من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

دروازے پر مسلسل دستک ہو رہی تھی۔ غنودگی کے عالم میں اسے یہ شور سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ جیسے اس کے لاشعور نے اس شور کو سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
کوئی دروازہ بجا رہا تھا، آہستہ آہستہ مگر بہت دیر سے… مسلسل… زینی نے اپنی بوجھل آنکھوں کوبمشکل کھولا۔ اسے اس شور سے عجیب نفرت محسوس ہوئی۔ اس کا سر اور پورا جسم بے حد بھاری ہو رہا تھا۔ آنکھیں کھلی رکھنے کے لیے بھی جیسے اسے جدوجہد کرنی پڑ رہی تھی۔
کچھ دیر کے لیے چپ بستر پر لیٹی وہ چھت کو گھورتے ہوئے پڑی رہی پھر یک دم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اسے چکر سا آیا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے اسے لگا وہ کھڑی نہیں ہو سکے گی مگر یہ صرف ایک لمحہ کا ہی احساس تھا، وہ دوسرے ہی لمحے اپنے پیروں پر کھڑی تھی۔ اسے سردی محسوس ہوئی تھی۔ کمرے میں ایر کنڈیشنر کی کولنگ کی وجہ سے کمرہ بے حد ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ اس نے دروازے کی طرف جانے سے پہلے ایر کنڈیشنر کو بند کیا اور پھر جا کر دروازہ کھول دیا۔
”وہ فاران صاحب آئے ہیں۔ پہلے بھی دو چکر لگا چکے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ آپ سے ضروری ملنا ہے آج انہیں۔”
ملازم نے دروازہ کھلتے ہی زینی کو اطلاع دی تھی۔ اس کا لہجہ بے حد معذرت خواہانہ تھا۔ کتنے دنوں سے وہ اسی طرح کمرے میں پڑی رہتی تھی اور اس نے ملازم کو اسے کسی کو آنے کی اطلاع دینے سے بھی منع کر دیا تھا۔ وہاں فاران کے سوا ابھی آتا بھی کون تھا مگر وہ فی الحال فاران کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
”جا کر کہہ دو، مجھے نہیں ملنا۔” اس نے ایک بار پھر درشتی سے ملازم سے کہا۔
”میں کہہ دیتا ہوں مگر وہ کہہ رہے ہیں، انہیں آج ہر حالت میں آپ سے ملنا ہے۔ وہ تب تک یہاں سے نہیں جائیں گے، جب تک آپ ان سے مل نہیں لیتیں۔” ملازم نے جیسے اسے خبردار کیا۔
”تو ٹھیک ہے، اس سے کہو کہ وہ پھر بیٹھا رہے۔”
زینی نے بہت زور سے دروازہ بند کیا تھا۔ کمرے کی کھڑکیوں کے پردے ہٹا کر وہ ایک بار پھر اپنے بیڈ پر آبیٹھی۔ خالی اور بوجھل سر کے ساتھ۔
ایک اور دن آپہنچا تھا پھر چند گھنٹوں کے بعد ایک اور رات آجاتی پھر ایک اور… پھر ایک اور… اسے وحشت ہوئی زندگی اتنی لمبی کیوں ہوتی ہے۔ اس قدر طویل کہ کاٹنے پر بھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ آج کون سا دن تھا، کون سی تاریخ تھی، اسے یاد نہیں آیا۔ وقت اس کے لیے پچھلے کئی دنوں سے صرف روشنی اور اندھیرا صرف دن اور رات تھا۔ تاریخ اور دن نہیں تھے۔




