میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

صبا کو یقین تھا۔ تائی کبھی قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ نہیں بولیں گی۔ عارفین اپنے ماں اور باپ کو لے آیا تھا۔ دوسرے دونوں تایا بھی آ گئے تھے۔ صبا کے کمرے میں کبھی اتنے لوگ نہیں آئے تھے۔ ہر چہرہ تناؤ سے دوچار تھا۔ وہ اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی تھی۔ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اس نے وضو کیا تھا۔ پھر چہرہ اور آنکھیں خشک کر کے وہ کمرے میں آ گئی تھی۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی، یوں جیسے سب لوگ قوت گویائی سے محروم ہو چکے تھے۔ اسے عارفین پر ترس آنے لگا تھا۔
”جب اس کی ماں قرآن پاک پر ہاتھ نہیں رکھے گی تو عارفین کا کیا حال ہوگا۔ وہ کیا کرے گا؟”
اس نے عارفین کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا پھر اس نے تائی کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔ ان کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، وہ بس سر جھکائے ہوئے بیٹھی تھیں۔ عارفین نے اقصیٰ کو قرآن پاک لانے کے لیے کہا تھا۔ صبا نے اپنی امی کو دیکھا وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ آنکھیں بند کیے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہی تھیں۔ اقصیٰ قرآن پاک لے آئی تھی۔ عارفین نے قرآن پاک ہاتھ میں لے لیا تھا۔ وہ اپنی ماں کی طرف گیا تھا۔
”امی! آپ قرآن پاک ہاتھ میں لے کر کہیں کہ آپ نے صبا اور عادل کے خلاف کوئی منصوبہ نہیں بنایا اور نہ ہی کل رات ان دونوں کو میرے کمرے میں بھیجا تھا۔”
عارفین نے قرآن پاک ماں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔ صبا کے دل کی حرکت تیز ہو گئی پھر اس کا سانس رک گیا تھا۔ تائی امی قرآن پاک ہاتھ میں لے رہی تھیں۔ اس نے بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھا پھر اس نے ان کو وہی کلمات دہراتے ہوئے سنا جو عارفین نے کہے تھے انھوں نے ایک بار نہیں تین بار جھکے ہوئے سر کے ساتھ وہی کلمات دہرائے تھے۔
”اللہ!” صبا کو لگا تھا کسی نے اس کے دل میں نیزہ گاڑ دیا تھا۔ اسے یقین تھا وہ کبھی قرآن پاک ہاتھ میں لے کر جھوٹ نہیں بولیں گی۔ اس کا یقین باطل ثابت ہوا تھا۔ اسے ان پر یقین نہیں تھا اسے قرآن پر یقین تھا۔
”کیا کوئی قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ بولنے کی ہمت کر سکتا ہے؟” اس نے سوچا تھا۔ ”اور اب میں بھی قرآن پاک ہاتھ میں لے کر سچ بولوں گی اور اس کمرے میں موجود ہر شخص سوچے گا دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے اور اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر بھی جھوٹ ہی بولا ہے۔”
عارفین نے تائی امی سے قرآن لے لیا تھا۔ اب وہ اس کی طرف آ رہا تھا۔ ہر نظر اب اس پر جمی تھی۔ وہ رکے ہوئے سانس کے ساتھ اپنی طرف آتے دیکھتی رہی۔ عارفین کا چہرہ ستا ہوا تھا۔
صبا نے تائی امی کا چہرہ دیکھا۔ کوئی ملال، کوئی رنج، کوئی پچھتاوا، اس چہرے پر کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا۔ وہاں بے چینی تھی، آنسو تھے، امید تھی، اقصیٰ دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ عارفین اس کے پاس آ گیا۔
