میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد






”اور کتنی دیر یہاں بیٹھو گی؟” گیٹ کی طرف جاتے جاتے ایک بار پھر اس نے اسے وہاں بیٹھے دیکھا تھا اور وہ اس کی طرف آ گیا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔
”تم ان سیاہ کپڑوں میں ملبوس اس رات کا ایک حصہ لگ رہی ہو لیکن میں نہیں چاہتا کہ رات کی طرح تم بھی ختم ہو جاؤ۔ اس لیے اب اندر چلی آؤ، سردی بڑھ رہی ہے۔” اس کے لہجے میں اس کے لیے وہی نرمی تھی جس کی وہ ہمیشہ سے عادی تھی۔
”تم کہاں جا رہے ہو؟” اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس نے سوال کیا تھا۔
”کچھ کام ہے مجھے، کسی دوست کی طرف جانا ہے۔”
اس نے یونہی کھڑے کھڑے بتایا تھا۔ بات کرتے کرتے اسے لگا جیسے اس نے اس کی بات دھیان سے نہیں سنی۔ وہ پھر سر اٹھا کر پہلے کی طرح آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ وہ کچھ دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ کسی ملکوتی حسن کی مالک نہ تھی پھر بھی کوئی بہت عجیب بہت خاص چیز تھی اس کے چہرے میں، مگر کہاں؟ یہ وہ بتا نہیں سکتا تھا۔ ”شاید آنکھوں میں یا شاید مسکراہٹ میں ہاں لیکن صبا کچھ ہے ضرور تم میں جس کی میں کبھی وضاحت نہیں کر سکتا۔” عارفین نے ہمیشہ کی طرح اسے دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
”اندر جانے کا ابھی بھی کوئی ارادہ نہیں؟” اس نے ایک بار پھر اس سے کہا تھا۔ جواب اس کی توقع کے برعکس آیا تھا۔
”عارفین! تم نے کبھی خدا کو دیکھا ہے؟” اس کی نظریں ابھی بھی آسمان پر ہی تھیں۔ عارفین ایک گہری سانس لے کر اس سے کچھ فاصلے پر برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔
”نہیں۔ کیا تم نے دیکھا ہے؟”
”نہیں۔میں نے بھی نہیں دیکھا لیکن میرا دل چاہتا ہے دیکھنے کو۔”
اس کے لہجے میں بچوں جیسا اشتیاق تھا اور چہرے پر ایک عجیب سی کیفیت، ستون سے سر ٹکائے وہ اب بھی آسمان کو ہی دیکھ رہی تھی۔
”خدا کو کیوں دیکھنا چاہتی ہو صبا؟” عارفین باہر جانے کا ارادہ ترک کر چکا تھا۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا، وہ اس سے بات شروع کرتا پھر ہر کام بھول جاتا، دانستہ طور پر بعض دفعہ بھولنا بھی ایک نعمت لگتا ہے۔
”پتہ نہیں کیوں دیکھنا چاہتی ہوں لیکن بس دیکھنا چاہتی ہوں۔” اس کے لہجے میں عجیب سا اصرار تھا، عجیب سی بے چینی تھی۔
”صبا! یہ پوری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے، اسے دیکھنے کی خواہش ہو تو ہر خوبصورت چیز دیکھو، وہ ہر خوبصورت چیز میں نظر آئے گا۔”
اس نے جیسے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی، وہ اب اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی۔