اس نے ایک نظر اپنے کمرے میں بیڈ کے آس پاس کارپٹ کو دیکھا۔ جابجا شراب کی چھوٹی بڑی خالی، ادھ خالی اور بھری ہوئی بوتلیں پڑی ہوئی تھیں۔ بیئر کے خالی ٹن لڑھکے ہوئے تھے۔ خالی اور گندے گلاس۔ سگریٹ کے خالی اور بھرے ہوئے پیکٹ، ٹرینکولائزر کی خالی شیشیاں، کچھ دوسرے اینٹی ڈپریسنٹ۔ ایش ٹرے میں سگریٹ کے ٹکڑوں کا پہاڑ تھا جو اب ایش ٹرے سے باہر بھی آچکا تھا۔ کارپٹ پر بھی کئی جگہ راکھ اور ٹکڑے پڑے تھے۔ کئی جگہ سے کارپٹ سگریٹ کے ٹکڑوں کی وجہ سے جلا ہوا تھا۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل اور کمرے میں پڑی دوسری تپائیوں پر گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ وہ کسی نارمل انسان کا کمرہ نہیں لگ رہا تھا، وہ کسی نارمل انسان کا کمرہ تھا بھی نہیں۔
وہ بہت دنوں سے اس کمرے میں مقید تھی۔ جب جاگتی تو یہی کرتی۔ شراب پیتی، سگریٹ پیتی، اینٹی ڈیپریسنٹ لیتی پھر سو جاتی۔ کئی کئی گھنٹے وہ ان چیزوں کے زیر اثر سوئی رہتی۔ غنودگی ختم ہوتی وہ جاگتی، نئے سرے سے ان چیزوں کو استعمال کرتی اور دوبارہ سو جاتی۔ ملازم کھانے کی ٹرے کمرے میں رکھ جاتا اور پھر اسی طرح جوں کی توں اٹھا کر واپس لے جاتا۔ اس کی مرضی ہوتی تو وہ کسی چیز کو کھاتی، ورنہ پورا پورا دن کھانا تو ایک طرف پانی کاگھونٹ تک نہیں پیتی تھی۔
بعض دفعہ تو وہ ٹرینکولائزر اور اینٹی ڈیپریسنٹ بھی شراب کے ساتھ نگلتی تھی۔ شراب اور سگریٹ ختم ہوتے تو وہ بیگ سے چند کرنسی نوٹ نکال کرملازم کو تھما دیتی۔ ملازم جا کر دونوں چیزیں لے آتا۔ وہ فاران کا ملازم تھا۔ فاران نے اسے وہاں رکھوایا تھا۔ وہ جس طبقے کے گھروں میں کام کرتا تھا، وہاں شراب نوشی عام تھی مگر اس نے کبھی کسی عورت کو اس طرح اور اتنی شراب استعمال کرتے نہیں دیکھا تھا۔ بعض دفعہ تو اسے لگتا کہ وہ کسی دن شراب پی پی کر مر جائے گی لیکن وہ ایک ملازم تھا، وہ گھر کے مالکوں کو مشورے نہیں دے سکتا تھا۔
زینی نے ایک بار پھر پاس پڑے گلاس میں موجود شراب اٹھا کر اپنے اندر انڈیل لی۔ وہ اسی کو پیتے پیتے سوئی تھی۔
گلاس خالی ہو گیا۔ زینی نے ایک سگریٹ سلگا لیا۔ وہ ایک بار پھر اپنے گھر پہنچ گئی تھی۔
”چلی جاؤ یہاں سے، کیا لینے آئی ہو اب یہاں۔ باپ کو مار دیا، گھر اجاڑ دیا ہمارا، باپ کے بجائے تو کیوں نہیں مر گئی زینی… تو مر جاتی… تجھے کیوں نہیں دفنا دیا میں نے… مجھے پتہ ہوتا کہ باپ کی جان لے لے گی تو… تو میں پیدا ہوتے ہی تیرا گلا گھونٹ دیتی… اپنے ہاتھوں سے مار دیتی تجھے… نکل جا میرے گھر سے… چلی جا یہاں سے… دوبارہ شکل مت دکھانا ہمیں… سمجھ تیرے باپ کے ساتھ ہم سب بھی مر گئے تیرے لیے… نکل میرے گھر سے۔۔۔۔”
ایک دھکا، دوسرا دھکا، تیسرا دھکا۔ وہ باہر گلی میں آگئی تھی۔ اسی طرح… پتھر کے بت کی طرح ساکت ماں کو دیکھتے ہوئے۔
نفیسہ اب اس کے لائے ہوئے شاپرز اٹھا کر دروازے سے باہر گلی میں اس کے اوپر پھینک رہی تھیں۔ اس کی لائی ہوئی ساری چیزیں اس کے ارد گرد گلی میں بکھر گئی تھیں۔ نفیسہ نے روتے ہوئے گھر کا دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا اور وہ بند دروازے کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ گلی کے دوسرے گھروں سے عورتیں اور بچے باہر نکل کر اپنی اپنی چوکھٹوں پرکھڑے اس تماشے کو دیکھ رہے تھے۔
