موسمِ گُل — عاصمہ عزیز

یہ اوائل مارچ کی ایک شام تھی۔ نرم ہوائیں سُست روی سے چلتے ہوئے لان میں اُگے پودوں اور پھولوں کے ساتھ چھیڑخانی کررہی تھیں۔ دور فلک پر سرمئی بادلوں کی اوٹ میں سورج اپناچہرا چھپائے سنہری کرنیں ہر سو بکھیر رہا تھا۔
شاہ نواز شاہ اور ان کا اکلوتا بیٹا فیصل شاہ اس وقت” فیصل ہائوس” کے لان میں آمنے سامنے بیٹھے شام کی چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے اور بیگم شاہ نواز لان میں پودوں کی آبیاری اپنے پسندیدہ مشغلے میں مصروف تھیں جو وہ نوکروں کی فوج ہونے کے باوجود ترک نہیں کر سکتی تھیں۔
”بابا جان! پھر کیا سوچا آپ نے تایاجی کی زمین کے بارے میں؟ عنایہ کے رشتے سے، تو انہوں نے صاف انکار کردیا۔” فیصل شاہ کی استفہامیہ آواز پر بیگم شاہ نواز کے کان کھڑے ہوئے اور پودوں کو پانی دیتے ہاتھ رک گئے تھے۔ یہ الگ بات تھی کہ انہوں نے باپ بیٹے کے درمیان کبھی زمین جائیداد کے معاملے میں مداخلت نہیں کی تھی، لیکن اپنے فطری تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر سن گن لیناوہ اپنا حق سمجھتی تھیں۔
”سوچنا کیا ہے بھئی! زمین تو ہم ہر قیمت پر حاصل کر کے رہیں گے۔کئی سال پہلے ابا جی نے اتنی مالیت کی زمین حیدر لالہ کے نام لگوا کر اچھانہیںکیا تھا۔” ”شاہ نواز نے چائے کا کی چسکی لیتے ہوئے افسوس سے سر ہلایااور پھر اپنے ازلی رعونت بھرے انداز میں کہا:
”لیکن خیر! ہم نے آج تک ہارنا نہیںسیکھا اور نہ ہی ہار اور شکست جیسے الفاظ ہمارے لئے بنے ہیں۔”
”لیکن بابا جان! تایا جی عنایہ شاہ کا رشتہ قطعاًنہیں دیں گے۔ ”فیصل شاہ کوباپ کا اطمینان ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
”پھر جب گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکل رہا، تو انگلی ٹیٹرھی کرنے میں دیر کیسی؟” وہ باپ کے سامنے اپنی بہادری دکھانے کے لئے بے چین تھا۔
”بزدل لوگ انگلی ٹیڑھی کرتے ہیں۔ہمیں انگلی سیدھی رکھ کے بھی اپنا مقصد نکالنا آتا ہے۔” شاہ نواز کو اپنی صلاحیتوں پر پورا اعتماد تھا۔ عنایہ شاہ کے اپنے باپ سے ناراض ہوکر شاہ نواز کے گھر آمد نے ان کے اس اعتماد کو صحیح ثابت کر دکھایا تھا۔ ان کی پچھلے کچھ برسوں سے خلوص اور محبت وشفقت کی اداکاری اور عرشمان اوراس کے گھر والوں کو لالچی وخودغرض قرار دے کر عنایہ کو عرشمان سے شادی کے فیصلے سے مزید متنفر کر دیا تھا۔ اس لئے وہ باپ کو اپنے فیصلے سے ایک انچ نہ ہٹتے دیکھ کر ان سے ناراضی کے اظہار کے طور پر گھر چھوڑ کر چچا کے گھر آ گئی تھی۔ اسے پورا یقین تھا کہ ہر بار کی طرح بابا جان اس کو منانے کے لئے اپنے فیصلے سے دست بردار ہو جائیں گے، لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا یہ یقین غلط ثابت ہونے والا تھا۔
زندگی میں اپنی یا کسی دوسرے انسان کی ذات پر حد سے زیادہ یقین ہی ہمیں بعض اوقات شکست سے دوچار کرتا ہے۔
٭…٭…٭




