میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

”صبا! بعض دفعہ تم مجھے بہت embarrass (شرمندہ) کر دیتی ہو۔” اس روز عارفین کا موڈ خاصا خراب تھا۔
”تم آج پھر یونیورسٹی آ گئے ہو؟” صبا نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
”تمھیں اچھا نہیں لگا؟”
”میں نے ایسا کب کہا۔”
”امی نے کل مجھ سے پوچھا تھا کہ میں یونیورسٹی تم سے ملنے گیا ہوں میں نے کہہ دیا نہیں۔ انھوں نے میری بات کی تصدیق کے لیے تم سے پوچھا اور تم نے صاف کہہ دیا کہ ہاں میں یونیورسٹی آیا تھا۔”
”عارفین! اس میں چھپانے والی کون سی بات تھی؟” صبا کے لہجے میں اطمینان برقرار تھا۔
”بات سچ جھوٹ کی نہیں ہے۔ تمھیں پتا ہے۔ امی کو میرا تم سے ملنا پسند نہیں ہے۔ انھیں یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ میں تمھارے گھر آنا جانا رکھوں کیونکہ یہ خاندانی روایات کے خلاف ہے۔ میں صرف ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے تمھارے گھر نہیں آتا۔ یونیورسٹی آ جاتا ہوں لیکن تم نے اس بات کی بالکل پروا نہیں کی کہ امی کو کتنا برا لگے گا اور وہ مجھ سے کتنی ناراض ہوں گی۔”
”عارفین! میں تم سے چوری چھپے نہیں ملتی ہوں۔ سب کے سامنے ملتی ہوں اور وہ بھی اس لیے کہ تم میرے شوہر ہو اگر منگیتر ہوتے تو میں کبھی نہ ملتی نہ یونیورسٹی میں نہ گھر پر۔ جو چیز غلط ہے ہی نہیں میں اسے غلط طریقے سے کیوں کروں۔ اگر میں اپنی امی کو سچ بتا دیتی ہوں تو تمہاری امی سے غلط بیانی کیوں کروں پھر بھی اگر میری وجہ سے تمھیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔”
”خیر، میں نے ایکسکیوز کرنے کو تو نہیں کہا بہرحال میں تمھیں یہ بتانے آیا تھا کہ میں کل اسلام آباد جا رہا ہوں۔” عارفین نے موضوع بدل دیا تھا۔
”کتنے دنوں کے لیے جا رہے ہو؟”
”ابھی تو ایک ہفتہ کے لیے جا رہا ہوں لیکن ہو سکتا ہے چند دن اور لگ جائیں۔ تم یہ بتاؤ تمھارے لیے کیا لاؤں؟” عارفین نے اس سے پوچھا تھا۔
”عارفین! تم جانتے ہو، میں چیزوں کی فرمائش نہیں کیا کرتی۔” صبا نے بڑی رسانیت سے جواب دیا تھا۔
”پھر بھی یار! کچھ تو فرمائش کیا کرو۔ مجھے اچھا لگے گا۔” ”پہلے بھی اپنی مرضی سے گفٹ لاتے ہو، اب بھی جو دل چاہے لے آنا۔”
صبا! میرا دل چاہتا ہے، کبھی تم مجھ سے کوئی فرمائش کرو۔ پھر دیکھو، میں اسے کیسے پورا کرتا ہوں۔”
وہ اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ”چلو کبھی مانگوں گی تم سے کچھ۔ دیکھوں گی میری فرمائش پوری کرتے ہو یا نہیں۔”
“Any Time” عارفین نے خوش دلی سے سر ہلایا تھا۔
”ایک بات کہوں عارفین؟” صبا یکدم سنجیدہ ہو گئی تھی۔
”ہاں ضرور۔ اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے؟”
”یہ جو انسان ہوتا ہے بعض دفعہ یہ بنا مانگے تو کچھ بھی دے دیتا ہے لیکن مانگنے پر کچھ بھی نہیں دیتا۔”
”تمہارا اشارہ میری طرف ہے؟” وہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔
”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے تمھیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔”
”عارفین! کیا انسان اعتبار کے قابل ہے؟”
”صبا! میں اپنی بات کر رہا ہوں۔”
وہ اس کی بات پر کچھ جھنجھلا گیا تھا۔