تب ہی ساتھ والے گھر سے ایک عورت باہر نکلی اور اس نے روتے ہوئے زینی کو ساتھ لپٹانے کی کوشش کی۔ زینی اب بھی اسی طرح گم صم کھڑی تھی۔
”گیارہ دن ہو گئے زینی اور تم اب آئی ہو۔” وہ اس سے لپٹ کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”گیارہ دن… اور مجھے پتہ تک نہیں چلا کہ میرا باپ… گیارہ دن۔”
زینی شاک کے عالم میں کھڑی رہی۔ ایک دو اور عورتیں اب اس کے پاس آئی تھیں اور اس سے افسوس کر رہی تھیں کچھ کہہ رہی تھیں جب کہ دوسری طرف سے نفیسہ کے رونے کی آواز آرہی تھی۔
چند عورتوں نے اس کے آس پاس بکھری چیزوں کو اکٹھا کر کے شاپرز میں ڈالنا شروع کر دیا۔
زینی کی ٹانگیں کانپنے لگیں تو اس کا باپ اس لیے پیچھے نہیں آرہا تھا کیونکہ وہ… اس کے حلق میں پھندے لگنا شروع ہو گئے تھے۔ ورنہ یہ کیسے ہوتا کہ وہ زینی کو ڈھونڈنے، اس کو واپس لانے کے لیے نہ آتا۔ اس کا جسم کانپنے لگا۔ وہ عورت اب بھی اس کے ساتھ لپٹی روتے ہوئے اس سے کچھ کہہ رہی تھی۔ زینی کوکچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں۔
زینی کا ماتھا چومنے والا اور اس پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والا مرد اس دنیا سے چلا گیا تھا جو اسے دنیا میں لایا تھا۔
”آپ دعا کریں، میں جلدی مر جاؤں، ورنہ آپ کے لیے بہت مسئلہ ہو جائے گا۔”
اس نے فاران کے پاس جانے سے ایک رات پہلے ضیاء سے دعا کرنے کے لیے کہا تھا۔
”کوئی غلط کام مت کرنا زینی!”
ضیاء نے اس سے کہا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ باپ نے اس کے لیے نہیں، اپنے لیے جلد مر جانے کی دعا کی ہوگی۔ اس سے پہلے کہ وہ زینی کے کسی غلط کام کا نتیجہ دیکھتے۔
اس نے اس عورت کو خود سے الگ کر دیا تھا اور وہ گلی میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بلک بلک کر روئی تھی۔ ساتھ والی عورتوں نے اسے اٹھا کر اپنے گھر لے جانے کی کوشش کی مگر زینی وہاں سے نہیں اٹھی۔ وہاں گلی میں بیٹھ کر اس نے اس خسارے کی پہلی فصل کاٹی تھی جس کے بیج اس نے اپنی زندگی میں بوئے تھے پھر وہ وہاں سے روتے، ننگے پاؤں بھاگتے ہوئے اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنے گھر میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کسی منہ سے اب اس گھر میں جاتی، جہاں اس کا باپ نہیں تھا۔
زینی نے گلاس میں کچھ اور شراب انڈیلی اور اس میں برف ڈالے بغیر اسے ایک بار پھر اپنے اندر انڈیلنے لگی۔ روز یہی ہوتا تھا، وہ اس دن کے ایک ایک لمحے کو یاد کرتی تھی۔ پیتی رہتی تھی۔ سگریٹ پھونکتی جاتی تھی اور پھر ٹرینکولائزر لے کر سو جاتی۔
وہ ملائیشیا میں تھی، جب ضیاء کی وفات ہوئی تھی، وہ وہی رات تھی جس رات اس نے پہلی بار پی تھی۔
اس نے ایک اور سگریٹ نکال کر سلگا لیا۔ اتنے دنوں میں ایک بار بھی اسے شیراز کا خیال نہیں آیا تھا۔ نہ اس کا نہ اس کی بیوی کا۔ صرف باپ کا خیال آتا تھا، وہ جیسے اس کے لیے کائنات بن گئے تھے۔
