شکیل عادل زادہ – گفتگو

گفتگو

شکیل عادل زادہ

شکیل عادل زادہ صحافت اورڈائجسٹ کی دنیا کا بے حد معتبر نام ہیں۔ مقبول زمانہ ڈائجسٹ ”سب رنگ” ان کی پہچان بنا۔ 1938ء میں مراد آباد میں پیدا ہونے والے شکیل عادل زادہ کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ چھے سال کے تھے جب والد دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ نامساعد مالی حالات کے باعث خود تگ و دو کرتے ہوئے تعلیمی منازل طے کیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آئے اور بطورِ صحافی اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اپنی محنت اور لگن سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے اس درجے تک پہنچے کہ اپنی ذات میں ایک ادارہ بنے۔ انہوںنے سب رنگ کے پلیٹ فارم سے اُردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے بہترین کارہائے نمایاں انجام دیئے۔

الف کتاب کے کونٹینٹ مینیجر حسن عمر سے ہوئی شکیل عادل زادہ کی گفتگو کا احوال پڑھیے۔

حسن عمر: ویسے تو ہم سب جانتے ہیں کہ آپ کی عمر گزری ہے اس دشت کی سیاحی میں مگر پھر بھی ہمارے قارئین کے لیے مختصراً تعارف کہ آپ کب سے اس فیلڈ میں ہیں، شروعات کیسے ہوئیں؟

شکیل: میں عملی زندگی میں اخبار کے راستے داخل ہوا تھا۔یہ سفر  رئیس امروہوی صاحب کے روزنامہ ”شیراز” سے شروع ہوا۔ یہ اُس زمانے میں شائع ہونے والا  ایک ناکام پرچہ تھا۔ لیکن جب میں اس سے وابستہ ہوا  تو تب وہ ڈمی (dummy) پر چھپتا تھا۔جب پرچے میں جان نہ رہتی تو پھر ڈیکلریشن زندہ رکھنے کے لیے وہ ڈمی پر چھپا کرتے تھے۔ تو میں نے اسے مزید ڈمی کردیا۔ یہ بات ہے سن ستاون(1957) کی۔چوں کہ کچھ اشتہارات تھے، تقریباً آٹھ نو سو روپے کے، اس زمانے میں آٹھ نو سو روپے بھی بہت ہوتے تھے ، تو ہم یہ کرتے کہ اشتہارات چھاپنے کے لیے چار صفحے کا سنڈے ایڈیشن چھاپتے جب کہ  باقی سولہ صفحے چھاپنے کے لیے ہمیں ڈمی کی مدد لینا پڑتی تھی۔ قانون یہ ہے کہ سولہ پرچوں کی ماہانہ ڈمی اگر داخل کی جائے توڈیکلریشن زندہ رہتا ہے۔ تو چار تو ہم سنڈے ایڈیشن چھاپ دیتے تھے مہینے میں، باقی سپلیمنٹ کے طور پر ایک صفحہ پر مشتمل اخبار روزانہ چھاپ دیتے تھے،جو تقریباً سو کے قریب چھپتا تھا۔ اس میں ہمیں کافی بچت ہونے لگی جس میں سے رئیس صاحب کا ذاتی خرچہ نکل آتا تھا۔ رئیس صاحب سے میرا تعلق یوں ہوا کہ میرے والد اور رئیس صاحب ہندوستان کے شہر مرادآباد سے ایک رسالہ نکالتے تھے جس کا نام تھا ”مسافر”۔ رئیس صاحب تقسیم کے فوراً بعد پاکستان آگئے اور میں کوئی دس سال بعد یہاں آیا۔ یہاں آیا تو کچھ عرصہ اپنے عزیزوں کے ہاں گزارا لیکن بعد میں رئیس صاحب کے گھر ہی رہا۔تو گویا میری لکھنے کی تربیت اسی خاندان میں ہوئی۔ رئیس امروہوی ،سیّد محمد تقی اور ان کے چھوٹے بھائی جون ایلیا کی ہمراہی میں سارا وقت گزرا اور یہی میرا عملی زندگی کا آغاز تھا۔ ہم پڑھتے بھی رہے، اردو کالج میں داخلہ لیا، وہاں سے بی کام کیا، پھر external student کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں اور بعد میں پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرزکیا۔ یہ میری مختصراً روداد ہے (مسکراتے ہیں)

