موبائل یاریاں — عرشیہ ہاشمی

اگلے دن اریبہ کے ’’جانو‘‘ کا کوئی میسج نہ آیا تو اسے تشویش نے آن گھیرا۔ ایسا تو کبھی بھی نہ ہوا تھا۔ وہ تو پل پل کی خبر رکھتا اور دیتا تھا۔ا ریبہ نے بھی اُسے اپنے متعلق سب بتا رکھا تھا۔ دل کی بے چینی بڑھنے لگی تو وہ موقع محل دیکھتے ہوئے باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ اب اُسے کال کرنا تھی۔ حالاںکہ اریبہ نے اُسے خود ہی منع کر رکھا تھا کہ وہ کبھی کال نہیں کرے گی۔ لیکن آج وہ خود اس کو کال کرنے لگی تھی۔
وہ کئی بار کوشش کرتی رہی لیکن فون نمبر مسلسل بند آرہا تھا۔ اس کا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا۔ شاید اُسے ابرار سے سچ مچ محبت ہو گئی تھی۔ محبت کا کھیل کھیلتے کھیلتے وہ اسی محبت کے پھندے میں آن پھنسی تھی۔ ایسی محبتیں جو ہر تیسرے دن نئے بندے سے ہو جائیں ایک پھندہ ہی تو ہوتی ہیں ایسا پھندہ جو ان نو عمر لڑکے اور لڑکیوں کے کردار کا دم گھونٹ دیتا ہے۔
کئی دن گزرنے کے باوجود جب ابرار سے اریبہ کا رابطہ بحال نہ ہوا اور اس کے فون میں بیلنس ہی نہ رہا تو وہ کسی اور فون سے اُسے کال کرنے کا سوچنے لگی کہ فون ری چارج کرانے کی ذمہ داری ابرار کے سر پر تھی۔ وہ نائلہ کے گھر آئی۔ نائلہ اپنی امی کے پاس باہر صحن میں ہی بیٹھی تھی۔
’’آئو بیٹا… کیا حال ہے…؟؟‘‘ نائلہ کی امی نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اریبہ کا خیر مقدم کیا۔
’’ٹھیک ٹھاک آنٹی… آپ کیسی ہیں؟‘‘ وہ اُن کی چار پائی کے پاس رکھی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’شکر ہے اللہ پاک کا۔ اچھا تم دونوں بیٹھو میں تمہارے لئے شربت بنا کر لاتی ہوں۔‘‘ نائلہ کی امی سبزی کی ٹوکری اُٹھا کر اندر چلی گئیں۔ اب اریبہ کو امید تھی وہ اتنی جلدی واپس نہیں آئیں گی۔
’’نائلہ… تم لوگوں کا گھر کا فون کدھر ہے؟‘‘ اس نے آنٹی کے جاتے ہی جلدی سے نائلہ سے پوچھا۔
’’یہ پڑا ہے سرہانے کے نیچے… کیوں؟‘‘ اریبہ کے ارادوں سے انجان نائلہ نے فون تکیے کے نیچے سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
’’مجھے ایک کال کرنی ہے۔‘‘ اُس نے جلدی سے جواب دیا اور فون اٹھا کر جلدی سے رٹا ہوا نمبر ڈائل کیا اور ایک کونے کی طرف بڑھ گئی۔ نائلہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آگئی لیکن کچھ پوچھنے کا اسے موقع نہ مل سکا کیوںکہ اریبہ کی کال پِک کر لی گئی تھی۔
’’تم نے اتنے دنوں سے میسج بھی نہیں کیا۔ کہاں غائب ہو گئے ہو ؟‘‘
کال ملتے ہی اریبہ نے بے چینی سے اپنے قیمتی جذبات کا اظہار کیا تھا جو شاید کسی اور کی امانت تھے۔ اس ایک شخص کی امانت جسے اللہ تعالیٰ نے اس کا جیون ساتھی بنانا تھا، جو اس کا مجازی خدا بننے والا تھا۔
’’اچھا باقی باتیں میسج پر کرنا اور میرا فون ری چارج بھی کروا دینا۔ ابھی میں نائلہ کے نمبر سے بات کر رہی ہوں۔ اس نمبر کو ڈیلیٹ کر دینا بعد میں۔‘‘
کچن کے دروازے سے آنٹی کو نکلتے ہوئے اریبہ نے دیکھ لیا تھا تو جلدی جلدی کئی باتیں کرتے ہوئے فون بند کر دیا اور نائلہ کے ہاتھوں میں فون تھما کر باہر آگئی۔
نائلہ اُس کی حرکت پر سخت غصے میں تھی اور مسلسل اُسے کینہ توز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
’’بیٹھ کر آرام سے پیو ناں اریبہ… جلدی کیا ہے؟‘‘ اریبہ نے کھڑے کھڑے ہی شربت کا گلاس اپنے منہ کے ساتھ لگایا اور ایک ہی سانس میںپی گئی تو نائلہ کی امی ٹوکے بنا نہ رہ سکیں۔
اپنا مطلب پورا ہونے کے بعد اب اریبہ نے مزید یہاںبیٹھنا فضول سمجھا اور واپس گھر آگئی۔
٭٭٭٭





