میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

وہ اسے پہچان نہیں سکا تھا۔ زرد رنگت، سیاہ حلقوں میں دھنسی ہوئی آنکھوں اور ابھری ہڈیوں والا وہ چہرہ صبا کا چہرہ نہیں ہو سکتا تھا مگر وہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو اسے مسحور کر دیتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اسے لگا تھا اس کا پورا وجود پانی بن کر بہنے لگا ہو۔ وہ گھر پر نہیں تھی اور وہ شام تک اس کے دروازے پر کھڑا اس کا انتظار کرتا رہا تھا پھر وہ آ گئی تھی۔ گود میں ایک چھوٹی بچی کو اٹھائے جسم کو ایک کالی چادر میں چھپائے اس نے دروازے پر اسے دیکھ لیا تھا۔ ایک نظر ڈالنے کے بعد اس نے دوبارہ اس پر نظر نہیں ڈالی تھی۔
”صبا! میں تمھیں لینے آیا ہوں۔”
اسے لگا تھا یہ جملہ بولتے ہوئے اس کے حلق میں کتنے ہی کانٹے چبھ گئے تھے۔ وہ خاموش رہی تھی اپنی بچی کو اس نے دہلیز پر بٹھا دیا اور ایک چابی سے تالا کھولنے لگی۔
”صبا! کیا مجھے معاف کر دو گی؟”
تالا کھل گیا تھا۔ اس نے اپنی بچی کو اٹھایا اور دروازہ کھول کر اندر جانے لگی۔
”صبا! میری بات کا جواب دو۔” عارفین نے دروازہ پکڑ لیا تھا۔
”اندر آ جاؤ یہاں تماشا نہ بناؤ۔” وہ دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر چلی گئی تھی۔ وہ اس کے پیچھے اندر آ گیا تھا۔ اس نے اندر جا کر لائٹ آن کی تھی اور اپنی بچی کو ایک چارپائی پر بٹھا دیا۔
”کہو کیا چاہتے ہو اب مجھ سے؟” وہ خود کھڑی رہی تھی۔
”صبا! مجھے معاف…”
”میں نے معاف کیا اور؟” صبا نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”کیا تم ایک بار میری ماں سے مل سکتی ہو؟ وہ بہت بیمار ہیں، تم سے معافی مانگنا چاہتی ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ اب زیادہ دن زندہ نہیں رہیں گی۔”
اسے بات کرتے کرتے احساس ہوا، وہ اس پر نظر جمائے کھڑی تھی، اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ وہ بات کرتے کرتے چپ ہو گیا۔ اسے یاد آ گیا تھا۔ طلاق دیتے وقت بھی وہ اسے اسی طرح دیکھ رہی تھی۔
”صبا! جو میں نے تمھارے ساتھ کیا، وہ تم میرے ساتھ مت کرنا۔” وہ آہستہ سے گڑگڑایا تھا۔
”میں آ جاؤں گی، اب تم جاؤ۔” وہ اپنی بچی کے پاس چارپائی پر بیٹھ گئی تھی۔
عارفین کو یوں لگا جیسے کسی نے اس کے حلق پر پاؤں رکھ کر زور زور سے پیر دبانا شروع کر دیا تھا۔
”صبا تم چیخو چلاؤ۔ مجھے گالیاں دو۔ کہو میں نہیں آؤں گی۔ تمہاری ماں مرتی ہے تو مر جائے۔ میری طرف سے تم جہنم میں جاؤ۔ مجھے کچھ تو کہو مگر یوں میری بات نہ مانو۔”
وہ نہیں جانتا۔ اسے کیا ہوا تھا۔ بس وہ بلک بلک کر رونے لگا تھا۔ وہ چپ رہی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کو گود میں بٹھا لیا تھا۔ عارفین کو یاد تھا وہ چھوٹی چھوٹی بات پر رو پڑتی تھی۔ ذرا سی بات پر اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ آج اسے کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اس طرح اسے دیکھ رہی تھی جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہی ہو۔ وہ کتنی ہی دیر روتا رہا تھا پھر آستینوں سے آنکھیں رگڑتے ہوئے وہاں سے آ گیا تھا۔





