من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

”Nothing. I don’t need to.” (کچھ نہیں۔ مجھے کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں) ٹکڑا توڑ جواب آیا۔ شیراز کھسیانے انداز میں مسکرایا۔
”وہ تو میں جانتا ہوں کہ آپ کو ضرورت نہیں ہے۔”
”اور آپ کی ہابیز کیا ہیں؟” اس نے کچھ دیر کے بعد اگلا سوال کیا اور پہلے سے زیادہ پچھتایا۔
”I flirt.” شینا نے بے حد اطمینان کے ساتھ بسکٹ منہ میں ڈالا پھر ٹرالی پر ایک اور نظر ڈالتے ہوئے جواب دیا۔ شیراز کو بے اختیار چائے پیتے ہوئے اچھو لگا۔ شینا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”چائے کچھ زیادہ گرم تھی۔” شیراز نے جیسے وضاحت دی پھر خود ہی ہنسا۔
”آپ کا Sense of humor (حس مزاح) بہت اچھا ہے۔” اسے لگا شینا نے اس کے ساتھ مذاق کیا تھا۔
اس کی ہنسی سے شینا کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ”آپ دنیا کے پہلے آدمی ہیں جسے میرا سینس آف ہیومر (حس مزاح) نظر آیا ہے اورغلط بات میں نظر آیا ہے۔ میں سیریس ہوں مجھے مردوں سے فلرٹ کرنے میں مزا آتا ہے۔ اس سے زیادہ مزے کی ہابی کیا ہو سکتی ہے۔”
شیراز اس بار بمشکل ہنسا۔ پھر اسے احساس ہوا وہ اپنے محلے کی کسی لڑکی سے بات نہیں کر رہا تھا۔ بورژوا کلاس کی نمائندگی کرتی ایک لڑکی سے بات کر رہا تھا۔ جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئی تھی۔
”اور کیا ہابیز ہیں آپ کی؟”
”Shopping, hanging out with friends.”
”گڈ۔” اس نے بے ساختہ اسے سراہا۔
”So tell me about yourself, your life, and your hobbies.
(اپنے بارے میں کچھ بتائیے)
اس کے جواب پر شینا نے اسے بے حد غور سے دیکھا پھر پوچھا۔
”آ… میں، میں۔۔۔۔” شیراز نے اس کے سوال پر لفظوں کا انتخاب کرتے ہوئے اٹکا۔ ”میں سی ایس ایس کے امتحان میں دوسری پوزیشن لینے کے بعد اس وقت سول سروسز اکیڈمی میں ٹریننگ لے رہا ہوں۔ میرا ڈپارٹمنٹ۔۔۔۔”
شیراز نے کسی رٹو طوطے کی طرح چند جملے دہرانے شروع کیے اور اس سے پہلے کہ وہ پورا مضمون سناتا، شینا نے ٹوک دیا۔
”You know what…
I am sick and tired of hearing about this bloody academy.
