منّزہ سہام مرزا – گفتگو

٭ نئے لکھنے والوں میں آپ کو کس کا کام زیادہ پسند آتا ہے؟

منّزہ: بہت سارے ہیں، اور سب بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ کسی کا نام نہ لے کر زیادتی ہوجائے۔لیکن ایک بات میں آپ کو بتاؤں کہ زیادہ تر اچھے رائٹرز پنجاب کی سائیڈ سے آرہے ہیں۔ بہت سی نئی لڑکیاں ہیں ان کا مشاہدہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ ایک لڑکی جو یونی ورسٹی میں پڑھ رہی ہے، وہ یونی ورسٹی کا ماحول لکھتی ہے اور بہت ہی نیچرل لکھتی ہے۔ نئے لکھنے والوں میں ایک بچی ہے جو کم کم لکھتی ہے ماہ وش طالب، اس کا پہلا افسانہ جب میرے پاس آیا تو میں حیران رہ گئی تھی۔ اس کی تحریر میں مجھے قلم نہیں لگانا پڑتا۔ بہت سی ایسی بچیاں جن کو پڑھ کر لگتا تھا کہ کسی بوڑھی سی خاتون نے لکھا ہوگا، لیکن جب بات کرتی ہوں تو پتا چلتا ہے کہ وہ بہت young سی بچیاں ہیں۔نہایت معذرت کے ساتھ لیکن کراچی کے لوگوں سے زیادہ اچھی اردو ادھر کے لوگوں کی ہے۔ اردو پر کام ہی وہاں پر ہورہا ہے، ہم لوگ اتنا کام کر ہی نہیں رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک لڑکا ہے احمد سجاد بابر، وہ بہت اچھا لکھتا ہے، ان کی کہانی پر گرپ بہت اچھی ہے، سید وجاہت علی ہیں جو بہت اچھا لکھتے ہیں۔ ایک لڑکا ہے عبادت کاظمی ڈی جی خان سے لکھتا ہے ، وہ بہت اچھا لکھتا ہے۔ایک لڑکی کشمیر سے لکھتی ہے آسیہ جو بہت اچھا لکھتی ہے۔

٭ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں، اور رہی سہی کسر رومن اردو نے پوری کردی ہے، آپ کے خیال میں رومن اردو کے استعمال کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟

منّزہ:ختم تو نہیں کیا جاسکتا، ایک چیز جب آجاتی ہے تو اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا، کم البتہ کیا جاسکتا ہے۔ حسن بہت لمبا راستہ ہے، محنت کرنی پڑے گی اور بہت زیادہ کرنی پڑے گی، یہ سوچے بغیر کہ اس میں کتنا فائدہ یا کتنا نقصان ہے۔ ایک چیز اور کہنا چاہتی ہوں، پچھلے دنوں ایک ڈرامہ چل رہا تھا، ایک چینل پر repeat بھی ہوا تھا، اس کو دیکھ کرمجھے بڑا دکھ ہوا تھا۔ اس میں جو ڈائجسٹ رائٹر لڑکی دکھائی وہ ایک بہت غریب سی لڑکی تھی ، اس میں سب سے برُا جو کردار دکھایا وہ ایڈیٹر کا دکھایا۔ مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔ لیکن سچ بھی یہ ہے کہ جب آپ نام لیتے ہیں کسی اردو ڈائجسٹ کا تو آپ کے ذہن میں ایک بے ڈھنگی ،موٹی سی خاتون آتی ہیں جو انتہائی sadist ہوتی ہیں، جو صرف طنز کررہی ہوتی ہیں، یہ حقیقت ہے اس میں کوئی doubt نہیں ہے۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ اگر آپ سکرین پر دکھارہے ہیں تو تھوڑا سا positive دکھا دیں۔ ہم لوگوں کو خود بھی تھوڑا کام کرنا پڑے گا۔ اتنا gap کیوں ہے انگریزی رسالے کی ایڈیٹر اور اردو رسالے کی ایڈیٹر میں۔ پڑھے لکھے دونوں ہیں، لیکن جو اردو ڈائجسٹ یا اردو پر کام کرتے ہیں،وہ اپنے آپ کو groom نہیں کرتے ہیں۔ہم یہ بولتے ہیں کہ ہمارا تعلق اردو بولنے والے گھرانوں سے ہے، ہمیں اردو پر بڑی مہارت حاصل ہے لہٰذا ہم نے اردو پر کبھی کام نہیں کیا۔ اس ہی طرح جو لوگ اردو پر کام کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں اردو ہی تو ہے، ہماری اپنی ہی زبان ہے تو وہ اس پر محنت نہیں کرتے، وہ شاید جانتے نہیں ہیں کہ آپ کی شخصیت بھی بہت معنی رکھتی ہے۔ آپ اگر کسی سے ملیں اور کہیں کہ میں فلاں انگریزی میگزین سے آیا ہوں تو آپ کو الگ برتاؤ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر آپ کہیں گے کہ جی میں اردو میگزین سے آیا ہوں تو ذہن میں تصویر ہی الگ سی بنے گی کہ عجیب اجڑے ہوئے خبط الحواس سے لوگ۔ ہم لوگوں نے خود سے ہی یہ بات سوچ لی ہے کہ اردو کم تر ہے، اس لئے ہم اس کے بارے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ لکھنا خداوند کی عطا ہے، اور یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کوئی انگریزی زبان میں لکھ سکے۔ 