وہ دوسرے دن سہ پہر کو آئی تھی۔ عارفین ماں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ تائی امی کراہ رہی تھی۔ اس نے اسے دروازے پر کھڑے دیکھ لیا تھا۔ وہ کل کی طرح آج بھی اپنی بیٹی کو اٹھائے ہوئے تھی۔
تایا ابا نے اسے دیکھا تو بے اختیار اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ ”صبا! آؤ اندر آؤ۔”
وہ اندر آ گئی تھی۔ تایا نے اسے گلے لگانا چاہا تھا۔ اس نے بڑے سکون سے انھیں ہاتھ سے روک دیا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
عارفین نے اسے کہتے سنا تھا۔ پتا نہیں کس طرح سب گھروں میں اس کے آنے کی خبر ہو گئی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کے پیچھے لوگ آنے لگے تھے۔ کمرہ لوگوں سے بھرنے لگا تھا۔
”امی! صبا آئی ہے۔” عارفین نے ماں کو اطلاع دی تھی۔ وہ ماںکے پاس سے اٹھ گیا۔
”کہاں ہے صبا؟ کہاں ہے وہ؟ اسے میرے سامنے لاؤ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں اسے۔” تائی نے اٹھنے کی جدوجہد شروع کر دی تھی لیکن ان سے اٹھا نہیں گیا تھا۔
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ان کے پاس رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی تھی تائی نے اسے دیکھ لیا تھا۔ یکدم وہ خاموش ہو گئی تھیں لیکن ان کا جسم لرز رہا تھا، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر سب نے دیکھا تھا انھوں نے آہستہ آہستہ اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ اس کے آگے جوڑ دیے تھے۔ صبا نے بڑے سکون سے ان کے جڑے ہوئے ہاتھ کھول دیے تھے۔
”میں نے آپ کو معاف کیا۔ میرے دل میں آپ کے خلاف کچھ نہیں ہے۔” وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ تائی امی نے یکدم بچوں کی طرح بلک بلک کر رونا شروع کر دیا تھا۔
”میں نے تم پر بہت ظلم…” تایا آگے آ گئے تھے۔ صبا نے ان کی بات کاٹ دی تھی۔
”میں نے آپ کو بھی معاف کیا۔ میں نے سب کو معاف کیا۔” اس نے کہا تھا اور پھر وہ اپنی بچی کو اٹھائے دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
”صبا! تم کہیں مت جاؤ۔ تم ہمارے پاس رہو۔ اپنے گھر آ جاؤ۔” چھوٹے تایا نے اسے روکنا چاہا تھا۔
”تایا! مجھے رہنے کے لیے گھر نہیں جگہ چاہیے، وہ میرے پاس ہے۔” وہ رکی نہیں تھی پھر ہر ایک نے اسے روکنا چاہا تھا۔ تایا اب روتے ہوئے اس کے پیچھے دروازے تک گئے تھے مگر وہ نہیں ٹھہری تھی۔ جس خاموشی سے اور سکون کے ساتھ وہ آئی تھی۔ اسی خاموشی اور سکون کے ساتھ چلی گئی تھی۔
…***…
”عارفین! یہ سب نہیں ہوگا۔ کم از کم میری زندگی میں نہیں ہوگا۔ میں تاریخ کو اپنے آپ کو دہرانے نہیں دوں گی۔ تم ہوتے کون ہو اپنے بیٹے کے ساتھ سارہ کی منگنی کرنے والے؟”
اقصیٰ، عارفین سے یہ سنتے ہی غضب ناک ہو گئی تھیں کہ اس نے سارہ کی منگنی حیدر سے کر دی ہے۔ وہ آج ہی پاکستان آئی تھیں اور آتے ہی سارہ سے ملنے کے لیے عارفین کے ہاں گئی تھیں اگر سارہ وہاں نہ ہوتی تو وہ کبھی عارفین کے ہاں نہ جاتیں۔ دل میں کچھ ایسی ہی دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ سارہ سے ملانے کے بعد عارفین ان سے کوئی ضروری بات کرنے کے لیے اپنے کمرے میں لے آئے تھے اور وہاں انھوں نے سارہ کی منگنی کا انکشاف کر دیا تھا۔