بے حد سرد اور کاٹ دار انداز میں کہے گئے اس کے جملے نے شیراز کی رنگت فق کر دی تھی۔
”It stinks… It realy stinks……”
اس شہر میں اتنے آوارہ کتے نہیں ہوں گے جتنے ہمارے خاندان میں بیورو کریٹس ہیں۔ بچپن سے اب تک بہت سن لیا ہے اس اکیڈمی کے بارے میں، اس لیے آپ اپنے بارے میں اپنی لائف اور ہابیز کے بارے میں بات کریں۔”




اس نے اس بار بے حد کلیئر کٹ انداز میں کہا تھا۔ اور جیسے شیراز کے کندھوں کے نیچے سے بیساکھیاں نکال دی تھیں۔ وہ اس وقت بے یار ومدد گار انداز میں بیٹھا سوچ رہا تھا۔ کہ اس کی کیا ہابیز تھیں اور جو کچھ وہ زندگی کے مختلف اوقات میں کرتا رہا تھا یا کر سکتا تھا، کیا اسے ہابیز کہا جا سکتا تھا۔ پتنگ بازی کرنا، کنچے کھیلنا، گلی ڈنڈا سے لطف اندوز ہونا۔برسات کے پانی سے مینڈک پکڑنا اور ان کے پیروں میں دھاگہ باندھ کر ان کی ریس کروانا، محلے کی بیری سے پتھر مار مار کر بیر توڑ کر کھانا اور بڑے ہو کر صرف ٹیوش پڑھانا تاکہ وہ باپ کے ساتھ گھر کا بوجھ اٹھا سکے یا پھر وہ سیدھا سیدھا اس سے یہ کہہ دے کہ وہ جس کلاس سے تعلق رکھتا تھا وہاں ہابیز نہیں ہوتیں، صرف ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔
”میں میوزک سنتا ہوں اور کتابیں پڑھتا ہوں۔” اس نے بالآخر ایک طویل سوچ بچار کے بعد دوعدد بے حد مہذب، مفید اور بے ضرر ہابیز ڈھونڈ کر پیش کیں۔ جن کا ثبوت وہ دے سکتا تھا۔
”کیا سنتے ہیں؟ ہارڈ، راک، میٹل، جاز؟”
”شینا نے ایک ہی لمحے میں اس کی پہلی ہابی کا تیا پانچہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ ہونق نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
”میں کتابیں زیادہ پڑھتا ہوں۔” شیراز نے… حواس باختہ ہو کر خود کو اور صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
”کیا پڑھتے ہیں؟” شینا کا لہجہ اس بار… ہمدردانہ تھا۔
”لٹریچر۔” شیراز نے محفوظ ترین آپشن کا انتخاب کیا۔
”اوہ پھر تو نیوزی لینڈ کے شارٹ اسٹوری رائٹرز کو آپ نے ضرور پڑھا ہو گا۔”
شینا نے پہلی بار اس کے کسی جواب میں دلچسپی دکھائی اور شیراز کے جیسے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ آخر نیوزی لینڈ کے شارٹ اسٹوری رائٹرز اتنی اہمیت کب سے اختیار کر گئے تھے کہ ان کے بارے میں بات کی جائے انگلش لٹریچر میں وہ برطانیہ اور امریکہ کے علاوہ کسی تیسرے ملک کے کسی ادیب کو جانتا ہی نہیں تھا۔
شینا کو بالآخر اس پر جیسے ترس آگیا تھا۔ ”اوکے، نائس میٹنگ یو۔” وہ بڑے آرام سے کہتے ہوئے اٹھی اور تیز قدموں سے کمرے سے باہر چلی گئی۔ شیراز نے ٹیبل پر پڑے ٹشو کے ڈبے سے ٹشو نکال کر اپنے ماتھے کا پسینہ خشک کیا۔
وہ زندگی میں صرف ماں بہنوں اور زینی ہی سے واقف تھا جو سب اس کے قدموں میں بچھتی اور اس پر قربان ہوتی رہتی تھیں۔ جن میں سے کوئی اس کی مرضی کے خلاف اس سے کچھ پوچھ نہیں سکتا تھا۔ کسی عورت کے ہاتھوں ذلیل ہونے کا یہ اس کی زندگی کا پہلا اتفاق تھا۔
مگر شینا اس خفت آمیز ملاقات کے باوجود اسے بے حد اچھی لگی تھی۔ وہ ویسی ہی عورت تھی جیسی عورت وہ اپنی لائف پارٹنر کے طور پر چاہتا تھا۔ ماڈرن، اسٹائلش، اعلیٰ تعلیم یافتہ، خود مختار، خود اعتمادا ور دولت مند۔
