من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

”اچھا۔ نام رکھ دیا تم نے اصغر کی بیٹی کا؟” نفیسہ نے دلچسپی لی۔
”ہاں۔ آج ہی رکھا ہے۔ یہی بتانے تو آئی ہوں کہ میں نے زینب کے نام پر اس کا نام رکھا ہے کہ اللہ اس کا مقدر بھی زینی کی طرح کھول دے۔”
”بس ذکیہ! تم دعا کیا کرو۔ زینی اور ربیعہ کی طرف سے ماشاء اللہ مجھے کوئی فکر نہیں ہے۔ اللہ نعیم کو کچھ عقل دے دے تو سب ٹھیک ہو جائے۔ مجھے تو یقین مانو، زہرہ کے علاوہ اور کسی کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔” نفیسہ نے ذکیہ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
زینی سامان سمیٹتے ہوئے اندر چلی گئی۔
”فکر مت کرو۔ ہو جائے گا وہ بھی ٹھیک۔ آخر کب تک اس طرح کی حرکتیں کرے گا۔ اچھا میں چلتی ہوں۔”
”ارے خالہ! میں تو چائے بنانے جا رہی ہوں آپ کے لیے۔” ربیعہ نے فوراً کہا۔
”اچھا۔ چلو پھر ٹھیک ہے، چائے پی کر ہی جاؤں گی۔” خالہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
”اور زینی کے شادی کے کپڑوں وغیرہ پر کڑھائی کے سلسلے میں اگر مدد کی ضرورت پڑے تو بتانا مجھے۔۔۔۔” خالہ نے نفیسہ کو پیش کش کی۔
”ہاں ہاں ذکیہ! کیوں نہیں۔ ایک بار تاریخ طے ہو جائے تو پھر بتاؤں گی میں تمہیں۔” نفیسہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
٭٭٭
”سعید انکل کو تو بہت امپریس کر دیا ہے تم نے۔” جواد نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اچانک موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”کیوں کیا ہوا؟” شیراز نے چونک کر اس کو دیکھا۔ وہ کچھ کتابیں لینے کے لیے باہر نکلے تھے۔
”ہونا کیا ہے۔ کل رات فیملی ڈنر پر تمہاری بہت تعریف کررہے تھے۔ سب کو بتا رہے تھے تمہارے بارے میں۔”
شیراز کے دل کی دھڑکن بے اختیار کچھ تیز ہوئی۔ ایک اتنے اعلا عہدے پر فائز آدمی کا اس سے متاثر ہونا۔
”میں تو خود ان سے بہت امپریسڈ ہوں۔” شیراز نے بے ساختہ کہا۔
”یہ بتایا تم نے انہیں؟” جواد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں بتایا تو نہیں۔”
”ارے یار! بتانا چاہیے تھا… ویسے مجھے پتا ہے کیا لگتا ہے؟” جواد نے یک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”کیا؟” شیراز اس کے سوال پر حیران ہوا۔
”مجھے لگتا ہے وہ شینا کے لیے تمہیں کنسیڈر کر رہے ہیں۔”
شیراز کے دل کی دھڑکن ایک لمحہ کے لیے جیسے رک گئی تھیں۔
”کیا؟” اس نے بمشکل حلق کو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔




”ہاں، مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ تم میرڈ یا انگیجڈ تو نہیں ہو؟” جواد نے بے حد معنی خیزا نداز میں کہا۔
”پھر؟” شیراز کا دل ایک لمحہ کے لیے ڈوبا۔ وہ اس لمحہ پر پچھتایا جب اس نے زینی کی فوٹو گراف اپنی اسٹڈی ٹیبل پر رکھی تھی۔
”میں نے تو یہی کہا ہے کہ شاید تم انگیجڈ نہیں ہو۔” جواد نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ شیراز کا دل چاہا، وہ اسے گلے لگا لے۔ وہ واقعی دوست تھا۔
”اور بھی بہت کچھ پوچھ رہے تھے تمہارے بارے میں۔ مجھے لگتا ہے جلد ہی اس سلسلے میں تم سے کچھ بات کریں گے… ویسے اگر وہ ایسی کوئی بات تم سے کریں تو تمہارا رسپانس کیا ہوگا۔ میرا مطلب ہے، ان کو تو میں نے نہیں بتایا مگر بہر حال تم انگیجڈ تو ہو ہی۔” جواد نے بے حد نپے تلے انداز میں اس سے کہا۔
”میں…” شیراز کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ”میں” کے بعد کیا کہے۔