”عارفین! یہ ضروری نہیں ہے جس سے محبت کی جائے، اس پر اعتبار بھی کیا جائے جیسے یہ ضروری نہیں کہ جس پر اعتبار کیا جائے اس سے محبت بھی کی جائے۔”
وہ اس کی بات کے جواب میں خاموش بیٹھا رہا۔
”ناراض ہو گئے ہو؟” صبا نے اسے خاموش دیکھ کر پوچھا تھا۔
”نہیں۔ ناراض کس بات پر ہونا ہے۔ تم نے کوئی اتنی قابل اعتراض بات تو نہیں کہی۔”
”پھر بھی تمھیں برا لگا ہے نا؟” صبا اس کی دلجوئی کرنے کی کوشش میں تھی۔
”ہاں۔ برا لگا ہے لیکن بہت زیادہ نہیں۔ خیر تم پریشان مت ہو۔ میرا خیال ہے، اب مجھے چلنا چاہیے۔” عارفین نے گھڑی دیکھی تھی۔
”لیکن جانے سے پہلے ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ مجھے تمہاری بہت پروا ہے، کل بھی تھی اور ہمیشہ رہے گی۔”
وہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے جاتے دیکھتی رہی۔
——————————————————————————————————————————-
وہ اس دن صبح سے ہی پریشان تھی۔ ”اگر امی اپنی مرضی سے شادی نہ کرتیں تو آج میں امی کے رشتہ داروں کا سامنا کرنے سے اس قدر پریشان نہ ہوتی۔”
وہ بار بار بے دلی سے سوچ رہی تھی۔ قرآن خوانی سہ پہر کے وقت تھی اور چونکہ چھٹی کا دن تھا۔ اس لیے حیدر بھی گھر ہی تھا۔ مردوں کے بیٹھنے کا انتظام لان میں ٹینٹ لگا کر کیا گیا تھا۔ سارہ کو ملازموں کو کوئی ہدایت نہیں دینی پڑ رہی تھی۔ وہ کسی مشین کی طرح خود ہی ہر کام نبٹا رہے تھے۔ لوگوں کے آنے کا سلسلہ آہستہ آہستہ شروع ہو گیا تھا۔ عارفین آنے والوں کا اس سے تعارف کروا رہے تھے۔ ہر ایک رسمی سے کلمات دہراتا اور ہال میں بیٹھ جاتا۔
”سارہ! یہ میری سب سے بڑی بہن ہیں۔”
عارفین ایک عورت کے ساتھ اس کے پاس آئے تھے۔ وہ عورت یکدم سارہ سے لپٹ گئی اور اس نے بلند آواز میں رونا شروع کر دیا۔
”صبا نے ضد پوری کر لی۔ کتنا سمجھایا تھا۔ کتنا کہا تھا اسے مگر اس نے بات نہیں مانی، واپس نہیں آئی۔ ارے غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے پھر وہ تو…”
”آپا! پچھلی باتوں کو چھوڑیں۔ ماضی کو رہنے دیں۔”
”کیسے رہنے دوں عارفین! کیسے رہنے دوں۔ مجھے صبر نہیں آتا۔ مجھے سکون نہیں ملتا۔ کوئی ایسے کرتا ہے جیسے صبا نے کیا۔ یہ کوئی اس کے مرنے کی عمر تھی۔ مگر اس پر تو ایک ہی ضد…”
”آپا پچھلی باتیں نہ دہرائیں۔ بس کریں جو ہو گیا۔ اسے بھول جائیں۔ اس کے لیے دعا کریں۔”
عارفین نے زبردستی انھیں سارہ سے الگ کیا تھا۔ عارفین انھیں لے کر ہال سے باہر چلے گئے۔ وہ بوجھل دل سے وہیں دوسری عورتوں کے پاس بیٹھ گئی۔
”اور اب وہ آپا کو سمجھائیں گے کہ وہ میرے سامنے میری ماں کے ماضی کے بارے میں کوئی بات نہ کریں کیونکہ اس سے مجھے تکلیف ہو گی۔ کاش یہ بات ایک بار امی نے بھی سوچ لی ہوتی کہ اس طرح کے رشتے اولاد کے لیے کتنا بڑا عذاب بن جاتے ہیں۔”
آیت کریمہ کا ورد کرتے ہوئے وہ سر جھکائے بھیگی پلکوں کے ساتھ مسلسل امی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد عارفین کی دوسری دونوں بہنیں بھی آ گئی تھیں مگر بڑی بہن کی نسبت وہ سارہ سے بہت محتاط اور نارمل انداز میں ملی تھیں۔ ان کے آنے کے چند منٹ بعد عارفین کی بڑی بہن دوبارہ ہال میں آ گئی تھیں۔ وہ اب بھی نڈھال نظر آ رہی تھیں۔ مگر پہلے کی طرح رو نہیں رہی تھیں۔ وہ آ کر سارہ کے پاس بیٹھ گئی تھیں۔