اس رات وہ شینا اور صرف شینا کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔
٭٭٭
”شیراز بھائی سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا آج کل تمہارا؟” اس دن ربیعہ نے زینب سے پوچھا۔
”نہیں، رابطہ کس طرح ہو گا؟ ہوتا تو میں تمہیں بتاتی۔” زینی نے قدرے اداسی سے کہا۔
”شیراز بھائی تو اکیڈمی نہیں گئے، یوں لگتا ہے جیسے ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔”
ربیعہ نے مذاق میں کہا۔ زینی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ چپ چاپ دو پٹے پر کڑھائی کرتی رہی۔
”اور بہت دن ہو گئے، تم نے شیراز بھائی کے لیے کوئی نئی شرٹ بھی نہیں سی۔” ربیعہ کو یک دم کچھ اور یاد آیا۔
”وہ اب گھر میں سلی ہوئی شرٹیں نہیں پہنتے۔” زینی کو شیراز کی بات یاد آئی۔
”کیوں؟” ربیعہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”پتہ نہیں۔ شاید وہاں اکیڈمی میں کوئی بھی ایسے کپڑے نہیں پہنتا اس لیے۔” زینی نے کہا۔
”عجیب بات ہے، اکیڈمی میں کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوتی ہے کیا؟… یونیورسٹی میں تو بڑے شوق سے پہن کر جاتے تھے۔ اب اکیڈمی میں کیا ہو گیا۔ اب تو ہم سے ملنے بھی نہیں آتے ورنہ میں پوچھتی ان سے۔” ربیعہ نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
زینی نے اس بار پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کڑھائی میں محو تھی یا کم از کم یہی ظاہر کر رہی تھی۔
اس سے پہلے کہ ان دونوں میں اس موضوع پر کوئی اور بات ہوتی دروازے پر دستک دے کر محلے کی ایک عورت اندر داخل ہوئی۔
”السلام علیکم خالہ!” ربیعہ اور زینی نے انہیں دیکھتے ہی کہا اور صحن کی چار پائی سے چیزیں سمیٹنے لگیں۔
”وعلیکم السلام جیتی رہو۔ کہاں ہے تمہاری اماں؟”
”اندر کمرے میں ہیں، میں آنہیں بلاتی ہوں۔” زینی نے اٹھتے ہوئے کہا خالہ چار پائی پر پڑا دوپٹہ اٹھا کر دیکھنے لگی جس پر زینی کڑھائی کر رہی تھی۔
”بہت خوبصورت کڑھائی کی ہے… ماشاء اللہ۔ اپنی زینی کے ہاتھ میں بہت نفاست ہے۔” خالہ نے تعریف کی۔
”جی خالہ! آپ بیٹھیں نا، کھڑی کیوں ہیں؟” ربیعہ نے ان کے لیے جگہ بناتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ خالہ چارپائی پر بیٹھتیں نفیسہ اور زینی اندر کمرے سے باہر نکل آئیں۔
”کیا حال ہے ذکیہ؟” نفیسہ نے انہیں دیکھتے ہی کہا۔
”میں ٹھیک ہوں، تم نے زینی کی شادی کی تیاریاں شروع کر دیں اور مجھے خبر بھی نہیں کی۔” خالہ نے قدرے شکایتی انداز میں کہا۔
”ارے نہیں ذکیہ، ایسی کوئی بات نہیں۔ ابھی شادی کہاں۔ بس ویسے ہی تھوڑی بہت کڑھائی وغیرہ کا کام کر رہی ہے زینی اپنے کپڑوں اور دوپٹوں پر۔ تیاری تو تب شروع کریں گے جب تاریخ طے ہو گی۔”
”ابھی تاریخ طے نہیں ہوئی کیا۔”
”نہیں۔ مگر نسیم نے کہا ہے کہ چھ ماہ تک شادی کرنا ہے انہیں۔”
”پھر تو زیادہ وقت نہیں ہے۔ اللہ زینب کی قسمت اچھی کرے بلکہ میں تو کہتی ہوں۔ ہر لڑکی کی قسمت زینب جیسی کرے۔” خالہ نے بے حد دعائیہ انداز میں کہا۔
”میں نے تو اپنی پوتی کا نام بھی زینب ہی رکھا ہے۔” خالہ نے بتایا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!