من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

”میں تمہیں کچھ دینا چاہتا تھا۔”
شینا نے چونک کر پہلے آئینے میں سے اسے دیکھا پھر گردن موڑ کر۔ شیراز تب تک ڈبیا میں سے انگوٹھی نکالے اس کے ہاتھ بڑھانے کا منتظر تھا۔ مگر شینا نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے کے بجائے انگوٹھی لینے کے لیے ہاتھ اس کے سامنے پھیلا دیا۔ شیراز نے قدرے تامل کرتے ہوئے انگوٹھی اس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ شینا نے انگوٹھی انگلیوں میں پکڑتے ہوئے ایک نظر اس پر ڈالی پھر بڑی لاپروائی کے ساتھ ڈریسنگ ٹیبل پر پھینک دی۔ انگوٹھی سلپ ہوتے ہوئے نیچے اس کے پیروں میں کار پٹ پر گر پڑی۔ شیراز نے بے حد ہتک محسوس کی مگر یہ ہتک محسوس کرنے کا وقت نہیں تھا۔
”تمہیں پسند نہیں آئی؟” اس نے پتہ نہیں کیا سوچ کر اس سے پوچھا۔
”نہیں۔” شینا نے بالوں میں برش چلاتے ہوئے کہا۔
”ڈائمنڈ رنگ تھی۔” شیراز نے ساتھ اس کی قیمت بتانے سے زبردستی خود کو روکا۔
”میں صرف Tiffany کے ڈائمنڈز پہنتی ہوں۔ تم اپنی ماں یا بہنوں میں سے کسی کو دے دینا۔” شینا نے اسی لاپروا انداز میں کہا۔
”یہ تمہارے لیے شادی کا تحفہ تھا۔” شیراز نے اسے کچھ جتانا چاہا۔
”تحفہ خوشی کے موقع پر دیا جاتا ہے۔”
شینا نے اپنا ہیر برش بھی انگوٹھی والے انداز میں ٹیبل پر پھینکا اور بیڈ کی طرف چلی گئی۔ لیکن اس کے جملے نے شیراز کی ساری جان نکال دی تھی۔
”تم اس شادی سے خوش نہیں ہو؟” اس نے بے یقینی سے شینا سے پوچھا۔
”نہیں۔”
”کیوں؟” شیراز اس بار خود کو سوال کرنے سے نہیں روک سکا۔
”اپنے آپ کو آئینے میں دیکھو… تمہیں پتا چل جائے گاکیوں ۔اب مجھے سونے دو… میں تمہاری بک بک سننے کے لیے تمہیں یہاں نہیں لائی۔”
شینا نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا۔ وہ آنکھیں بند کر چکی تھی۔ شیراز کو یقین نہیں آیا کہ اس نے یہ سب کچھ اس سے کہا تھا… چند لمحے شینا کو دیکھ کر اس نے پلٹ کر آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا۔
اسے کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جو اسے کسی عورت کے لیے ناقابل قبول بناتی۔ وہ مناسب خدوخال رکھتا تھا اور ان ہی خدوخال پر زینی مرتی تھی۔
اس نے بے حد گڑبڑا کر چور نظروں سے آئینے سے بیڈ پر سوتی ہوئی شینا کو دیکھا۔ یہ زینی یہاں کہاں آگئی تھی یہاں اس کا کیا کام تھا۔ اس نے اسے اپنے ذہن سے جھٹکا۔
ابھی اسے شینا کے بارے میں سوچنا تھا۔ جس سے پچھلی رات کو اس کا نکاح ہوا تھا۔ وہ ایک بار پھر جا کر ایزی چیئر پر بیٹھ گیا۔ اس نے بیڈ پر سوئی ہوئی شینا کو ایک بار پھر دیکھا پھر اپنے کمرے اور اس میں پڑی چیزوں کو، چند لمحوں میں اس کا ڈپریشن غائب ہو گیا تھا۔
ٹھیک ہے۔ وہ شینا کا دل نہیں جیت سکا تھا۔ مگر شادی کے جوئے میں اس نے بہت کچھ جیتا تھا۔ ایک عورت کا دل نہیں تو نہ سہی۔ وہ پر سکون ہو گیا تھا۔ بہر حال شینا کا شوہر تو وہی تھا۔ سعید نواز کے داماد کے نام سے تو سوسائٹی اب اسے ہی پہچاننے والی تھی۔