”صرف خوبصورت چیزوں میں، بدصورت چیزوں میں کیوں نہیں؟ کیا وہ اس نے نہیں بنائیں، اسے پھول میں ڈھونڈنا چاہیے کیونکہ پھول خوبصورت ہے، وہ اس میں نظر آئے گا پتھر میں نظر نہیں آئے گا کیونکہ وہ خوبصورت نہیں مگر عارفین! لوگ کہتے ہیں خوبصورتی کسی چیز میں نہیں دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ مجھے پھول خوبصورت نہیں لگتا۔ پتھر حسین لگتا ہے تو میں کیا کروں۔” عارفین کی سمجھ میں نہیں آیا، اسے کیا جواب دے، بہت سوچ کر اس نے کہا تھا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ پتھر بھی خوبصورت نظر آ سکتا ہے اور پتھر بھی اس کی بنائی ہوئی چیز ہے تو بس تم دنیا کو دیکھو اور جو چیز تمھیں خوبصورت نظر آئے تم اس میں خدا کو۔۔۔۔۔۔”
مگر عارفین! میں خدا کو چیزوں میں ڈھونڈنا نہیں چاہتی نہ چیزوں میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں اس کو الگ سے دیکھنا چاہتی ہوں، ایک واحد، جیسا کہ وہ حقیقتاً ہے ہم اچھے کام کریں گے۔ نیکیاں کریں گے۔ اس کی عبادت کریں گے تو کیا ہوگا؟ اس کا اجر ملے گا، جنت مل جائے گی، ہر خواہش پوری ہو جائے لیکن وہ تو پھر بھی نظر نہیں آئے گا۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے۔”





عارفین نے کچھ بے بسی سے اسے دیکھا تھا۔ ”پتا نہیں صبا! مگر تم خدا کے بارے میں اتنا مت سوچا کرو پاگل ہو جاؤ گی۔” اس نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”پھر کس کے بارے میں سوچوں؟” وہ جیسے رہنمائی چاہتی تھی۔
”دنیا کے بارے میں سوچو، ان لوگوں کے بارے میں سوچو جو تمھارے اردگرد رہتے ہیں۔” عارفین نے بڑی سنجیدگی سے اسے سمجھایا تھا۔
”جو چیز سمجھ میں آ گئی ہے، اس کے بارے میں کیا سوچوں، جو سمجھ میں نہیں آ رہی، اس کے بارے میں کیوں نہ سوچوں؟”
”صبا! بعض دفعہ تم بہت عجیب باتیں کرتی ہو، ہے نا؟” اس نے عارفین کی بات پر سر جھکا لیا تھا۔
”پتا نہیں۔” کچھ افسردگی سے اس نے اسی طرح سر جھکائے ہوئے جواب دیا تھا۔
”تمہاری فرنچ کیسی جا رہی ہے؟” عارفین نے اس کی توجہ بٹانے کے لیے پوچھا تھا۔
”پتا نہیں کیسی جا رہی ہے، بس کوشش کر رہی ہوں۔” وہ بالآخر مسکرائی تھی۔
“نہیں خیر، اب ایسا بھی مت کہو، بہت اچھی فرنچ بولنے لگی ہو۔” عارفین نے اس کی ہمت افزائی کرنے کی کوشش کی تھی۔
”اگر واقعی کچھ بہتری ہوئی ہے تو یہ تمہاری وجہ سے ہے۔”
”نہیں خیر، اب ایسا بھی استاد نہیں ہوں میں۔ تمھیں صرف اس لیے یہ زبان سکھانا چاہتا ہوں تاکہ فرانس جا کر تمھیں اجنبیت محسوس نہ ہو ورنہ تم سارا دن خدا کو ڈھونڈتی رہا کرو گی۔” عارفین نے اسے چھیڑا تھا۔
”لیکن میں فرنچ اس لیے سیکھ رہی ہوں تاکہ وہاں کی خواتین کے ساتھ تمہاری گفتگو کو سمجھ سکوں۔”
”خیر، میں ایسا بھی دل پھینک نہیں ہوں۔”
”تم نہیں ہو مگر وہاں کی لڑکیاں ہوتی ہیں۔”
وہ اس بار اس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ”میں کوشش کر رہا ہوں صبا! کہ اپنا فلیٹ بدل لوں، یہ فلیٹ بینک کے تو قریب ہے لیکن اتنی پرسکون جگہ نہیں ہے جتنی تم چاہ سکتی ہو، ایک اور فلیٹ دیکھا ہے میں نے بہت خوبصورت جگہ ہے ،وہ مل جائے تو تمھیں زیادہ اچھا لگے گا، تمھیں اس کی تصویریں بھجواؤں گا۔ تم دیکھنا اور بتانا کیسا ہے۔”
