من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

کسی نہ کسی طور پر کہیں نہ کہیں اور اپنے آپ کو یہ فریب دیتا رہتا تھا کہ اس کے گھر کی عورتیں پوری دنیا کی عورتوں سے مختلف ہیں۔ ان کو اس سے محبت ہے۔ اس کے وجود سے، اس کے پیسے سے نہیں۔ کہیں نہ کہیں ”ضرورت” اس کے اس ”فریب” کے چیتھڑے اڑاتی رہتی۔
وہ اپنے گھر پر بات کرتے ہوئے کبھی کسی ایسے ویک اینڈ پر کسی ایسی کال کا انتظار کرتا رہتا جس میں اس سے کوئی فرمائش، کوئی مطالبہ نہ کیا جاتا۔ بعض دفعہ اسے لگتا اس کی کال کا اس لیے انتظار نہیں کیا جاتا کہ وہ اس کی خیریت جاننا چاہتے تھے بلکہ اس لیے انتظار کیا جاتا تھا کیونکہ کسی نہ کسی کو اس سے کچھ نہ کچھ چاہیے ہوتا تھا۔
صرف اپنی منگیتر کو کی جانے والی وہ دس منٹ کی کال ایسی ہوتی تھی جس میں اس کی طرف سے کوئی فرمائش، کوئی مطالبہ نہیں ہوتا تھا، وہ اس کے لیے اس کا شکر گزار تھا مگر بعض دفعہ وہ سوچتا، شاید وہ ابھی منگیتر ہے، بیوی نہیں، اس لیے مطالبے نہیں کر رہی۔ شاید وہ اس لیے اس سے کوئی فرمائش نہیں کرتی کیونکہ وہ اکثر اوقات کسی آنے جانے والے کے ہاتھ اسے کچھ نہ کچھ بھجواتا رہتا تھا۔ بعض دفعہ روپے بھی۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا پھر بھی ان کا رشتہ اسی طرح کسی لالچ، کسی غرض کے بغیر ہو سکتا ہے۔ کیا وہ وہی عورت تھی جس کو پیسے سے دلچسپی نہیں تھی، اس سے تھی۔ شاید ایسا ہی تھا۔
اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ”شاید” تھا۔ اس کی زندگی میں ”شاید” نہ ہوتا تو ذہنی طور پر وہ بہت پر سکون رہتا۔
اس کے کندھے کو کسی نے تھپکا، اس نے بے اختیار چونک کر آنکھیں کھول دیں اور آنکھیں کھولتے ہی وہ بے اختیار سیٹ پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ اس کے پاس ایک بار پھر شوکت زمان کھڑا تھا جو اب بالکل بدلے ہوئے موڈمیں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”کیا میں نے تم سے جھگڑا کیا تھا؟”
اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا جواب دے۔ ہاں کہے یا نہ یا اس کو get lost (دفع ہو جاؤ) کہے۔
”میں نے تم سے جھگڑا کیا تھا کیا؟” شوکت زمان نے ایک بارپھر پوچھا۔
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ یک دم اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا جس کا مسافر شاید باتھ روم گیا تھا۔
”پتہ نہیں یار! کیا ہو گیا مجھے؟ خوا مخواہ تم سے منہ ماری کر بیٹھا مجھے معاف کر دینا یار!”
