من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

دوسری طرف شیراز گاڑی کی چابی ہاتھ میں لیے یہ طے کر رہا تھا کہ اسے کل کس وقت ڈرائیونگ سیکھنے کے لیے پہلی بار پریکٹس کرنے جانا تھا اور ساتھ اسے چیک پر تحریر رقم جاننے کا بھی تجسس ہو رہا تھا جو سعید نواز نے ایک بند لفافے میں اس کے حوالے کیا تھا۔ وہ کم از کم اپنے اہل خانہ کی طرح اتنا بے صبرا ثابت نہیں ہوا کہ وہیں وہ لفافہ کھولنے کی کوشش کرتا۔
شینا کو دلہن کے روپ میں سیاہ ساڑھی میں دیکھنے کا ابتدائی صدمہ جلد ہی اس چیک، چابی اور زیورات نے بھلا دیا تھا۔ شینا کسی کو دلہن لگ رہی ہو یا نہیں مگر ”پیاری” ضرور لگ رہی تھی۔
کھانے کے فوراً بعد رخصتی ہو گئی تھی۔ شینا کو وہ اکلوتا سیٹ اور چھ چوڑیاں پہنانے کی حسرت نسیم کے دل ہی میں رہ گئی تھی جن کی حفاظت کرتے کرتے وہ ہلکان ہو رہی تھیں۔ شینا کو ان کے زیورات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اس کے لباس سے میچ نہیں کرتے تھے۔
اسے ان کی لائی ہوئی دوسری چیزوں میں بھی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کا لایا ہوا سوٹ کیس بغیر کھولے واپس گاڑی کی ڈکی میں رکھوا دیا گیا۔ نسیم کا خیال تھا، شینا شادی کے بعد ان چیزوں کو استعمال کرے گی۔ بعد میں انہیں احساس ہوا، یہ ان کی خوش فہمی تھی، وہ ان کے ”اسلامی” ملبوسات کو کسی قیمت پر نہ پہنتی۔
شینا کو گاڑی میں شیراز کے ساتھ بٹھانے کے لیے نسیم یا اس کی بیٹیوں کو کسی قسم کا تردد نہیں کرنا پڑا تھا۔ وہ خود ہی اپنے اہل خانہ سے گلے ملنے کے بعد گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ البتہ اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے نزہت کو گاڑی میں بیٹھنے سے روکا جو اسی کی طرف سے گاڑی میں بیٹھنا چاہ رہی تھی۔ دوسرے دروازے سے نسیم پہلے ہی گاڑی میں بیٹھ چکی تھی اور اس کے ساتھ شیراز کی چھوٹی بہن بھی۔ اب نزہت کے بیٹھنے کا مطلب یہ ہوتا کہ شینا ان تینوں کے درمیان سینڈوچ بن جاتی۔
”آپ دوسری گاڑی میں بیٹھیں۔” شینا نے بے حد دو ٹوک انداز میں اس سے کہا اور دروازہ بند کر لیا۔ ڈرائیور کے برابر بیٹھے ہوئے شیراز نے فوراً گاڑی سے اتر کر پچھلی گاڑی میں نزہت کو بٹھایا۔
کچھ اسی قسم کا سین شیراز کے گھر پہنچ کر ہوا تھا، جب شینا کے گاڑی سے اترتے ہی اس کی نندوں اور ساس نے اسے بازو سے تھام کر اندر لے جانے کی کوشش کی۔ اس نے بڑے آرام سے اپنے بازوؤں سے ان کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔
”یہ میرا گھر ہے، ہزار بار آچکی ہوں یہاں۔ مجھے یہاں گائیڈ نس کی ضرورت نہیں۔”
وہ یہ کہہ کر دولہا کو اس کے ”اہل خانہ” کے پاس چھوڑ کر اندر چلی گئی تھی۔




”ظاہر ہے امی! گھر تو دیکھا ہو گا اس نے۔ اس کا جو ہے۔۔۔۔” شیراز نے مسکرا کر ان سب سے کہا جو بے حد ہونق انداز میں اس کو دیکھ رہے تھے۔
”ہاں ہاں… کوئی بات نہیں۔ چلو سب اندر چلو۔ شینا بیٹی سے باتیں کرنی ہیں ابھی۔”
اکبر نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے ماحول کو خوش گوار کیا۔ اندر پہنچ کر اس کا اندازہ ٹھیک نکلا۔ شینا بیٹی کو واقعی ان سے باتیں کرنی تھیں۔
”ماسٹر بیڈ روم کس کے زیر استعمال ہے؟” وہ لاؤنج میں کھڑی انہیں لوگوں کی منتظر تھی۔ مخاطب شیراز تھا اور لہجہ کڑا۔
ماسٹر بیڈ روم؟ وہ امی کے پاس ہے۔” شیراز پہلے ہکلایاپھر اس نے مسکرانے کی فاش غلطی کی۔