”صبا! اب تم قرآن پاک ہاتھ میں لے کر کہو کہ تم بے گناہ ہو۔ عادل کے ساتھ وہاں اپنی مرضی سے نہیں گئی تھیں۔”
اس نے قرآن پاک صبا کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے عارفین کا چہرہ دیکھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ عارفین نے نظر چرا لی۔
”یہ لو قرآن پاک۔” اس نے کہا تھا۔ صبا نے سر جھکا دیا اس نے ہاتھ آگے نہیں بڑھائے عارفین کا سانس رک گیا۔
”صبا! قرآن پاک پکڑو۔” اس نے ایک بار پھر بے تابی سے کہا تھا۔ صبا نے سر اٹھایا تھا، نہ ہاتھ بڑھائے تھے۔





”صبا!” امی کے حلق سے چیخ نکلی تھی۔ اقصیٰ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تائی امی دم بخود اسے دیکھ رہی تھیں۔ عارفین تھکے قدموں کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اس نے قرآن پاک اس کی اسٹڈی ٹیبل پر رکھ دیا۔ صبا کی امی اور اقصیٰ روتے ہوئے کمرے سے نکل گئی تھیں۔ دونوں تایا بھی اٹھ کر کمرے سے چلے گئے تھے۔ صبا نے سر اٹھایا تھا۔
”عارفین! مجھے تم سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے نہ میں آئندہ تم سے کوئی مطالبہ کروں گی۔ بس مجھے اپنا نام دے دو، مجھے طلاق مت دینا۔ تم دوسری شادی کر لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
”تمھیں نام کی کیا ضرورت ہے؟” وہ غرایا تھا۔
”عارفین، مجھ پر رحم کرو۔”
”تم نے مجھ پر رحم کیا تھا؟ بتاؤ تم نے مجھ پر ترس کھایا؟ پھر میں رحم کیسے کر سکتا ہوں؟ صبا کریم! میں عارفین عباس علی بقائمی ہوش و حواس تمھیں تین بار طلاق دیتا ہوں۔”
وہ کمرے سے نکل گیا تھا۔ تائی امی اور تایا بھی اس کے پیچھے چلے گئے تھے۔ وہ ساکت اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔
”صبا کریم! میں عارفین عباس علی بقائمی ہوش و حواس تمھیں تین بار طلاق دیتا ہوں۔”
آواز ایک بار پھر اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسٹڈی ٹیبل کے پاس آ گئی۔ بڑی احتیاط سے اس نے قرآن پاک اٹھایا تھا۔
”کسی نہ کسی کو تو قرآن کی حرمت کا پاس رکھنا تھا پھر اگر لوگ مجھے ترک کر دیتے ہیں تو اس پر میرا اختیار نہیں۔” وہ قرآن کو سینے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
…***…
”انکل! مجھے آپ سے ایک بات کہنا ہے۔” اس دن اس نے ناشتے کی میز پر عارفین سے کہا تھا۔ ”کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں اپنی امی کے گھر میں رہوں۔ وہ گھر خالی ہے پھر اس طرح آپ کو بھی یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ میں کہیں اکیلی رہ رہی ہوں کیونکہ پاس ہی پھوپھو اور دوسرے لوگوں کے گھر ہیں۔”
عارفین اس کی بات پر حیران رہ گئے تھے۔ ”سارہ! تم کس طرح کی باتیں سوچتی رہتی ہو؟ اگر تم وہاں سے ہو آئی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم وہاں مستقل رہنے کے بارے میں سوچنے لگو۔ آخر تمھیں اس گھر میں کیا کمی ہے؟ تم یہاں خوش کیوں نہیں ہو؟” انھوں نے ناشتہ چھوڑ دیا تھا۔
”بات خوشی یا ناخوشی کی ہے تو پھر مجھے امی کے گھر میں رہ کر زیادہ خوشی ہوگی۔ اور پھر وہ بھی آپ ہی کا گھر ہے۔ میں آپ کے ہی گھر میں رہوں گی، چاہے یہاں یا وہاں۔”
