من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

سعید نواز نے بے حد خوش ہو کر مزید کچھ کہنے کے بجائے اپنی جیب سے ایک لاکھ روپے کی ایک نئی گڈی نکال کر شیراز کے ہاتھ میں تھما دی۔ ان کا یہ اقدام اتنا اچانک تھا کہ شیراز، اکبرا ورنسیم بری طرح بوکھلا گئے تھے۔ ان کی حواس باختگی کی وجہ نوٹوں کی وہ گڈی تھی۔ زندگی میں بلاشبہ پہلی بار وہ اتنے زیادہ نوٹ اکٹھے دیکھ رہے تھے اور اکبر اور نسیم کے لیے بہت مشکل تھا کہ وہ شیراز کے ہاتھ سے نظریں ہٹا کر سعید نواز کے چہرے پر مرکوز کر سکیں۔
”بس تو پھر یہ سمجھیں، آج سے شیراز میرا بیٹا ہے۔ میں آ س بار تو کچھ لا نہیں سکا مگر اگلی بار انشاء اللہ آپ سب کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آؤں گا۔” انہوں نے دانستہ طور پر کسر نفسی سے کام لیا تھا اور شیراز تم اپنے گھر والوں کو ویک اینڈ پر ہماری طرف لے کر آؤ تا کہ میں شینا سے انہیں ملواؤں۔”
سعید نواز نے اگلا جملہ شیراز سے مخاطب ہو کر کہاتھا۔ ان کے انداز میں بلا کی بے تکلفی تھی شیراز کا ذہن مکمل طور پر ہاتھ میں پکڑی اس گڈی کی طرف تھا۔ وہ ان کی باتیں بھی ٹھیک طرح سے سن نہیں پا رہا تھا۔
”میں گاڑی اور ڈرائیور بھیج دوں گا اور تم سب کو لے کر اس ویک اینڈ پر ڈنر ہمارے ساتھ کر لینا۔”
”جی!” شیراز نے بے حد نروس انداز میں کہا۔
سعید نواز اس کے بعد زیادہ دیر نہیں رکے، ان کا کام ہو چکا تھا۔ انہیں اب وہاں رکنے کی ضرورت نہیں تھی۔
٭٭٭
”کتنے ہوں گے؟” اکبر نے بے حد بے تابی سے شیراز سے پوچھا جو گڈی کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔
”ایک لاکھ۔” شیراز نے بے حد جوش کے عالم میں کہا۔
سعید نواز کے جاتے ہی سارا گھر اسی کمرے میں اکٹھا ہو گیا تھا۔ ہر ایک ایک لاکھ روپے کو ہاتھ لگانا چاہتا تھا۔ یہ واقعی ان کی زندگی کا ناقابل یقین لمحہ تھا۔
”کوئی صرف ”ہاں” ہونے پر ایک لاکھ روپیہ دیتا ہے کیا؟” نسیم کو ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا۔
”یہ بڑے لوگ ہیں امی! ایک لاکھ ان کے نزدیک ایک ہزار کے برابر ہے۔” شیراز نے اسی انداز میں کہا۔
”پرایک لاکھ بہت ہوتے ہیں بھائی!” نزہت کو جیسے اب بھی یقین نہیں آیا تھا۔
”آپ لوگوں نے ان کا گھر نہیں دیکھا۔ ان کی گاڑیاں نہیں دیکھیں۔ لاکھ روپے تو سعید انکل اکثر شینا کو شاپنگ کے لیے دیتے ہیں۔ میرے سامنے کئی بار انہوں نے چیک کاٹ کر شینا کو دیا۔” شیراز نے نزہت کو بتایا۔
”شکر ہے اللہ کا کہ اس نے میرے بیٹے کے دن پھیر دیے۔” نسیم نے بے حد گلو گیر آواز میں دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”آپ خود سوچیں امی! جو لوگ صرف رشتہ طے ہونے پر ایک لاکھ دے رہے ہیں۔ وہ شادی پر کیا کیا نہیں دیں گے۔” شیراز اب آگے کے خواب دیکھ رہا تھا۔
”مجھے تو بھائی دو سوٹ لے کر دیں ان پیسوں سے اور نیا جوتا بھی۔” اس کی چھوٹی بہن شبانہ نے یک دم مداخلت کی۔
”اور بیٹا! ان میں سے کچھ پیسے مجھے دینا۔ میں اپنے اگلے پچھلے کچھ ادھار چکاؤں گا۔” اکبر کو یک دم خیال آیا۔




”خوا مخواہ اس طرح پیسہ ضائع مت کرنا، ابھی ہمیں رسم کرنے شینا کے گھر بھی جانا ہے۔ ان ہی پیسوں سے اس کے لیے انگوٹھی اور دوسرا سامان لے لیں گے۔ کتنے اچھے تھے بھائی صاحب، ذرا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ اتنے امیر آدمی ہیں۔” نسیم کو سعید نواز پر رشک آیا۔
”بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔” اکبر نے نسیم کی بات کاٹ کر کہا۔
”اب آپ لوگ ایک دو دن میں ضیا چچا کے گھر جا کر منگنی کا سامان واپس کریں۔ لیکن ابھی کسی سے سعید نواز یا شینا کے بارے میں بات نہ کریں۔” شیراز نے ماں باپ کو ہدایت کی۔
”منگنی کا سامان؟ آخر تھا کیا منگنی کے سامان میں۔ ایک انگوٹھی، چار جوڑے، شیراز تو اپنے جوڑے کب کے استعمال کر چکا۔بس میرے اور بچیوں کے کپڑے پڑے ہیں میں انگوٹھی کے ساتھ واپس کر آؤں گی۔”
نسیم نے اس بار بڑے تنفر سے کہا۔ نزہت اپنی بہنوں کے ساتھ صحن میں پڑا سامان اب کمرے میں لا کر رکھ رہی تھی۔
٭٭٭
”شیراز کہہ تو گیا ہے، مگر میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ نفیسہ کو کس طرح جا کر انکار کروں۔ آخر وجہ کیا بتاؤں؟” دو دن کے بعد نسیم ایک بار پھر اکبر کے پاس بیٹھی پریشان ہو رہی تھی۔ ”آپ میرے ساتھ چلیں۔”
”نہیں، میں تو کسی صورت تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔” اکبر نے فوراً سے پیشتر انکار کرتے ہوئے کہا۔
”زیادہ لمبی چوڑی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس تم ان سے جا کر کہہ دینا کہ شیراز اس رشتہ سے خوش نہیں ہے اور تم اس کے کہنے پر انکار کرنے آئی ہو۔” اکبر نے جیسے انہیں سمجھایا۔
”پھر بھی… شیراز کے انکار کی بھی تو کوئی وجہ بتانی پڑے گی۔ ورنہ پورا خاندان یہاں آکر ہم سے پوچھے گا۔ آخر ہم نے بھی بیٹیاں بیاہنی ہیں۔ خاندان والوں کو ناراض کر دیا تو بڑے مسئلے پیدا ہو جائیں گے۔” نسیم اب فکر مند ہورہی تھیں۔
”ہمیں خاندان میں بیٹیاں تھوڑی بیاہنی ہیں کہ تم پریشان ہو رہی ہو۔ شیراز نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم اپنی بیٹیوں کے بارے میں پریشان نہ ہو۔ وہ خود ہی کچھ کر لے گا۔” اکبر کا اطمینان قابل دید تھا۔
”قسمت میرے بیٹے کا ساتھ دے رہی ہے تو میں بھی اس کا ساتھ دوں گا۔ چاہے خاندان والے جو مرضی کہیں۔”
اکبر نے جیسے فیصلہ سنایا اور اس نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا۔ قسمت واقعی شیراز کا ساتھ دے رہی تھی۔
٭٭٭

زینب اس دن کالج سے واپسی پر اپنی گلی میں داخل ہوئی تو کئی ماہ کے بعد اس نے ایک بار پھر اسی لڑکے کو دیکھا۔ بے اختیار اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔
اس لڑکے نے پہلے کی طرح اس بار اس پر جملے نہیں اچھالے تھے۔ وہ تھوڑی دیر اس کے ساتھ چلتا رہا۔ پھر اچانک اس کا رستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔
زینب نے چند بار آگے جانے کی کوشش کی مگر وہ ہر بار بڑی ڈھٹائی سے اس کے سامنے آتا رہا۔ خوف سے زینب کی بری حالت ہو رہی تھی۔ اس نے کوشش کی کہ وہ اس لڑکے کو ڈانٹے یا برا بھلا کہے ۔ مگر اس کی آواز عین وقت پر جواب دے گئی تھی۔ اس کا ذہن بری طرح ماؤف ہو رہا تھا۔
اس لڑکے نے اپنی جیب سے ایک رقعہ نکالا اور زینب کی طرف بڑھاتے ہوئے بڑی فرمانبرداری سے کہا۔
”اسے گھر جا کر پڑھ لیں اور پھر مجھے اس کا جواب دے دیں۔ میں کل یہیں آپ کا انتظار کروں گا۔”
زینب نے رقعہ پکڑنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا، بلکہ وہ بے اختیار چند قدم پیچھے ہٹ گئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ بھی پیچھے کر لیے۔ لڑکا چند قدم آگے بڑھ کر شاید دوبارہ اسے رقعہ پکڑانے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔، مگر اس سے پہلے کہ وہ ایسی کوئی حرکت کرتا، اس کے عقب میں قدموں کی چاپ سنائی دی۔