آیت کریمہ کا ورد کرنے اور قرآن خوانی کے بعد دعا کروانے والی عورت نے دعا کرنی شروع کر دی تھی۔ وہ مختلف آیات کو ترجمے کے ساتھ پڑھتی جا رہی تھی۔
”اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی۔ وہ اس کو دیکھ لے گا۔”
دعا کرانے والی عورت نے ایک آیت کا ترجمہ کیا تھا۔ آپا ایک بار پھر بلک بلک کر رونے لگی تھیں۔ سارہ کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ اسے یوں لگ رہا تھا۔ اس کا سر دوبارہ کبھی اٹھ نہیں پائے گا۔ ضبط کرنے کے باوجود اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے۔
”اللہ تم امی کو بخش دینا۔ تم ان کو معاف کر دینا جیسے ان سب لوگوں نے کیا ہے۔”
بے اختیار اس کے دل سے دعا نکلی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد آہستہ آہستہ سب لوگ جانے لگے تھے ایک بار پھر وہی تعزیتی کلمات سنتی لوگوں کو جاتا دیکھتی رہی۔ آپا بھی اسے اپنے یہاں آنے کی دعوت دے کر چلی گئی تھیں۔ ملازموں نے چیزیں سمیٹنا شروع کر دیں۔ باہر عارفین عباس اور حیدر لوگوں کو رخصت کر رہے تھے۔ لوگوں کے جانے کے بعد دونوں اندر آ گئے۔
”سارہ! تم اگر آرام کرنا چاہتی ہو تو آرام کر سکتی ہو۔”
اس کی متورم آنکھیں دیکھ کر عارفین عباس نے اس سے کہا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس رات وہ سو نہیں پائی۔ امی کا چہرہ بار بار اس کی نظروں کے سامنے آ جاتا پھر اسے ان کے ساتھ گزارا ہوا وقت یاد آ جاتا۔
وہ بے حد بے چین تھی۔ ایک بجے کے قریب وہ لان کی طرف کھلنے والا دروازہ کھول کر لان میں نکل آئی۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ بیرونی دیوار پر لگائی ہوئی فلڈ لائٹس نے لان کی تاریکی کو ختم کر دیا تھا۔ ٹھنڈک ہونے کے باوجود اسے باہر آ کر سکون ملا تھا۔ گھاس اوس سے بھری ہوئی تھی۔ پاؤں میں چپل کے باوجود گھاس پر چلنے کی وجہ سے اس کے پاؤں اوس سے گیلے ہو رہے تھے مگر اس کو ان کی پروا نہیں تھی۔ وہ چادر کو اپنے گرد لپیٹے بلا مقصد لان کے طول و عرض کو ناپتی رہی۔
حیدر نے دو بجے اپنا کام ختم کیا تھا، لائٹ آف کرنے سے پہلے وہ کھڑکیوں کے پردے برابر کرنے کے لیے کھڑکی کی طرف آیا تھا۔ مگر نیچے لان میں نظر ڈالتے ہی اس کے ہاتھ پردہ کھینچتے ہوئے رک گئے تھے۔ لان میں کوئی چکر لگا رہا تھا۔ اس نے غور سے نیچے دیکھا تھا اور دوسری نظر ڈالتے ہی جان گیا تھا کہ چکر لگانے والا کون ہے۔ ناگواری کی ایک لہر سی اس کے اندر اٹھی تھی۔ وہ خود بھی نیچے آیا تھا اور پورچ کا دروازہ کھول کر باہر لان میں آ گیا تھا۔
”دیکھیں! اس وقت رات کے دو بجے ہیں اور آپ اپنے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ کر یہاں لان میں پھر رہی ہیں۔ کوئی بھی جو اس لان میں کسی غلط نیت سے چھپا ہو۔ وہ آرام سے آپ کی بے خبری میں آپ کے کمرے اور پھر وہاں سے گھر میں کہیں بھی جا سکتا ہے۔ میں نہیں جانتا آپ کو یہ گھر، اس میں رہنے والے کتنے عزیز ہیں لیکن میرے پاپا نے اس گھر کی ہر چیز بڑی محنت سے بنائی ہے۔ اس لیے مجھے اس گھر کی سیکورٹی کی پروا ہے۔ گھر کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار باہر کی حفاظت کر سکتا ہے۔ اندر آ کر کسی کو نہیں بچا سکتا۔ اس لیے اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو لان میں پھرنے کا شوق دن کے وقت پورا کیا کریں۔”
