من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

”کیسی ہو زینی؟” شیراز نے بیگ پیک کرتے ہوئے مسکرا کر زینی سے کہا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی کمرے میں داخل ہوئی تھی اور شیراز کو دیکھتے ہی اس کا چہرہ اور آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔ اس کے سامنے ہوتے ہوئے اس سے بے رخی یا بے اعتنائی برتنا دنیا کا مشکل ترین کام تھا۔ شیراز نے اسے دیکھتے ہوئے دل میں اعتراف کیا اور شاید وہ پچھلے کچھ ہفتوں سے اس کے خلاف آنے والے خیالات کی وجہ سے اس سے کچھ نادم بھی ہوا۔
”آپ کب آئے؟ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔” وہ بے حد پر جوش انداز میں کہہ رہی تھی۔
”میں کل شام کو آیا تھا، اب جا رہا ہوں۔”
”کل شام کو؟ مجھے پتا ہوتا تو میں اسی وقت ملنے آتی۔”
”ہاں، بس میں بھی کچھ مصروف ہو گیا تھا ورنہ میں بھی ملنے آتا۔”
شیراز نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ زینی سے کیا باتیں کرے، چند ہفتوں میں اس کے بدلتے خیالات نے اس کے اور زینی کے بیچ ایک عجیب سی دیوار کھڑی کر دی تھی جسے شیراز محسوس کر رہا تھا مگر زینی نہیں۔
”ابھی چلے جائیں گے کیا؟” زینی نے قدرے حیرانی سے اس کے بیگ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں آ کیڈمی میں بہت سے کام کرنے ہیں۔ میں بہت ساری چیزیں ادھوری چھوڑ کر آیا تھا۔” شیراز نے اسی انداز میں کہا۔”مجھ سے ملے بغیر جا رہے تھے؟” زینی نے شکوہ کیا۔
”نہیں۔ تم سے مل کر ہی جاتا، میں ابھی آنے ہی والا تھا تمہاری طرف۔” شیراز نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔ زینی کے چہرے پر اطمینان جھلکنے لگا۔
شیراز کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے کیا بات کرے۔ وہ جس طرح کی باتیں زینی کے ساتھ کر کے خوش ہوتا تھا وہ باتیں اکیڈمی کے چند ہفتوں کے بعد اسے بے حد بے کار اور بچکانہ لگنے لگی تھیں۔ آخر زینی سے چند گھنٹوں کی رومانٹک گفتگو کے علاوہ وہ اور کیا ڈسکس کر سکتا تھا۔ ملک کی اکانومی ،کرنٹ پولٹیکل سچویشن، فارن پالیسی کو درپیش گلوبل چیلنجز، انتظامی اصلاحات…؟ آخر کیا ڈسکس کر سکتا تھا۔ وہ ہوم اکنامکس اور اسلامیات اختیاری کے ساتھ گریجویشن کرنے والی اس سادہ اور گھریلو لڑکی سے جس کے عشق میں وہ پچھلے چار پانچ سال سے بری طرح گرفتار تھا۔
وہ ایک بار پھر اسے جانچنے پرکھنے کے عمل سے گزر رہا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر کرسی پر بیٹھی زینی کو یہ احساس ہی نہیں ہو پایا تھا کہ وہ اس کی اسکریننگ کر رہا تھا جیسے کوئی مشین کسی ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے کرتی ہے۔
”آپ کی اکیڈمی کیسی جا رہی ہے؟”
”بہت اچھی”
ایک بار پھر خاموشی۔




”آپ کو میرے خط ملے؟”
”ہاں!” شیراز نے قدرے چونک کر کہا۔
”اور آپ نے مجھے جواب بھی نہیں دیا۔”
”میں بہت مصروف ہوتا ہوں زینی!” اس کا جواب زینی کے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔
”میں جانتی ہوں۔ کیا بہت پڑھنا پڑتا ہے؟” زینی نے بے حد سادہ لہجے میں کہا۔
”ہاں… بہت زیادہ۔” ایک بار پھر مختصر جواب۔
زینی کو پہلی بار شیراز کا انداز قدرے غیر معمولی لگا اس کے انداز میں وہ بے تکلفی نہیں تھی۔ جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ ”شاید اس لیے ہے کیونکہ وہ بہت مصروف رہنے لگا ہے۔” زینی نے خود کو تسلی دی۔
”چچا اور خالہ کیسے ہیں؟” شیراز کو بہت دیر بعد خیال آیا۔
”وہ ٹھیک ہیں۔ آپ ان سے مل کر جائیں گے نا؟ ابو گھر پر ہی ہیں۔” زینی نے بے ساختہ کہا۔
”اب کی بار تو نہیں مگر اگلی بار ملنے آؤں گا۔” شیراز نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کہا۔
”اگلی بار کب آئیں گے؟”
”یہ تو پتہ نہیں۔ دیکھو ، کب آتا ہوں۔”
”میں نے آپ کے لیے کچھ شرٹس بنائی ہیں۔ ابھی لے کر۔۔۔۔” زینی کو یک دم یاد آیا اور وہ بے اختیار اٹھ کر کھڑی ہو گئی مگر اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے نکلتی، شیراز نے اسے روکا۔
”نہیں زینی! رہنے دو… اب تم ان چیزوں پر اپنا وقت ضائع مت کیا کرو۔ اکیڈمی میں بہت اچھی ٹیلرڈ شرٹس پہنی جاتی ہیں۔ وہاں میں اس طرح کی شرٹس پہنوں گا تو لوگ مذاق اڑائیں گے۔” شیراز نے بے حد صاف گوئی سے کہا۔
زینی ٹھٹھک گئی۔ ”آپ یونیورسٹی میں بھی تو میری شرٹس پہنتے تھے۔ کیا وہاں کبھی کسی نے ان کا مذاق اڑایا؟”
