منّزہ سہام مرزا – گفتگو

٭ ہمارے معاشرے میں ایک طبقاتی فرق ہے، ادبی حلقہ ڈائجسٹ کو مانتا ہی نہیں ہے، یہ فرق کیوں ہے اور یہ کیوں ختم نہیں ہوسکتا؟

منّزہ: حسن میں اگر آپ سے یہ کہوں کہ میں بہت خوب صورت ہوں، میں بہت حسین ہوں ، میں بہت پڑھی لکھی ہوں، مجھ جیسا کوئی نہیں۔ آپ میری یہ بات سُن لیں گے، شریف آدمی ہوں گے تو دل میں کہیں گے پاگل ہوگئی ہیں، دماغ خراب ہوگیا ہے،اور اگر blunt ہوں گے جس کے چانسز کم ہیں تو آپ کہیں گے کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، آپ اپنے آپ کو بہت زیادہ overrate کررہی ہیں۔ ادبی پرچہ کتنا چھپتا اور کتنا بکتا ہے، آپ مجھے یہ بتائیے؟وہ تو ماہانہ چھپتا بھی نہیں ہے، سہ ماہی یا سالانہ چھپتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے ملک میں صرف ادبی اتنے سے لوگ ہیں جو ادب کو جانتے ہیں۔ سو، دو سو باقی سب جاہل ہیں؟ تو یہ تو بالکل وہی بات ہے کہ جب آپ کی کوئی بات سن ہی نہیں رہا ہے تو آپ خود ڈھیٹ بن کر بیٹھ جائیے کہ باقی سب کچرا ہیں، ہم بہت اعلیٰ و ارفع ہیں۔ اصل میں ادب وہ ہے جو عام آدمی تک پہنچے، ایک طرف ڈائجسٹ کے مالکان نے پیسوں کے ذریعہ اردو کو مارنے کی کوشش کی دوسری طرف جو لوگ ادبی رسالوں میں کام کررہے ہیں، ان کے پاس پیسہ نہیں تھا ، انہوں نے اپنی ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی، سامنے والے کو گرانے کے لئے۔ آپ کیسے کسی کو کم تر سمجھ سکتے ہیں ؟ آپ جو لکھ رہے ہیں، آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ آپ کے حلقۂ احباب میں چند لوگوں کے پڑھنے سے کیسے اچھی چیز ہوگئی۔ میرے حساب سے ادب اور ڈائجسٹ کو الگ کرنا یہ ان لوگوں کی ایک اپروچ تھی جو ڈائجسٹ کے حساب سے شاید نہیں لکھ سکتے تھے۔آپ ادب کو محدود کیسے کرسکتے ہیں، آپ جس ملک میں رہتے ہیں، وہاں پر ایک مخصوص طبقہ ڈائجسٹ پڑھتا ہے، آپ یہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ جو لوگ ڈائجسٹ پڑھ رہے ہیں وہ کم تر ہیں اور جو لوگ ادبی رسالے پڑھ رہے ہیں وہ برتر ہیں؟ ادبی رسالوں میں جو چیزیں چھپتی ہیں، اکثر و بیشتر ایسا موادہوتا ہے کہ لوگ نہیں چاہتے کہ ان کے گھر کی خواتین پڑھیں۔ہم ڈائجسٹ میں جو چھاپتے ہیں، وہ معاشرتی مسائل کے حوالے سے چھاپتے ہیں اور اس کا ایک حل بھی دیتے ہیں۔ ایک لڑکی کو بتاتے ہیں کہ بی بی اگر عشق بازی میں پڑوگی تو نقصان اٹھاؤ گی، ماں باپ کی بات مانو۔ تو ہمیں بتانا پڑے گا کہ وہ عشق کی طرف چل پڑی تھی، پھر اسے کیا نقصان اٹھانا پڑا اور پھر اس کا حل دیا۔ بہت سے لوگ راستے پر آئے ہیں، میرے پاس میرے کتنے ریڈرز ہیں جو مجھے باہر سے کال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو ڈائجسٹ پڑھاتے ہیں تاکہ وہ اردو پڑھ اور لکھ سکیں، وہ ادبی رسالہ نہیں پڑھا تے۔جس چیز کو بھی آپ محدود کریں گے، تو وہ محدود ہوتے ہوتے ختم ہوجائے گی۔ اب تو یہاں کے بچوں کو اردو نہیں آتی ہے، اگر آپ ادب کا پرچہ اٹھا کر چلتے جائیں اور سب کو گراتے جائیں کہ تم کم تر،وہ کم تر ، یہ کم تر تو آج ادبی رسائل جہاں کھڑے ہیں، اردو بھی تقریباً وہیں آجاتی، یہ تو ڈائجسٹ کا contributionہے کہ لوگ اردو سے واقف ہیںاور اردو لکھنے اور پڑھنے والوں کے چولہے جل رہے ہیں۔ میں آپ کو ایک سچ اور تلخ بات بتاؤں کہ یہ ڈائجسٹوں کا ہی contribution ہے کہ آج بہت سے گھرانے اپنی زندگی کو ایک اچھے طریقے سے لے کر چل رہے ہیں، ہر عورت باہر نکل کر جاب نہیں کرسکتی، ہر عورت مردوں کے درمیان بیٹھ کر باتیں نہیں کرسکتی۔ اس زمانے کے لکھنے والوں کو جنہیں ہم intellectual کہتے ہیں، ان کا سٹائل ہمیں ہضم نہیں ہوتا۔ہم جس دور میں کھڑے ہیں اس میں ہمارے مذہب اور ہمارے معاشرے میں clash ہورہا ہے، ہمیں بہت دھیمے سے انداز میں چیزوں کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ قر ة العین حیدر، اردو ادب کا بہت بڑا نام میں بچپن میںانڈیا گئی تو میرے والد ان سے ملنے گئے، کیوں کہ ان کا حیدرآباد دکّن سے تعلق تھا، ان کا ایک تعلق انڈیا سے تھا۔ میں انڈیا پہلی دفعہ 1979ء میں گئی تھی، میں بہت چھوٹی تھی، کہتے ہیں نا کہ آپ سخت رویے بھی کبھی نہیں بھولتے، آپ محبت والے رویے بھی کبھی نہیں بھولتے۔ وہ اتنی سرد اور سخت مزاج خاتون تھیں کہ میں بتا نہیں سکتی، میں ایک چھوٹی سی بچی تھی، اور جب میں اس قابل ہوئی کہ پڑھ سکوں تب بھی میں نے ان کو کبھی نہیں پڑھا۔ بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں ماں باپ کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں، بڑوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ بچے ان کا مشاہدہ کررہے ہوتے ہیں۔ میں واجدہ تبسم سے ملی، ا ن جیسی زندہ دل خاتون میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ میں جیلانی بانو سے ملی، ان کا انداز تھوڑا سا الگ تھا۔یہ بڑے رائٹرز تھے، جن کے نام سے لوگ آج بھی واقف ہیں۔ میں عصمت چغتائی سے ملی، وہ بہت پیاری اور زندہ دل خاتون تھیں۔ ہم آج کل ایسے لوگوں کو wild کہتے ہیں، وہ ہمیں ہضم نہیں ہوں گے۔ یہاں پر دوسروں کے جنازوں پر اپنے قد بڑھائے جاتے ہیں، ایک بے ہودہ سی چیز چھپ جائے گی، لوگوں کو صاف اور سیدھی چیز نہیں پڑھنے دی جاتی۔یہ جو کانفرنسز ہوتی ہیں، ریفرنسز ہوتے ہیں ذرا ان سے پوچھیں تو سہی کہ جب لوگ زندہ تھے تب آپ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ میں اعزازی پرچہ بھجواتی ہوں ان سارے ادب کے علم برداروں کو جو یہ کہتے ہیں کہ ڈائجسٹ ہم نہیں پڑھتے، میرے والد کی جن سے دوستی تھی، بڑے بڑے نقاد تھے۔میں نے پرچے بھیجنا بند کردیے تھے کیوں کہ پوسٹیج مہنگی ہوگئی تھی، کاغذ مہنگا ہوگیا ، پرچے چھاپنے مشکل ہوگئے ، مختلف جگہوں پر میں تنقید سنتی تھی تو میں نے پرچہ بھیجنا بند کردیا۔ تو ان لوگوں نے مجھ سے شکایت کی کہ میری بیوی پڑھتی تھی، میں پڑھتا ہوں، میری بیٹی پڑھتی تھی آپ نے پرچہ بھیجنا کیوں بند کردیا؟ جب تک ہم نہ پڑھ لیں مزہ نہیں آتا۔ کئی دفعہ انہوں نے کہا کہ ہمیں کیوں نہیں بلاتیں دوشیزہ ڈائجسٹ ایوارڈ میں گیسٹ سپیکر کے طور پر؟ میں نہیں بلاتی۔ سچی بات یہ ہے کہ اپنے چائے پانی کے لئے گروپنگ کی ہوئی ہے اور سب ہی نے کی ہوئی ہے۔

