میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

اس کی آنکھ کھلتے ہی درد کی ایک لہر اس کے سر سے پیر تک دوڑ گئی تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ کہیں سے چڑیوں کے چہچہانے کی آواز آ رہی تھی۔ وہ قالین پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ اٹھنے کی کوشش کی۔ پورا سر پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ کسی نہ کسی طرح بیٹھنے کے بعد اس نے سر کو دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ پچھلی رات ایک ڈراؤنے خواب کی طرح اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے رات کے واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کی تھی۔ بہت دیر تک اسے پیٹتے رہنے کے بعد تایا چلے گئے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ برآمدوں میں کھڑے لوگ چہ میگوئیاں کرتے ہوئے غائب ہونے لگے۔ ان سب کے جانے کے بعد وہ آہستہ آہستہ کھڑی ہوئی تھی اور کسی نہ کسی طرح خود کو اپنے گھر تک لے آئی تھی۔
گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ کسی کمرے سے امی اور اقصیٰ کے رونے اور عظیم کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں وہ کمرے میں آ گئی تھی۔ پتا نہیں کب امی کو اس کے اندر آنے کا پتا چلا تھا اور وہ اونچی آواز میں بولتے ہوئے اس کے کمرے میں آ گئی تھیں۔
”منہ کالا کرنے کے بعد یہاں کیا لینے آئی ہو؟ بے غیرت، جاؤ جا کر کہیں ڈوب مرو۔”
”منہ کالا میں نے نہیں کیا۔ آپ سب نے مل کر کر دیا ہے۔ عارفین کو آنے دیں۔ سب کو پتا چل جائے گا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔”
”ہاں آئے گا عارفین۔ ضرور آئے گا تمھارے منہ پر تھوکنے۔ طلاق کے کاغذات تمھارے منہ پر مارنے۔ صبا تو تو میرے گھر کے لیے سانپ سے بھی بڑھ کر زہریلی ثابت ہوئی ہے۔ میں نے پیدا ہوتے ہی تیرا گلا کیوں نہ گھونٹ دیا۔”
”گھونٹ تو دیا ہے امی! چند گھنٹے پہلے سب نے مل کر میرا گلا ہی تو گھونٹا ہے۔ اب بچا کیا ہے جس کا واویلا کر رہی ہیں۔”
”اس بے شرم کو دیکھو۔ یہ ابھی بھی مظلوم بن رہی ہے۔ ابھی بھی انکاری ہے۔ میرا بس چلتا صبا! تو میں تجھے سب کے سامنے بیچ صحن میں کوڑے مارتی۔ تو نے اپنا منہ اس دنیا میں خود کالا کیا۔ اگلی دنیا میں اللہ کالا کرے گا۔ تو دیکھنا صبا! کتنی رسوائی ہے تیرے لیے آگے۔”
”اب کوڑوں کی ضرورت نہیں رہی امی! اب کسی چیز کی ضرورت نہیں رہی۔ مجھے جتنی رسوائی ملنی تھی۔ مل گئی۔ اب دوسروں کی باری ہے۔ آپ کی، اس خاندان کے ہر اس شخص کی جس نے مجھ پر تہمت لگائی۔”





”کتنا جھوٹ بولے گی؟ صبا! تو کتنا جھوٹ بولے گی؟ سب نے دیکھا ہے تجھے عادل کے ساتھ اس کمرے سے نکلتے سب نے دیکھا ہے اور پھر بھی کہتی ہے کہ تو سچی ہے۔”
”ہاں سب نے دیکھا ہے… سب نے دیکھا ہے، بس اللہ نے نہیں دیکھا۔ تم لوگوں کا دیکھنا نہ دیکھنا برابر ہے۔ لوگوں کے دیکھنے نہ دیکھنے سے مجھے فر ق نہیں پڑتا۔”