٭٭٭




شیراز گیارہ بارہ کے قریب سو کر اٹھا تھا۔ شینا تب بھی گہری نیند سو رہی تھی۔ اٹھتے ہی ایک بار اسے رات اور صبح شینا کے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو یاد آئی اور پھر یک دم اسے اس ڈائمنڈ کی انگوٹھی کا خیال آیا۔ وہ بیڈ سے اٹھتے ہی سیدھا ڈریسنگ ٹیبل کے پاس گیا اور کارپٹ پر رنگ ڈھونڈنے لگا۔ چند لمحوں میں اس نے انگوٹھی تلاش کر لی تھی کارپٹ پر پڑی ہوئی اس انگوٹھی پر اس نے بڑی رقم خرچ کی تھی اور اس کا خیال تھا شینا کو وہ ضرور پسند آئے گی آخر وہ پچاس ہزار کی تھی۔ مگر اب اسے کارپٹ پر پڑا دیکھ کر اسے رنج ہو رہا تھا کہ اس نے خوامخواہ پچاس ہزار ضائع کیے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ کوئی سستی سی انگوٹھی خرید لاتا۔ کیونکہ شینا اس کا بھی یہی حشر کرتی۔
وہ اپنے بیڈ روم سے جس وقت باہر آیا۔ اس وقت اس نے اکبر اور نسیم کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھ لیا تھا اور ماں باپ کے چہرے کے تاثرات نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ یقینا شینا کو رات کو گھر سے جاتے اور صبح آتے دیکھ چکے تھے، اسے پہلے ہی یہ خدشہ تھا مگر اس نے بظاہر بڑے نارمل سے انداز میں ملازم کو ناشتہ لگانے کے لیے کہا اور ان دونوں کے پاس بیٹھ گیا۔
”شینا کہاں ہے بیٹا؟” نسیم نے ہی گفتگو کا آغاز کیا۔
”وہ سو رہی ہے۔” شیراز نے لہجے کو بے حد نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
”رات کو وہ کہیں گئی تھی۔ پھر میں نے دیکھا، صبح فجر کے بعد آئی؟” نسیم نے کسی تمہید کے بغیر پوچھا۔
”ہاں… وہ انکل کی طبیعت کچھ خراب تھی تو انہوں نے اسے بلوایا تھا۔” شیراز نے جھوٹ بولا۔
”بھائی سعید نواز کی؟… ان کو کیا ہوا؟” نسیم نے یک دم پریشان ہو کر پوچھا۔
”کچھ نہیں۔ بس شاید شینا کی شادی کی وجہ سے کچھ اداس تھے۔ ذرا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا تھا۔” شیراز نے جھوٹ پر جھوٹ بولا۔
”اور تم نے بہو کو اکیلے بھیج دیا۔ وہ بھی رات کے وقت… تمہیں خود ساتھ جانا چاہیے تھا۔ کیا سوچ رہے ہوں گے سعید بھائی۔” اکبر نے اس ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”میں آج جاؤں گا، ابھی ناشتے کے بعد۔” شیراز نے انہیں تسلی دی۔
”بلکہ ہم دونوں کو بھی ساتھ لے جانا… ہم بھی ان کی طبیعت پوچھ لیں گے۔” نسیم نے کہا۔
”نہیں نہیں امی! اس کی ضرورت نہیں… بلکہ آپ شینا سے بھی ان کی بیماری کے بارے میں بات مت کیجئے گا… وہ خوا مخواہ پریشان ہو گی۔” شیراز کو یک دم اپنے جھوٹ کے پکڑے جانے کا اندیشہ لاحق ہوا۔
”لو بھلا، اب ہم بہو سے اس کے باپ کی خیریت بھی نہ پوچھیں۔” نسیم نے بے اختیار برا مانا۔
”نہیں امی! ابھی نہیں۔” میں خود آپ کو آکر سعید انکل کا حال بتا دوں گا۔ شینا کہہ رہی تھی وہ بالکل ٹھیک ہیں۔”