”واپس کب جا رہے ہو؟”
”بس پندرہ بیس دن اور ہیں۔ سرمد کی شادی کے تین چار دن بعد کی فلائٹ ہے۔” اس نے کار کی رنگ ہلاتے ہوئے اپنا پروگرام بتایا تھا۔
”اس دفعہ تم گھر میں بہت کم رہے ہو، بس کراچی اور اسلام آباد کے چکر ہی لگاتے رہے ہو۔”
”ہاں، اس دفعہ بینک کے بہت سے کام ہیں جو نمٹا رہا ہوں حالانکہ چھٹیاں گزارنے آیا ہوں، لیکن مجھے اس لیے ان کاموں پر کوئی اعتراض نہیں کہ ان کی وجہ سے مجھے سال کے اینڈ پر شادی کے لیے چھٹیاں مل جائیں گی، ابھی بھی دو تین دن تک پھر مجھے اسلام آباد جانا ہے اور وہاں سے واپسی شاید ایک ڈیڑھ ہفتے تک ہو۔ تم سناؤ تمہاری یونیورسٹی ٹھیک جا رہی ہے؟” عارفین نے اپنا تفصیلی پروگرام بتا کر اس سے پوچھا تھا۔
”ہاں ٹھیک جا رہی ہے۔” اس نے شال کو مزید لپیٹا تھا۔
”اب تو کسی کو اعتراض نہیں ہے؟” عارفین نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا۔
”جن کو اعتراض تھے ان کو اب بھی ہیں اور رہیں گے۔ اعتراض کرنے میں کوئی ٹیکس تو لگتا نہیں ہے کہ کسی کو فکر ہو، ہاں بس یہ ہے کہ اب بار بار کہتے نہیں ہیں مجھ سے نہ امی نہ تایا وغیرہ۔ ہاں پردے پر اب بھی اکثر لیکچر دیے جاتے ہیں۔”
وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے بتاتی جا رہی تھی۔
”ویسے کیا ہے صبا! اگر تم پردہ کر لو۔ خواہ مخواہ سب کو ناراض کیا ہے تم نے، پھر کچھ ماہ ہی کی تو بات ہے پھر فرانس آ کر تم جیسے چاہو رہنا۔ چاہو تو اسکرٹ پہننا، چاہو تو ٹراؤزرز مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔”
وہ اس کے لہجے میں چھپی شرارت بھانپ گئی تھی۔
”میں چادر سے اپنا آپ چھپاتی ہوں۔ میں دوسروں کی طرح بیہودہ لباس نہیں پہنتی ہوں نہ میک اپ کرتی ہوں۔ اگر لڑکوں کے ساتھ پڑھتی ہوں تو بھی انھیں ادائیں نہیں دکھاتی ہوں۔ ہاں روایتی برقع نہیں لیتی۔ کیا تم کو بھی اس بات پر اعتراض ہے؟” وہ مسکراتے ہوئے اس کی بات سنتا رہا تھا۔
”نہیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے نہ لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے پر، نہ چادر لینے پر۔ میں صرف تمہاری آسانی کے لیے کہہ رہا ہوں۔ بہت حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی بہت سی ناراضگی اور مخالفت برداشت کرنے کے لیے۔”
”ہاں اور مجھ میں بہت سا حوصلہ ہے۔ تمھیں تو شاید کہیں جانا تھا۔” صبا کو بات کرتے کرتے اچانک یاد آیا۔
”ہاں جانا تو ہے، خیر پھر آپ کی گفتگو سے فیض یاب ہوں گے۔ اب اگر آپ کو برا نہ لگے تو اندر چلی جائیں۔”
عارفین گھڑی دیکھتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ صبا نے ایک بار پھر تاروں سے بھرے ہوئے آسمان کو دیکھا تھا پھر وہ کھڑی ہو گئی۔