وہ بے ساختہ چلانے لگی تھی۔ اقصیٰ امی کو اس کے کمرے میں سے لے گئی۔ پھر کوئی اس کے کمرے میں نہیں آیا تھا۔ اسے یاد نہیں کس وقت اس کی آنکھ لگ گئی تھی اور اب صبح ہو چکی تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ وہ پردے کھینچ کر اس اندھیرے کو ختم کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے اب صرف عارفین کا انتظار تھا۔ صرف وہ تھا جو اب اس کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا تھا۔ اسے یقین تھا وہ اس پر اعتبار کرے گا وہ اسے گناہگار نہیں سمجھے گا۔
وہ اسی شام آ گیا تھا۔ تائی امی کو اس کی آمد کے بارے میں پہلے سے پتا تھا اور جو انھیں اس سے کہنا تھا، وہ سب کچھ بھی طے کر چکی تھیں۔ انھوں نے اس کا استقبال روتے ہوئے کیا تھا اور پھر آنسوؤں اور ہچکیوں کے بیچ اس پر قیامت توڑ دی تھی۔ عارفین کو یقین نہیں آیا تھا۔ وہ سانس روکے بے یقینی کے عالم میں سب کچھ سنتا رہا تھا۔ عادل گھر سے غائب تھا اور سارے ثبوت صبا کے خلاف تھے لیکن وہ ایک بار صبا سے پوچھنا چاہتا تھا۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ وہ تائی امی سے سارا قصہ سنتے ہی انہی قدموں پر صبا کے گھر آیا تھا اور صبا اسے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہونے لگا تھا۔ لیکن وہ جو کچھ اس سے پوچھنے آیا تھا اس کا تعلق دل سے نہیں تھا۔
”صبا مجھے بتاؤ۔ تم نے کیا کیا ہے؟” وہ وحشت زدہ تھا۔
”عارفین! میں نے کچھ نہیں کیا۔ یقین کرو۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ کیا میں ایسا کر سکتی ہوں؟ کیا میں تمھیں دھوکا دے سکتی ہوں۔”
”لیکن سب لوگ جو کہہ رہے ہیں وہ…”
”سب لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔” اس نے بے اختیار عارفین کی بات کاٹی تھی۔
”کیا آنکھوں دیکھی جھوٹ ہو سکتی ہے۔”
”آنکھیں کچھ نہیں دکھاتیں۔ آنکھیں تو صرف وہ دکھاتی ہیں جو ہمارا دل، ہمارا دماغ دیکھنا چاہتا ہے۔”
”صبا! آج فلاسفی مت بولو۔ آج اس زبان میں بات کرو جو میری سمجھ میں آ جائے جس سے مجھے یقین آ جائے کہ تم بے گناہ ہو۔ تم نے کچھ نہیں کیا۔”
صبا کو اس کے لہجے پر شاک لگا تھا۔ وہ دس دن پہلے کا عارفین نہیں تھا۔ وہ اس کا ساتھ دینے نہیں آیا تھا وہ اس کی پارسائی کا ثبوت لینے آیا تھا۔ اس نے پست آواز میں پورا واقعہ سنا دیا تھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر رہا۔ وہ جان گئی۔ وہ یہ آخری بازی بھی ہار چکی تھی۔
”تمہارا مطلب ہے، یہ سب میری ماں نے کروایا ہے۔ ہے نا؟”
صبا کی بات ختم ہونے پر اس نے پوچھا تھا۔ وہ چپ رہی تھی جان گئی تھی۔ یہ سوال نہیں تھا۔
”اگر تم اور عادل سچے ہو اور میری ماں جھوٹی ہے تو عادل کہاں بھاگ گیا ہے؟ کیوں بھاگ گیا ہے؟ سامنے کیوں نہیں آتا؟ اپنی بے گناہی ثابت کیوں نہیں کرتا؟” وہ چلا اٹھا۔
