میری پری میری جان — اقراء عابد

کبھی پھولوں کو روتے دیکھا ہے تم نے؟
پھول نہیں روتے ۔۔ روتے بھی ہوں تو اپنا درد اپنے اندر پنہاں کسی کونے میں چھپا کر رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے چہروں پر مسکان بکھیرتے ہیں، اپنے درد کی جھلک بھی دوسروں پر عیاں نہیں ہونے دیتے میری جان!
پھول تو پھول ہوتے ہیں۔۔ خوشیاں دیتے ہیں۔۔۔ خوشبویں بکھیرتے ہیں۔ سپنے سجاتے ہیں۔۔۔ بناتے ہیں۔۔۔ درد مٹاتے ہیں۔۔
پھول تو پھول ہوتے ہیں نا پری! تم بھی تو پھول ہو، ننھا سا پیارا سا پھول۔۔ جس نے کبھی مُرجھانا نہیں ہے، ہمیشہ کِھلے ہی رہنا ہے تاکہ تم سے منسلک لوگ بھی اپنے پھول کو دیکھ کر اپنے لبوں کی مسکان برقرار رکھ سکیں۔ وہ کب سے اپنی پری کا سیال صاف کر رہا تھا۔ وہ اب وہ تھک چکا تھا، لیکن پری کا سیال مسلسل رواں تھا۔
اُس نے پانی کی تلاش میں ارد گرد کا بہ غور جائزہ لیا تو پتا چلا اِس ڈربے نما کمرے میں ایک ذی روح کا رہنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو گہرے کنویں میں پھینک دیا جاے اور اُس کنویں کو اوپر سے اچھی طرح ڈھانپ دیا جائے۔۔۔ کنواں نما عجیب و غریب یہ کمرہ چوڑائی میں کم اور گولائی میں زیادہ تھا یوں جیسے سچ میں کنواں کھودا گیا ہو۔ دیواریں بھی لمبی لمبی مگر گولائی میں تھیں اوپر چھت کی طرف دیکھا تو ایک بہت اوپر گارڈر کے ساتھ ایک پرانی طرز کا پنکھا جھول رہا تھا، جو صرف خود کو ہوا دے رہا تھا۔ روشنی کے نام پر صرف ایک بلب سنہری سی روشنی پھینک رہا تھا جو اس کھنڈر نما کمرے کے لیے کافی نہیں تھی۔ ایک خستہ حال سی چارپائی پر میلی سی سفید چادر بچھی تھی، جس پر تکیہ ندارد تھا۔ اُسی تکیے کی جگہ بیٹھی وہ نیر بہا رہی تھی جب کہ سُبحان احمد اُس کے سامنے گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھا اُسے دیوانہ وار چُپ کروا رہا تھا۔ چارپائی کے سائیڈ پر ایک چھوٹا سا میز پڑا تھا جس پر پانی کا جگ تھا اور ساتھ ہی گلاس بھی موجود تھا، مگر دیکھنے سے پتا چلتا تھا کہ برتن کافی عرصے سے دھلنے سے محروم پڑے ہیں۔ وہ پانی ڈالنے کے لیے آگے بڑھا تو یہ دیکھ کر جل اُٹھا کہ جگ میں پانی ہی موجود نہ تھا۔ یوں جیسے بہت دنوں سے یہاں کسی نے مڑ کر بھی نہ دیکھا ہو۔
”اُٹھو پری! چلو یہاں سے، میں اب مزید تمہیں ان لوگوں کے سپرد نہیں کر سکتا۔” سبحان نے پری کوبازئووں کا سہارا دیا اور اُسے باہر لے آیا۔ پری کی اُمید بندھی کہ اب اس قید سے جان چھوٹ جائے گی۔