”لیکن مجھے تمہارا وہاں رہنا پسند نہیں ہے اور نہ ہی میں تمھیں اس کی اجازت دوں گا۔ اگر صبا زندہ ہوتی تو وہ بھی تمھیں کبھی اس گھر میں جانے نہ دیتی۔”
وہ ان کی بات پر جھنجلا گئی تھی۔ ”کیوں آخر وہ کیوں مجھے وہاں جانے نہ دیتیں؟ ایسی کیا بات ہوئی ہے وہاں؟ ایسا کون سا کام کر دیا ہے انھوں نے کہ وہ دوبارہ کبھی اپنے گھر واپس ہی نہیں آئیں؟ حالانکہ انھیں آنا چاہیے تھا۔ انھیں دیکھنا چاہیے تھا کہ سب لوگ ان کی غلطی کو بھلا چکے ہیں انھیں معاف کر چکے ہیں۔ خاندان کی مرضی کے خلاف شادی نامناسب بات سہی لیکن اتنا بڑا جرم نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنے خاندان سے کٹ کر رہ جاتیں۔ انھوں نے ساری عمر مجھے بھی تنہائی کے عذاب سے دوچار رکھا لیکن اب میں سب سے ملنا چاہتی ہوں، سب کے پاس جانا چاہتی ہوں۔”
وہ پہلی بار اس طرح جذباتی ہو کر بولی تھی۔ حیدر کو اس پر ترس آیا تھا۔
”پاپا! میرا خیال ہے کہ یہ اگر اپنی امی کے گھر جانا چاہتی ہیں تو یہ کوئی ایسی نامناسب بات نہیں بلکہ میرا خیال ہے، یہاں کے بجائے ان کا وہاں رہنا زیادہ بہتر ہے۔”
”وہ اس کی حمایت میں بولا تھا مگر عارفین عباس نے اسے بری طرح جھڑک دیا۔
You must keep your mouth shut. It is none of you business.
(تم اپنا منہ بند رکھو، تمہارا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔)
حیدر کو توقع نہیں تھی کہ وہ سارہ کے سامنے اس طرح اسے جھڑک دیں گے۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ ناشتہ چھوڑ کر چلا گیا۔
”آپ مجھے بتائیں۔ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟” سارہ ہنوز اپنی بات پر قائم تھی۔
”سارہ! صبا کبھی بھی اتنی معمولی سی بات پر اس طرح ضد نہیں کرتی تھی جس طرح تم کر رہی ہو۔” عارفین نے اس سے کہا تھا۔ اس نے عجیب سی نظروں سے ان کو دیکھا تھا۔
”مگر میں بہت سے ایسے کام نہیں کروں گی جو امی نے کیے۔” وہ اس کی بات پر چونک گئے تھے۔ سارہ نے ان کے چہرے سے نظر ہٹا لی۔
”نہیں سارہ! میں تمھیں اس گھر میں کبھی رہنے نہیں دوں گا۔” انھوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”ٹھیک ہے پھر آپ میرے نانا سے بات کریں۔ میں ان کے پاس جانا چاہتی ہوں۔” عارفین بے بسی سے اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئے تھے۔ وہ پہلی دفعہ اسے یوں ضد کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
”ٹھیک ہے میں تمھارے نانا سے بات کروں گا۔”
”آپ مجھے بتائیں کہ آپ کب بات کریں گے؟”
”چند دن تک۔” وہ بے دلی سے کہہ کر ناشتے کی میز سے اٹھ گئے تھے۔
تین دن بعد ایک رات انھوں نے اسے اپنے کمرے میں بلوایا تھا۔
”میں نے تمہاری خالہ سے بات کی ہے۔ تھوڑی دیر میں آپریٹر دوبارہ کال ملا دے گا۔ تم ان سے بات کر لینا۔”
اسے دیکھتے ہی انھوں نے کہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن یکدم تیز ہو گئی تھی۔ پھر فون کی بیل بجنے لگی تھی۔ عارفین نے فون اٹھایا تھا اور پھر اسے تھما دیا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ریسیور پکڑا تھا۔ چند لمحوں بعد اس نے کسی عورت کی آواز سنی۔
”ہیلو سارہ!”