وہ چند لمحے کچھ نہیں بول سکی۔ ”تو تم نے بھی مان لیا کہ میں…” عارفین نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں نے کچھ نہیں مانا مگر تم مجھے اپنی بے گناہی کا ثبوت دو۔ مجھے ثبوت دو اس بات کا کہ یہ سارا منصوبہ میری ماں نے بنایا ہے اور تمہارا عادل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور تم دونوں وہاں…”
وہ بات مکمل کرنے کی بجائے اپنا سر پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔
”میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کسی بھی بات کا اور میں پھر بھی کہتی ہوں کہ میں بے قصور ہوں۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ ہاں اللہ کو پتا ہے۔ وہ جانتا ہے۔ اس سے پوچھو۔” وہ اس کی بات پر چلا اٹھا تھا۔
”خدا سے کیسے پوچھوں، میں کوئی پیغمبر ہوں؟”
”لوگ کہتے ہیں۔ اللہ دلوں میں بستا ہے۔ تم اپنے دل سے پوچھو۔”
”میں دل سے کیوں پوچھوں۔ میں تم سے کیوں نہ پوچھوں؟”
”میں سچ کہتی ہوں۔ تم کو اعتبار نہیں آتا۔ میں جھوٹ بولوں گی۔ تمھیں فوراً یقین آ جائے گا۔ تم کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تمھیں لوگوں کی باتوں پر یقین آ چکا ہے۔ مجھ سے تو صرف تصدیق چاہتے ہو۔”
وہ ہونٹ بھینچتے ہوئے اسے دیکھتا رہا پھر کھڑا ہو گیا۔
”تم چاہتی ہو ناں، اللہ سے پوچھوں، میں اللہ سے ہی ہر بات کا فیصلہ کرواؤں گا۔ قرآن لاؤں گا تمھارے سامنے۔ اس پر ہاتھ رکھ کر کہو گی کہ تم بے گناہ ہو۔ تم نے کچھ نہیں کیا۔”
”اگر فیصلہ قرآن پر ہی ہونا ہے تو اپنی ماں کو بھی لاؤ۔ پہلے ان سے کہو کہ وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ انھوں نے مجھے اور عادل کو تمھارے کمرے میں نہیں بھیجا۔ انھوں نے یہ سارا منصوبہ نہیں بنایا اور اگر وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ سب نہ کہیں تو پھر انھیں بھی صحن کے بیچوں بیچ اسی طرح جوتے سے مارا جائے جیسے تمھارے باپ نے مجھے مارا ہے۔ بولو، لاؤ گے اپنی ماں کو؟”
عارفین کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ ”لاؤں گا۔ اپنی ماں کو بھی لاؤں گا۔” وہ دروازے سے نکلنے لگا پھر جاتے جاتے رک گیا۔
”اور صبا! اگر تم جھوٹی ہوئیں تو میرا ہر رشتے، ہر چیز سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ حتیٰ کہ خدا سے بھی۔” وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
…***…
اس دن کے بعد وہ گھر میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔ ٹیوشن اس نے چھوڑ دی تھی کیونکہ حیدر کو اس بات پر اعتراض تھا کہ وہ اس کے دوست کی بہن کے گھر پڑھانے جاتی ہے اور اس کی عزت پر حرف آتا ہے۔ کسی اور جگہ اس نے ٹیوشن کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ منتظر تھی کہ عارفین اس کے نانا سے بات کریں اور اسے کچھ بتائیں مگر انھوں نے ابھی تک اسے کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ سارا دن گھر میں بے مقصد پھرتی رہتی۔ اس کا دل اب کتابیں پڑھنے میں بھی نہیں لگتا تھا۔ ایک عجیب سی بے چینی ہر وقت اس کے اعصاب پر سوار رہتی تھی۔ پھر ایک دن عارفین کی سب سے بڑی بہن نے اسے فون کیا تھا۔ اسے ان کا فون اٹینڈ کرتے ہوئے حیرت ہو رہی تھی۔
