من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

”دو ہفتوں میں چودہ دن ہوتے ہیں۔” زینی نے بے ساختہ کہا۔
”چودہ سو تو نہیں ہوتے نا۔”
”آپ چاہتے ہیں، چودہ سو ہوتے؟” زینی نے یک دم برا مان کر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔
”مذاق کر رہا تھا میں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر برا مان جاتی ہو تم۔” شیراز نے بے ساختہ کہا۔
”یہ چھوٹی بات ہے کیا؟” وہ مزید برا مانتے ہوئے بولی۔
”اچھا… اچھا بہت بڑی بات ہے۔ ہاتھ تو پکڑاؤ۔”
”نہیں، بس اب گھر چلیں، شام ہو رہی ہے۔ میں نے ابو سے کہا تھا کہ میں شام ہونے سے پہلے واپس آجاؤں گی۔”
وہ یک دم بینچ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے اندھیرا پھیلنے کا احساس ہوا تھا۔
”شام کیا رات بھی ہو جائے تو کیا ہے۔ تم میرے ساتھ ہو۔” شیراز نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ اور خود بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
”ابو بہت ناراض ہوں گے۔ پہلے ہی انہوں نے بہت مشکل سے اجازت دی ہے۔” زینی نے قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
”تم مجھ سے اکیڈمی ملنے آؤ گی؟” شیراز نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں،ابو روز روز اس طرح اکیلے کہیں جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔” زینی نے بے ساختہ کہا۔
”میں خود چچا سے بات کر لوں گا۔”
‘فضول باتیں مت کریں۔”
”تم نے خود ہی توکہا تھا کہ تم میرے بغیر اداس ہو جاؤ گی۔ میں چچا کو یہی بتاؤں گا۔”
”آپ ابو سے یہ کہیں گے؟” زینی نے ٹھٹھک کر بے یقینی سے اس کو دیکھا۔
”ہاں۔ یہی کہوں گا، تم چاہتی ہو، کچھ اور کہوں تو وہ بھی بتا دو۔” شیراز نے بے حد سنجیدگی اور اطمینان سے زینی سے کہا۔ ”میں چاہتا ہوں اب ہم مہینے میں ایک دو بار اسی طرح کھانا کھانے کہیں جایا کریں۔ پھر اسی طرح کسی پارک میں۔ چچا اجازت نہیں دیں تو بھی ہم جایا کریں گے۔ میں کسی دن کالج سے تمہیں لینے آسکتا ہوں۔”
وہ ٹھٹک گئی۔ دوقدم چل کر شیراز نے مڑ کر دیکھا۔ وہ وہیں کھڑی تھی بے حد ہکا بکا انداز میں۔ شیراز نے بے اختیار اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔
”کیا ہوا زینی؟ کیا پارک میں کچھ دیر اور بیٹھنا چاہتی ہو۔ میں تو پہلے ہی تم سے کہہ رہا تھا کہ اتنی جلد گھر جانے کی کیا ضرورت ہے۔” اس نے پوچھا۔
زینی کو احساس ہوا۔ وہ اسے جان بوجھ کر تنگ کر رہا تھا۔ اس کی جیسے جان میں جان آئی تھی۔ شیراز کا مذاق اکثر اس کے سر کے اوپر سے گزرتا تھا۔
”میں تو ڈر گئی تھی۔” اس نے قدم بڑھاتے ہوئے بے ساختہ کہا۔




”حالانکہ اس میں ڈرنے والی کوئی بات نہیں تھی۔ آخر لڑکے لڑکیاں Dating کرتے ہیں۔ یہ اس پارک میں جو اتنے کپلز تمہیں نظر آرہے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ سب میا ں بیوی ہیں؟” شیراز نے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے اسے چند جوڑوں کی طرف متوجہ کیا۔
”ویسے مجھے اس طرح کی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔” اس نے مزید کہا۔
”کس طرح کی؟” زینی نے بے ساختہ پوچھا۔
”ماڈرن اسٹائلش لڑکیاں۔” اس نے ستائشی انداز میں پارک میں چلتی پھرتی لڑکیوں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”اس طرح کے کپڑوں میں؟ کٹے ہوئے بالوں کے ساتھ، اس طرح کے میک اپ میں؟” زینی کو جیسے یقین نہیں آیا۔
