منّزہ سہام مرزا – گفتگو

٭ ایک دوسری بات جو میں کہوں گا وہ یہ کہ لکھنے والا بھی محدود ہوجاتا ہے، خواتین کے پرچوں میں صرف خواتین ہی لکھ رہی ہیں۔

منّزہ: حسن میرے پرچے میں اگر آپ دیکھیں تو اس میں مرد حضرات بہت لکھتے ہیں اور میں چھاپتی بھی ہوں، کیوں کہ وہ بہت اچھا لکھتے ہیں، بہت سے ایسے مرد ہیں جو خواتین کے رسالوں میں عورتوں کے نام سے لکھ رہے ہیں، لیکن میں نے ان سے واضح طور پر کہا ہوا ہے کہ میرے رسالے میں آپ اپنے نام سے لکھیں، اور میں آپ کو ایک اور بات بتادوں کہ خواتین کے جتنے رسالے نکل رہے ہیں ان میں زیادہ تر مرد ہی لکھ رہے ہیں۔لیکن رسالے کے مدیران اور مالکان نے ان رائٹرز کو پابند کررکھا ہے کہ وہ اپنے اصل نام سے نہ لکھیں، اپنی بیوی یا بہن یا بیٹی کے نام سے لکھیں، یہ اس رائٹر کے ساتھ زیادتی ہے۔ صرف اپنے پرچے کی سیل بڑھانے کے لئے اگر آپ کسی کی تخلیقی صلاحیت کو ختم کر کے رکھ دیں گے تو یہ ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔ ایک عورت کے جذبات اور اس کے احساسات پر جس قدر خوبی سے ایک مرد لکھ سکتا ہے، عورت نہیں لکھ سکتی ہے، اس کی ضروریات تو مرد پوری کرتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی افسوس ناک صورتِ حال ہے۔ لیکن ہمارے ادارے کی یہ پالیسی نہیں ہے، ہمارے پاس مرد رائٹرز بھی ہوتے ہیں، ایوارڈ ونر بھی ہوتے ہیں۔ اور اگر وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ہم فلاں پرچے میں مشہور ہیں اور اس نام سے لکھ رہے ہیں، اور آپ کے پرچے میں بھی یہی نام استعمال کرنا چاہتے ہیں تو میں انہیں منع کرتی ہوں کہ میں نہیں چھاپوں گی۔ آپ میرے پاس ایسے بہت سے نام دیکھیں گے جن کو دیکھ کر آپ کو لگے گا یہ تو بالکل نامعلوم سے ہیں، ان کو کبھی پڑھا ہی نہیں ہے لیکن وہ بہت بڑے بڑے قد آور رائٹرز ہیں خواتین کے رسالوں میں۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے اور اس ہی چیز نے رائٹر کو محدود کیا۔ آج جب ڈرامے بنتے ہیں تو ڈائجسٹ رائٹر کو ایسے طبقے سے دکھاتے ہیں جس کے پاس کھانے کے لالے پڑے ہوں۔ غربت میں کوئی برائی نہیں ہے، جہالت تکلیف دہ چیز ہے۔ کوئی کم تر سی جاہل سی عورت لال لپ سٹک لگائے ٹیبل پر بیٹھے سموسے کھارہی ہے، آپ ایڈیٹر کو ایسا کیسے دکھا سکتے ہیں؟ آپ نے ایڈیٹر کو کیا ہے ایسا، آپ نے بند کمرے میں بیٹھ کر صرف مالکان کے پیسے دیے، رائٹرز کو اپنے سامنے کھڑا کیا ،آپ کے پاس مینرز نہیں ہیں کسی جگہ پر بیٹھ کر بات کرنے کے لیے، آپ کو کوئی مدعو نہیں کرتا۔ اگر آپ فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ہماری سیل ایک لاکھ ہے تو یہ نہایت شرم کی بات ہے۔ دو کروڑ تو ہم پچھلے بیس سال سے کہہ رہے ہیں، یہ بہت زیادہ آبادی کا شہر ہے، اوراردو پڑھنے والے دوسرے صوبوں میں ، گاؤں دیہاتوں میں زیادہ ہیں، تو آپ کی ریڈرشپ تو لاکھوں میں ہونی چاہیے تھی لیکن چوں کہ آپ کے گھر کے خرچے اس سیل میں پورے ہورہے تھے تو آپ مارتے گئے ،آپ نے پابندی لگائی کہ آپ چوں کہ میرے پاس لکھ رہی ہیں تو آپ اُس ڈائجسٹ میں نہیں لکھیں گی، یہ غلط چیز ہے۔