”اقصیٰ! جو کچھ ہو چکا ہے اسے بھول جاؤ۔ جو غلطی مجھ سے ہوئی ہے میں اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں پھر صبا خود سارہ کو میرے حوالے کر کے گئی ہے۔”
عارفین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”ہر غلطی کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا اور تم لوگوں نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ تم لوگوں نے گناہ کیا تھا۔ مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ صبا اسے تمھارے سپرد کر کے گئی تھی۔ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا وہ اس کی سادگی کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔ اسے بار بار اعتبار کرنے کی عادت تھی۔ اسے بار بار معاف کرنے کی عادت تھی اور اسی عادت نے اسے اس عمر میں قبر میں پہنچا دیا۔ مجھ میں یہ دونوں عادتیں نہیں ہیں اور میں سارہ کے ساتھ وہ سب نہیں ہونے دوں گی جو آپی کے ساتھ ہوا۔”
”اقصیٰ! تم جانتی ہو، جو کچھ ہوا اس میں میرا قصور بہت کم تھا پھر بھی…”
”کم تھا یا زیادہ تھا۔ تمہارا قصور تھا مگر صبا کا تو کوئی قصور نہیں تھا پھر اس نے کس جرم کی سزا کاٹی؟ نہیں عارفین! میں سارہ کو تمھارے خاندان میں نہیں آنے دوں گی۔”
”اقصیٰ! یہ منگنی صرف حیدر کی مرضی سے نہیں ہو رہی، اس میں سارہ کی پسند بھی شامل ہے۔ تم یہ رشتہ توڑ کر اسے تکلیف پہنچاؤ گی۔” عارفین اقصیٰ کے سامنے بے بس نظر آ رہے تھے۔
”سارہ کی پسند… سارہ کو ماضی کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوگا ورنہ وہ تمھارے بیٹے پر تھوکنا بھی پسند نہ کرتی۔” اقصیٰ کے لہجے کا زہر بڑھتا ہی گیا تھا۔
عارفین نے سر جھکا لیا۔ ”میں اسے سب کچھ بتا دوں گی پھر وہ خود یہ رشتہ توڑ کر جائے گی۔”
”اقصیٰ! یہ مت کرنا۔ صبا نے اس سے سب کچھ چھپا کر رکھا ہے پھر تمھیں کیا حق پہنچتا ہے اس سے کچھ کہنے کا۔ تم فرنچ نہیں جانتی ہو لیکن یہ خط کسی سے پڑھوا لو، دیکھو اس میں کیا لکھا ہے۔ سارہ کو اپنے پاس رکھ لینا۔ اسے میرے خاندان کے پاس مت بھیجنا۔ ماضی دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اس کا خیال رکھنا۔ یہ سب میں نے نہیں لکھااس نے لکھا ہے ۔اقصیٰ! یہ یاد رکھو، وہ مجھے اور میرے گھر والوں کو معاف کر چکی تھی لیکن اس نے تم لوگوں کو معاف نہیں کیا تھا جو کچھ میرے خاندان نے اس کے ساتھ کیا تھا۔ تم سب نے بھی وہی کیا تھا۔ تم لوگوں نے بھی اس پر یقین نہیں کیا تھا۔ اگر اس کی زندگی برباد ہوئی تو اس میں تم لوگوں کا بھی حصہ ہے۔ کیوں اس کی شادی ہونے دی؟ کیوں نہیں اسے بچایا؟ کیوں اسے تباہ ہونے دیا؟” عارفین بھی بگڑ گئے تھے۔
”اقصیٰ! اب ماضی کو ماضی ہی رہنے دو۔ سارہ کو پچھلے چوبیس سال سے کچھ نہیں ملا۔ اب اگر اسے کچھ مل رہا ہے تو اسے اس سے مت چھینو۔ اسے صبا کا ماضی بتا کر تم باقی زندگی کے لیے رلاتی رہو گی یہ سب مت کرو۔” اقصیٰ اس کی بات پر خاموش ہو گئی تھیں۔
”سارہ! تم نے مجھے فون پر نہیں بتایا کہ تمہاری منگنی ہو گئی ہے؟” عارفین کے کمرے سے نکل کر واپس جاتے ہوئے اقصیٰ نے سارہ سے پوچھا تھا وہ اس سوال پر اس کے چہرے پر پھیلتی ہوئی دھنک دیکھ کر حیران رہ گئی تھیں۔