شیراز نے جلدی جلدی کہا اکبر اور نسیم نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر شیراز کو۔
”میرا خیال ہے ناشتہ لگ گیا ہے۔ میں ذرا ناشتہ کر لوں۔” شیراز نے بہتر سمجھا کہ اس وقت وہاں سے ٹل جائے۔
٭٭٭
”شینا بالکل بچی ہے، بعض دفعہ اس طرح کی باتیں کر دیتی ہے۔ تم خوامخواہ پریشان ہو رہے ہو۔”
وہ کچھ دیر پہلے ہی سعید نواز کے پاس آیا تھا اور سعید نواز اس کی ساری باتیں سن کر بڑے اطمینان سے ہنس کر بولے تھے۔
”لیکن انکل! اس نے مجھ سے خود کہا ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتی۔” شیراز نے بے حد سنجیدگی سے انہیں بتایا۔
”وہ نہ بھی کرے، میں تو کرتا ہوں نا!” انہوں نے اسی انداز میں کہا۔
”غصے کی تیز ہے اور کوئی بات نہیں۔”
”لیکن انکل! اس نے مجھ سے یہ بھی کہا ہے کہ میں اپنے ماں باپ کو واپس بھیجوا دوں۔” شیراز اب اس بات کی طرف آیا جو اس کی پریشانی کی اصل وجہ تھی۔
”بیٹا! یہ تو کوئی نامناسب مطالبہ نہیں۔ وہ گھر میں نے تم دونوں کو رہنے کے لیے دیا ہے۔ شینا کو جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے کی عادت نہیں۔ وہ تو یہاں میرے ساتھ رہتی تھی تو اوپر کا پورا پورشن استعمال کرتی تھی۔ اب میری سمجھ میں آیا، اس کا موڈ کیوں آف ہوا۔ تم جلد از جلد اپنے گھر والوں کو واپس بھیجو۔”
کچھ دیر پہلے کی مسکراہٹ اور اطمینان اب سعید نواز کے چہرے پر نہیں تھا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھے اور شیراز کچھ مزید اپ سیٹ۔ اس کا خیال تھا۔ سعید نواز اس کے ماں باپ کو وہیں رکھنے کے سلسلے میں اس کی حمایت کریں گے۔
”لیکن انکل! میں اتنی جلدی انہیں واپس شفٹ نہیں کر سکتا۔ ابھی کچھ دن لگیں گے مجھے کرائے کا کوئی گھر تلاش کرنے میں۔” اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
”کیوں، وہ تمہارے پرانے گھر کو کیا ہوا؟” وہ چونکے۔
”وہ… ہم نے کرائے پر دے دیا۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”تو خالی کروا لو بلکہ میں خالی کروا دیتا ہوں۔” سعید نواز نے فوراً کہا۔
”نہیں انکل! میں اب انہیں وہاں نہیں رکھنا چاہتا کیونکہ وہ گھر ذرا چھوٹا ہے۔” شیراز نے فوراً کہا ”میں کوئی اور گھر کرائے پر لے کر انہیں وہاں رکھوں گا۔”
”لیکن یہ کام جلد ہونا چاہیے۔ فی الحال تو میں شینا کو سمجھا دوں گا۔ لیکن …یہ اس کا گھر ہے۔ اگر اسے وہاں پرائیویسی نہیں ملے گی تو وہ ری ایکٹ تو کرے گی۔” سعید نواز نے بے حد سنجیدگی اور سرد مہری سے کہا۔ ان کے انداز میں کسی قسم کا لحاظ یا گرم جوشی مفقود تھی۔
”جی!” شیراز نے بے حد پست آواز میں کہا۔ اس کی پریشانی اب شروع ہوئی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ گھر والوں سے یہ کس طرح کہے گا کہ ”انہیں اس گھر سے جانا ہے وہ انہیں ساتھ نہیں رکھ سکتا۔”
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!