٭ مقابلے کے مدیران میں کس کا کام آپ کو زیادہ بہتر لگتا ہے؟

منّزہ: حسن دیکھیں میں نے اپنے پرچے کا مزاج بالکل الگ رکھا ہوا ہے، اور جو کچھ دوسرے پرچوں میں چھپ رہا ہے، میں اس سے متفق ہی نہیں ہوں۔اب جب تجربہ ہوا، زندگی کو برتا،بچے جوان ہوگئے ہیں، بہت سے مسائل دیکھے، چیزوں کو دیکھنے کا میرا رویہ تبدیل ہوا، میںconvince ہی نہیں ہوں جو پرچوں میں چھپتا ہے، یا جس طرح وہ رائٹرز کے ساتھ برتاؤ رکھتے ہیں۔ ان ہی رائٹر کو ہینڈل کرنے میں مجھے بہت مسئلہ ہوتا ہے، کیوںکہ وہ اپنے آپ کو خود کم تر سمجھتے ہیں، وہ بس یہی چاہتے ہیں کہ تحریر بھیج دی ہے، آپ اب پیسے بھیج دیں۔ تحریر بھلے سے شائع ہوجائے یا رد ہوجائے ، وہ مشینی انداز میں اور لکھ رہے ہوتے ہیں۔ رائٹرز باقاعدہ bargain کرتے ہیں۔ مجھے یونی ورسٹی اور کالجز میں اگر مدعو کیا جاتا ہے تو میں ضرور جاتی ہوں اور ایک مقصد کے تحت جاتی ہوں، کیوں کہ جب وہاں پر موجود بچیاں ملتی ہیں تو وہ کہتی ہیں ہمیں تو یقین ہی نہیں آتا کہ کسی اردو ڈائجسٹ کے لوگ ایسے ہوں گے۔ وہ بھی بات کرسکتے ہیں، وہ بھی اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں بات کرسکتے ہیں، دکھ بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی ہوتی ہے۔ جس زبان سے ہم کمارہے ہیں، ہمیں اس کے ساتھ اتنی زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ پروفیشنل ہونا چاہیے، رائٹرز کو تباہ نہیں کرنا چاہیے،صرف پیسے کی رٹ نہیں لگانی چاہیے۔ مردوں سے عورتوں کے نام سے لکھوارہے ہیں۔ 

٭ سینئر رائٹر میں آپ کو کس کا نام اچھا لگتا ہے؟

منّزہ: سینئر رائٹر میں اگر آپ کسی کا پوچھیں جن کی تحریر میں فوراً پڑھتی ہوں، مسودہ کو کمپوز بھی نہیں کروانے دیتی تو وہ رفعت سراج ہیں۔ رفعت بہت ہی بہترین رائٹر ہیں، جذبات کو بہت اچھی طرح سے لکھتی ہیں۔ میں تو انہیں ملکۂ جذبات کہتی ہوں ، کہ جس طرح وہ جذبات کو الفاظ میں ڈھالتی ہے، بہت کم رائٹرز ایسا کرپاتے ہیں۔اس کے علاوہ عقیلہ حق بہت اچھا لکھتی ہیں، غزالہ رشید بہت اچھا لکھتی ہیں، رضوانہ پرنس بہت اچھا لکھتی ہیں، رضوانہ کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ مثبت لکھتی ہیں۔ نفیسہ سعید بہت اچھا لکھتی ہیں۔

Loading

Read Previous

شکیل عادل زادہ – گفتگو

Read Next

فصیح باری خان – گفتگو

2 Comments

  • منزہ سے گفتگو بہت مختصر ہے برائے مہربانی ایسی تو بات چیت دیں کہ صلم ہو کہ انھو ں نے اس چھوٹی سی عمر میں ادب کی کتنی خدمت کی ہے ۔۔ ان کے کالمز کی کتاب اور افسانوں کہانیو ں کی کتاب کو زیر بحث لائیں اس ادھوری گفتگو سے ان کے طو یل انٹرویو کی لگن بڑھ گئی ہے

  • علم ہث

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!