پورا سگریٹ اس کی انگلیوں میں دبا دبا راکھ بن گیا۔ کچھ دیر کے لیے زینی کو یہ یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وہ سگریٹ پی رہی تھی۔ وہ صرف اپنے باپ کے بارے میں سوچ رہی تھی اور اپنے بارے میں۔ ننھی زینی کے بارے میں۔ ساری عمر باپ کی انگلی پکڑ کر باپ کے ساتھ ساتھ سیدھے رستے پر چلتی رہی تھی۔ صرف ایک بار وہ انگلی اس کے ہاتھ سے چھوٹی تھی اور اس کے بعد وہ ہاتھ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا تھا۔
سگریٹ نے یک دم اس کی انگلیوں کو جلایا۔ اس نے چونک کر انگلیوں میں پھنسے سگریٹ کے باقی ماندے حصے کو ایش ٹرے میں پھینکا پھر اس نے ایک اور سگریٹ نکال کر سلگا لیا۔
اتنے دن میں ایک بار بھی اس نے باپ کو خواب میں نہیں دیکھا تھا۔ ہلکی سی جھلک۔ کوئی آواز… کوئی شائبہ… کوئی خیال… کچھ نہیں… وہ جب تک جاگتی، ہوش میں ہوتی۔ باپ کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے ہوتا لیکن وہ باپ سے خواب میں ملنا چاہتی تھی… دیکھنا چاہتی تھی، وہ کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ سننا چاہتی تھی، وہ اس سے کیا کہنا چاہتے تھے… پوچھنا چاہتی تھی، وہ کیوں اس طرح اس کی دنیا سے غائب ہو گئے۔
لیکن وہ اتنے دنوں سے ایک بار انہیں خواب میں بھی نہیں دیکھ پائی تھی۔ وہ ترس گئی تھی ان کے لیے۔ وہ تو ضیاء کی زندگی میں، ان کے پاس رہتے ہوئے ہر دوسرے چوتھے دن باپ کوخواب میں دیکھتی تھی تو اب کیا ہو گیا تھا۔ ایسا بھی کیا ہو گیا تھا کہ…
زینی کا سگریٹ پھر راکھ بن گیا تھا۔ اس نے اسے بھی ایش ٹرے میں پھینکا۔
اس سے پہلے کہ وہ ایک اور سگریٹ سلگاتی۔ دروازہ کھول کر فاران اندر داخل ہوا۔ زینی نے سر اٹھا کراسے دیکھا۔ اشتعال کی ایک لہر اس کے اندر سے اٹھی۔ یہی تو تھا جو اسے یہاں سے لے گیا تھا۔ وہ نہ لے جاتا تو اس کا باپ زندہ ہوتا۔
” out، out۔” وہ بے اختیار کھڑے ہوتے ہوئے چلائی۔
”اپنی حالت دیکھو زینی! اپنے آپ پر رحم کرو۔” فاران کو اندازہ تھا کہ اس کی حالت خراب ہو گی لیکن جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا، اس نے اسے ہولا دیا تھا۔
”مجھے تمہاری ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے، سمجھے تم۔” وہ ایک بار پھر چلائی۔ ”جاؤ یہاں سے اور مجھے اپنی شکل مت دکھاؤ۔” وہ حلق کے بل چیخ رہی تھی۔ فاران کو اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ نشے میں تھی۔
”میں یہاں سے نہیں جاؤں گا، جب تک تم ان دونوں چیزوں کو نہیں چھوڑتیں۔” فاران نے اس بار قدرے سخت لہجے میں کہا۔
اس بار زینی نے کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی، وہ یک دم دوبارہ کارپٹ پر بیٹھ گئی۔ وہ اب ایک اور سگریٹ سلگا رہی تھی۔ فاران کو اس پر ترس آیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہ اس سے کیا کہے۔
”مجھے بہت افسوس ہے زینی! بلیو می۔ مجھے انکل کے بارے میں۔۔۔۔”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!