موسمِ گُل — عاصمہ عزیز

”حیدر صاحب کی پراپرٹی میں سے یہ رہا آپ کا آدھا حصہ’۔’وکیل صاحب کی آواز نے اسے سوچوں کے صحرا سے باہر نکا لا۔
”آدھا حصہ …کیوں؟ اس نے سوالیہ انداز میں انہیں دیکھا۔ان کے ساتھ بیٹھا عرشمان علی بھی اس کی لاعلمی پر مسکرایا۔
”اسلام کے قانونِ وراثت کے مطابق کسی شخص کی ایک ہی بیٹی ہو تو اُسے آدھاحصہ ملتا ہے، چھٹا حصہ ماں کو اور چھٹا حصہ باپ کو جب کہ باقی کا چھٹا حصہ میت کے قریب ترین مرد رشتہ دار کو جاتا ہے۔
جبکہ ایک تہائی مال میں سے وصیت کرنے کی اجازت ہے۔ اس سے زیادہ کوئی کرنا چاہ رہا ہو تو اسے روکنے کا حکم ہے۔” وکیل صاحب نے فائل پر سے نظریں اٹھائے بغیر رسانیت سے اسے بتایا۔




”پھر وصیت کس لئے کی جاتی ہے انکل؟ جب تمام رشتہ داروں کو ان کا شرعی حق دے دیا جائے تو پھر وصیت کس لئے ہوتی ہے؟” اس کا انداز معصومانہ ہی تھا۔
وکیل صاحب نرمی سے مسکرائے پھر فائل بند کرتے ہوئے گویا ہوئے۔
”وصیت کا مطلب ہے کسی شخص پر ذمہ داری ڈالنا۔ شفقت اور ہم دردی کے ساتھ۔ اولاد وارثوں میں سے ہے اور وارثوں کے لئے خود وصیت نہیں کی جاسکتی اس کے لئے اﷲ نے وصیت کردی ہے۔
اﷲ نے وارثت کی تقسیم کا قانون بتا کے ہر انسان کو اس کا حق دلوادیا تاکہ دولت صرف چند ہاتھوں میں نہ رہے۔ جہاں تک وصیت کی بات ہے، تو وارثوں کے علاوہ ایک تہائی مال کی وصیت کرنے کی اجازت ہے۔زیادہ کرنے سے بھی روکا گیا ہے تاکہ انسان اپنے وارثوں کو محروم نہ کردے۔
اگر آج دیکھا جائے تو وارثت کے مال کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے خاندانوں میں فساد پیدا ہورہے ہیں۔کہیں بہنوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا، تو کہیں بھائی اپنے سگے بھائی کا مال ہتھیانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ وراثت کا لفظ ”ارث” سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کسی شخص کی چیز کا بغیر کسی معاہدے کے دوسرے کی طرف منتقل ہونا۔ اگر ہر شخص کو اس کا حق دے دیا جائے تو وہ کسی دوسرے کا مال لینے کے لیے غلط راستے کا انتخاب نہ کرے۔” وکیل صاحب بول رہے تھے اور وہ دونوں چپ چاپ انہیں دیکھ رہے تھے۔
”بات تو ٹھیک ہے آپ کی وکیل صاحب! لیکن بعض انسان مزیدسے مزید تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔
وہ اپنا حق لینے کے بعد بھی کسی دوسرے کا حق مارنے سے نہیں چوکتے۔”اتنی دیر سے خاموش بیٹھے عرشمان علی نے لب کھولے تھے۔
”جو اپنے مقدر پر قانع نہیں رہتے اور مزید سے مزید تر کی تلاش میں رہتے ہیں وہ اپنی دنیا بھی خراب کرتے ہیں اور آخرت بھی۔” وکیل صاحب نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
ان دونوں کے جانے کے بعد وہ بیڈ سے اٹھی اور اپنے کئی دنوں سے پہنے ہوئے کپڑوں کی سلوٹوں کو ہاتھوں سے درست کرتے ہوئے ٹی وی لائونج میں چلی آئی جہاں چچا شاہ نواز اور چچی پہلے سے موجود تھے۔