”ہیلو۔” اس نے ایک لفظ کہا تھا اور یکدم دوسری طرف سے ہچکیوں کی آوازیں آنے لگی تھیں۔
”میں تمہاری اقصیٰ خالہ ہوں۔ تم کیسی ہو؟” وہ عورت روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ سارہ کا دل بھر آیا۔
”میں ٹھیک ہوں۔”
”سارہ میرا دل چاہ رہا ہے، تم میرے پاس ہوتیں اور میں تمھیں گلے لگا کر اتنا پیار کرتی۔ اتنا پیار کرتی…” کسی نے اقصیٰ خالہ کے ہاتھ سے فون لے لیا تھا اور کوئی انھیں چپ ہو جانے کی تلقین کر رہا تھا۔ پھر اس نے فون پر کسی مرد کی آواز سنی۔
”سارہ! میں تمہارا ماموں ہوں۔ دیکھو تم پریشان مت ہونا نہ ہی کوئی فکر کرنا۔ چند دنوں تک تمہاری اقصیٰ خالہ پاکستان آئیں گی۔ تمھارے کاغذات وغیرہ تیار کروا کر وہ تمھیں اپنے ساتھ امریکہ لے آئیں گی۔”
بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں انھوں نے اس سے کہا تھا۔ کسی نے اس کی امی کا ذکر کیا تھا نہ ان کی کسی غلطی کا۔ وہ شاید سب کچھ بھلا چکے تھے۔ چند منٹ وہ اس سے گفتگو کرتے رہے تھے پھر انھوں نے اسے خدا حافظ کہا تھا۔ اقصیٰ خالہ ابھی بھی رو رہی تھیں۔ عظیم ماموں نے فون ان کے ہاتھ میں تھما دیا تھا اور انھوں نے اسی طرح روتے ہوئے اسے اپنا خیال رکھنے کی ہدایت کر کے فون بند کر دیا تھا۔
”اقصیٰ خالہ کچھ دنوں بعد پاکستان آئیں گی اور پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گی۔”
اس نے فون کا ریسیور رکھتے ہوئے عارفین عباس کو بتایا تھا۔ ان کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا تھا۔
”سارہ کیا تم چلی جاؤ گی؟” انھوں نے بے چینی سے اس سے پوچھا تھا۔
”انکل! میں یہاں نہیں رہ سکتی ہوں۔ مجھے اپنی Roots (بنیاد) کی طرف جانا ہے۔ وہ سب میرے اپنے ہیں، مجھے ان کی ضرورت ہے۔” اس نے دھیمی آواز میں ان سے کہا تھا۔
”تم جانتی ہو، صبا تمھیں میرے پاس رکھنا چاہتی تھی؟”
”میں جانتی ہوں لیکن امی کو یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ ان کے گھر والے مجھے قبول کر لیں گے۔ وہ امی کی ہر غلطی کو معاف…”
”سارہ اتنی جلدی نتائج اخذ مت کرو۔ تم جو کچھ سمجھ رہی ہو، وہ سب غلط ہے۔” عارفین عباس نے اس کی بات کاٹ دی۔
”پھر آپ مجھے بتائیں۔ حقیقت کیا ہے؟” اس نے ان سے پوچھا تھا۔
وہ بے قراری سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ اسے ان پر بے تحاشا ترس آیا۔
”میں جانتی ہوں۔ آپ کیا چھپانا چاہتے ہیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کا دل کتنا بڑا ہے لیکن میں دائمی گھاؤ کی طرح آپ کے پاس رہنا نہیں چاہتی۔ میں چلی جاؤں گی تو آپ آہستہ آہستہ نارمل ہو جائیں گے۔ باقی زندگی آپ کے اور میرے لیے آسان ہو جائے گی۔ میں یہاں رہوں گی تو نہ آپ ماضی بھول سکیں گے نہ میں اپنی حیثیت۔ مجھے آپ سے محبت ہے عارفین انکل! اسی لیے میں آپ کو ہر اس ذمہ داری سے آزاد کر دینا چاہتی ہوں جو آئندہ کبھی آپ کو حیدر اور اس کے بیوی بچوں کی نظر میں شرمندہ کرے۔”
سارہ نے دل میں سوچا تھا پھر وہ نم آنکھوں کے ساتھ کمرے سے چلی گئی تھی۔
…***…