”میں بتانا چاہتی تھی لیکن عارفین انکل نے منع کر دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ خود آپ کو یہ سب بتائیں گے۔ میں تو منگنی بھی آپ کے پاکستان آنے کے بعد ہی کرنا چاہتی تھی لیکن عارفین انکل کو جلدی تھی۔” اس نے کچھ جھینپتے ہوئے کہا۔
اقصیٰ نے عارفین کو دیکھا تھا۔ وہ نظر چرا گئے تھے۔
”تم حیدر کو پسند کرتی ہو؟” انھوں نے اس سے پوچھا تھا۔ وہ مزید جھینپ گئی تھی اس کے چہرے پر پھیلتی شفق نے اقصیٰ کا چہرہ تاریک کر دیا تھا۔
”انھیں یاد آیا تھا، عارفین کے ذکر پر صبا بھی اسی طرح گلابی پڑ جاتی تھی۔ اس کی جھینپی ہوئی مسکراہٹ نے اقصیٰ کو بے اختیار صبا کی یاد دلائی تھی۔
”شادی کب کرو گے؟” اقصیٰ نے عارفین سے پوچھا تھا۔
”چند سال بعد۔”
”ٹھیک ہے اتنے سال سارہ میرے پاس رہے گی۔”
”نہیں اقصیٰ! سارہ یہیں رہے گی۔” عارفین اس کی بات پر کچھ پریشان ہو گئے تھے۔
”شادی سے پہلے یہاں کس حیثیت سے رہے گی؟”
”جیسے پہلے رہ رہی تھی۔”
”پہلے کی بات اور تھی۔ اب حیدر سے منگنی کے بعد تو اس کے یہاں رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تم یا تو اسے میرے ساتھ جانے دو یا پھر باقاعدہ اس کی شادی کروا کر اسے اپنے گھر لاؤ۔”
اقصیٰ نے وہیں پورچ میں کھڑے کھڑے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ سارہ اقصیٰ کی ضد پر دم بخود ہو گئی تھی۔ عارفین بھی خاموش تھے۔
”ٹھیک ہے۔ میں حیدر سے بات کرتا ہوں اور پھر کل تمھیں بتا دوں گا۔” انھوں نے اقصیٰ سے کہا تھا۔
”سارہ تم اپنا سامان پیک کر لینا۔ کل میں تمھیں اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔” اقصیٰ نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا تھا۔
”اقصیٰ! تم ہوٹل میں رہنے کے بجائے یہاں آ سکتی ہو یا پھر اپنے گھر جا سکتی ہو۔ وہ ابھی بھی خالی ہے۔” عارفین نے اقصیٰ کو آفر کی تھی انھوں نے چند لمحے اس پر سوچا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ میں اپنے گھر میں رہوں گی۔” انھوں نے تھکے ہوئے لہجے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
”میں آپا کو اطلاع دے دوں گا۔ تم جب چاہے وہاں چلی جانا۔” عارفین اسے گاڑی تک چھوڑنے آئے تھے۔
…***…
”صبا! اس طرح اپنی زندگی برباد نہ کرو۔ یہاں سے چلو، تم اس طرح ٹھوکریں کھانے کے لیے نہیں بنائی گئی ہو، میں نے فون پر چچا سے بات کی ہے انھیں سب کچھ بتا دیا ہے وہ اگلے ہفتے پاکستان آ رہے ہیں اگر ہمارے ساتھ نہیں تو ان کے ساتھ چلی جاؤ مگر اس طرح دھکے نہیں کھاؤ۔”
وہ اپنی ماں کے مرنے کے چھ دن بعد ایک بار پھر اس کے پاس گیا تھا۔
”یہ میری زندگی ہے۔ میں جیسے چاہوں گی، اسے گزاروں گی۔” وہ آج بھی اسی طرح سرد تھی۔
”تم اس طرح زندگی گزارو گی تو ہم میں سے کوئی بھی سکون سے نہیں رہ سکے گا۔”
”سب سکون سے ہیں۔ سب خوش ہیں۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بس ایک مجھے برباد کرنا تھاسو سب نے مل کر کر لیا۔” عارفین نے اس کی زبان پر شکوہ سن لیا تھا۔
”تم برباد نہیں ہوگی صبا! میں تم سے شادی کروں گا۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔” عارفین نے اپنے دل کی بات کہہ دی تھی۔