”کیوں؟”
”وہ۔۔۔۔” شیراز اٹکنے لگا۔ سی ایس ایس میں دوسری پوزیشن حاصل کرنا آسان تھا۔ اپنے سے بہتر خاندان سے لائی ہوئی بیوی کے کسی سوال کا صحیح جواب دینا بے حد مشکل۔
یہ مشکل شینا نے آسان کر دی، وہ کچھ کہے بغیر گراؤنڈ فلور کے اس دوسرے کمرے کی طرف چلی گئی جو ان کی ممکنہ قیام گاہ ہو سکتی تھی۔ شیراز کی جیسے جان میں جان آئی تھی اور کچھ ایسا ہی حال شیراز کے گھر والوں کا تھا شینا کے وہاں سے جاتے ہی سب کے چہروں کی رنگت بحال ہوگئی تھی۔
شیراز باہر جا کر مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکروں کے علاوہ ان دوسری چیزوں کو رکھوانے لگا تھا جو سعید نواز کے گھر سے آئی تھیں جبکہ نسیم اپنی بیٹیوں اور شوہر کے ساتھ اب ان ملبوسات کو کھول کر دیکھنے میں مصروف تھیں جو ان لوگوں کو سعید نواز کے گھر سے ملے تھے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کا بیٹا پہلی بار شینا کے رویے سے متفکر ہوا تھا مگر فی الحال وہ اس پریشانی کو کسی پر ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
٭٭٭
شادی کی رات کو شینا کے بیڈ روم میں داخل ہونے سے پہلے شیراز نے ان تمام ڈائیلاگز اور وعدوں کی پریکٹس کی جو اسے شینا سے کرنے تھے۔ شینا کا بے حد سرد اور رُوڈ رویہ دیکھنے کے باوجود اسے یقین تھا کہ شینا کے دل میں اس کے لیے کوئی نہ کوئی نرم گوشہ ضرور ہو گا، ورنہ وہ کسی طرح اس سے شادی پر تیار نہ ہوتی۔ وہ سعید نواز کی اکلوتی بیٹی تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ سعید نواز اس پر کوئی جبر کرتا۔
تو اب اسے صرف اس نرم گوشہ کو تلاش اور اس کا استعمال کرنا تھا۔ اس نے ان ساری باتوں کو بھی اپنے ذہن میں دہرایا تھا جو وہ زینی سے کیا کرتا تھا اور زینی اس پر جان دینے کے لیے تیار ہو جاتی تھی۔
زینب ضیاء اور شینا سعید نواز میں کیا فرق تھا۔ یہ اس رات اسے اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھولتے ہی سمجھ میں آگیا تھا۔
شینا ایک جینز اور شرٹ میں ملبوس ایک سیل فون پر کسی سے ناراضی سے بات کرتے ہوئے کمرے کے چکر لگا رہی تھی۔ اس نے شیراز کو اندر آتے دیکھا تھا مگر صرف دیکھا تھا، کسی تاثر کے بغیر۔ یوں جیسے کمرے میں کوئی آیا ہی نہ ہو۔
شیراز بالکل بے حس و حرکت کمرے کے وسط میں کھڑا اسے اپنے سامنے ادھر سے ادھر جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ شینا نے زیادہ لمبی بات نہیں کی۔ شاید وہ پہلے ہی اپنی بات کا اختتام کرنے والی تھی۔
فون بند کرتے ہی اس نے شیراز سے پوچھا۔
”میرا فرنیچر، ماسٹر بیڈ روم کے بجائے یہاں کیوں لگوایا تم نے؟”
”وہ ماسٹر بیڈ روم میں امی اور ابو ہیں۔ وہ میں نے ان کو دے دیا ہے۔” شیراز نے اس بار قدرے مستحکم لہجے مگر پست آواز میں کہا۔
”وہ شادی میں شرکت کے لیے آئے ہیں، انہیں ماسٹر بیڈ روم کی کیا ضرورت تھی۔ صبح ملازموں سے کہہ کر کمرے کا سامان وہاں شفٹ کروانا۔”
شینا کے اگلے جملے نے شیراز کے جیسے چودہ طبق روشن کر دیے تھے۔
”نہیں… وہ… وہ تو مستقل شفٹ ہو گئے ہیں یہاں۔” اس کا اعتماد چند سکینڈز میں اڑن چھو ہو گیا۔
”What—? کیا سمجھ کر شفٹ ہوگئے ہیں یہاں؟ یہ میرا گھر ہے، میرے ماں باپ نے میرے رہنے کے لیے دیا ہے۔ تمہارے ماں باپ کے رہنے کے لیے نہیں۔” شینا نے تیز لہجے میں کہا۔
”لیکن اب تو وہ لوگ آگئے ہیں یہاں۔” شیراز نے بے چارگی سے کہا۔