عادل اس رات کے بعد دوبارہ لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ اس کے ماں باپ نے ہر جگہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر اس کا کوئی پتا نہیں چلا تھا۔ سرمد کی شادی بڑی سادگی اور افسردگی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ سرمد کی شادی کے دوسرے دن تایا نے صبا کی امی کو ایک جگہ اس کا رشتہ طے کرنے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کی امی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
”اس شخص کی عمر پینتالیس پچاس کے لگ بھگ ہے اور اس کی پہلی بیوی چند ماہ پہلے فوت ہوئی ہے۔ اس کے چھ بچے ہیں۔ ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا ہے، میں جانتا ہوں یہ کوئی اچھا رشتہ نہیں ہے۔ مگر جو کچھ تمہاری بیٹی کر چکی ہے اب وہ کسی اچھے گھرانے میں بیاہے جانے کے قابل رہی بھی نہیں۔ میں نے اس شخص کو صبا کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔ تم جانتی ہو مجھے کسی کو دھوکے میں رکھنا نہیں آتا، وہ شخص تمہاری بیٹی کو پھر بھی قبول کرنے پر تیار ہے۔ تم دعا کرو کہ تمہاری بیٹی اس کے گھر بس جائے۔”
تایا ابا نے صبا کی امی سے کہا تھا۔ وہ منہ پر دوپٹہ رکھ کر رونے لگی تھیں۔
تیسرے روز شام کو تایا اپنے ساتھ اس شخص اور قاضی اور گواہوں کو لائے تھے۔ صبا چیخی چلائی تھی نہ اس نے مزاحمت کی تھی۔ طوفان گزر جانے کے بعد والی خاموشی اور سکون کے ساتھ اس نے نکاح نامے پر دستخط کر دیے تھے۔ پھر اسی خاموشی کے ساتھ اس نے وہ لباس پہن لیا تھا جو امی اس کے کمرے میں چھوڑ کر گئی تھیں۔
امی نے اس سے کہا تھا ”تم آج آخری دن اس گھر میں ہو، یہاں سے جو کچھ لینا چاہتی ہو لے لو، دوبارہ کبھی تمھیں یہاں نہیں آنا ہے تم ہمارے لیے مر گئیں اور ہم تمھارے لیے مر گئے۔”
”میں واقعی آج مر گئی ہوں اور مرنے والے اپنے ساتھ کچھ لے کر نہیں جایا کرتے۔ ان کی چیزیں خیرات کر دی جاتی ہیں۔ آپ بھی میرا سب کچھ اللہ کے نام پر خیرات کر دیجئے گا جیسے آپ نے مجھے کیا ہے۔”
اس نے اسی سکون سے اپنی ماں سے کہا تھا اور پھر واقعی وہ کچھ لے کر نہیں گئی تھی سوائے ان تین کپڑوں کے جو اس کے جسم پر تھے۔ وہ اپنے کمرے کی ہر چیز اسی طرح کھلی چھوڑ گئی تھی جیسے وہ پہلے پڑی ہوئی تھی۔
عارفین کو اس کی شادی کی خبر ہو گئی تھی مگر اس نے کچھ نہیں کہا تھا کہنے کو اب باقی رہ بھی کیا گیا تھا۔
”تم فکر نہ کرو عارفین! تم دیکھنا، میں تمھارے لیے کیسی پری ڈھونڈتی ہوں۔” تائی امی نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں امی! مجھے اب پریوں کی ضرورت نہیں رہی آپ میرے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں۔”
”لو تم اب اس کے لیے کیا جوگ لے کر بیٹھو گے، کیا تم شادی ہی نہیں کرو گے؟”
”میں نے کب کہا کہ میں جوگ لے کر بیٹھوں گا یا میں شادی نہیں کروں گا، میں شادی ضرور کروں گا لیکن اپنی مرضی سے۔ آپ کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے رکھائی سے ماں سے کہا تھا۔
”کیا ابھی بھی مرضی کی شادی کا بھوت سر سے نہیں اترا، دیکھ تو لیا ہے ایسے رشتوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔”
