موبائل یاریاں — عرشیہ ہاشمی

’’دیکھو صغریٰ بہن… آج کل زمانہ بہت نازک چل رہا ہے اور آج کل کی اولاد بے حد چالاک اور تیز ہے۔‘‘
’’صحیح کہہ رہی ہو رانی… زمانہ بڑا نازک ہو گیا ہے۔‘‘ ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے صغریٰ نے لال شربت کا ایک گھونٹ بھرا اور گلاس کو دوسرے ہاتھ میںمنتقل کر لیا۔
شرم و حیا کا تو دور ہی نہیں رہا رانی… ایک ہمارا زمانہ تھا …شادی سے پہلے کسی مرد کو آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا جاتا تھا… اور آج … استغفراللہ … قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں سب۔‘‘
صغری نے اسٹیل کے بڑے سے گلاس میں موجود باقی ماندہ ٹھنڈا یخ شربت بھی حلق میں انڈیل کر گلاس واپس میز پر رکھ دیا۔
’’ایک بات کروں تجھ سے… اگر بُرا نہ منائے تو…؟‘‘ اب رانی نے قدرے سوچ کر ٹھہرتے ہوئے محتاط انداز میں پوچھا تو صغریٰ کچھ متجسس سی ہوگئی۔
’’ہاں… برا کیا ماننا رانی… تو میری سہیلی ہے۔ میرے دکھ سکھ کی سانجھی ہے۔‘‘ صغری نے مسکراتے ہوئے رانی کا حوصلہ بڑھایا تو رانی نے سب کچھ صغریٰ کے گوش گزار کرنے کا ارادہ کر ہی لیا۔
’’دیکھ صغریٰ … صاف صاف کہہ رہی ہوں… تو اریبہ کو کھلا پلا بے شک ایک بادشاہ کی طرح… لیکن نظر ایک شیر کی طرح رکھا کر۔ لڑکی ذات ہے۔ کل کو اونچ نیچ ہو گئی تو عزت ہاتھ سے جائے گی۔‘‘ رانی نے ٹھہر ٹھہر کر تمہید باندھی۔
’’کیا مطلب ہے رانی…؟؟ میری اریبہ بڑی فرماںبردار بچی ہے۔‘‘
اب کہ صغریٰ نے بھنویں اُچکاتے ہوئے رانی کی بات کا جواب دیا۔ ’’تو بڑی بھولی ہے صغریٰ… اریبہ فون پر روز کسی لڑکے سے بات کرتی ہے… تو اس سے موبائل برآمد کر کے سمجھا اُسے۔‘‘ رانی نے صغریٰ کو سمجھاتے ہوئے مشورہ دیا ۔ بعض اوقات مشورہ دینے والا تو خلوصِ نیت اور ہمدردی میں اپنے پیاروں کو مشورہ دے تو دیتا ہے لیکن کبھی کبھار اُسے یہ اپنا پن بڑا ہی مہنگا پڑتا ہے۔
’’رانی تو میری یتیم بچی پر الزام لگا رہی ہے…؟‘‘
اب کہ صغریٰ بولی تو ان کا لہجے اور تاثرات میں غصہ غالب تھا۔
’’نہیں صغریٰ… قسم لے لے جو الزام لگائوں… نائلہ اس کے سب کارناموں کے بارے میں جانتی ہے۔ اُسی نے بتایا مجھے… دیکھ… ابھی بھی وقت ہے… اپنی عزت بچا لے۔‘‘
’’خبردار… خبر دار رانی…بس کر میری بھولی دھی پر الزام لگانا۔ میری بیٹی ایسی نہیں ہے۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں اپنی بیٹی کو۔‘‘
اب صغریٰ خالہ ہاتھ اُٹھا کر نہایت ہی غصے میں بولیں۔
’’صغریٰ خالہ… یہ سچ ہے۔ اریبہ نے آپ سے چھپا کر فون رکھا ہوا ہے اور وہ کئی لڑکوں سے فون پر باتیں کرتی ہے۔‘‘
اب نائلہ بھی میدان میں کود پڑی اور اُس نے بھی گواہی دے دی۔ لیکن جن مائوں کی عقل پر پردہ پڑ جائے وہ بڑی سے بڑی گواہی بھی جھٹلا دیتی ہیں تو صغریٰ کیسے اپنی بیٹی کو بد کردار مان لیتی۔
’’ارے چپ رہ نائلہ… اپنے کرتوت میری بیٹی کے سر تھوپتے ہوئے شرم نہیں آئی تجھے… ؟ اچھا حق ادا کیا تم لوگوں نے پڑوسی ہونے کا۔ لوگوں پر پتھر برسانے والے اُن کے دشمن ہوتے ہیں لیکن ہم پر اپنے ہی اُٹھ اُٹھ کر پتھر برسانے لگیں…‘‘ اور پھر صغریٰ خالہ بولتی چلی گئیں۔ تمام لحاظ اور مروت کو بالائے طاق رکھ کر اریبہ کے ’’حق‘‘ کی لڑائی لڑتی رہیں۔
٭٭٭٭