اسے چچا کے گھر آئے ایک ہفتہ ہوگیا تھا۔چچی کے سرد رویے کے باوجود وہ بچپن ہی سے یہاں آتی رہتی تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر آج کل چچی کا رویہ بھی بہت محبت بھرا تھا۔ شاید انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔
اس کے یہاں آنے کے اگلے دن بابا جان نے اسے یہ بتانے کے لئے فون کیا تھا کہ وہ اسے اس شادی پر ذہنی طور پر تیار ہونے کے لئے کچھ وقت دینے کی نوازش کر ر ہے ہیں بابا جان کی پژمردہ آواز سن کر عنایہ کو ایک لمحے کے لئے ان کے اکیلے پن کا احساس تو ہوا، لیکن ان کو اپنی ضد پر قائم دیکھ کر اس نے” اوںہوں، ہوگا ان کے پاس ان کا چہیتا خیال رکھنے کے لئے ”کہتے ہوئے یہ احساس جھٹک دیا تھا۔
یہاں رہتے ہوئے وہ عرشمان سے شادی کے لیے چاہتے ہوئے بھی خود کو تیار نہیں کرسکی تھی کہ شاہ نواز شاہ نے اسے عرشمان اور اس کے گھر والوں سے متنفر کر کے اس کی ہر کوشش کو ناکام بنادیا تھا۔
صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ کچھ دیر پہلے سوکر اُٹھی تھی اور ابھی واش روم سے نکلی ہی تھی کہ سائڈ ٹیبل پر پڑا موبائل گنگنا اٹھا۔ موبائل اسکرین پر نا معلوم نمبر دیکھ کر پہلے تو اس نے کال کاٹنی چاہی لیکن پھر کچھ سوچ کر”یس” کا بٹن دبا کراپنے شانوں تک آتے بالوں کو ایک طرف ڈال کر موبائل کان سے لگا لیا۔
”السلام علیکم! عرشمان علی سپیکنگ ” شائستہ لہجے میں کیا گیا سلام اس کے کانوں سے ٹکرایا۔
”فرمائیے! کیوں زحمت فرمائی آپ نے؟” عنایہ نے سلام کا جواب دیے بغیر استہزائیہ انداز اپنایا۔
”حیدر انکل بہت پریشان ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ وہ…” اس نے عنایہ کو حیدر شاہ کی بیماری کے بارے میں بتانا چاہا، لیکن عنایہ نے درشتی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔




”سنو، زیادہ ہم درد بننے کی ضرورت نہیں ۔مجھے پتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ بابا جان کے ملازم ہو تو ملازم ہی رہو۔” اس نے نخوت سے ناک چڑھائی اور پھر یاد آنے پر بولی:
”مجھ سے شادی کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔”
”ہونہہ! ایسے ڈرائونے خواب میں دیکھوں گا۔ اتنا برا وقت نہیں آیا مجھ پر۔” عرشمان نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا اور جواب سنے بغیر کال کاٹ دی۔
٭…٭…٭
شام کے چار بج رہے تھے۔ آسمان پر چھائے سیاہ بادلوں نے سورج کو ڈھانپ کر روشنی کا راستہ روک رکھا تھا اور گہرے سیاہ بادل برسنے کو بے تاب تھے۔ ایسا مو سم اسے ہمیشہ اُداس کر دیا کرتا تھا اور آج کل تو اس کے پاس اُداس ہونے کے لیے ایک بہانہ بھی تھا۔
وہ اس وقت ننگے پائوں لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے باباجان سے دل ہی دل میں شکووں اور شکا یات کی پٹاری کھولے بیٹھی تھی۔و ہ بابا کے اتنے سخت اور بے لچک رویے پر حیرت زدہ تھی۔انسان اپنی زندگی میں پیش آنے والے حالات پر پہلے حیران اور پھر پریشان ہونے کا کام بہت دل جمعی سے کرتا ہے اور وہ بھی اس وقت یہی کررہی تھی۔دل کا غبار آنکھوں سے ٹپکتے آنسوئوں کی صورت اس کے گالوں کو نم کر گیا تھا اور عین اسی لمحے آسمان سے گرتے چند قطروں نے جیسے رونے میں اس کا ساتھ دیا ۔اس نے اپنے گھر واپس جانے کا ارادہ کرلیا تھا اور اپنے اسی ارادے سے چچا شاہ نواز کو آگاہ کرنے کے لئے اس نے بائیں جانب واقع ان کے کمرے کی طرف رخ کیا تھا، دروازے تک پہنچ کر اس نے دستک کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اندر سے آتی آوازوں نے اس کا ہاتھ ہوا میں معلق کر دیا۔
”حیدر بھائی کا آپریشن ہے آج اور ڈاکٹر کوئی خاص پراُمید نہیں ہیں۔” اندر سے آتی شاہ نواز کی آواز نے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔
”پھر تو ہمارا کام بہت آسان ہو جائے گا بابا جان۔”یہ فیصل شاہ کی چہکتی ہوئی آواز تھی۔
”اسے پتا نہیں چلنا چاہیے کہ ہم بھائی صاحب کی بیماری سے آگاہ تھے ورنہ۔” چچا جان کی آواز نے اسے حیرت سے گنگ کر دیاتھا۔
وہ اور بھی کچھ کہہ رہے تھے لیکن اس کا ذہن لفظ ”آپریشن” پر اٹک گیا تھا۔مائوف ہوتے ذہن کے ساتھ اس نے گھر فون کر کے ہاسپٹل کا پتا پوچھا اور ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس نے پتا نہیں کیسے اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل کی پارکنگ میں گاڑی روکی تھی۔
لرزتے ہاتھوں سے گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ اندھا دھند بھاگتے ہوئے آئی سی یو وارڈ تک پہنچی۔لرزتے جسم اور تیز سانس کے ساتھ اس نے وارڈ بوائز کو سٹریچر دھکیلتے اور عرشمان کے سامنے کھڑے ڈاکٹرز کو مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے دیکھا۔
وہ اپنے اندر چھپے بدترین خدشات کی نفی کے لیے سٹریچر کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ سٹریچر پر اپنے بابا جان کے ساکت وجود کو دیکھتے ہوئے وہ گر پڑی اور دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ یہاں تک کہ رونے کے درمیان ”بابا پلیز آنکھیں کھولیں۔ ” کی صدا کرتے اس کے گلے میں خراشیں پڑ گئیں اور سر چکرانے لگا۔
یہ منظر دیکھ کر اتنی دیر سے خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے خاموش کھڑے عرشمان علی نے آگے بڑھ کر اس کے سٹر یچر پہ جھکے سر کو اٹھانا چاہا، لیکن جیسے ہی اس نے سر اوپر اٹھایا وہ ایک طرف ڈھلک گیا۔
٭…٭…٭
بابا جان کو اس دنیا سے گئے دو ماہ ہو چکے تھے ۔اس دوران چچا کی فیملی اس کے اکیلے پن کے خیال سے مستقل طور پر شاہ ولا میںشفٹ ہوگئی تھی، لیکن عنایہ شاہ کی صحت پر کسی کی ہم دردی سے کوئی فرق نہیں پڑاتھا۔ وہ رنج وغم کی تصویر بنی سارا دن اپنے کمرے میں مقید بیڈ پر لیٹی چھت کو گھورتی رہتی اور برستی آنکھوں سے اپنے خوش گوار ماضی کے البم کی مسلسلورق گردانی کرتی جس کے ہر صفحے پر اس کے باباجان کے محبت بھرے نقوش موجود تھے۔
اگر اسے بابا کی بیماری کا علم ہوتا، تو وہ انہیں زندگی کے آخری لمحات میں دکھ دینے کا سو چ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ چچا شاہ نواز نے اس سے بابا جان کی بیماری اور آپریشن چھپایا کیوں؟ عنایہ شاہ تو ابھی تک ان کی اور فیصل شاہ کی دروازے کے باہر سے سنی گئی گفت گو میں اُلجھی ہوئی تھی۔ وہ اس میں مزید الجھی رہتی اگر کل عرشمان علی اور اس کے ساتھ وکیل صاحب باباجان کی پراپرٹی کی تقسیم کے کاغذات اور آپریشن سے کچھ دیر پہلے لکھا گیا ان کا خط اسے نہ دے کر جاتے۔
خط میں لکھے باباجان کی بیماری کی وجہ سے اس کے مستقبل کے بارے میں خدشات ‘اسے عرشمان سے شادی کرنے کی نصیحت سمیت چچا شاہ نواز کی ان کی دولت پر قابض ہونے کی کوششوں جیسے انکشافات تھے۔
شاہ نواز کی اصلیت جاننے کے بعد بھی اگر وہ ان کی محبت کے پیچھے چھپی چاپلوسی کو نہ سمجھ پاتی تو وہ احمقوں کی ملکہ ہوتی۔ ”ملکہ نہ سہی احمق تو میں اب بھی ہوں۔”وہ زیرلب بڑبڑائی تھی۔
ماں باپ کو کسی بھی طرح دکھ دینے والے پھولوں کی نہیںہمیشہ کانٹوں کی رہ گزر کا انتخاب کرتے ہیں۔
اس نے باباجان کے فیصلے کو رد کرکے نہ صرف ان کو زندگی کے آخری وقت میں دکھ دیا تھا بلکہ اپنے حسن اور دولت کے زعم میں مبتلا ہوکر عرشمان علی کے خلوص کو دولت کے سامنے لاکھڑا کیا تھا۔




Loading

Read Previous

میں، محرم، مجرم — افراز جبین

Read Next

مصطفیٰ — اُمِّ زینب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!