”سارہ! تم کو میں نے اپنے ہاں آنے کے لیے کہا تھا مگر تم آئی ہی نہیں۔ میں اس دن سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔”
اس کے سلام کا جواب دیتے ہی انھوں نے شکوہ کیا تھا۔ اسے ان کی بات پر خوشگوار حیرت ہوئی۔
”آنٹی! میں آنا چاہتی تھی لیکن مجھے آپ کے گھر کا پتہ نہیں ہے، اکیلے میں کیسے آ سکتی ہوں۔”
”گھر کا کیا مسئلہ ہے۔ تم حیدر سے کہو۔ وہ تمھیں چھوڑ جائے گا۔” وہ ان کی بات پر خاموش ہو گئی۔
”میں کسی دن آپ کی طرف آؤں گی۔”
”کسی دن نہیں، میں کل تمہارا انتظار کروں گی۔ تم ضرور آنا۔” انھوں نے اس قدر اصرار کیا تھا کہ اس نے ہامی بھر لی۔ رات کے کھانے پر اس نے عارفین عباس سے اس بات کا ذکر کیا تھا وہ خاموشی سے کھانا کھاتے رہے اور جب اسے یقین ہو گیا کہ انھوں نے اس کی بات سنی ہی نہیں تو وہ بول اٹھے تھے۔
”ٹھیک ہے۔ چلی جانا حیدر تمھیں چھوڑ آئے گا۔”
لیکن پاپا! مجھے تو صبح آفس جانا ہے۔ میں کیسے انھیں چھوڑنے جا سکتا ہوں؟” حیدر پانی پیتے پیتے رک گیا تھا۔
”تم آفس جاتے ہوئے اسے چھوڑ آنا اور لنچ آور میں اسے گھر چھوڑ جانا۔”
عارفین عباس نے خود ہی پروگرام سیٹ کر دیا تھا۔ حیدر خاموش ہو گیا۔ کھانا ختم کرنے کے بعد اس نے جاتے جاتے کہا تھا۔
”آپ صبح ساڑھے آٹھ بجے تیار رہیے گا۔” اس نے سرہلا دیا۔
وہ صبح ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے تیار ہو کر نیچے آ گیا تھا۔ سارہ ناشتہ سے فارغ ہو کر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ”چلیں؟” اس نے سارہ کو دیکھتے ہی پوچھا تھا۔
”آپ ناشتہ نہیں کریں گے؟”
”نہیں۔” حیدر نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ وہ اس کے پیچھے چلتی ہوئی لاؤنج کے دروازے کی طرف آ گئی۔ حیدر نے لاؤنج کا دروازہ کھولا تھا اور خود باہر نکلنے کے بجائے اسے پہلے نکلنے کا اشارہ کیا تھا۔ سارہ نے قدرے حیرت سے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔ اس کے باہر نکلنے کے بعد حیدر بھی باہر آ گیا تھا۔ سارہ لاشعوری طور پر گاڑی کے پچھلے دروازے کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی مگر حیدر نے گاڑی کے اندر بیٹھتے ہی فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تھا۔ اور بلند آواز میں کہا تھا۔
”میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ میں ڈرائیور نہیںہوں۔ میرے ساتھ اگر آپ کو کہیں جانا ہے تو آگے بیٹھنا ہوگا۔”
سارہ کچھ جھینپ کر آگے بیٹھ گئی تھی۔ چند منٹوں بعد گاڑی سڑک پر آ گئی تھی۔
”آپ کہاں جاب کرتے ہیں؟”
”ٹرینی” کے طور پر سٹی بینک میں کام کر رہا ہوں۔”
یہ واحد سوال و جواب تھا۔ جو پندرہ منٹ کے اس سفر میں دونوں کے درمیان ہوا تھا۔ پندرہ منٹ بعد گاڑی ایک پرانی لیکن وسیع عمارت کے باہر رک گئی تھی۔
”اندر جا کر دائیں طرف جو گھر ہے، وہیں پر میری دونوں پھوپھیاں رہتی ہیں۔”
حیدر نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا تھا۔ وہ اس اطلاع پر کچھ حیران ہوئی تھی۔