”خدا حافظ۔” وہ یہ کہہ کر برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ کر دروازے کی طرف چلی گئی۔ عارفین وہیں کھڑا اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
——————————————————————————————————————————-
ان کی واپسی بڑی خاموشی سے ہوئی تھی۔ عارفین عباس خاموشی سے گاڑی چلاتے رہے اور وہ باہر کے منظر دیکھتی رہی۔ گھر آنے کے بعد انھوں نے اس کا سامان اتروا کر کسی ملازم کے ہاتھ کسی کمرے میں بھجوا دیا تھا۔
”تم اپنا کمرہ دیکھ لو، تب تک کھانا لگ چکا ہوگا۔”
اسے ان کی بات پر بھوک کا احساس ہوا۔ اس وقت سہ پہر کے چار بج رہے تھے اور وہ دو بجے یہاں آئی تھی۔ دوپہر کا کھانا اس نے کچھ اضطراب، کچھ بے چینی میں نہیں کھایا تھا لیکن اب کھانے کا نام سن کر یکدم اس کی بھوک جاگ اٹھی تھی۔ ملازم اسے کمرے میں لے آیا تھا۔ وہ کچھ ششدر، کچھ پریشان سی کمرے کو دیکھنے لگی تھی۔ ملازم اس کا سامان رکھ کر جا چکا تھا۔
”اگر یہ خواب ہے سارہ امین! تو دعا کرو یہ خواب بہت لمبا ہو اور اگر یہ حقیقت ہے تو دعا کرو کہ یہ حقیقت کبھی خواب نہ بنے۔”
اس نے کھڑکی کی طرف جاتے ہوئے سوچا تھا۔ قد آدم کھڑکیوں میں سے باہر کا وسیع لان اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ نظر آ رہا تھا۔
”کیا اس جگہ رہنا آسان ہوگا۔” اس نے باہر سے نظر ہٹا کر کمرے میں موجود آسائشوں پر ایک تشویش بھری نظر ڈالی تھی۔ اسے وہ سیلن زدہ کمرہ یاد آیا جہاں اس نے اپنی زندگی کے پچھلے چوبیس سال گزارے تھے۔ اس کا دل چاہا۔ وہ بھاگ کر واپس چلی جائے۔ ”ایلس ان ونڈر لینڈ۔” کسی نے زور سے اس کے کانوں میں کہا تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ لگی کمرے کو دیکھتی رہی۔ بیڈ سے کارپٹ اور کارپٹ سے سامنے رکھے ہوئے ٹی وی اور فریج تک ہر چیز اس کے لیے بے حد عجیب تھی۔ وہ کتنی ہی دیر یونہی چپ چاپ کمرے کو دیکھتی رہی یک بہ یک اسے بے حد تھکن محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ باتھ روم کا دروازہ کھول کر باتھ روم میں چلی آئی۔ چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے سامنے واش بیسن پر لگا ہوا آئینہ اس کا عکس دکھا رہا تھا۔ اس کی نظر بہت دیر تک آئینے پر مرکوز رہی۔ آئینہ پورے باتھ روم میں جو سب سے بے مایہ چیز دکھا رہا تھا وہ اس کا اپنا وجود تھا۔
”تو سارہ! احساس کمتری کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، سو اب تم کیا کرو گی؟” ایک بار پھر کسی نے اس کے کانوں میں قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تھا۔ اس نے بے دلی سے اپنے عکس پر سے نظریں ہٹائیں اور پانی بند کر دیا۔ تولیے سے چہرہ خشک کرنے کے بعد وہ کمرے میں آ گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ملازم نے آ کر اسے کھانا لگنے کی اطلاع دی تھی، وہ اس کے ساتھ ہی ڈائننگ میں آ گئی۔ عارفین عباس موبائل پر کسی سے بات کر رہے تھے۔ اسے دیکھ کر انھوں نے موبائل بند کر دیا۔