حسن عمر: سب رنگ کا آئیڈیا کسی نے دیا تھا یا یہ خالصتاً آپ کا اپنا آئیڈیا تھا؟

شکیل: جی ہاں بالکل! یہ میرا اپنا آئیڈ یا تھا۔ہوا کچھ یوں کہ ”شیراز” تقریباً ایک سال تک چلا۔ جون ایلیا بھی اسی زمانے میں ہندوستان سے آئے تھے اور بہت بیمار تھے۔ انہیں TB تھی ایک طویل علاج کے بعد وہ ٹھیک تو ہو گئے مگر ان کی دوبارہ صحت مند زندگی کی طرف بحالی کے لیے ایک رسالہ نکالا گیا جس کا نام تھا ”انشائ” ۔ یہ ایک علمی اور ادبی پرچہ تھا۔ ادبی کم اور علمی زیادہ تھا کیوں کہ یہ گھرانہ  اپنی  علمی حیثیت سے زیادہ پہچانا جاتا تھا۔ ایک سال کے بعد میں بھی انشاء سے وابستہ ہوگیا۔ انشاء میں مارکیٹنگ یعنی اشتہارات کا حصول اور طباعت کی ذمے داری میری تھی۔ سرکولیشن کا کام ان کے تیسرے بھائی سید محمد عباس کرتے تھے اور پرچے کی ایڈیٹنگ جون ایلیا کرتے۔  رفتہ رفتہ میں بھی ایڈیٹنگ میں دل چسپی لینے لگا۔ انشاء ایک ادبی پرچے کی طرح چلتا رہا اور ہماری سر توڑ کوشش کے باوجود اس کی اشاعت ساڑھے بارہ سو سے آگے نہ بڑھ پائی۔ اس کے کئی تیور اور  روپ بدلے۔۔خواتین کے ٹائٹل بھی لگائے( مسکراتے ہیں) لیکن اس کی سرکولیشن ساڑھے بارہ سو سے زیادہ نہ ہوسکی۔ اس زمانے میں اردو ڈائجسٹ کی بڑی شہرت تھی اور اس کی اشاعتی تعداد نوے ہزار تک جا پہنچی تھی۔ ہم تین لوگوں کا روز گار انشاء سے ہی وابستہ تھا، جون ایلیا، ان کے بڑے بھائی سید محمد عباس اور میں۔۔۔تاثر یہ تھا کہ یہ ہم تینوں کا پرچہ ہے۔ پھر ہم نے الطاف حسن قریشی کے اُردو ڈائجسٹ کی مقبولیت سے متاثر ہوکر انشاء کو ”عالمی ڈائجسٹ” کردیا۔۔ عالمی ڈائجسٹ میں دو ایک سال تک جون صاحب زیادہ مستعدرہے، لیکن ڈائجسٹوں کے بارے یہ تاثر غالب تھا کہ یہ دوسرے درجے کی چیزیں ہیں، جو ابھی تک قائم ہے۔ اس تاثر کے پیشِ نظر وہ اس سے بتدریج علیحدہ ہوتے گئے، اور میں اس میں اسی طرح شامل ہوتا گیا۔ باقاعدہ ادارت میں میرا نام آنے لگا، کہانیوں کے انتخاب وغیرہ میں عباس صاحب میرا ساتھ دیتے۔۔۔اس سے فرق یہ پڑا کہ ڈائجسٹکی اشاعت ساڑھے بارہ سو سے ساڑھے چار ہزار تک پہنچی لیکن پھر وہیں ٹھہر گئی۔ بے حد کوششوں کے باوجود اس میں اضافہ نہ کر پائے۔ پھر مزید چارے کے طور پر  ہم نے کالی مائی ٹائپ کی پراسرار کہانیاں قسط وار شائع کرنا شروع کیں اور اسے فکشن کی طرف لے آئییہ طریقہ کار آمد ثابت ہوا اور اشاعت بیس ہزار تک جا پہنچی۔ لیکن جب اس کی اشاعت بیس ہزار تک ہوئی، تو مجھے یہ تاثر ملنے لگا کہ یہاں میری حیثیت  ملازم کی سی ہے، جب کہ حقیقت  میں ،میں پارٹنر تھا۔ ایک مشہور ناقد ہیں سید محمد علی صدیقی جو ڈان میں Aerial کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور اُردو تنقید میں ان کا بڑا نام ہے۔ انہوں نے میری طرف سے رئیس امروہوی اور سید محمد تقی سے بات کی کہ شکیل کا رسالے  میں کیا حصہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا  کہ شکیل تو مالک ہیں، جیسے جون ویسے شکیل۔ (مسکراتے ہیں) صدیقی صاحب نے مجھے بتایا تو میں نے کہا کہ اس قسم کی باتیں تو وہ کرتے رہتے  ہیں ان کی کوئی قانونی حیثیت بھی تو ہو۔ انہوں نے رئیس صاحب سے دوبارہ بات کی تو انہوں نے کہا کہ دستاویزی ثبوت کیسا، یہ پرچہ تو رئیس صاحب سمیت سب کا ہے، تقی صاحب اور، ان کی اولادوں کا بھی ہے۔ میں نے ان کے رویئے سے بد دل ہوتے ہوئے ‘سب رنگ’ کے نام سے اپنا ایک ڈیکلریشن چپکے سے فائل کردیا تھا ۔ یہ ایوب خان کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں ڈیکلریشن کا ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا،وہ امپورٹ لائسنس کی طرح ملتا تھا۔ مجھے ڈیکلریشن داخل کیے ہوئے زمانہ ہوگیا۔ بہت کوششوں کے بعد بالآخر نومبر 1979 میں مجھے اس کا ڈیکلریشن مل ہی گیا۔ پیسے ویسے تو میرے پاس اس وقت تھے نہیں، جمع پونجی بھی پانچ ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ تو میں نے رئیس امروہوی کو  خط لکھا کہ اگر میرا کچھ بقایا بنتا ہے تو مجھے دے دیا جائے، میں یہ رسالہ چھوڑ رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے ایک پیسہ نہ دیا، البتہ یہ چاہا کہ میں دوبارہ آجاؤں۔۔میں نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ میں اپنا ایک پرچہ نکال رہا ہوں۔ آخر کار اپنے ان پانچ ہزار سے سب رنگ کی ابتدا کی، کچھ دوستوں نے مدد کی۔عالمی ڈائجسٹ کے زمانے میں جو تعلقات پریس اور بائنڈر سے بن چکے تھے ،انہوںنے بڑی معاونت کی۔پریس والوں نے کہا کہ ہم چھاپیں گے اور جب پرچہ چل نکلے  تو ہمیں پیسے دے دیجیے گا۔ پھرلکھاریوں اور ادیبوں نے بھی بڑا ساتھ دیا۔ پہلا پرچہ ہم نے جنوری 70 میں پانچ ہزار کی تعداد میں چھاپا۔ اس زمانے میں ریڈرز ڈائجسٹ بھی اُردو ڈائجسٹ کی طرح اپنا ایک نام اور مقام رکھتا تھا۔ میں نے سب رنگ کو ریڈرز ڈائجسٹ کی طرز پہ تیار کیا تاکہ لوگوں کو عام ڈائجسٹ سے ہٹ کر کچھ پڑھنے کو ملے۔ پہلا شمارہ ساڑھے تین ہزار بکا، ڈیڑھ ہزار واپس آگیا۔ ہم نے دوسرا پرچہ بھی پانچ ہزار ہی چھاپا، اس میں سے بھی ساڑھے تین ہزار ہی بک سکا۔ یہ صورت حال  خاصی  تشویش ناک تھی۔ چناں چہ ہم نے اپنا رخ فکشن کی طرف موڑا۔ جس طرح ہم فکشن پر مبنی پرچہ عالمی ڈائجسٹ نکالتے تھے، اس ہی طرح ہم سب رنگ میں بھی فکشن پر زیادہ توجہ دینے لگے۔ تیسرا شمارہ بھی پانچ ہزارچھپا لیکن وہ پورا بک گیا۔ چوتھا پرچہ غالباً چھے ہزار چھپا تھا اور جو سب کا سب بک گیا تھا، یہاں تک کہ ہمارے پاس ایک بھی کاپی نہ بچی۔ اسے قارئین کی طرف سے پذیرائی ملنے لگی اور بتدریج بڑھنے لگی اس کی اشاعت بتدریج بڑھنے لگی، پہلے سال اس کی بیس ہزار، دوسرے سال بیالیس ہزار، تیسرے سال باسٹھ ہزار ، چوتھے سال اسّی ہزار، پانچویں سال ایک لاکھ اور پھر یہ ڈیڑھ لاکھ سے اوپر تک بھی چھپا۔ یہ کیوں کر ہوا؟ اس لیے کہ ہم نے بہت صدقِ نیت سے کام کیا، بہت خلوص سے، بہت محنت اور جانفشانی سے اور لوگوں کو وہ معیاری تحریریں پڑھنے کو دیں جو وہ ڈھونڈ رہے تھے۔ میرے بعد عالمی ڈائجسٹ ، جون صاحب کی بیگم زاہدہ حنا نے سنبھالا، انہوں نے بھی اسے بہت بہتر بنایا اور اس کی اشاعت بیس ہزار تک جا پہنچی مگرہم بہت آگے بڑھ چکے تھے۔تو یوں یہ سفر شروع ہوا۔

Loading

Read Previous

چشمہ – انعم سجیل – افسانچہ

Read Next

منّزہ سہام مرزا – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!