”دونوں پھوپھیاں؟”
”اصل میں یہ گھر میرے دادا کا ہے۔ بڑی پھوپھی کافی سال پہلے بیوہ ہو گئی تھیں اور چھوٹی پھوپھو کو ڈائیو ورس ہو گئی تھی تب سے وہ دونوں اپنے بچوں کے ساتھ یہیں رہتی ہیں۔” حیدر نے وضاحت کی تھی۔ ”لیکن اب میں اکیلے اندر کیسے جاوؑں؟” وہ کچھ نروس ہو رہی تھی۔
حیدر نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔ ”کیوں اکیلے جانے سے کیا ہو گا۔ خیر میں آپ کو اندر چھوڑ آتا ہوں۔”
اس نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا۔ سارہ بھی گاڑی سے باہر نکل آئی۔ حیدر گیٹ کی طرف بڑھا تھا اور اسے کھول دیا تھا۔ ایک بار پھر پہلے کی طرح اس نے سارہ سے آگے بڑھنے کے لیے کہا تھا۔ سارہ نے دلچسپی سے ان ایک جیسی عمارتوں کو دیکھا تھا جو اس احاطے کے چار کونوں میں ایستادہ تھیں۔ طویل لان عبور کر کے وہ داہنی جانب والی عمارت کی طرف مڑ گئے۔ اندر جاتے ہی اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی جب اس نے عارفین کی سب سے بڑی بہن کو اپنا منتظر پایا تھا۔
”عارفین نے مجھے رات کو فون کر کے بتا دیا تھا کہ تم حیدر کے ساتھ صبح آؤ گی۔ میں تب سے تمھارے انتظار میں بیٹھی ہوں۔” انھوں نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا تھا۔
”میں آپ کو لینے کے لیے ڈیڑھ بجے کے قریب آؤں گا۔” حیدر نے سارہ سے کہا تھا۔
”نہیں۔ سارہ آج نہیں جائے گی۔ وہ آج یہیں رہے گی، تم کل شام کو اسے لے جانا۔” بڑی پھوپھو نے فوراً فیصلہ سنا دیا تھا۔
”کیوں سارہ؟” حیدر نے اس سے پوچھا تھا سارہ تذبذب میں پڑ گئی۔
”نہیں آنٹی میں رات تو نہیں رہ سکتی۔” اس نے کہا تھا۔
”کیوں سارہ رات کیوں نہیں؟ تم جانتی ہو میں آج تمھیں صبا کا گھر بھی دکھاؤں گی۔”
”امی کا گھر؟” سارہ کو یقین نہیں آیا تھا۔
”ہاں تمہاری امی کا گھر۔ یہ ساتھ ہی تو ہے۔” انھوں نے سارہ کا اشتیاق بڑھا دیا تھا۔
”ٹھیک ہے۔آپ آج مجھے لینے نہ آئیں۔ میں آج یہیں رہوں گی۔” اس نے فوراً حیدر کو اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
”اچھا پھوپھو! میں اب چلتا ہوں۔” حیدر نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ارے اتنی جلدی۔ بیٹھو، چائے تو پی کر جاؤ۔” انھوں نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں پھوپھو! مجھے آفس سے دیر ہو رہی ہے۔ کل شام کو آؤں گا، تب چائے پی کر جاؤں گا۔ اس وقت نہیں۔”
وہ خدا حافظ کہہ کر چلا گیا تھا۔ وہ اس وقت چائے پی رہی تھی جب عارفین کی دوسری بہن اوپر سے آ گئی تھیں۔ وہ بھی اس سے بڑی محبت سے ملی تھیں۔ چائے پلانے کے بعد بڑی پھوپھو اسے لے کر باقی دونوں گھروں میں گئی تھیں اور کہیں بھی سارہ کو یہ نہیں لگا کہ کوئی اس کی امی سے ناراض تھا۔ ہر جگہ اس کی امی کا ذکر بڑی محبت سے کیا گیا تھا۔
”پتا نہیں امی! آپ کو یہ غلط فہمی کیوں ہو گئی تھی کہ واپس آنے پر آپ کو قبول نہیں کیا جائے گا یہاں پر تو سب آپ کی غلطی بھول چکے ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں ایک بار یہاں آ جاتیں۔” وہ بار بار یہی سوچ رہی تھی۔