”اور اسماء اور حیدر، ان کا کیا ہوگا؟” اس نے عجیب سے لہجے میں پوچھا تھا۔
”اسماء مان جائے گی۔ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اور جانتی ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔” عارفین نے بڑے یقین سے کہا تھا۔
”مجھے لوگوں کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچنا نہیں آتا۔ ایسا کر بھی لوں تو مجھے اس پر پیر جمانا نہیں آئے گا۔ تم نے تین سال پہلے مجھے گندگی سمجھ کر جھٹک دیا تھا۔ مجھے آج بھی اپنا وجود گندگی ہی لگتا ہے۔ تم ایک اچھی زندگی گزار رہے ہو۔ گزارو۔ مجھے دوسروں کی چادر کھینچ کر اپنا وجود ڈھانپنا نہیں آتا۔”
وہ ابھی بھی وہی صبا تھی۔ تین سال پہلے والی۔ ظاہر بدل گیا تھا۔ باطن کیسے بدل جاتا۔
”ٹھیک ہے… مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتیں نہ کرو، اپنے ماں باپ کے پاس چلی جاؤ، اپنا نہیں تو سارہ کا ہی سوچو۔” عارفین نے ایک بار پھر اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”اسی کا تو خیال ہے مجھے اب۔ میرا دل اپنے گھر والوں کے پاس جانے کو نہیں چاہتا۔ وہ مجھے قبول کر لیں گے۔ سارہ کو نہیں۔ یہ انھیں بوجھ ہی لگے گی۔ وہ اس سے نفرت کریں گے تم جانتے ہو، سارہ کے باپ نے اسے اپنی بیٹی تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس نے مجھے اسی وجہ سے طلاق دی تھی۔ مرد طوائف کو بسا لیتا ہے تہمت لگی ہوئی عورت کو نہیں۔ کل کو سارہ بڑی ہوگی اگر کسی نے اسے یہ سب بتا دیا تو وہ کیا کرے گی۔ جو کچھ ہوا تھا۔ اس میں میرا قصور نہیں تھا لیکن مجھے سزا ملی۔ جو کچھ ہوا تھا اس میں سارہ کی بھی غلطی نہیں ہے لیکن میں چاہتی ہوں میری طرح اسے سزا نہ ملے۔”
”سب کا خیال ہے تمھیں بس اپنا خیال نہیں ہے؟”
”میرا خیال اللہ نے نہیں کیا تو میں کیوں کروں۔ مجھے لگتا ہے عارفین! میں نے ضرور کوئی گناہ کیا ہے۔ خدا کسی کو گناہ کے بغیر اتنی رسوائی نہیں دیتا جتنی اس نے مجھے دی ہے۔ تین سال پہلے میرا جب جی چاہتا تھا میں اس سے باتیں کرتی تھی۔ تین سال سے اس نے مجھ سے بات کرنا بند کر دیا ہے۔ میں تین سال سے اسے آوازیں دے رہی ہوں مگر وہ جواب نہیں دیتا۔ میں تین سال سے ہر وہ کام کر رہی ہوں جو اسے خوش کر دے۔ اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے دیکھ لو۔ میں نے صبر کیا ہے۔ میں کسی سے شکوہ نہیں کرتی۔ میں نے تین سال میں ایک بار بھی کسی کو یہ سب کچھ نہیں بتایا مگر وہ پھر بھی راضی نہیں ہوا۔ اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ میں نے سب کو معاف کر دیا۔ تم کو، تائی امی کو، تایا ابا کو، امی کو، سب کو مگر وہ پھر بھی مجھ سے خفا ہے۔ اللہ کو عاجزی پسند ہے۔ میرا دل چاہتا ہے میں مٹی بن جاؤں۔ لوگوں کے پیروں کے نیچے آؤں۔ مسلی جاؤں پھر وہ مجھ پر اپنی نظر کر دے مگر پھر بھی مجھے لگتا ہے عارفین! میں نے کوئی گناہ کیا ہے۔ کوئی گناہ تو ضرور کیا ہے۔”
وہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔ عارفین اس کے آنسو دیکھنا چاہتا تھا۔ اس سے شکوہ سننا چاہتا تھا مگر اب اس کی ہر بات اس کے وجود کو موم کی طرح پگھلا رہی تھی۔