اس کا دل چلا چلا کر کہہ رہا تھا۔ کاش وہ اس سے ایسی بات کریں تو وہ فوراً سے پیشتر اس پروپوزل کو قبول کر لے۔ اس کی خاموشی سے جواد نے کوئی اور مفہوم نکالا تھا۔
”دیکھوشیراز! زندگی میں سیلف میڈ ہونے کی بھی کچھ Limits (حدود) ہوتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی اسٹیپ پر کسی نہ کسی کے کندھے کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ خاص طور پر سول سروس میں۔۔۔۔” اس نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”جانتا ہوں۔”
”جانتے ہو تو پھر تم کیا کر رہے ہو آگے بڑھنے کے لیے؟”
”میں۔۔۔۔” شیراز اٹکا۔ ”میں محنت کر رہا ہوں یہاں اکیڈمی سے بھی ڈسٹنکشن کے ساتھ پاس آؤٹ ہوں گا۔”
جواد اس کی بات پر بے اختیار ہنس پڑا۔ ”بس تم ساری عمر یہ ڈسٹنکشن کے چکر میں ہی پڑے رہنا۔ اوہ یار! کچھ اور بھی ہاتھ پاؤں مار… یہ بھانت بھانت کی لڑکیاں ہمارے کامن میں ہیں۔ ان میں سے کسی پر ہاتھ صاف کر… کسی اسٹرونگ بیک گراؤنڈ والی پر۔ اپنے خاندان کا انتخاب انسان خود نہیں کر سکتا۔ وہ قسمت کرتی ہے۔ مگر بیوی اور بیوی کے خاندان کا انتخاب انسان خود کر سکتا ہے۔”
”مطلب؟”
شیراز نے سوال کیا مگر جواد اور وہ خود دونوں جانتے تھے کہ وہ سوال نہیں تھا۔
”مطلب یہ کہ شادی کسی بہت اونچی جگہ پر کرو۔ اگر اپنے خاندان کی سپورٹ نہیں ہے تو پھر بیوی کا خاندان تگڑا ہونا چاہیے۔ اس اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہونے والا کوئی الو کا پٹھا ہی ہو گا جو کسی غریب گھرانے میں شادی کرے۔ ایک منگنی کی حیثیت ہی کیا ہے یار End it” (ختم کرو اسے) جواد نے جیسے اس کی مشکل حل کر دی تھی۔ شیراز بے اختیار مسکرایا۔ وہ جان گیا تھا جواد اسے کوئی مشورہ نہیں دے رہا تھا۔ وہ اس تک کوئی پیغام پہنچا رہا تھا… وہ اس سال پاکستان کا دوسرا ذہین ترین آدمی تھا۔ وہ اتنا احمق نہیں تھا کہ ایسے پیغام کو نہ سمجھ پاتا۔
”End it” یہ حل تھا۔ ”لیکن کیسے؟” یہ شیراز کو سوچنا تھا۔
٭٭٭
شینا کے ساتھ وہ ملاقات اس کی پہلی اور آخری ملاقات نہیں تھی۔ اس کے بعد بھی اکثر اس کا شینا سے آمنا سامنا ہوتا رہا مگر اس ملاقات کی طرح انہیں آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ رسمی سی ہیلو ہائے ہوتی پھر شینا دوسرے لوگوں کے ساتھ مصروف ہوجاتی اورشیراز کی نظریں اس کا تعاقب کرتی رہتیں۔
وہ جان محفل تھی اور جہاں وہ ہوتی وہاں پر صرف وہ ہی وہ نظر آتی تھی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ شیراز زیادہ سے زیادہ اس کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ اسے احساس بھی نہیں ہوا تھا کہ زینی کب بیک گراؤنڈ میں چلی گئی تھی۔ زینی کے خط اب بھی آتے رہتے تھے اور وہ انہیں کھولنے تک کی زحمت نہیں کرتا تھا۔
ان خطوں میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جسے جاننے میں شیراز کو دلچسپی ہوتی۔ زینی کے جذبات اور اظہار محبت میں بھی اس کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ لفظ بہت عرصہ پہلے ہی اس کے لیے جذباتی مفہوم یا حیثیت کھو گئے تھے جن کی وجہ سے وہ ان خطوط کو پڑھتا تھا۔
سعید نواز نے اس پر نوازشات اور تحائف کی بھر مار کر دی تھی۔ وہ سعید نواز کی بیوی سے نہیں ملا تھا جس سے ان کی علیحدگی ہو چکی تھی۔ مگر وہ اب تک یہ ضرور جان چکا تھا کہ وہ بھی کسی بہت بڑے سرکاری آفیسر کی دوسری بیوی تھیں اور شینا کے علاوہ ان کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی۔