”یہ مجھ سے اتنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو کیا یہ امی سے محبت نہیں کرتے ہوں گے لیکن پتا نہیں کیوں انھوں نے ایک غلط فہمی میں اپنی زندگی برباد کرلی۔” وہ اب ماں سے بدگمان ہو رہی تھی۔
دوپہر کے کھانے کے بعد بڑی پھوپھو اسے اس کی امی کے گھر لے کر گئی تھیں۔
”تمہاری نانی اور خالہ امریکہ جاتے ہوئے اس گھر کو بیچ دینا چاہتے تھے، تب ابا نے ان کو منع کر دیا۔ بعد میں… بعد میں۔”
بات کرتے کرتے پتہ نہیں کیوں پھوپھو کی زبان لڑکھڑا گئی تھی۔ ”بعد میں تمھارے نانا نے اس گھر کو بیچنے پر اصرار کیا تو عارفین نے یہ گھر خرید لیا۔ تب سے اب تک یہ بند ہے۔ وہ یہاں کسی کو رہنے دیتا ہے نہ ہی خود کبھی یہاں آتا ہے۔ اس کی چابیاں میرے پاس ہیں۔ میں ہر ہفتے اسے کھلوا کر صاف کرواتی رہتی ہوں۔”
پھوپھو نے دروازے کا تالا کھولتے ہوئے کہا تھا۔ سارہ کو گھر کے اندر داخل ہو کر عجیب سی اپنائیت اور مرعوبیت کا احساس ہوا تھا۔
”تو امی یہاں رہتی تھیں اور یہ سب کچھ چھوڑ کر انھوں نے اس جھونپڑی کا انتخاب کیسے کر لیا تھا؟ کیا ان کو کبھی ان آسائشوں کا خیال نہیں آیا؟”
اس نے دیواروں پر لگی پینٹنگز پر نظر دوڑاتے ہوئے سوچا تھا پھوپھو ایک اور کمرے کا دروازہ کھول رہی تھیں۔
”یہ تمہاری امی کا کمرہ ہے۔” انھوں نے دروازہ کھول کر اسے بتایا تھا۔ وہ ایک عجیب سے اشتیاق میں تیزی سے اس کمرے کی طرف آئی تھی۔ کمرے میں تاریکی تھی۔ پھوپھو نے اندر داخل ہو کر پردے ہٹا دیے۔ کمرہ یکدم روشن ہو گیا تھا۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تھی۔ جو پہلی چیز اس کی نظر میں آئی تھی وہ ایک بہت بڑی وزنی سی اسٹڈی ٹیبل اور اس کے پاس دیوار پر لگے ہوئے ریکس پر کتابوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں۔ وہ کچھ بے اختیار سی ہو کر کتابوں کی طرف گئی تھی اور کتابوں پر ایک نظر ڈالتے ہی اس نے مڑ کر پھوپھو سے پوچھا تھا۔
”امی نے کتنی تعلیم حاصل کی تھی؟”
”وہ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ انگلش میں ایم۔ اے کر رہی تھی پھر بس… بس اس نے چھوڑ دیا۔”
پھوپھو یکدم کچھ افسردہ ہو گئی تھیں اور اس کے سر پر جیسے کوئی پہاڑ آن گرا تھا۔ ”ایم۔ اے انگلش اور ساری عمر وہ ایک فیکٹری میں دوہزار روپے کے عوض پیکنگ کا کام کرتی رہیں۔ آخر کیوں؟”
اس کی الجھن بڑھتی جا رہی تھی۔ جب وہ اپنی امی کو فرنچ بولتے سنتی تھی تو اس کا خیال تھا کہ انھوں نے اپنے کسی رشتہ دار سے یہ زبان سیکھی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ پڑھی لکھی ہیں لیکن ان کے حلیے سے اسے کبھی بھی اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کبھی یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں گی۔ ریکس میں ہر طرح کی کتابیں تھیں۔ شیکسپیئر کے ڈراموں سے لے کر وارث شاہ کی ہیر تک، ہارڈی کے ٹیس سے لے کر موپاساں کی کہانیوں تک، وہاں ہر قسم کی کتاب تھی۔ وہ کچھ افسردگی سے کتابوں کو دیکھتی رہی۔