سارہ اپنے قریب ابھرنے والی اس کی آواز پر چونکی تھی اور پھر ہونق بنی اس کی باتیں سنتی رہی۔ اس کی بات کے خاتمہ پر کچھ شرمندگی کے عالم میں وہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔ حیدر وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔ جب اس نے اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیا تو وہ خود بھی اندر چلا گیا۔
…***…
اگلے دن صبح وہ ناشتہ کی میز پر موجود نہیں تھی۔ عارفین نے ملازم کو اسے جگانے سے منع کر دیا۔ عارفین اور حیدر سے اس کا سامنا رات کے کھانے پر ہوا تھا۔
”عارفین انکل! کیا آپ میرے نانا سے میرا رابطہ کروا سکتے ہیں؟”
حیدر چائے پیتے پیتے رک گیا اور عارفین عباس نے بے حد حیرانی سے اسے دیکھا۔
”تم ان سے رابطہ کیوں کرنا چاہتی ہو؟” عارفین نے کچھ بے چینی سے اس سے پوچھا تھا۔
”میں ان کے پاس جانا چاہتی ہوں اگر وہ مان گئے تو۔” وہ اب میز کی سطح کو گھورنے لگی تھی۔
”ان کے پاس جانا چاہتی ہو؟ کیا تم یہاں خوش نہیں ہو؟” عارفین نے کچھ بے یقینی سے کہا تھا۔
وہ چپ رہی تھی۔
”سارہ! تمہاری امی چاہتی تھیں کہ تم میرے پاس رہو اور میں تمھیں ان کے گھر والوں کے پاس نہ بھیجوں۔”
”وہ ایسا کیوں چاہتی تھیں؟” اس نے یک دم سر اٹھا کر سوال کیا تھا۔ عارفین کوئی جواب نہیں دے سکے۔ حیدر خاموشی سے چائے کے سپ لیتا ہوا دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔
”یہ صبا ہی بہتر جانتی ہوگی۔ بہرحال ان کے پاس جانے کا تمھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔”
کچھ دیر بعد انھوں نے ایک گہری سانس لے کر کہا تھا۔
”پاپا! اگر یہ اپنے نانا کے پاس جانا چاہتی ہیں تو آپ انھیں جانے دیں۔ یہ واقعی ان کے حق میں بہتر ہوگا۔” یکدم حیدر نے فرنچ میں اپنے باپ سے کہا تھا۔
”تم اسے کیوں بھیجنا چاہتے ہو؟” عارفین نے بڑے تیکھے لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔ وہ کچھ گڑبڑا گیا۔
”نہیں۔ میں کیوں بھیجنا چاہوں گا۔ میں تو ویسے ہی آپ کو اپنی رائے دے رہا تھا۔ پاپا! میرا اپنا بھی یہی خیال ہے کہ یہ اپنے نانا اور ماموں کے پاس زیادہ محفوظ رہیں گی، کیونکہ یہاں یہ ساری عمر تو نہیں رہ سکتیں اور پھر ہم انھیں کتنی دیر رکھیں گے۔” دھیمے لہجے میں سنجیدگی سے کہا گیا تھا۔
”حیدر! یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ اسے کب تک یہاں رہنا ہے۔ اس کا دار و مدار اس پر ہے۔ چاہے وہ ساری عمر رہے۔ تمھیں اس کے بارے میں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔”
عارفین عباس نے بے حد خشک لہجے میں اس سے کہا تھا۔ حیدر دوبارہ بولنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ وہ بے حد خاموشی سے ناشتہ کرتے ان کی باتیں سنتی رہی۔ اسے پہلے ہی دن یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ حیدر کو اس کا یہاں آنا اچھا نہیں لگا اور اس وقت اس کی باتوں نے اس کے اندازے کی تصدیق کر دی تھی۔