وہ اب دونوں ہاتھ جوڑے بے حد التجائیہ انداز میں اس سے کہہ رہا تھا اور وہ ایک بار پھر اسی ہونق انداز میں اس کا منہ دیکھنے لگا۔
”بہت گناہ گار ہوا ہوں میں تم سے لڑکر۔ مجھے ایر ہوسٹس نے بتایا تم کسی ڈیڈ باڈی کے ساتھ سفر کر رہے ہو۔”
اس نے ایک بار پھر الجھے ہوئے انداز میں سر ہلا دیا۔ وہ شوکت زمان سے یک دم خائف ہو گیا تھا۔ وہ آدمی اسے ذہنی طور پر ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ نشے میں تھا یہ تو اسے معلوم تھا مگر اس کی حالت نشے میں دھت لوگوں جیسی نہیں تھی۔




”کس کی ڈیڈ باڈی کے ساتھ سفر کر رہے ہو؟” شوکت زمان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے حد ہمدردی سے پوچھا۔
اس نے مختصر لفظوں میں صابر قیوم کے بارے میں بتایا اور پھر بے اختیار پچھتایا۔
شوکت زمان نے اس کی پوری بات سن کر چند لمحوں کا توقف کیا پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ آس پاس کی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے ایک بار پھر اس کو دیکھنا شروع کر دیا مگر اس بار کسی نے شوکت زمان کے لیے ماتھے پر بل نہیں ڈالے۔ صرف وہ تھا جو مشکل میں پھنس گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہ شوکت زمان کو کس طرح دلاسا دے کر چپ کروائے۔
”بڑا نیک آدمی تھا صابر قیوم۔” شوکت زمان نے ہچکیوں کے درمیان کہا۔ وہ اس کی بات پر ہکا بکا رہ گیا۔
”آپ جانتے تھے اسے؟”
”نہیں، لیکن نیک ہی ہو گا کہ مرنے کے بعد واپس پاکستان جا رہا ہے۔” اسے شوکت زمان کی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔
شوکت زمان وہاں بیٹھا آدھے گھنٹہ تک اس شخص کے لیے ہچکیوں کے ساتھ روتا رہا جس کے ساتھ اس کا واحد رشتہ یہ تھا کہ اس نے بھی اپنی پوری زندگی شوکت زمان کی طرح باہر گزاری تھی۔
اس سیٹ کا مسافر اس دوران وہاں آکر شوکت زمان کو روتے دیکھ کر بے حد کنفیوزڈ انداز میں کسی اور خالی نشست پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔ اس دوران ایر ہوسٹس دوبار شوکت زمان کو چپ کروانے آئی تھی لیکن شوکت زمان کے کان پرجوں تک نہیں رینگی۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ خود ہی خاموش ہو گیا۔ جیب سے ایک رومال نکال کر اس نے اپنے آنسو پونچھے، ناک صاف کیا اور اس سے کہا۔
”میرے لائق کوئی خدمت؟”
”نہیں، شکریہ۔” اس نے بے ساختہ کہا۔
وہ سنکی اور خبطی آدمی اس کی کیا خدمت کر سکتا تھا۔
”باڈی لینے کون آئے گا؟”
”باڈی کہاں جائے گی؟”
”خود وہ کہاں ٹھہرے گا؟”
وہ اب اس سے ایک کے بعد ایک سوال کر رہا تھا۔ اس نے اسے صابر قیوم کی باڈی کو پاکستان لانے کے سلسلے میں اس کی فیملی کی عدم دلچسپی کے بارے میں بتایا۔ کس طرح چندہ اکٹھا کر کے وہ اس کی باڈی کو یہاں لا رہے تھے اور کس طرح اسے اس کے ساتھ آنا پڑا۔ شوکت زمان کی رنجیدگی میں اضافہ ہوتا گیا مگر اس کے تمام خدشات کے باوجود رویا نہیں بلکہ اس نے دوبارہ ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ وہ جیسے گم صم ہی ہو گیا تھا۔ باقی کا سارا رستہ شوکت زمان اس کے پاس اسی حالت میں کچھ کھائے پیئے بغیر بیٹھا رہا تھا۔ اس نے اس مسافر کے ساتھ اپنی سیٹ تبدیل کر لی تھی۔ اس فلائٹ میں صرف وہی دونوں مسافر تھے جو کچھ کھا پی نہیں رہے تھے، وہ اپنی حالت کی وضاحت دے سکتا تھا۔ اس کا صابر قیوم کے ساتھ تعلق تھا مگر شوکت زمان کس صدمے کی وجہ سے بولنا اور کھانا پینا بھول گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