تائی امی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ وہ خاموش رہا تھا، وہ بحث نہیں کرنا چاہتا تھا، جانتا تھا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں جس کی بنا پر وہ بحث کر سکے۔
چند دنوں کے بعد وہ واپس فرانس چلا گیا۔ دو ماہ بعد اس نے تایا کو اپنی شادی کی تصویروں کے ساتھ شادی کی اطلاع دی تھی۔ پورا خاندان سکتے میں آ گیا تھا، ان کے خاندان میں پہلی بار کسی نے غیر ملکی عورت سے شادی کی تھی۔ ٹریسی اس کے ساتھ اسی پاکستانی بینک میں کام کرتی تھی۔ جس میں وہ کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ اس کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتی ہے۔ اس نے کچھ عرصہ اس سے ملاقاتیں کرتے رہنے کے بعد اسے پروپوز کر دیا تھا۔ ٹریسی نے فوراً اس کا پرپوزل قبول کر لیا تھا۔ شادی سے پہلے اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور عارفین نے اس کا نام اسماء رکھا تھا۔ اس نے اسماء کو صبا کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ اسے اپنے ماضی کے بارے میں کسی دھوکے میں رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اسماء اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی۔ عارفین اپنے انتخاب سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ حیدر کی پیدائش فرانس ہی میں ہوئی تھی اور حیدر کی پیدائش کے بعد اسماء نے جاب چھوڑ دی تھی۔
عارفین کی شادی کے بعد دوسرا دھچکا تائی اور تایا کو تب لگا تھا جب عارفین کی شادی کے ایک ماہ بعد ان کی سب سے بڑی بیٹی اپنے چاروں بچوں کے ساتھ بیوہ ہو کر ان کے در پر آ گئی تھیں۔
تائی امی بالکل گم صم ہو کر رہ گئی تھیں۔ اب انھیں بہت کچھ یاد آنے لگا تھا۔ ان کی راتوں کی نیند غائب ہو گئی تھی۔ وہ ساری ساری رات بیٹھی پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہتیں۔
بڑی بیٹی کے بیوہ ہونے کے چار ماہ بعد ان کی دوسری بیٹی بھی طلاق لے کر ان کے گھر آ گئی تھی۔ اس کے شوہر نے کسی طوائف سے شادی کر لی تھی اور اس کے کہنے پر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔
تایا کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ ان کا غصہ یکدم ختم ہو گیا تھا اور تائی امی۔ تائی امی اب سارا دن عبادت میں مصروف رہتی تھیں وہ کیا پڑھتی تھیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ کیا مانگتی تھیں۔ اللہ خوب جانتا تھا۔
صبا کی شادی کے چھ ماہ بعد اس کی امی اور بہن بھائی امریکہ چلے گئے تھے ان کے لیے اس رسوائی کا سامنا کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا جو صبا کی وجہ سے ہوئی تھی۔ صبا کی امی کو اب اقصیٰ کی شادی کرنا تھی اور وہ جانتی تھیں خاندان میں کوئی اس کا رشتہ نہیں لے گا۔ صبا کے ابو نے ان سب کو اپنے پاس بلا لیا تھا۔
…***…




Loading

Read Previous

عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

Read Next

محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!