اس کا دل مزید بوجھل ہو گیا۔ بار بار اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے۔ اس طرح بوجھ بن کر رہنا اس کے لیے یکدم دشوار ہو گیا تھا۔
”کسی کو بھی خوامخواہ کی ذمہ داری اور خرچ اچھا نہیں لگتا، حیدر نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ وہ مجھے کتنی دیر یہاں رکھ سکتے ہیں اور حیدر میرے بارے میں عزت سے کیسے سوچ سکتا ہے، جب وہ جانتا ہے کہ اس کا باپ کسی زمانے میں میری ماں کو پسند کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہے اور اب اس عورت کی بیٹی ایک بوجھ بن کر ان کے گھر آ گئی ہے۔”
وہ دل ہی دل میں حیدر کو حق بجانب سمجھ رہی تھی اور وہ جانتی تھی وہ اس کے بارے میں کیا سوچتا ہوگا۔
”اگر میں اپنے نانا کے پاس نہیں جا سکتی تو پھر مجھے کسی نہ کسی طرح اس گھر سے بھی چلے جانا چاہیے۔ میں واقعی یہاں بہت زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی۔”
اس نے ناشتہ کرتے ہوئے دل ہی دل میں طے کر لیا تھا۔
…***…
سرمد کی شادی کا ہنگامہ شروع ہو گیا تھا۔ تقریباً ایک ماہ پہلے سے ڈھولک رکھ دی گئی تھی، رات گئے تک ایک طوفان بدتمیزی برپا رہتا۔ اسے ایسی محفلوں سے شروع سے ہی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اگر وہ ان کے پاس جا کر بیٹھتی بھی تو بہت مختصر وقت کے لیے۔ اس رات بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ رات کے وقت جب ڈھولک بجنا شروع ہوتی تو ان کے گھر تک آواز آتی۔ وہ پڑھتے پڑھتے بعض دفعہ جھنجلا جاتی لیکن وہ کسی کو روک نہیں سکتی تھی۔ نہ ہی اس کا ایسا کوئی ارادہ تھا۔
شادی سے تین چار دن پہلے اس کے چھوٹے تایا کی بیٹیاں زبردستی اسے اپنے حصے میں لے آئی تھیں وہ ان کے اصرار کی وجہ سے انکار نہیں کر سکی پھر اب شادی میں چند دن رہ گئے تھے اور یہ سارا ہنگامہ ختم ہو ہی جانا تھا، باقی کزنز کے ساتھ بیٹھی وہ بھی تالیاں بجاتی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد واپس آ جاتی۔
اس رات بھی وہ ابھی اپنے کمرے میں آ کر بیٹھی ہی تھی کہ عارفین کی امی آ گئیں۔
”صبا! تم ذرا میرے ساتھ آؤ۔ اصل میں تمھارے تایا ابو نے کہا ہے کہ اوپر عارفین کے کمرے میں کچھ بستر لگا دوں کیونکہ کچھ دیر میں کچھ اور لوگ آنے والے ہیں۔ عورتوں کے رہنے کا انتظام تو خالد نے اپنے ہاں کر لیا ہے مگر مردوں کے لیے ان کے ہاں جگہ نہیں رہی۔ اس لیے تمھارے تایا نے انھیں اپنے ہاں ٹھہرانے کو کہہ دیا ہے۔ نیچے تو تمھیں پتا ہے پہلے ہی جگہ نہیں ہے، ویسے بھی کل نجمہ اور سلمی بھی سرمد کی شادی میں شرکت کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ آ جائیں گے۔ اس لیے میں نے سوچا، عارفین کے کمرے میں بستر لگا دوں۔ وہ تو ابھی اسلام آباد سے آیا نہیں ہے۔”
”ٹھیک ہے تائی امی! میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔”
اس نے کچھ خوشگوار حیرت سے اٹھتے ہوئے کہا تھا، پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ تائی نے اتنی اپنائیت سے اس سے بات کی تھی۔ ورنہ وہ تو ہمیشہ لعن طعن ہی کرتی رہتی تھیں۔ تائی ا سے اپنے حصہ میں لے آئی تھیں۔ اسٹور میں جا کر جب تائی بستر نکالنے لگیں تو انھیں اچانک کوئی خیال آ گیا تھا۔