”ہاں کیا غلط ہے اس سب میں۔ بیوی ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ مڑ مڑ کر دیکھیں۔ ذرا شادی ہوجانے دو پھر کرتے ہیں تمہارے ساتھ بھی کچھ۔”
شیراز نے بات کرتے کرتے یک دم اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ایک لخطہ کے لیے گڑبڑائی پھر ہنس پڑی۔ اسے یاد آگیا تھا شیراز کو مذاق کرنے کی عادت تھی اور وہ پھر اس کے مذاق کو حقیقت سمجھ رہی تھی۔
٭٭٭
سول سروسز اکیڈمی میں شیراز کا پہلا دن جیسے بادشاہ کا اپنے دربار میں پہلا دن تھا۔ پہلی چند پوزیشنز لینے والوں کے بارے میں بیچ ہی نہیں فیکلٹی کے ہر ممبر کو بھی دلچسپی تھی اور شیراز زندگی میں پہلی بار جیسے راجہ اندر بنا ہوا تھا۔ مگر صرف چند گھنٹوں میں ہی وہ راجہ اندر اپنے تخت سے معزول ہو گیا تھا۔
اس کے علاوہ پہلی پانچوں پوزیشنز پر آنے والے کامنرز (Commoners) اپر کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ Ruling elite ان سب کا پورے کے پورے نہیں تو کم از کم آدھا خاندان پہلے ہی بیورو کریسی میں اہم عہدوں پر فائز تھا۔ کسی کا باپ فیڈرل یا پرونشیل سیکرٹری تھا توماں کمشنر۔ کسی کا بھائی ایمبیسڈر تھا تو بہن ٹریڈ قونصلر وہ سب ایک دوسرے کے خاندانوں کو اوپر سے نیچے تک جانتے تھے۔ کون کب کہاں پوسٹڈ تھا اور کہاں پوسٹ ہونے والا تھا۔ پہلی پانچ پوزیشنز لینے والوں میں وہ واحد تھا جو اردو میڈیم سرکاری اسکول سے پڑھ کر آیا تھا۔ باقی چاروں ساری عمر انگلش میڈیم سے پڑھے تھے۔ ان میں سے دو کی ابتدائی تعلیم بیرون ملک ہوئی تھی اور وہ میڈیکل گریجویٹ تھے۔
دوسرے دو کی اسکولنگ پاکستان میں ہوئی تھی اور وہ اس کے بعد کی تعلیم باہر کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیز میں حاصل کرتے رہے تھے۔ وہ چاروں آپس میں جو باتیں کر رہے تھے۔ وہ جیسے شیراز کے سر کے اوپر سے گزرتی رہی تھیں۔ اس کے پاس ان چاروں کو بتانے کے لیے جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ کوئی باپ، چچا، ماموں، بھائی، کوئی نہیں جس کے عہدے کے بارے میں بات کر کے وہ وہاں ان کو اپنے خاندانی ہونے کا ثبوت دیتا۔
وہ چاروں ایک دوسرے کو ذاتی طور پر نہ جاننے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح بے تکلفی سے بات کر رہے تھے جیسے ہمیشہ سے ایک دوسرے کو جانتے رہے ہوں اور شیراز بالکل گنگ، دم سادھے ان کے بیچ بیٹھا رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی کلاس سے اس کامن میں کوئی نہیں تھا۔ نیچے کی پوزیشنز پر کچھ لڑکے لڑکیاں اسی کی طرح لوئر مڈل کلاس سے آئے تھے اور اسی کی طرح وہ بھی اپنے رکھ رکھاؤ سے اپر کلاس کا حصہ نہیں لگ رہے تھے۔ مگرشیراز اٹھ کر ان کے پاس نہیں گیا۔ وہ اس کلاس کوبہت پیچھے دفن کر آیا تھا۔ اسے اب اس کلاس سے بچنا تھا۔
اکیڈمی کے ہاسٹل میں پہلی رات شیراز نے جاگ کر گزاری۔ وہ ایک ہی دن میں شدید احساس کمتری کا شکار ہوچکا تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اسے ان چاروں کا منرز کے انداز میں جن کے ساتھ وہ سارا دن رہا تھا اپنے یا اپنے خاندان کے لیے کسی قسم کی توہین یا ذلت محسوس ہوئی تھی۔ اس کے برعکس وہ چاروں اسے بڑی اہمیت دیتے رہے تھے۔ شاید ان چاروں نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ وہ لوئر مڈل کلاس سے وہاں آیا تھا اور اس کا خاندان بے حد غریب تھا۔ مگر یہ ساری باتیں شیراز کے اپنے ذہن میں تھیں۔ اس کا بس چلتا تو وہ اپنے خاندان، اپنے محلے اور اپنی کلاس کی ہر شناخت اپنے وجود سے ختم کر دیتا۔ وہ ان جیسا بن جاتا، وہ ساری زندگی خواب دیکھتا رہا تھا اور جن کے جیسا بننے کی خواہش کے لیے جدوجہد اسے اس اکیڈمی میں لے آئی تھی۔