”ارے ارے! کہاں لے کر جا رہے ہیں آپ پیشنٹ کو؟ ان کے انجکشن کا ٹائم ہو گیا ہے۔” جیسے ہی وہ پری کو لے کر باہر نکلا، نرس نے اُسے روک لیا۔
”ہٹ جائو رستے سے، میں سب جانتا ہوں کون سے انجکشن کی تم بات کر رہی ہو۔ ارے ذرا سی بھی انسانیت نہیں ہے تم لوگوں میں۔” وہ ڈسٹ بن میں پڑی انجکشن کی خالی شیشی دیکھ چکا تھا اور جانتا تھا یہ نشے کا انجکشن سونا کو کیسے اندر ہی اندر ختم کر رہا ہے۔ وہ اب کسی کی سننے والا نہیں تھا۔ اُس نے پری کو گاڑی میں بیٹھایا اور اُسے انتظار کرنے کیلئے کہا۔
اس نے کسی کی بات نہیں سنی، کسی نرس کو مڑ کر جواب نہیں دیا۔ گاڑی لاک کر کے وہ سیدھا پری کے ڈاکٹر سلیم جیلانی کے پاس آگیا۔ ڈاکٹر نے حیرانی سے اُس کی طرف دیکھا، پھر پیچھے کھڑی ریسپشنسٹ کی طرف۔۔
”ای ایم رئیلی سوری سر! میں نے ان صاحب کو بہت روکا مگر یہ زبردستی روم نمبر سات کے پیشنٹ کو لے گئے اور اب زبردستی آپ کے روم میں گھس گئے۔ سوری سر!” ریسپشنسٹ شرمندہ کھڑی تھی۔ ڈاکٹر سلیم نے اُسے جانے کا اشارہ کیا۔
”جی تشریف رکھیے سبحان صاحب! کیسے ہیں آپ؟” ڈاکٹر نے سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
”میں یہاں تشریف رکھنے نہیں بلکہ آپ کو اس بات سے آگاہ کرنے آیا ہوں کہ میں اپنی پری کو یہاں سے لے جا رہا ہوں۔ میں مزید اسے یہاں، اس قید خانے میں نہیں دیکھ سکتا۔ ارے قید خانے بھی اس سے اچھے ہوتے ہیں، وہاں بھی دو وقت کا کھانا اور پانی تو نصیب ہو جاتا ہے۔ میں ایک ماہ کے لیے ایمرجنسی میں فارن کیا چلا گیا، آپ کو اور آپ کے عملے کو لگا پری کا باپ مر گیا۔ نہیں ہر گز نہیں! وہ میری پری ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ میں نہیں جانتا اُس کو جنم دینے والے ماں باپ کون تھے اور کون بد نصیب اپنی اتنی پیاری بچی کو آپ جیسے قصائیوں کے ہاتھ دے گئے۔ ارے آپ ڈاکٹر نہیں ہیں، آپ پیسا بٹورنے والی مشینیں ہیں، جن کے منہ میں پیسا ٹھونستے رہو تو وہ ٹھیک سے کام کریں گی، ورنہ آپ کا وہ حشر کریں گی کہ آپ اپنا آپ بھول جائو گے۔” سبحان صاحب بے نقط اسے سنا رہے تھے۔
”ارے وہ تو معصوم ہے، ٹھیک سے کچھ بتا بھی نہیں سکتی کہ اسے کیا چاہیے؟ اُسے کچھ کھانا ہے یا پینا ہے۔ اور آپ انسانیت کے درجے سے اس قدر گر چکے ہیں کہ اُس کو کھانا تو کیا پانی تک نصیب نہیں ہوتا۔ بلکہ الٹا اُس کو نشہ آور ادویات دی جاتی ہیں تاکہ وہ نہ اٹھے اور نہ ہی آپ کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ اپنی آسانی کیلئے کسی معصوم کی جان کو خطرے میں کیسے ڈال سکتے ہیں آپ؟” یہ کہتے ہی اس نے میز پر بھاری ہاتھ مارا تو اس پر پڑی تمام چیزیں ایک بار چیخ اٹھیں۔ آج اُس نے اپنی ساری کی بھڑاس بنا کسی لگی لپٹی کے نکال دی۔ ڈاکٹر بڑے مطمئن انداز سے اپنی چئیر پر جھول رہا تھا۔ سُبحان کو لگا وہ بھینس کے آگے بین بجا رہا ہے، اس لئے وہ جانے کے لیے مڑگیا۔۔
”دیکھیے سُبحان صاحب! آپ انجلا کو نہیں لے کر جا سکتے۔ اس کا آپ سے کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔” گلا کھنکارتے ہوئے جو الفاظ ڈاکٹر نے اُس کے کانوں میں منتقل کیے تھے انہوں نے اس کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ اُس کا دل چاہا ایک بار اس ڈاکٹر کا گریبان چاک کر دے اور اُسے اُس کی اوقات دکھا دے مگر وہ کوئی عام انسان نہیں تھا، سبحان احمد لغاری تھا جو چاہتا تو کھڑے کھڑے پورا ہسپتال اور اس جیسے کئی ڈاکٹرز خرید سکتا تھا مگر وہ ایسا نہیں تھا۔ وہ تو پیار بانٹنا جانتا تھا، نفرت نہیں۔۔
”خون کے رشتے اگر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے معصوم جگر کے ٹکڑوں کو یوں آپ جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں تھما جاتے ہیں تاکہ آپ جو چاہے اُن کے ساتھ سلوک کریں اور مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تو میں لعنت بھیجتا ہوں ایسے خونی رشتوں پر۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ میری بیٹی ہے، میری پری ہے اور میں اُسے مزید تکلیف میں تڑپتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔۔ سمجھے آپ ؟ میں لے جا رہا ہوں اُسے اپنے ساتھ۔ خدا حافظ!” وہ پھرتی سے ہسپتال سے باہر نکلا اور گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔۔
”پری بیٹا! آپ کا کمرہ دوتین دن میں تیار ہو جائے گا تب تک میرا بچہ میرے ساتھ اسی کمرے میں رہے گا۔ ٹھیک ہے نا؟” وہ اپنی پری کے تمام اشاروں کو سمجھتا تھا اس لئے مطمئن ہو گیا۔ وہ پری کے کمرے کے لیے بہترین ڈیکوریٹر کو ہائر کرنا چاہتا تھا اور اس نے اس کام میں دیر نہیں کی۔