شوکت زمان صرف فلائٹ میں نہیں، اگلے دو دن بھی اس کے ساتھ رہا تھا۔ صابر قیوم کی تجہیز و تکفین کے انتظامات اس نے یا اس کے خاندان نے نہیں کیے، وہ شوکت زمان نے خود ہی اپنے ذمے لے لیے۔
صابر قیوم کے بیٹے اسے بھی اپنے باپ کا کوئی پرانا دوست سمجھ رہے تھے کیونکہ شوکت زمان خود اس سے زیادہ غم زدہ لگ رہا تھا۔ وہ خود جیسے بیک گراؤنڈ میں چلا گیا تھا۔ سب کچھ جیسے شوکت زمان نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور وہ اس کے لیے اس کا کچھ مشکور بھی ہوا تھا۔ اسے ایر پورٹ پر لینڈ کرتے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ شوکت زمان بے حد وسیع تعلقات اور اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ وہ سب کچھ ”ایک کال” سے کروا رہا تھا۔ اور کیوں کروا رہا تھا؟ یہ اسے بہت بعد میں پتا چلا تھا۔
وہ تو خود صابر قیوم کی باڈ ی اس کے آبائی گاؤں میں دفنا کر اپنے گھر چلا گیا تھا۔ جب کہ شوکت زمان ابھی گاؤں میں ہی تھا۔ اسے صابر قیوم کی تدفین کے بعد بھی اس کے لیے کچھ کام کرنے تھے۔
شوکت زمان نے اس کا فون نمبر اور ایڈریس لینے کے بعد بے حد گرم جوشی کے ساتھ اسے رخصت کیا اور اس سے کہا تھا کہ وہ اس کے شہر میں اس کے گھر آکر اس سے ملے گا، نہ صرف یہ بلکہ اس نے اس کی واپسی کی فلائٹ کی تاریخ، وقت اور ایر لائن کا نمبر بھی پوچھا تھا، وہ اسی کے ساتھ واپسی کا سفر کرنا چاہتا تھا۔
وہ عجیب آدمی تھا مگر وہ عجیب آدمی اپنے گھر جاتے ہی اس کے ذہن سے غائب ہو گیا تھا۔
وہ نو سال بعد پاکستان آیا تھا۔ نو سال میں اس کے گھر میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اس سے چھوٹی دونوں بہنوں کی شادی ہو چکی تھی۔ ان دونوں کی شادیاں اس کی عدم موجودگی میں ہوئی تھیں۔ اسے اپنے ہی بہن بھائیوں، اپنے ماں باپ، اپنے گھر، اپنے محلے کو پہچاننے میں بہت وقت لگا تھا۔ سب کچھ ویسا نہیں تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ سب کچھ بدل گیا اور پھر اسے اندازہ ہوا کہ صرف اسے ہی نہیں، انہیں بھی پہچاننے میں بہت دقت ہو رہی تھی۔ وہ چھبیس سال کی عمر میں چھتیس سال کا لگ رہا تھا لیکن اس کا خیال تھا اس کے حلیے میں تبدیلی اس کے چہرے کی لکیروں، آنکھوں کے حلقوں اور سر کے جا بجا سفید بالوں نے پیدا کی تھی۔
وہاں بیٹھنے کے کچھ ہی دیر بعد اسے پتہ چلا اس کا اندازہ غلط تھا۔ کوئی اس کے چہرے کو دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔ تبدیلی اس کے امریکی لباس، جوتوں اور گھڑی نے پیدا کی تھی۔ اس محلے اور ان کے خاندان میں کویت، دبئی، سعودی عرب اور گلف کے دوسرے ملکوں سے بہت لوگ آتے تھے لیکن امریکہ سے اس محلے اور ان کے خاندان میں کوئی پہلی بار آیا تھا۔ ہر ایک کو امریکہ میں خریدا جانے والا سکینڈ ہینڈ لباس بے حد مہنگا لگ رہا تھا۔ یہ کتنے ڈالر کا… یہ کتنے ڈالر کا… یہ کتنے ڈالر کا…؟