”امی نے یونیورسٹی کیوں چھوڑ دی؟” ایک بار پھر اس نے مڑ کر پھوپھو سے سوال کیا تھا۔ انھوں نے اس سے نظریں چرا لیں۔
”پتا نہیں۔” اسے اپنے سوال کا جواب خود ہی مل گیا تھا۔
”وہاں ان کی ملاقات میرے ابو سے ہو گئی ہوگی اور پھر انھوں نے سب کچھ چھوڑ دیا۔” اس نے سوچا تھا۔
وہ اسٹڈی ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی تھی۔ اسٹڈی ٹیبل پر گرد کی ہلکی ہلکی تہہ تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اسے صاف کرنے کی کوشش کی۔ پھر اس نے اسٹڈی ٹیبل کے دراز کھولنا شروع کر دیے تھے۔ وہ لاکڈ نہیں تھے۔ ان کے اندر کارڈز اور خطوط کا ایک ڈھیر تھا۔
”پھوپھو! آپ اگر جانا چاہتی ہیں تو چلی جائیں میں یہاں ٹھہرنا چاہتی ہوں۔” اس نے ان سے کہا تھا۔
وہ کچھ ہچکچائی تھیں۔ ”تمھیں اکیلے یہاں ڈر نہیں لگے گا؟” انھوں نے پوچھا تھا۔
”ڈر کس بات کا؟” اس نے حیرانی سے پوچھا تھا۔ پھوپھو کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا تھا۔ ”ہاں اب کس کا ڈر ہوگا۔”
وہ بڑبڑائی تھیں اور کمرے سے نکل گئی تھیں۔ وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں انھیں جاتا دیکھتی رہی۔
پھر وہ دوبارہ خطوط اور کارڈز کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔ زیادہ تر کارڈز اور خطوط فرنچ میں لکھے ہوئے تھے اور وہ لکھنے والے کا نام پڑھ کر چند لمحوں کے لیے ساکت ہو گئی تھی۔ وہ خطوط اور کارڈز عارفین عباس نے لکھے تھے۔ امی نے فرنچ کس سے اور کس کے لیے سیکھی ہو گی۔ عارفین عباس سے ملنے کے بعد یہ راز اس کے لیے راز نہیں رہا تھا مگر اسے یہ توقع نہیں تھی کہ ان دونوں کے درمیان باقاعدہ خط و کتابت بھی ہوتی ہوگی۔ اس نے ایک خط پڑھنا شروع کیا تھا۔ کاغذ انتہائی بوسیدہ ہو چکا تھا اور بعض جگہ پر سیاہی بھی غائب ہو چکی تھی، باری باری اس نے سارے خطوط پڑھنا شروع کر دیے۔ ایک خط کی کچھ لائنیں پڑھ کر وہ ساکت ہو گئی تھی۔
”تم نے اپنے خط میں جو لکھا ہے بالکل ٹھیک لکھا ہے۔ میں بھی رخصتی پر نکاح جیسا ہنگامہ نہیں چاہتا۔ پتہ نہیں ہمارے یہاں شادی جیسے ذاتی معاملہ کو اتنا بڑا ہنگامہ اور تماشا کیوں بنا دیا جاتا ہے۔ بہرحال تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ دسمبر میں جب رخصتی کروانے کے لیے پاکستان آؤں گا تو گھر والوں کو مجبور کروں گا کہ وہ مایوں اور مہندی جیسی رسموں پر وقت ضائع نہ کریں۔ میں جانتا ہوں، تم بھی اپنے گھر والوں کو اس بات پر راضی کر لو گی۔”
”اوہ خدایا! یہ سب کیا ہے؟” وہ بے اختیار سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔
”کیا عارفین انکل کے ساتھ امی کا نکاح ہوا تھا پھر میرے ابو بیچ میں کہاں سے آ گئے؟” اس نے خط پر تاریخ دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ وہ خط اس کی پیدائش سے ڈیڑھ سال پہلے لکھا گیا تھا۔