”آؤ سارہ!” انھوں نے کہا تھا۔ ملازم نے ایک کرسی کھینچ دی تھی۔ وہ کچھ نروس سی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اسے وہ کھانا یاد آیا جو وہ اپنے گھر اپنی امی کے ساتھ کھاتی تھی۔
”سارہ! کھانا شروع کرو۔” عارفین عباس نے اس سے کہا تھا۔
”وہ ڈائننگ ٹیبل پر سب سے سادہ چیز ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگی۔ عارفین عباس نے اس کی مشکل آسان کر دی تھی۔ انھوں نے اپنی اور اس کی پلیٹ میں کچھ چاول نکالے تھے اور پھر آہستہ آہستہ وہ پلیٹ میں مختلف چیزیں رکھتے گئے تھے۔
اس نے جھجکتے ہوئے کھانا کھانا شروع کر دیا تھا۔
”یہ پورا گھر تمہارا ہے۔ تم جیسے چاہو یہاں رہو، جو چاہو کرو، ہو سکتا ہے سارا دن بے کار رہ کر تم بور ہو جاؤ۔ اس لیے چاہو تو اپنی سٹڈیز کا سلسلہ دوبارہ شروع کر سکتی ہو۔”
وہ اس سے بات کرتے ہوئے بھی اس کو نہیں دیکھ رہے تھے بس ہاتھ میں پکڑے ہوئے چمچ کو پلیٹ میں ڈالے ہوئے چاولوں میں پھیرتے رہے۔ اس نے نوٹ کیا تھا۔ وہ کھانا نہیں کھا رہے تھے۔ اس نے جب کھانا ختم کیا، وہ تب بھی ان ہی چاولوں کو پلیٹ میں ڈالے ہوئے تھے، ”شاید وہ صرف مجھے کمپنی دینے کے لیے کھانا کھانے بیٹھے تھے ورنہ انھیں بھوک نہیں تھی۔” اس نے سوچا تھا۔
کھانے کے بعد ملازم نے لان میں چائے لگا دی تھی۔ وہ اسے ساتھ لے کر لان میں آ گئے۔ سارہ نے انھیں چائے بنا کر دی تھی اور ابھی اس نے اپنا کپ ہاتھ میں لیا تھا کہ کسی گاڑی کا ہارن بجا تھا اور چوکیدار گیٹ کھولنے لگا تھا۔
”حیدر آیا ہے۔” عارفین عباس نے گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ سلور گرے کلر کی ایک سوک اندر آئی تھی اور اس میں سے اترنے والے شخص کو دیکھ کر وہ کافی حیران ہوئی تھی۔ اس بندے نے اپنا کوٹ اور بریف کیس دونوں ملازم کو پکڑا دیے تھے۔ اور پھر کار کا دروازہ بند کر کے سیدھا لان کی طرف آیا تھا۔ سارہ اب بھی حیرانی سے اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے نقوش اور رنگت سے کوئی غیر ملکی لگتا تھا اگرچہ وہ مردانہ وجاہت کا کوئی شاہکار نہیں تھا لیکن دراز قد اور غیر ملکی خدوخال نے اسے کافی مختلف بنا دیا تھا۔ آنے والے نے بھی سارہ کو قدرے حیرانی سے ہی دیکھا تھا۔
”السلام علیکم” قریب آ کر حیدر نے کہا تھا اور ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”سارہ! یہ میرا بیٹا ہے حیدر۔” عارفین عباس نے اس کا تعارف کروایا تھا۔
”اور یہ سارہ ہے۔”
”ہیلو!” حیدر نے بہت رسمی سے انداز میں کہا تھا اور پھر بہت شستہ فرنچ میں اس نے باپ سے پوچھا تھا۔ ”یہ کون ہیں؟”
عارفین عباس نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا تھا۔
”صبا کی بیٹی ہے۔” کچھ توقف کے بعد حیدر نے ایک بار پھر سوال کیا تھا۔
”یہاں کیوں آئی ہیں؟”
”حیدر! میں تم سے اس سلسلے میں بعد میں بات کروں گا۔” عارفین عباس نے سارہ کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو کسی تاثر کے بغیر چائے پینے میں مصروف تھی۔ وہ جان نہیں سکے کہ وہ فرنچ جانتی ہے یا نہیں۔