زینب نے بے اختیار کسی کے آنے کی دعا کی اور پھر وہ اس دعا کے بروقت قبول ہونے پر بری طرح پچھتائی، وہ شیراز تھا جو اس گلی میں اس لڑکے کے عقب میں نمودار ہوا تھا۔ زینب کا دل بے اختیار ڈوبا، لڑکے نے گھبراہٹ میں وہ رقعہ زینب کے پیروں میں پھینک دیا اور تقریباً بھاگتا ہوا گلی سے نکل گیا۔
”شیراز… یہ میں… یہ لڑکا۔” زینب نے ہکلاتے ہوئے وضاحت دینے کی کوشش کی۔ اس کی پیشانی پسینہ سے تر ہو گئی تھی۔ شیراز اس کی بات سننے کے بجائے آگے بڑھا اور اس نے اس کے پیروں میں پڑا وہ رقعہ اٹھا لیا۔ پھر بے حد سرد مہری سے اسے کھول کر پڑھنے لگا۔ اس نے رقعے کی تحریر پر نظر دوڑانے میں چند سیکنڈ لگائے تھے اور اس کے چہرے پر ابھرنے والی نفرت اور حقارت کو پہچاننے میں زینب نے چند سیکنڈ بھی نہیں۔
”شیراز، یہ لڑکا مجھے تنگ کرتا ہے۔”
اس نے کہنے کی کوشش کی اور شیراز نے ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی بات سننے کی زحمت نہیں کی۔ رقعہ ہاتھ میں لیے وہ تیز رفتاری سے آگے بڑھ گیا۔ زینب فق چہرے کے ساتھ اسے جاتا دیکھتی رہی۔ وہ گلی نہ ہوتی تو شاید وہ بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے جاتی۔ اس سے معافی مانگتی۔ اسے منانے کی کوشش کرتی۔ وہ ہمیشہ اس کے ناراض ہونے پر اسی طرح منت سماجت کر کے منایا کرتی تھی۔ مگر آج وہ اتنی پریشان ہو گئی تھی کہ کچھ بھی نہیں کر سکی۔
شیراز جب گلی کا موڑ مڑ چکا تھا تو زینب بے حد تیزی سے تقریباً بھاگتے ہوئے گھر کی طرف بڑھی۔ دروازہ نفیسہ نے کھولا اور زینب کی حالت دیکھ کر وہ گھبرا گئی تھیں۔
”تمہیں کیا ہوا ہے؟”زینب نے کچھ کہنے کے بجائے یک دم نفیسہ کے ساتھ لپٹ کر رونا شروع کر دیا۔
”کیا ہوا زینی! کچھ بتاتی کیوں نہیں، کیوں ہولا رہی ہو مجھے؟”
نفیسہ کی آواز پر ربیعہ کھانا چھوڑ کر پریشانی کے عالم میں باہر نکل آئی۔
”کیا ہوا زینی…؟ کیوں رو رہی ہو؟” وہ بھی گھبرا گئی تھی۔
”وہ لڑکا، وہ لڑکا… اس لڑکے نے آج میری طرف ایک خط پھینکا اور شیراز اچانک وہاں آگئے۔” زینب نے ہچکیوں میں کہا۔
”کون سا لڑکا؟ کیسا رقعہ؟” نفیسہ بوکھلائیں۔
”میں خالہ کے گھر جا رہی ہوں۔ شیراز بہت ناراض ہو کر گئے ہیں۔ مجھے ان کو منانا ہے” وہ اسی طرح روتے ہوئے اپنا بیگ فرش پر رکھ کر دوبارہ دروازے کی طرف جانے لگی۔ ربیعہ نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
”اس وقت تم مت جاؤ۔ ابھی امی جائیں گی۔ یا ابو کو آنے دو۔ پھر وہ جائیں۔ شیراز بھائی اگر ناراض ہوئے ہیں تو تمہیں دیکھ کر وہ اور ناراض ہو جائیں گے۔”
”مگر ربیعہ! مجھے ان کو منانا ہے۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔” وہ اسی طرح رو رہی تھی۔
”آخر تم دونوں مجھے کچھ کیوں نہیں بتا رہیں؟” نفیسہ کی پریشانی اب عروج پر تھی۔
”پتا نہیں شیراز نے گھر جا کر خالہ سے کیا کہا ہو گا؟ تم اس وقت وہاں مت جاؤ۔” ربیعہ نے زینب کے رونے کے باوجود اسے باہر جانے سے روکا۔
”نہیں، وہ خالہ کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ مجھ سے جتنا مرضی ناراض ہوں مگر وہ اس طرح میری کوئی بات خالہ سے نہیں کہیں گے۔”
اس نے بہتے آنسوؤں میں اعتماد کے ساتھ کہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!