 

٭ ایڈیٹنگ کی فیلڈ میں نئے آنے والوں کے لئے کوئی ایک مشورہ؟

منّزہ: جو اس فیلڈ میں آنا چاہتے ہیں، میں ان سے صرف ایک بات کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کو سب کچھ وقت سکھا دے گا، آپ ایڈٹ کرنا سیکھ لیں گے، سب کچھ آجائے گا لیکن آپ کی self grooming جو ہے وہ آپ کو خود کرنی ہوگی، اور آپ کو اس کے اوپر فوکس کرنا چاہیے، آپ کی شخصیت ایسی ہونی چاہیے کہ جب چار لوگوں کے درمیان بیٹھ کرآپ بات کریں تو آپ کی بات میں وزن ہو،اثر ہو۔

٭ نئے لکھنے والوں کے لئے کوئی ایک مشورہ؟

منّزہ: نئے لکھنے والوں کے لئے میں صرف ایک بات کہوں گی کہ بہت اچھی بات ہے، بہت اچھے لوگ ہیں جو لکھ رہے ہیں صرف چیزوں کا حقیقت پسندی کے ساتھ مشاہدہ کریں، اور کتابیں پڑھیں۔ اچھا لکھنے کے لئے پڑھنا بہت ضروری ہے، اچھا پڑھنا۔ سادہ الفاظ میں آسان بات کرنے کا فن سیکھیں، بات کو گھما کر ، پیچیدہ کرکے کہنا مت سیکھیں۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شکیل عادل زادہ – گفتگو

Read Next

فصیح باری خان – گفتگو

2 Comments

  • منزہ سے گفتگو بہت مختصر ہے برائے مہربانی ایسی تو بات چیت دیں کہ صلم ہو کہ انھو ں نے اس چھوٹی سی عمر میں ادب کی کتنی خدمت کی ہے ۔۔ ان کے کالمز کی کتاب اور افسانوں کہانیو ں کی کتاب کو زیر بحث لائیں اس ادھوری گفتگو سے ان کے طو یل انٹرویو کی لگن بڑھ گئی ہے

  • علم ہث

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!