھے اُس کا کیا بنا؟” اوکے کے بعد رابطہ ختم ہو گیا۔
”عندلیب۔۔ کیا آپ میرے ساتھ چلیں گی؟” سبحان لائونج میں آیا تو پری صوفے پر سو رہی تھی اور وہ ہنوز بیٹھی تھی۔
”کہاں؟” عندلیب نے حیرانی سے پوچھا۔
”یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے، میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔” سبحان نے قدم آگے بڑھایا۔
”لیکن پری، وہ اکیلی ہے۔ میرا مطلب ہے انجلا۔۔” اُس نے جھنجھلا کر سر نفی میں ہلایا۔۔
”آپ کی انجلا اور میری پری کے لیے عفت آپا آ رہی ہیں۔ میں نے انہیں فون کرکے بلایا ہے کل کی ڈانٹ سے اب تک ناراض تھیں مگر وہ دل کی بہت اچھی ہیں اور میری ماں جیسی ہیں اس لیے میری پریشانی اُن سے دیکھی نہیں جاتی۔ وہ بس انیکسی سے یہاں تک پہنچنے ہی والی ہوں گی۔ آپ کا انتظار کر رہا ہوں میں گاڑی میں۔ سبحان نے تفصیلاََ جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔
عندلیب کا دل زور سے دھڑکا۔ اُسے لگا وہ اُسے کہیں دور پھینکنے جا رہا ہے، جہاں سے کبھی اُس کا سایہ بھی پری پر نہ پڑے۔ مگر نا چاہتے ہوئے وہ اٹھی، اپنا حلیہ درست کیا تب تک عفت آپا آگئیں اور وہ گاڑی تک چلی آئیں۔۔