”تم ایسی باتیں نہ کرو صبا! تم ایسی باتیں نہ کرو۔ تمہاری ایسی باتوں نے کتنوں کی زندگیاں اجاڑ دی ہیں۔ تمھارے ان آنسوؤں کی وجہ سے اللہ نے کتنوں کو خون کے آنسو رلایا ہے۔ تم صبر نہ کرو، شکوہ کرو، معاف نہ کرو، بدلہ لو۔ تم ایسا کرو گی تو بہت سی زندگیاں تباہ ہونے سے بچ جائیں گی۔” کوئی اس کے وجود کے اندر چلا چلا کر کہہ رہا تھا۔
”صبا! مجھے بتاؤ۔ میں تمھارے لیے کیا کروں؟” عارفین اس کے قریب آ گیا تھا۔
”تم۔ تم بس ایک کام کرنا۔ دوبارہ کبھی میرے پاس مت آنا نہ مجھ سے رابطہ کرنا نہ مجھے ڈھونڈنا۔ بس میرے لیے کچھ کرنا ہے تو یہی کرنا۔”
وہ اب بھی اسی طرح زار و قطار رو رہی تھی۔ اس روز وہ چپ نہیں ہوئی تھی، وہ روتی رہی تھی بچوں کی طرح یوں جیسے کسی نے اس سے سب کچھ چھین لیا ہو۔ یوں جیسے کسی نے اسے کچھ نہ دیا ہو۔ عارفین بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا تھا جب اس کے آنسو اس کی برداشت سے باہر ہو گئے تھے تو وہ وہاں سے چلا آیا تھا۔
اگلی شام وہ اس کی ڈگری اور دوسرے کاغذات اس کے گھر سے نکال لایا تھا اور اسے دینے کے لیے گیا تھا۔ دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ وہ اس کا انتظار کرتا رہا۔ بہت دیر ہو گئی وہ گھر نہیں آئی۔ وہ بے چین ہو گیا تھا۔ اس نے اس کے ہمسایوں کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
”وہ تو جی صبح اپنا سامان لے کر گھر چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ چابی ہمیں دے گئی ہیں کہ مالک مکان کو دے دیں۔” ایک عورت نے اس کے استفسار پر اندر سے اسے بتایا تھا۔ کسی نے برچھی سے ایک بار پھر عارفین کے پورے وجود کو چھیدنا شروع کر دیا تھا۔
اس نے دوبارہ صبا کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ جانتا تھا، اس بار وہ نہیں ملے گی، صبا کے گھر والے پاکستان آ گئے تھے۔ اور انھوں نے عارفین کے گھر والوں سے سارے تعلقات توڑ لیے تھے۔ لیکن عارفین سے صبا کے والد ناراض نہیں رہ سکے۔ اس نے ان کے پیروں پر گر کر ان سے معافی مانگی تھی۔ واپس امریکہ جاتے ہوئے اس نے ان سے صبا کا گھر خرید لیا تھا۔ پھر وہ خود بھی اسماء اور حیدر کے ساتھ واپس فرانس آ گیا تھا۔ یہاں آ کر اسے شدید قسم کا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا اور دو تین ماہ تک وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اس پر ڈپریشن کے دورے پڑتے اور وہ کئی کئی دن تک خاموش رہتا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ اسماء اور حیدر کی وجہ سے نارمل ہونے لگا تھا۔ اسماء نے ان دنوں اس کا بہت ساتھ دیا تھا۔ وہ گھنٹوں اس سے صبا کے بارے میں باتیں کرتا رہتا اور وہ بڑے صبر اور ہمدردی سے سنتی رہتی اور جب اس پر خاموشی کے دورے پڑتے تو وہ صبا کا ذکر کر کے اسے بولنے پر مجبور کرتی۔ کئی سال وہ پاکستان نہیں گیا تھا پھر باپ کی وفات پر اس نے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
…***…




Loading

Read Previous

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Read Next

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!