”صبا! مجھے تو یاد ہی نہیں رہا میں نے آسیہ سے کہا تھا کہ عارفین کے کمرے میں بستر لگا دو۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید اس نے بستر لگا دیے ہیں کیونکہ یہاں بستر کم ہیں۔ تم ایسا کرو، ذرا عارفین کے کمرے میں جا کر دیکھ آؤ کہ وہاں بستر لگے ہیں یا نہیں، خواہ مخواہ بستر اٹھا کر اوپر جاتی آتی رہو گی۔”
”ٹھیک ہے تائی امی! میں دیکھ آتی ہوں۔” اس نے تابعداری سے کہا تھا اور اوپر چلی آئی۔ عارفین کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور اندر لائٹ بند تھی لیکن ہلکی ہلکی روشنی باہر آ رہی تھی۔ وہ کچھ ٹھٹک کر رک گئی۔
”اندر کون ہے؟” اس نے وہیں سے آواز لگائی تھی۔
”صبا! میں ہوں اندر۔ عارفین کے کمرے کے بلب ہولڈر میں کچھ خرابی ہو گئی تھی۔ میں وہ ٹھیک کر رہا ہوں۔ تائی امی نے کہا تھا مجھ سے۔” اس نے اپنے تایا زاد عادل کی آواز پہچان لی۔ ایک اطمینان بھری سانس لے کر وہ کمرے کے اندر چلی گئی۔ وہ ایک ہاتھ میں لالٹین پکڑے دوسرے ہاتھ سے بلب لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”میں دیکھنے آئی تھی کہ یہاں کوئی بستر تو نہیں لگے مگر یہاں پر تو کوئی بستر نہیں ہیں۔” اس نے نیم روشنی میں کمرے کا جائزہ لیا تھا۔
”اچھا اب اگر آ ہی گئی ہو تو یہ ذرا لالٹین…” عادل کے الفاظ منہ میں رہ گئے تھے۔ کسی نے باہر سے دروازہ کھینچ کے بند کر دیا تھا۔ عادل یکدم کود کر اسٹول سے نیچے اترا۔
”یہ کیا ہوا ہے؟” وہ حواس باختہ سا دروازے کی طرف گیا تھا۔ اس نے دروازہ پکڑ کر کھینچا تھا مگر دروازہ ہلا تک نہیں۔
”صبا! کسی نے باہر سے کنڈی لگا دی ہے۔” اس نے پریشانی کے عالم میں ا س سے کہا تھا۔
”میں دروازہ بجاتی ہوں۔ تائی امی نیچے ہی ہیں۔ وہ کھول دیں گی۔”
صبا، عادل کے برعکس بالکل نہیں گھبرائی تھی۔ اس نے دروازے کو زور زور سے بجانا شروع کر دیا۔ مگر ایک دو منٹ گزرنے کے بعد بھی کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ عادل کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ ہولڈر میں بلب لگانا بھول چکا تھا۔
چند منٹ مزید دروازہ بجانے کے باوجود جب کوئی اوپر نہیں آیا تو یکدم وہ بھی حواس باختہ ہو گئی تھی۔ دونوں کو اس نازک صورت حال کا احساس تھا جس کا وہ سامنا کر رہے تھے۔ پھر یکدم ہی نیچے سے شور کی آواز آنے لگی تھی۔ صبا دروازہ بجاتے بجاتے رک گئی۔
شور کچھ عجیب سا تھا یوں جیسے کوئی بین کر رہا تھا۔ صبا نے کچھ خوفزدہ ہو کر عادل کو دیکھا تھا۔ لالٹین کی ہلکی روشنی بھی اس کے چہرے کی زردی کو نمایاں ہونے سے نہیں بچا سکی۔ آوازیں اب اوپر کی طرف آ رہی تھیں۔ صبا نے تائی امی کی آواز پہچان لی۔ وہ اونچی آواز میں رو رہی تھیں اور ساتھ کچھ کہتی جا رہی تھیں۔ پھر کچھ لوگ تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ وہ دونوں دم سادھے زرد رنگت کے ساتھ دروازہ بجانے کے بجائے ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے۔ تائی امی جو کہہ رہی تھیں۔ وہ دونوں نے سن لیا تھا۔ وہ جانتے تھے، اب اگر وہ دروازہ نہ بھی بجائیں تو بھی دروازہ کھل جائے گا۔
…***…




Loading

Read Previous

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Read Next

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!