چار دن کی مسلسل محنت اور کوشش کے بعد سُبحان آج کافی مطمئن تھا۔ اُس نے آفس کا سارا کام اپنے مینیجر کو سونپ دیا تھا اور اپنی پری کا کمرہ اپنی زیرِ نگرانی تیار کروایا تھا۔۔ لیکن ابھی پری اُسی کے کمرے میں رہ رہی تھی کیوں کہ اُس کی صحت کافی خراب تھی۔ وہ بہت کم زور ہو گئی تھی۔ صرف ایک ماہ میں وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی تھی ۔ کمرے سے فارغ ہوتے ہی سبحان نے شہر کے سب سے بہترین سائیکالوجسٹ سے رابطہ کرکے ٹائم لے لیا تھا۔
وہ بہت خوش تھا۔ اُس کی پری اُس کے ساتھ تھی اور پری بھی پہلے کی نسبت اب قدرے مطمئن ہو گئی تھی۔ اب وہ توڑ پھوڑ اور چیختی چلاتی کم تھی اور صحیح اور بہتر دوا ملنے سے اب سُبحان کی پری اس سے کچھ کچھ ٹوٹی پھوٹی باتیں بھی کرنے لگی تھی جس کی سمجھ صرف اُسی کو آتی تھی۔ وہ سب بھول گیا تھا، آفس بھی اب کم کم ہی جاتا تھا۔ کوئی بہت ایمرجنسی ہوتی تو وہ پری کو آپا عفت کے حوالے کر کے جاتا جو اُس نے پری کے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے رکھی تھی۔ کھانا بنانے کیلئے باورچی تھا، مگر ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق پری کا کھانا آپا عفت بناتیں۔ پری کو نہلانا اور اُس کے دیگر معاملات آپا عفت دیکھتیں تھیں۔۔ دوائیں وغیرہ بہت احتیاط اور دھیان سے سُبحان خود پری کو دیتا تھا۔۔ صرف چھے ماہ کے عرصے میں پری پہلے کی نسبت بہت سنبھل گئی تھی۔ سبحان بہت خوش تھا۔ اب وہ کچھ کچھ بنا سہارے کے چلنے لگی تھی۔ لیکن کبھی کبھی پری پر وہی دورہ پڑنے لگتا، وہ چیختی چلاتی، چیزیں اٹھا اٹھا کر پٹختی اور کھانا تک نہ کھاتی۔ حتیٰ کہ کبھی کبھار وہ سُبحان کو بھی پیٹنے لگتی، جب وہ اُسے باز رکھنے کیلئے اپنے بازوئوں میں بھرتا اور وہ اپنا آپ چھوڑوانے کی کوشش کرتی تو ایسے میں بھی سُبحان سخت پریشان ہونے کے باوجود کبھی اُس سے سختی سے پیش نہیں آتا تھا بلکہ ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرتا، بے تحاشا لاڈ پیار دیکھ کر پری بھی شانت ہو جاتی۔۔ پری کی صحت کی وجہ سے وہ اُس کو اپنے ہی کمرے میں رکھتا تھا اپنے ہی ساتھ سلاتا، اپنے ہی ساتھ کھلاتا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کی خوشیوں کی مدت اتنی کم ہے۔۔