شیراز کو اگر جواد اشارے کنائے میں نہ بھی بتاتا تو تب بھی وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ ان عنایات کی کیا وجہ ہو سکتی تھی اور ایسا اگر ہو جاتا تو یہ شیراز کے لیے جیک پاٹ کے مترادف تھا سعید نواز کا داماد ہونا کیا معنی رکھتا تھا۔ شیراز اکیڈمی آنے کے چند ماہ کے اندر ہی جان گیا تھا ۔ وہ اب برانڈڈ اشیا استعمال کرتا تھا جو سعید نواز وقتاً فوقتاً اسے مختلف مواقع پر بھجوایا کرتے تھے برانڈڈ شرٹس، ٹراؤزرز، جوتے، پرفیوم، اور دوسری Accessories شیراز اکبر کی وارڈ روب اور رکھ رکھاؤ سے اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا تھا کہ اس کی کلاس کیا تھی۔
واحد خدشہ جو شیراز کو وقتاً فوقتاً محسوس ہوتا، وہ اس کی منگنی کا انکشاف تھا۔ اگر سعید نواز کو یہ پتا چل گیا کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے تو پھر کیا ہو گا اور اس ”پھر” کے بعد شیراز کے لیے جیسے ایک تاریک غارآجاتا تھا۔
بعض دفعہ وہ خود کو تسلی دیتا کہ ہو سکتا ہے جواد نے سعید نواز کو اس کی منگنی کے بارے میں بتا ہی دیا ہو۔ آخر وہ سعیدنواز کا بھتیجا تھا۔ اتنی اہم بات سعید نواز سے کیوں چھپاتا۔ مگر پھر اسے خیال آتا کہ جواد نے اسے بتایا تھا کہ اس نے سعید نواز کویہ بات نہیں بتائی۔ آخر ایک منگنی کی حیثیت ہی کیا تھی۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس منگنی سے جان کیسے چھڑائے۔ کسی وجہ کے بغیر منگنی توڑنا خاندان بھر میں اسے اور اس کے والدین کو خفت اور رسوائی کا نشانہ بناتا۔ شیراز کو تو خیر اس کی پرواہ نہیں تھی۔ اس کی ملامت کی کیا ہوتی مگر مسئلہ اس کے والدین کا تھا۔ آخر وہ انہیں کس طرح اس منگنی کو ختم کرنے پر تیار یا آمادہ کرتا۔
٭٭٭
”میں کسی دن تمہارے گھر آنا چاہتا ہوں۔”
اس دن سعید نواز نے بالآخر وہ بات شیراز سے کہہ ہی دی تھی جسے سننے کے لیے شیراز اتنی بے صبری سے انتظار کررہا تھا۔
”میں چاہتا ہوں، میں تمہارے گھر آکر تمہارے پیرنٹس سے ملوں پھر وہ میرے گھر آکر شینا سے ملیں اور بات کچھ آگے بڑھے۔”
انہوں نے یہ بات اتنی اچانک کہی تھی کہ توقع کرنے کے باوجود شیراز فوری طور پر بوکھلا گیا۔
”تمہیں تو اندازہ ہو گا ہی کہ شینا تمہیں کتنا پسند کرتی ہے” شیراز نے چونک کر سعیدنواز کو دیکھا۔
اس کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ شینا اسے پسند کرتی ہے۔ آخر اسے یہ اندازہ ہو بھی کیسے سکتا تھا۔ شینا نے کبھی اپنے کسی انداز سے اس کا اظہار نہیں کیا تھا مگر اب سعید نواز کی بات پر وہ جیسے خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔
”میری ایک ہی بیٹی ہے شیراز… اور میرا جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ تمہیں تو اندازہ ہو گا ہی کہ اس کے لیے کیسے رشتے آرہے ہوں گے۔ لیکن میں اپنی بیٹی کی شادی صرف اس کے ساتھ کروں گا جو مجھے اور اسے دونوں کو پسند ہو اور تم بہت شریف انسان ہو۔ پیسے کی مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ میں اپنی بیٹی کو بہت دے سکتاہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ جسے میں اس کے لیے منتخب کروں، وہ بھی اس کا اسی طرح خیال رکھے جس طرح میں رکھتا ہوں اور تم ایک بہت اچھے انسان ہو۔ مجھے پورا یقین ہے کہ شینا تمہارے ساتھ بہت خوش رہے گی۔”
شیراز کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے اہم لمحہ تھا ایسا لمحہ جو اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دینے والا تھا۔
”تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!