”کیا امی نے نکاح ہو جانے کے باوجود عارفین انکل کے ساتھ دھوکا کیا تھا؟”
وہ کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ یک دم اس کا دل وہاں سے اچاٹ ہو گیا تھا۔ اس نے وہ خطوط اپنے بیگ میں بھر لیے۔ کارڈز کو دیکھتے ہوئے وہ پھر چونک گئی تھی۔ اب شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔ کچھ کارڈز عارفین عباس نے اس کی امی کو نکاح کے دن کی مبارکباد دینے کے لیے بھیجے تھے۔ اس نے ان کارڈز کو بھی بیگ میں ڈال لیا۔ ماں سے اس کی بدگمانی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے باقی کارڈز کو دراز میں رکھ دیا اور دراز بند کر کے باہر نکل آئی۔ پھوپھو وہاں نہیں تھیں۔ شاید وہ اپنے گھر چلی گئی تھیں۔ اس نے بیرونی دروازے کو احتیاط سے بند کر دیا اور پھوپھو کے گھر کی طرف چل پڑی۔
شام تک وہ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ پھوپھو کے پاس بیٹھی ان کی باتیں سنتی رہی۔ پانچ بجے خلاف توقع حیدر آ گیا۔ اس کا موڈ بگڑا ہوا تھا۔
”پاپا ناراض ہو رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں سارہ کو فوراً لے کر آؤں۔” اس نے آتے ہی پھوپھو سے کہا تھا۔
”لیکن وہ تو یہاں رات رکے گی۔”
”آپ رات کی بات کر رہی ہیں۔ وہ تو اس بات پر مجھ پر بگڑ رہے ہیں کہ میں لنچ آور میں ان کی ہدایت کے مطابق سارہ کو واپس کیوں نہیں لے کر آیا۔”
”تم نے انھیں بتانا تھا کہ سارہ خود یہاں رہنے پر تیار ہے۔”
”پھوپھو! آپ کو پتا ہے پاپا کے غصے کا، جب وہ غصے میں ہوتے ہیں تو کسی کی بات کہاں سنتے ہیں۔ انھوں نے تو میری اتنی انسلٹ کی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے کس کی اجازت سے اسے وہاں رات رکنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ مجھے یہ حق کس نے دیا ہے، میں نے ان سے کہا بھی کہ وہ محترمہ خود تیار ہوئی تھیں رات گزارنے کے لیے مگر ان کا پارہ نیچے نہیں آیا۔ اب برائے مہربانی مس سارہ! آپ چلیں۔”
وہ بڑی بے زاری سے اس سے کہہ رہا تھا۔ سارہ کچھ شرمندگی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
”تم آتی جاتی رہنا۔ اب تو تمھیں گھر کا بھی پتہ چل گیا ہے۔”
پھوپھو نے اسے لپٹاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ بجھے دل سے حیدر کے ساتھ چل پڑی۔ حیدر کا موڈ بری طرح آف تھا۔ وہ گھر آتے ہی سیدھا اوپر چلا گیا اور دوبارہ کھانا کھانے بھی نیچے نہیں آیا۔
عارفین عباس نے اسے کچھ نہیں کہا تھا مگر ان کے چہرے کے تاثرات سے وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ اس سے بھی زیادہ خوش نہیں ہیں۔ بڑی بے دلی سے اس نے ان کے ساتھ کھانا کھایا تھا اور پھر اپنے کمرے میں آ گئی۔ کمرے میں آتے ہی اس نے اپنے بیگ میں سے وہ خطوط اور کارڈز نکال لیے اور ایک بار پھر سے انھیں پڑھنے لگی۔
…***…




Loading

Read Previous

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Read Next

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!