بُری صحبت انسان کو اتنا زیادہ متاثر کرتی ہے جتنا کوئی اور چیز نہیں کرتی۔ اسی لئے تو بری صحبت کو کوئلے کی کان سے تعبیر کیا گیا کہ جس میں بیٹھو گے تو کالک ساتھ ہی لگے گی۔
اور اریبہ کی بُری صحبت کا پہلا اثر نائلہ کی زندگی پر پڑ چکا تھا۔ اس صحبت نے اسے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ اگلے دن نائلہ اپنے بڑے بھائی کے کپڑے پریس کر رہی تھی۔ تب اماں کے موبائل پر ایک میسج آیا۔
’’گڑیا… کیا حال ہے تمہارا؟‘‘ بھائی نے بلند آواز سے میسج پڑھتے ہوئے اپنے خیال کے گھوڑے دوڑائے تو اس کی نظر کپڑے پریس نائلہ پر آن کر رک گئی۔
’’یہ کس کا میسج ہے…؟‘‘ اب بھائی اس کے سر پر کھڑا اُس سے سوال کر رہا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔ پہلے اس میسج کے بارے میں اور پھر بھائی کے مشکوک انداز کے متعلق۔
’’بھائی… کسی رانگ نمبر سے آیا ہو گا۔‘‘ اُس نے بے پروائی سے کہہ تو دیا لیکن جب اس کے بھائی نے موبائل اسکرین اس کے سامنے لہرائی جہاں ڈائلڈ کالز میں وہ فون نمبر اس کے گناہ گار ہونے کے ثبوت کے طور پر چمک رہا تھا۔ اس کا چہرہ فق ہو گیا۔ افسوس اور صدمے کی وجہ اُس سے کچھ نہ کہا گیا۔ اُس سے غلطی ہوئی تھی۔ اُس نے اریبہ کی کال کے بعد نمبر ڈیلیٹ نہیں کیا تھا۔ ہاں اس کی غلطی تھی… اُس نے اریبہ جیسی لڑکی کو جانتے ہوئے بھی اپنی دوست بنایا۔ لیکن اب وہ مزید اپنی اس غلطی پر ڈٹی نہ رہ سکتی تھی۔ اُس نے بھائی اور اس کے سامنے اپنی اس غلطی کو تسلیم کر لیا اور اریبہ کے متعلق سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔ اب اسے اُمیدتھی کہ اریبہ بھی اپنی غلطی ضرور سدھار لے گی۔
’’امی صغریٰ خالہ ہماری پڑوسی ہیں… اگر اُن کی بیٹی ان کی لاعلمی میں یہ گل کھلا رہی ہے تو ہمیں صغریٰ خالہ کو بتا دینا چاہیے کہ وہ بروقت اپنی بچی کھچی عزت کو سنبھال سکیں۔‘‘ بھائی نے کچھ سوچتے ہوئے امی کو مشورہ دیا۔
’’ہاں میں دیکھتی ہوں… موقع محل دیکھ کر بات کروں گی صغریٰ سے۔‘‘
امی نے گہری سوچ سے نکلتے ہوئے جواب دیا۔
٭٭٭٭
’’ابرار! بائیس سالہ لڑکا… غلط صحبت کے ہاتھوں اُس نے اپنے امی ابو کا اعتماد توڑا۔ اُس نے کئی لڑکیوں کے نمبر اپنے آوارہ دوستوں سے حاصل کر رکھے تھے۔ عاصمہ، انیلا، اریبہ، لاریب … وہ بہ یک وقت ان سب لڑکیوں کے ساتھ رابطے میںتھا۔ اپنا وقت ، اپنے جذبات اور باپ کا پیسہ ان چکروں میں لٹانے کے بعد اُسے ابھی تک عقل نہ آئی تھی۔ عاصمہ والا باب تو اب بند ہو چکا تھا لہٰذا اب اسے اریبہ سے اُمید تھی۔ وہ جلد سے جلد اپنا مقصد پورا کرنا چاہتا تھا۔ اپنے غلط ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے اریبہ کو ایک مسیجکیا دوستوں کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔
٭٭٭٭
’’اریبہ… دروازہ بند کر لے میں رانی خالہ کے گھر جا رہی ہوں۔‘‘ اماں ڈوپٹہ اوڑھتے ہوئے گھر کے دروازے سے باہر نکل گئیں تو اریبہ نے دروازے کو کنڈی چڑھائی اور واپس اپنے کمرے کی طرف آگئی۔ اب اُس نے اپنا موبائل نکالا اور ایک میسج ٹائپ کر کے آگے بھیج دیا۔ آج بہت دنوں بعد اُسے یہ موقع ملا تھا۔ کچھ لمحوں بعد ہی اس کے فون پر کال آگئی۔ کال پک کرنے کے بعد وہ کھڑکی کے پٹ سے لگ کر کھڑی ہو گئی اور آہستہ آواز میں بات کرنے لگی۔ خوش گوار موڈ میں باتیں کرتے کرتے آہستہ آہستہ اس کا لہجہ سخت ہونے لگا تھا۔
’’میں نے کہا نا … میں اب مزید نہیں مل سکتی تم سے۔‘‘ وہ زچ ہوتے ہوئے مخاطب کی کسی فرمائش کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے بولی۔
’’ہاں ہاں… مل گیا ہے کوئی اور… اور وہ تم سے زیادہ میرا خیال رکھتا ہے… میری کیئر کرتا ہے۔ گفٹس دیتاہے۔‘‘ وہ شرارت سے مُسکراتے ہوئے اس کی بے چینی سے حظ اُٹھا رہی تھی۔ یہ سوچے سمجھے بغیر مخاطب پر ان باتوں کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔ ایسے رشتوں میں اعتماد کبھی نہیں پایا جاتا۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

لاپتا — سندس جبین

Read Next

خسارہ — تشمیم قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!