اس رات اکیڈمی کے اس کمرے میں بیٹھ کر اس نے طے کیا تھا کہ وہ اپنی کلاس کی ہر چھاپ کو اپنے اوپر سے رگڑ رگڑ کر مٹا دے گا۔ اسے ایک ننھے بچے کی طرح ہر شے شروع سے دیکھنا تھی۔ اپر کلاس کیا کھاتی تھی، کس طرح کھاتی تھی، کیا پہنتی تھی۔ کس طرح پہنتی تھی۔ اپر کلاس کس طرح جیتی تھی۔ کیا سوچتی تھی۔ کیا کہتی تھی۔ کیا زبان بولتی تھی۔ کن ایشوز کے بارے میں بات کرتی تھی۔ شیراز اکبر سول سروسز اکیڈمی میں پہلی رات کو ہی جیسے اپنے وجود کی کلوننگ کررہا تھا۔
٭٭٭
”شیراز سے بات ہوئی؟” رمشہ نے اس سے پوچھا۔
”نہیں، کیسے ہو گی؟” زینب نے قدرے مایوسی سے کہا ۔ ”اکیڈمی میں مصروف ہیں۔”
”اس ویک اینڈ پر گھر آرہا ہے یا نہیں؟”
”پتا نہیں شاید۔” زینب نے اسی انداز میں کہا۔ وہ کالج کے گراؤنڈ میں ایک فری پیریڈ میں پھر رہی تھیں۔
شیراز کے پوزیشن لینے کے چند دنوں بعد ہی زینب اور رمشہ دوبارہ سے شیرو شکر ہو گئی تھیں۔ رمشہ کے علاوہ زینب کی اور کوئی دوست نہیں تھی اور رمشہ نے زینب سے بہت زیادہ معذرت کی تھی۔ شاید زینب کچھ عرصہ اسی طرح موڈ آف رکھتی مگر شیراز کی کامیابی کی وجہ سے وہ اتنی خوش تھی کہ اس نے رمشہ کو فوراً معاف کر دیا تھا۔ البتہ وہ اس کے بعد دوبارہ اس کے گھر نہیں گئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی، وہاں فاران سے اس کا دوبارہ آمنا سامنا ہو۔
پچھلے کچھ مہینوں سے ان کے تعلقات پھر پہلے جیسے ہی ہو چکے تھے۔ رمشہ پہلے ہی کی طرح وقتاً فوقتاً شیراز کے بارے میں اس سے پوچھتی رہتی تھی۔ آج بھی وہ اسی طرح استفسار کر رہی تھی۔
”چلو، اس ویک اینڈ پر نہ سہی، اگلے ویک اینڈ پر ہی سہی مگر آتو جائے گا۔ تمہارے خطوں کا جواب دیا ہے؟” رمشہ کو یک دم یاد آیا۔
”نہیں۔ ابھی تک تو مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ مگر جانے سے پہلے وہ کہہ کر گئے تھے کہ میں انہیں خط لکھتی رہوں چاہے جواب ملے یا نہ ملے۔” اس نے سادگی سے کہا۔
”یہ کیا بات ہوئی؟” رمشہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ اسے یہ بات بہت بری لگی۔ ”وہ جواب بھی نہ دے اور تم اسے خط پرخط لکھتی رہو۔”
”خط پر خط کیا، صرف تین خط تو لکھے ہیں۔” زینی نے جیسے شیراز کا دفاع کیا۔
”وہ تیس کہتا تو تم تیس بھی لکھ دیتیں مجھے خط لکھنے پر اعتراض نہیں ہے جواب نہ آنے پر اعتراض ہے۔”
”تمہیں پتا ہے وہ کتنے۔۔۔۔”
رمشہ نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔ ”پتہ ہے مجھے کہ کتنا مصروف ہو گا وہ وہاں۔ مگر چار لائنیں لکھ دینے کے لیے گھنٹوں نہیں چاہیں۔ اس بار آئے تو بات کرنا اس سے اور وہ جواب نہ دے تو تم بھی خط لکھنا چھوڑ دینا۔”
رمشہ نے بے حد سنجیدگی سے کہا، زینب قائل نہیں ہوئی مگر اس نے رمشہ کے ساتھ بحث نہیں کی۔ وہ اسے یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ اسے اس کے جواب کا انتظار نہیں تھا۔ اس کے لیے اتنا کافی تھا کہ شیراز کو یہ پتہ چلتا رہے کہ وہ اس کے لیے کیا محسوس کر رہی ہے اس کی عدم موجودگی میں۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۲

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!