”آئو بیٹا! ادھر بیٹھو۔” شاہ نواز شاہ نے اپنے ساتھ والے صوفے کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”کالج کب جانے کا ارادہ ہے آپ کا۔”
”پتا نہیں چچا!” اس نے گود میں دھر ے ہاتھوں پر نظریں جمائے افسردگی سے کہا۔ بابا کی یاد میں آنسو آنکھوں سے ٹپکنے کو آج کل بے تاب رہتے تھے۔ اس وقت بھی یہی ہواتھا۔
”بری بات بیٹا! روتے نہیں ہیں۔” انہوں نے اسے چھوٹے بچوں کی طرح بہلاتے ہوئے کہا۔ آج پہلی دفعہ ان کے لہجے میں خلوص کی جھلک تھی۔
”زندگی چلتے رہنے کانام ہے ۔جانے والوں کے ساتھ زندگی رُک نہیں جاتی بلکہ اچھے لوگ ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہتے ہیںاور حیدر شاہ نے تو ہمیشہ اپنے رویے سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک نفیس انسان تھے۔ حیدر لالہ نے جس طرح ہمارے برے رویے، بدگمانیوں اور لالچ کو جانتے ہوئے بھی ہمیں اپنی جائیداد سے ہمارا حق دیا ان کے اس عمل نے ہمیں ہمارا رویہ بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔” شاہ نواز کے لہجے میں پہلی بار اپنے بڑے بھائی کے لیے سچی محبت کے جذبات تھے۔
نجانے ہمیں جانے والوں کی خوبیوں کا احساس ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہی کیوں ہوتا ہے۔ پتا نہیں انسان وقت ہاتھ سے پھسلنے کے بعد ہی کیوں سمجھتا ہے، پہلے کیوں نہیں سمجھ پاتا۔ شاہ نواز کے دل میں پہلی بار اپنے بڑے بھائی کے لیے سچی محبت کے جذبات تھے۔
”اوہو! ایک اہم خبر تو آپ نے سنائی ہی نہیں اسے۔” چچی نے کچھ یاد آنے پر کہا۔
”عرشمان علی کی والدہ نے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔ تم کہو تو…..” انھوں نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا تھا۔
”آپ ہاں کر دیں کیوںکہ باباجان کی یہی خواہش تھی۔” وہ یہ کہتے ہوئے اٹھی اور کمرے سے نکل گئی ۔
اگلی صبح گھر کے قریب واقع پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے بابا جان کی باتیں اس کے ذہن میں گونج رہی تھیں۔بہار کا موسم تھا اور صبح کی ٹھنڈی میٹھی ہوا سے اس کے شانوں تک آتے بال پیچھے کی طرف اُڑا رہی تھی اور وہ بازو باندھے سوچ رہی تھی کہ بابا جان نے کتنا سچ کہا تھا کہ رشتوں کو دولت کے نہیں بلکہ خلوص کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔
آج اگر چچا جان کا رویہ بدلا تھا تو اس کی وجہ جائیداد میں ان کا حصہ ملنا تھی ورنہ دولت کے حصول کے لیے وہ نجانے کیا کچھ کر گزرتے۔
”آہم آہم!” اپنے قریب سے آتی آواز پر اس نے رُکتے ہوئے اپنے دائیں جانب دیکھا۔
”اس ناچیز کو قبول کرنے کا شکریہ۔” عرشمان علی نے سینے پر ایک ہاتھ رکھے سر ذرا سا جُھک کر کہا۔چہرے پر ہمیشہ کی طرح پرُخلوص سی مسکراہٹ تھی، جواباً وہ بھی مسکرادی۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

میں، محرم، مجرم — افراز جبین

Read Next

مصطفیٰ — اُمِّ زینب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!