’’تو چڑیا ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی اُڑ گئی۔‘‘ عدیل نے تمسخر بھرے لہجے میں ابرار کو سناتے ہوئے بلند آواز میں کہا اور سب دوست مل کر ہنسنے لگ گئے تو ابرار مزید سیخ پا ہو گیا۔
’’سستے میں نہیں چھوڑوں گا میں ابھی اُسے… اُسے اپنی غلطیوں کی سزا بھگتنی پڑے گی۔‘‘ ابرار نے طیش بھرے لہجے میں کہا۔
’’کیا کرے گا تو شہزادے…چھوڑ… بھول جا اس چڑیا کو… کوئی نئی تتلی پھنسا لے اب۔‘‘ دوستوں میں سے ایک نے آکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک اور مشورہ بھی دے ڈالا۔
’’بھول تو جائوں گا… لیکن اس طرح کہ وہ مجھے ساری زندگی بھول نہ پائے گی… نہ ہی کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہے گی۔‘‘
بُری صحبت میں رہ رہ کر ابرار بھی ان آوارہ لڑکوں جیسا ہو گیا۔ اُسے صحیح اور غلط کی تمیز کھو چکی تھی۔ اس کچی عمر میں وہ بڑی بڑی پلاننگ کر رہا تھا اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔
٭٭٭٭
نائلہ صحن میں جھاڑ و لگا رہی تھی۔ امی باورچی خانے کی صفائی میں مصروف تھی جب گلی کے نکڑوالے گھر کی رابعہ باجی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ افراتفری کے عالم میں دی جانے والی دستک پر نائلہ ایک دم ڈر سی گئی اور بھاگتے ہوئے دروازے کی کنڈی کھولی۔
’’رانی آپا… رانی آپا… کدھر ہیں آپ… کچھ سنا آپ نے…؟‘‘
باہر کے دروازے سے ہی وہ نائلہ کی امی کو آوازیں دیتے ہوئے اندر آتیں۔
’’کیا ہوا… آنٹی…۔‘‘ نائلہ ان سے سوال کر ہی لیا۔ اتنے میں رانی بھی باورچی خانے سے باہر آچکی تھیں۔
’’رانی آپا… اریبہ کے چہرے پر کسی موٹر سائیکل سوار نے تیزاب پھینک دیا۔ پورا چہرہ جھلس گیا بے چاری کا… سکول کے سامنے ہی یہ واقعہ پیش آیا اور عدن کے ابو اس وقت وہیں سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے اسے باقی لوگوں کے ساتھ مل کر ہسپتال پہنچایا۔‘‘
انہوں نے جلدی جلدی ساری تفصیل بتائی جسے سن کر رانی کا تو لہو ہی نچڑ گیا۔
’’اللہ خیر… یہ کیا ہو گیا…‘‘ رانی رو دینے کو تھیں۔ وہ اسی دن سے خوف زدہ تھیں۔
ایک ہفتے بعد اریبہ کو ہسپتال سے گھر پر شفٹ کر دیا گیا۔ اس کا سارا چہرہ جھلس گیا تھا۔ اس کا موبائل جائے وقوعہ سے بازیاب کر لیا گیا تھا اور اس موبائل کا تمام ڈیٹا بیک اپ کر کے ابرار کو اریسٹ کر لیا گیا۔
معذوری اور تکلیف کے علاوہ عزت کا جو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا تھا اس کا گھائو شدید تھا۔ صغریٰ خالہ کسی کو منہ دِکھانے کے قابل نہ رہیں۔ تیمار داری کے لبادے میں لپٹے طنز ان کا سینہ چھلنی کر دیتے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
اور اریبہ … وہ کچھ بولنے کا لائق نہ رہی۔ چپ چاپ چھت کو گھورتی رہتی اور اپنی بوڑھی ماں کے چہرے پر تکلیف، ندامت اور پچھتاوے کی آگ دیکھتی رہتی۔ اُسے اپنی محبت کا یہ گھائو شدید تکلیف دے رہا تھا۔ اُسے سمجھ ہی نہ آرہا تھا کہ ابرار نے ایسا کیوں کیا…؟؟ وہ تو اُسے دل سے چاہنے لگی تھی۔ وقت گزاری کے جذبے میں پلنے والے اس رشتے نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔
نائلہ اور رانی کبھی کبھار آتے اور ان دونوں ماں بیٹی کی ڈھارس بندھاتیں۔
مسز احمد کو اپنے بیٹے پر پورا اعتماد تھا۔ وہ روز اپنے بیٹے کو موبائل فون پر میسج کرتے دیکھتی تھیں مگر کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی وہ ابرار کا اصل چہرہ نہ دیکھ سکیں۔ انہوں نے کبھی ابرار کے دوستوں کے متعلق جاننے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کبھی اس کے خلاف موصول ہونے والی شکایتوں پر اعتبار نہیں کیا تھا۔ بے جا لاڈ پیار اور اندھے اعتماد کے ساتھ ساتھ اولاد کی سرگرمیوں سے بے پروسائی نے ان کے کمسن بیٹے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے لا کھڑا کیا اور اب اس کا مستقبل تاریک ہو چکا تھا۔

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

لاپتا — سندس جبین

Read Next

خسارہ — تشمیم قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!