”گرفتار کر لیجیے انہیں انسپکٹر صاحب! انہی کے قبضے میں ہے میری بہن ۔۔ یہ کمینہ ہسپتال کے پورے عملے کے ساتھ بدتمیزی کر کے اور دھمکیاں دے کہ ورغلا کر میری بہن کو اپنے ساتھ لے آیا۔ وہ تو بہت چھوٹی ہے صرف۔۔آمم آ۔۔” سات یا ساڑھے سات سال کی ہو گی وہ۔۔ اسے کیا پتا یہ کون ہے۔ میری انجلا اسی کے پاس ہے انسپکٹر صاحب۔
پولیس کے ساتھ ڈاکٹر سلیم جیلانی اور ایک ماڈرن سی لڑکی آج اُس کے گھر میں موجود تھی وہ ابھی ابھی پری کو ناشتہ کروا کر باہر نکلا ہی تھا کہ لائونج میں تمام لوگوں کو کھڑا دیکھ کر پہلے تو کچھ سمجھ ہی نہیں پایا مگر اُس عورت کے الفاظ سن کر اُسے سب سمجھ میں آ گیا۔۔۔
”محترمہ سب سے پہلی بات تو میں آپ کو جانتا نہیں ہوں اور اگر آپ پری کی بہن ہونے کا دعوی کر رہی ہیں تو آپ کو اتنا بتاتا چلوں کہ پری کی عمر سات یا ساڑھے سات سال نہیں بلکہ دس سال اور چار ماہ ہے اور دوسری بات میں ہسپتال کے عملے سے بدتمیزی کر کے ضرور آیا ہوں گا مگر دھمکیاں دینا میرا شیوہ نہیں۔۔۔” سبحان احمد قدرے تحمل سے بولے۔
”باقی رہ گئی اریسٹ کرنے کی بات تو کوئی ٹھوس وارنٹ لے کر آئیے، پھر آپ مجھے اریسٹ کیجیے گا۔ اب آپ جا سکتے ہیں میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ شکریہ۔۔” وہ اپنی بات کہہ کر رکا نہیں بلکہ واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ وہ پری کو کھو دینے کے ڈر سے پریشان ضرور تھا اور کسی بات کی اسے پرواہ نہیں تھی۔
اُس نے اپنے فون پر نمبر ملایا اور آہستگی سے سب کہتا گیا۔
”اور ہاں سنو! مجھے آج ہی اپ ڈیٹ کرنا ہے تم نے۔۔ اوکے اللہ حافظ۔۔”
پھر پورا دن وہ سکون سے نہیں بیٹھا۔ کبھی ایک کال ملاتا تو کبھی دوسری۔۔۔۔ ایسے ہی شام ڈھل گئی اور اب رات بھی ۔۔ کتنی ہی بار کرم دین کھانے کا پوچھنے آیا مگر ہر بار اُس کا جواب یہی ہوتا بھوک نہیں ہے مجھے، آپا سے کہیں پری کو کھلا دیں اور دوا بھی دے دیں۔
نماز تو پہلے بھی وہ کوئی نہیں چھوڑتا تھا مگر آج پری کو سلانے کے بعدسے وہ جائے نماز پر بیٹھا تھا اور اب وال کلاک اُسے تین بجنے کا اعلان سنا رہا تھا۔ وہ سجدے سے اٹھا تو اُس کا چہرہ آنسوئوں سے تر تھا۔۔ مدھم سی روشنی میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ان چند گھنٹوں میں صدیوں کا سفر طے کرکے لوٹا ہو۔۔ ایک نظر مطمئن سی سوئی ہوئی پری کے چہرے پر ڈالی اور جائے نماز کو تہہ کرمیز پر رکھااور کمرے سے باہر نکل آیا۔




Loading

Read Previous

کردار —-ہاجرہ ریحان

Read Next

میں بے زباں —- رفا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!