”سارہ! تمھیں فرنچ آتی ہے؟”
اس بار انھوں نے اردو میں سارہ سے پوچھا تھا، اس نے نظر اٹھا کر انھیں دیکھا تھا۔
”نہیں۔” عارفین عباس نے حسب توقع جواب پا کر کچھ سکون کا سانس لیا تھا۔ حیدر نے چند لمحات میں اس کا تفصیلی جائزہ لے لیا تھا۔
”حیدر کے لیے بھی چائے بنا دو۔” عارفین عباس نے سارہ سے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے ہاتھ میں پکڑا ہوا کپ رکھ کر اس کے لیے چائے بنانے لگی۔
”اب تو ہم بات کر سکتے ہیں ناں۔ آپ بتائیں، یہ یہاں کیوں آئی ہیں؟” حیدر ایک بار پھر فرنچ میں اپنے باپ سے مصروف گفتگو ہو گیا تھا۔
”حیدر! اب یہ یہیں رہے گی۔”
”کیوں؟” حیدر نے قدرے حیرانی سے پوچھا تھا۔ ”چائے لے لیں۔” سارہ نے گفتگو میں مداخلت کی تھی۔ اس نے ایک رسمی سے شکریہ کے ساتھ کپ پکڑ لیا وہ دوبارہ چائے پینے میں مصروف ہو گئی تھی۔
”صبا مر چکی ہے اور یہ اکیلی کیسے رہ سکتی ہے؟” اس بار حیدر نے سارہ کو دیکھا۔
”ان کی ڈیتھ کب ہوئی؟” ایک بار پھر اس نے باپ سے پوچھا تھا۔
”پانچ دن پہلے۔” حیدر نے باپ کو گہری نظروں سے دیکھا تھا وہ اس سے نظر چرا گئے۔ اس نے مزید کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
سارہ فرنچ میں ہونے والی ساری گفتگو سے بے نیاز چائے پیتی رہی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ گفتگو اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ جتنی روانی سے وہ دونوں فرنچ بول رہے تھے وہ اتنی روانی سے فرنچ نہیں بول سکتی تھی لیکن بہرحال وہ فرنچ نہ صرف بول لیتی تھی بلکہ اسے اچھی طرح لکھ پڑھ بھی لیتی تھی۔ بچپن میں اس نے ماں کو تنہائی میں بیٹھے یہی زبان بولتے دیکھا تھا۔ اس نے جاننے کی کوشش کی تھی کہ وہ کون سی زبان بولتی ہیں تب وہ اس زبان کا نام نہیں جانتی تھی اور ہر دفعہ پوچھنے پر امی گم صم ہو جاتی تھیں مگر پھر بعض دفعہ وہ خود ہی خود کلامی میں مگن ہوتیں اور اس کا اشتیاق بڑھتا ہی جاتا پھر وہ جان گئی تھی کہ امی فرنچ بولتی ہیں اور اسے شاک لگا تھا۔
”یہ زبان امی کو کیسے آتی ہے اور اگر یہ زبان آتی ہے تو پھر اور کیا کیا آتا ہے؟”
ان سوالوں نے اس کے تجسس کو اور بڑھا دیا تھا اور ہر سوال کا جواب امی کی طرف سے ایک خاموشی کی صورت میں ملتا تھا۔ پھر جب اس نے کالج میں داخلہ لیا تو کسی شعوری کوشش کے بغیر ہی اس نے آپشنل سبجیکٹس میں فرنچ لے لی تھی۔ وہ امی کے اسرار کو جاننا چاہتی تھی۔ وہ خود سے کیا بات کرتی ہیں؟ کیا کہتی ہیں؟ کیا سوچتی ہیں؟ بہت آہستہ آہستہ وہ اس قابل ہو گئی تھی کہ امی کی باتوں کو، ان کے جملوں کے مفہوم کو سمجھ سکے اور جب وہ ایسا کرنے کے قابل ہوئی تو وہ چکرا گئی تھی۔ جب بات سمجھ میں نہیں آتی تھی تب لگتا تھا کہ زبان جاننے کے بعد وہ بات سمجھ جائے گی جب زبان جاننے لگی تھی تو اسے یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ کبھی امی کی باتوں کو سمجھ نہیں پائے گی۔ ان کی باتوں میں کہیں بھی ان کا ماضی نہیں جھلکتا تھا۔ کہیں بھی کوئی نام نہیں آتا تھا سوائے ایک نام کے ”اللہ” ان کی باتیں اسے ولی کی باتیں لگتی تھیں نہ درویش کی مگر وہ انسان کی باتیں بھی نہیں تھیں۔ کیونکہ انسان کی باتوں میں شکوہ آتا تھا ان کی باتوں میں شکوہ نہیں ہوتا تھا۔
سارہ نے کبھی ان پر ظاہر نہیں کیا کہ وہ فرنچ جاننے لگی تھی۔ وہ اپنی کتابیں ہمیشہ چھپا کر رکھتی۔ اسے امی کی خود کلامی عزیز تھی۔ ”خود سے ہی سہی بات تو کرتی تھیں اور اگر ان کو پتا چل گیا تو میں اس آواز سے بھی محروم ہو جاؤں گی۔” وہ انھیں خود کلامی کرتے ہوئے دیکھتی اور سوچتی اور اب یہاں بھی یہی ہوا تھا۔ حیدر نے فرنچ بولنا شروع کی تھی اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ان پر یہ ظاہر نہیں کرے گی کہ وہ یہ زبان جانتی تھی۔ بڑی خاموشی سے تینوں نے چائے ختم کی تھی پھر سب سے پہلے حیدر اٹھ کر اندر گیا تھا۔
”یہ آپ کا اپنا بیٹا ہے؟” سارہ نے اس کے جانے کے بعد ان سے پوچھا تھا۔
”ہاں، یہ میرا ہی بیٹا ہے۔ میں نے ایک فرنچ عورت سے شادی کی تھی۔”
”وہ کہاں ہیں؟”
”تین سال پہلے اس کی ڈیتھ ہو گئی۔” اس نے عارفین عباس کے چہرے کو ایک بار پھر دیکھا تھا۔
”میری امی نے فرنچ کہاں سے سیکھی تھی؟”
عارفین عباس نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ وہ بہت گہری نظروں سے انھیں دیکھ رہی تھی۔
”اسے شوق تھا۔” وہ اس ادھورے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی۔
”میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں۔ تم چاہو تو گھر کو دیکھ لو یا پھر آرام کرو۔”
وہ شاید اس کے اور کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس لیے اٹھ کر اندر آ گئے تھے۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ وہ اٹھ کر لان میں پھرنے لگی۔ عارفین عباس نے اپنے کمرے میں آ کر دروازہ کو لاک کر دیا تھا۔ یکدم بے تحاشا تھکن ان کے اعصاب پر سوار ہو گئی تھی۔ دراز میں سے چابیاں نکالنے کے بعد انھوں نے وارڈ روب کھولی تھی اور اس کے اندر کہیں سے کچھ البمز نکال کر بیڈ پر آ گئے تھے۔ البم کھولتے ہی وہ چہرہ ان کی نظروں کے سامنے آ گیا تھا۔ جس کی قبر پر کچھ دیر پہلے وہ سارہ کے ساتھ فاتحہ پڑھ کر آئے تھے۔
”تو بس دنیا میں تم صرف چھیالیس سال گزارنے آئی تھیں اور میں خوش ہوں صبا! میں آج بہت خوش ہوں کہ تمھیں زندگی کے عذاب سے نجات مل گئی، اب کم از کم تم سکون سے تو ہو گی۔” وہ اس کی تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے۔
——————————————————————————————————————————-




Loading

Read Previous

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Read Next

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!