”تو میں کیا کروں، مجھ سے پوچھ کر تو ان کو یہاں نہیں لائے تم۔”
”گھر میں بڑوں کے ہونے سے برکت ہوتی ہے شینا!” شیراز نے بے حد جذب کے عالم میں بے حد احمقانہ بات کی۔
”اگر مجھے برکت کی ضرورت ہوئی تو میں اپنے باپ کو اپنے گھر لے آؤں گی۔”
”مگر۔۔۔۔”
”شینا نے اس کی بات کاٹی۔
“I dont need your ifs and buts
صبح بتا دو انہیں کہ شادی ختم ہو گئی، اب وہ جائیں۔”
”لیکن وہ کہاں جائیں؟”
”کیوں؟ گھر نہیں ہے کیا ان کا؟ یا سب کچھ بیچ کر آئے ہو تم لوگ یہاں؟” شینا نے اتنی بدتمیزی کے ساتھ کہا۔
) ”Now give me the car key. تم مجھے گاڑی کی چابی دو(”
”تم کہاں جا رہی ہو؟” وہ گھر کا رونا یک دم بھول گیا۔
”یہ سوال مجھ سے دوبارہ کبھی مت کرنا۔ میرے باپ نے کبھی مجھ سے یہ نہیں پوچھا تو تم کیا چیز ہو۔ چابی دو۔”
شیراز نے فق ہوتی ہوئی رنگت کے ساتھ جیب سے گاڑی کی چابی نکال کر اسے دے دی۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس گاڑی کے پاس تصویر بنوا کر آیا تھا جو اس کے سسرال والوں نے دی تھی۔
شینا نے تقریباً چھیننے والے انداز میں اس سے وہ چابی لی اور پھر اس پر ایک نظر ڈالے بغیر کمرے سے باہر نکل گئی۔
شیراز نے ایک گھنٹہ لاؤنج میں شینا کے بگڑے تیوروں سے شادی کی اس رات کے بارے میں جو بھی متوقع برے اندازے لگائے تھے، ان میں یہ انجام کہیں بھی نہیں تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا۔
یہ انجام نہیں تھا، یہ آغاز تھا۔
شیراز نے وہ ساری رات بیڈ روم کی ایزی چیئر پر لیٹے گزار دی تھی۔ وہ اپنے دل اور دماغ کو شینا کے اس رویے کے لیے ہر ممکن تاویلیں دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور اس سب سے بھی بڑھ کر مسئلہ اب یہ تھا کہ وہ اس وقت کہاں گئی تھی؟
یہ معمہ بہت دیر تک معمہ نہیں رہا۔
وہ فجر کے کچھ دیر بعد آگئی تھی اور باہر پورچ میں گاڑی کی آواز سنتے ہی شیراز یک دم چاق و چوبند ہو گیا تھا۔ وہ چند منٹوں میں آ ندر تھی اور اس کے چہرے پر ایک نظر ڈالتے ہی شیراز کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا موڈ اب رات جیسا خراب نہیں تھا۔ اس چیز نے اسے کچھ تسلی دی۔ غصہ ہر انسان کو آتا ہے، شینا کو بھی کسی بات پر آگیا ہو گا۔ ورنہ وہ… شیراز نے قدرے پر سکون انداز میں سوچا۔
شینا آتے ہی واش روم میں گھس گئی تھی، چند منٹوں بعد وہ اپنا نائٹ ڈریس پہن کر باہر آئی۔ کھڑکیوں کے باہر اب سفیدی جھلک رہی تھی اور وہ سونے کی تیاری میں مصروف تھی۔
شیراز نے اس وقت ہمت کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔ ”تمہیں بہت دیر ہو گئی؟”
شینا نے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف جاتے جاتے اسے مڑ کر دیکھا۔
”کیسی دیر؟… صرف صبح ہوئی ہے اور میں عام طور پر اسی وقت گھر آتی ہوں۔”
شیراز کا دل چاہا تھا، بے اختیار پوچھے ”کیوں؟” لیکن وہ رات کا سبق ابھی بھولا نہیں تھا۔ اتنا غنیمت تھا کہ وہ اسے بتا رہی تھی۔
شینا اب اپنے بالوں میں برش کرتے ہوئے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔ شیراز کو اس وقت وہ ڈائمنڈ رنگ یاد آئی جو وہ شینا کو دینا چاہتا تھا۔ وہ کوٹ کی جیب سے انگوٹھی والی ڈبیا نکال کر شینا کے پاس چلا آیا اور اس نے اپنے لہجے میں حتی المقدور خوشگواری بھرتے ہوئے اس سے کہا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!