٭ لوگ اس احساسِ کمتری سے باہر کیسے نکل سکیں گے؟ ہمارے یہاں اردو بولنے اور لکھنے کو ایک گالی اور ایک طعنہ سمجھا جارہا ہوتا ہے، یہ چیز ختم کیسے ہوگی؟

منّزہ: اس گیپ کو ختم ہم جیسے لوگ کریں گے جو ادارے چلارہے ہیں۔ میرے والد نے جب دوشیزہ ڈائجسٹ ایوارڈز کا سلسلہ شروع کیا تو پہلا فنکشن اس کا 1981-82ء میں ہوا تو جب کوئی ان سے کہتا تھا کہ ایک فائیو سٹار ہوٹل میں کیوں رائٹرز کو بلا کر انہیں ایوارڈز دے رہے ہیں۔ اب تو یہ عام سے بات ہے لیکن اس وقت یہ بہت بڑی بات ہوتی تھی، پانچ ستاروں والے ہوٹل میں بلانا۔ تو میرے والد یہ کہتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ اردو لکھنے اور پڑھنے والے کبھی اپنے آپ کو کم تر نہ سمجھیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں کبھی فائیو سٹار ہوٹل میں نہیں آسکتا ہوں، اور ان کو ایوارڈ دینے کے لئے کوئی چھوٹی یا سستی سی جگہ منتخب کی جائے گی۔ اس چیز کی انہوں نے ایک روایت ڈالی، جس کو میں نے جاری رکھا ہے۔اس وقت ڈالرشاید پندرہ روپے کا تھا، اب ڈالر ایک سو چار روپے پر پہنچ گیا ہے(مسکراتی ہیں) توجب آپ فائیو سٹار کی بکنگ کے لئے جاتے ہیں بغیر کسی سپانسر کے، تو آپ کو اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑتاہے، لیکن اس میں مقصد یہی تھا اور ابھی بھی یہی ہے کہ ہم جس زبان کے بولنے والے ہیں، ہم جس زبان کے میگزین نکالتے ہیں، اس میں جو لکھ رہے ہیں اور جو پڑھ رہے ہیں، ان کا معیار کم نہیںہے، وہ بھی اتنے ہی معزز ہیں جتنے اور لوگ ہیں اور یہ اقدامات اداروں کو اٹھانے پڑیںگے جو بدقسمتی سے وہ نہیں اٹھارہے ہیں۔انہوںنے صرف کمانے کو اپنا مقصد بنایا ہوا ہے کہ بس کما لو، اور رائٹر کو بھی پیسے دے دو۔ اور بدقسمتی سے ہمارے رائٹر بھی پیسے کمانے کو ہی زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔انہیں لگتا ہے کہ اگر انہیں زیادہ معاوضہ مل گیا تو انہیں عزت مل گئی۔ انہیں بلا کر اگر اچھی جگہ تقریب کی جارہی ہے، انہیں ایوارڈ دیا جارہا ہے تووہ اس کو عزت نہیں سمجھتے۔

Loading

Read Previous

شکیل عادل زادہ – گفتگو

Read Next

فصیح باری خان – گفتگو

2 Comments

  • منزہ سے گفتگو بہت مختصر ہے برائے مہربانی ایسی تو بات چیت دیں کہ صلم ہو کہ انھو ں نے اس چھوٹی سی عمر میں ادب کی کتنی خدمت کی ہے ۔۔ ان کے کالمز کی کتاب اور افسانوں کہانیو ں کی کتاب کو زیر بحث لائیں اس ادھوری گفتگو سے ان کے طو یل انٹرویو کی لگن بڑھ گئی ہے

  • علم ہث

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!