اسے کچھ دیر کے لیے لگا، اس کے جسم پر لباس، جوتے اور گھڑی نہ ہوتی تو اچھا تھا پھر کم از کم کوئی اس سے اس کے دل کی بات کرتا۔ وہ دو دن صابر قیوم کی تدفین اور اس کی تدفین کے دوران اس کے بیٹوں کی سرد مہری دیکھتا رہا تھا۔ وہ اسی ذہنی حالت میں اپنے گھر آگیا تھا اور یہاں آکر اسے لگ رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ایسا تھا جو یہاں بھی ٹھیک نہیں تھا۔
مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس کے لیے گرم جوشی نہیں تھی۔ ہر کوئی اسے لپٹا رہا تھا۔ اس سے خوشی اور جوش سے مل رہا تھا۔ اس کے لیے کھانے پک رہے تھے مگر اس سب کے بعد ہر کوئی اس سے امریکہ کے بارے میں بات کرنے بیٹھ جاتا۔ وہ وہاں کیا کرتا تھا، کتنے ڈالر روز کے کما لیتا تھا، کہاں رہتا تھا، کیا کھاتا تھا، امریکہ میں کیا کیا ہوتا تھا؟ کسی کو اس سے بات کرتے ہوئے یہ یاد ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ ”پاکستان” آگیا ہے۔ کوئی اسے امریکہ سے نکلنے ہی نہیں دے رہا تھا۔
”واپسی کب ہے تمہاری بیٹا؟”
اس کے باپ نے اس کی آمد کے دو گھنٹے کے بعد کھانے کے دوران اس سے پوچھا۔ وہ کچھ دیر روٹی کا نوالہ ہاتھ میں لیے ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”پچیس کو۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”اچھا… پورا مہینہ بنتا ہے پھر تو بڑے دن رہو گے۔ کام کا حرج تو نہیں ہو گا پیچھے؟”
اس کی بھوک یک دم اڑ گئی۔ اس کے باپ کے لہجے میں اس کے لیے بے حد تشویش تھی۔
”جی نہیں، کام کا حرج نہیں ہو گا۔” اس نے مدھم آواز میں کہا اور نوالہ رکھ دیا۔
”بھائی جان! باقی سامان کب آ ئے گا؟” اس کی چھوٹی بہن نے بے حد اشتیاق سے پوچھا۔ وہ اپنے ساتھ صرف ایک سوٹ کیس لے کر آیا تھا۔
”باقی سامان؟” اس نے چونک کر ان لوگوں کو دیکھا۔ اسے احساس ہوا، وہ صرف چھوٹی بہن کا سوال نہیں تھا، ہر ایک کا سوال تھا۔
”بس اتنا سامان ہی ہے۔ میں نے بتایا نا کہ میں کسی کی ڈیڈ باڈی کو لے کر آیا ہوں کچھ اور خریدنے یا لانے کا تو خیال ہی نہیں رہا مجھے۔”
اس نے بے حد معذرت خواہانہ انداز میں سب کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اسے اب خیال آرہا تھا، وہ نو سال بعد آرہا تھا۔ اسے کچھ تو لانا ہی چاہیے تھا سب کے لیے۔
”کوئی بات نہیں، بھائی یہیں سے خریداری کروا دے گا تم سب لوگوں کو۔ اب آرام سے کھانا کھانے دو میرے بیٹے کو۔” اس کی ماں کو جیسے اس کا خیال آیا تھا۔
”کباب لو بیٹا!”
”نہیں، بھوک نہیں ہے۔” اس کا دل واقعی اچاٹ ہو گیا تھا۔ وہ نرمی سے کہتے ہوئے کھانے کی میز سے اٹھ گیا۔
اندر کمرے میں آکر اس نے کپڑے تبدیل کیے اور اس سے پہلے کہ وہ باہر نکلتا اس کی ماں اندر آئی۔
”کہیں جا رہے ہو بیٹا؟”
”ہاں، میں ذرا عافی سے ملنے جا رہا ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے ماں سے کہا۔
”کوئی ضرورت نہیں، ہم نے کل تمہاری منگنی توڑ دی ہے۔” وہ دوسرا سانس نہیں لے سکا۔
*****




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!