”یونیورسٹی کی بات اور تھی۔ یہ سول سروسز اکیڈمی ہے یہاں ‘جومرضی’ نہیں پہنا جاتا۔” شیراز نے بے حد لاپروائی سے کہا۔
زینی کو اگر اس کی بات سے رنج ہوا بھی تھا تو اس نے ظاہر نہیں کیا۔
ہو سکتا ہے وہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہو۔ آخر وہاں سارے افسر ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے وہاں واقعی بہت اچھا لباس پہنا جاتا ہو۔
اس نے دل ہی دل میں خود کو ایک بار پھر تسلی دی۔ لیکن اس کا دل یہ نہیں مان رہا تھا کہ اس کے ہاتھ سے سلا جانے والا کپڑا ایک دم اتنا غیر معیاری ہو گیا تھا کہ پہنا نہ جا سکے۔
واپس گھر جا کر اس نے وہ ساری شرٹس نکال کر انہیں بغور دیکھا تھا۔ اس کی سلائی اب بھی اتنی ہی بہترین تھی۔ ان شرٹس کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ وہ ایک زنانہ ہاتھ سے سلائی شدہ تھیں… شیراز نے ہمیشہ اس کے ہاتھ سے سلی ہوئی شرٹس کو بڑے فخر سے پہنا تھا پھر اب کیا ہوگیا تھا۔ زینب ضیا تب بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھی کہ تبدیلی شیراز کے لباس کے انتخاب میں نہیں آئی تھی اس کی سوچ کے انداز میں آگئی تھی۔ فرق اس کی سلائی میں نہیں آیا تھا شیراز کے اندر آگیا تھا۔
اگلے کئی دن وہ مسترد شدہ ان شرٹس کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوتی رہی۔ زندگی میں پہلی بار زینب ضیا کے ہاتھ کی سلی ہوئی کوئی چیز پہننے سے کسی نے انکار کیا تھا۔ کسی نے پہلی بار اس کی کسی شے میں خامی جتائی تھی۔ زینب ضیا کیوں پریشان نہ ہوتی۔
٭٭٭
سعید نواز کے گھر پر یہ شیراز کی پہلی اور آخری آمد نہیں تھی۔ سعید نواز کے ہاں اس کا کافی آنا جانا شروع ہوگیا تھا۔ سعید نواز اسے اپنے ہاں ہونے والی ہر دعوت میں انوائیٹ کرتے تھے اور ہر دعوت میں اسے خاص اہمیت دیتے ہوئے سب لوگوں سے متعارف کرواتے تھے۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ ان تمام مواقع پر ایک بار بھی شینا سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ ہر بار کہیں اور مصروف ہوتی مگر صرف سعید نواز ہی نہیں اس کی فیملی کے دوسرے افراد بھی شینا کا اکثر ذکر کرتے نظر آتے۔ وہ سعید نواز کی اکلوتی بیٹی تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کا ذکر نہ ہوتا۔ روز بہ روز شیراز کی شینا میں دلچسپی اور تجسس بڑھنے لگا تھا۔
اور پھر بالآخر یہ تجسس ختم ہو ہی گیا۔ سعید نواز نے تقریباً ڈیڑھ دو ماہ کے میل جول کے بعد اس دن اپنے گھر پر پہلی بار شینا سے اس کی ملاقات کروائی اور شیراز پہلی ہی نظر میں شینا پر دل و جان سے فریفتہ ہو گیا۔
جینز اور بے حد مختصر ٹاپ میں ملبوس وہ جس وقت لاؤنج میں داخل ہوئی اس وقت وہ سعید نواز کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ شینا کو دیکھ کر وہ بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا۔سعید نواز نے دونوں کا تعارف کروایا۔ شینا نے اسے اوپر سے نیچے تک بے حد سنجیدگی سے دیکھا پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے شیراز کی طرف مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ ایک لمحہ کے لیے شیراز کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔ اس نے اس سے پہلے کبھی زندگی میں کسی لڑکی سے مصافحہ نہیں کیا تھا۔ اور وہ بھی اس کے باپ کے سامنے مگر سعید نواز بے حد نارمل انداز میں مسکرتے ہوئے دونوں کو دیکھتے رہے۔ شیراز نے قدرے جھجک کر ہاتھ بڑھایا جسے شینا نے بے حد سرسری انداز میں تھام کر چھوڑ دیا۔
”تم دونوں بیٹھو، باتیں کرو۔ میں ایک فون کال کر کے آتا ہوں۔” سعید نواز ان دونوں کو وہاں چھوڑ کر چلے گئے۔
شینا بڑے اعتماد کے ساتھ اس کے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔ ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھتے ہوئے اس نے شیراز کو ایک بار پھر بے حد دلچسپی سے دیکھا جو شینا کی موجودگی سے یک دم ہی بے حد کانشس ہو گیا تھا۔
شینا نے اس کی گھبراہٹ کو محسوس کر لیا اور وہ جیسے اس سے بے حد محظوظ ہوئی تھی۔ اپنے تراشیدہ بالوں کو گردن کے جھٹکے سے پیچھے کرتے ہوئے اس نے سامنے پڑی ٹرالی میں سے ایک بسکٹ اٹھایا اور بڑی نزاکت کے ساتھ اس کو کترنے لگی۔ شیراز نے کن اکھیوں سے اسے دیکھتے ہوئے بے حد محتاط انداز میں گفتگو کا آغاز کیا۔
”آپ کیا کرتی ہیں؟”
”پروفیشنلی؟” وہ بسکٹ کھاتے کھاتے اس کے سوال پر رکی۔
”جی!”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!