منّزہ سہام مرزا – گفتگو

٭ آپ کو ایک دن میں اوسطاً کتنے مسودے موصول ہوجاتے ہیں؟

منّزہ: اگر میں دوشیزہ ڈائجسٹ کی بات کروں تو میرے پاس روزانہ پانچ سے چھے تحاریر تو آتی ہیں جن میں افسانے، ناول اور ناولٹ بھی ہوتے ہیں۔ جن میں سے کچھ کو رد بھی کرنا پڑتا ہے، کچھ میں لگتا ہے کہ رائٹر میں skill ہے، وہ لکھ سکتے ہیں تو پھر میں اس پر کام کرتی ہیں۔

٭ وہ کون سی تین چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر آپ کسی بھی تحریر کو رد کرتی ہیں یا قبول کرتی ہیں؟

منّزہ: میرا بہت ہی سادہ سا فارمولا ہے۔ٹھیک ہے بچے اغواء ہوتے ہیں، بری طرح ان کا قتل بھی ہوتا ہے، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ لیکن میں جب کہانی کی شکل یا افسانے کی شکل میں کوئی تحریر میں select کرتی ہوں تو میرا موقف یہ ہوتا ہے کہ رائٹر معاشرتی مسائل کو ڈسکس کرے تو ضرور لیکن وہ جو پیغام دے رہا ہے، وہ مثبت ہو، اس میں sadism نہ ہو، ڈپریشن نہ ہو۔ کیوںکہ بری چیز پڑھ کر آپ ڈپریسڈ ہوتے ہیں، سیکھتے کچھ نہیں ہیں۔حقیقت تلخ ہی ہوتی ہے، پھولوں کا بستر نہیں ہوتی۔ میرا فوکس ہمیشہ دو چیزوں پر رہا ہے، ایک تو یہ کہ میں تحریر کا مرکزی خیال دیکھتی ہوں اور اگر آپ نے معاشرے کے کسی سیاہ پہلو کو دکھایا، لیکن اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو دکھایا، آپ نے اس موضوع کو اچھے طریقے سے لکھا اور برتا ہے تو میں اس مسودے پر کام کرتی ہوں۔ نامکمل چیز مجھے کبھی پسند نہیں آئی ہے۔ جو چیز پرنٹ ہوجاتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے رہتی ہے، ایک آپ کا وہ قاری ہوتا ہے جو آپ کا نیا شمارہ پڑھتا ہے، اور ایک وہ قاری ہوتا ہے جو ردّی میں سے پندرہ روپے کا پرچہ اٹھا کر پڑھتا ہے۔ وہاں پر آپ کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

٭ کیا آپ riskier themes پر کام کرتی ہیں؟

منّزہ: حسن صرف ایک ایشو پر میں کام نہیں کرتی اور رائٹر کو بھی منع کرتی ہوں اس پر لکھنے کو، وہ ہے مذہب۔ آپ کسی کے احساسات کو ٹھیس پہنچا کر اگر اپنے رسالے کی فروخت بڑھا بھی رہے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ مذہب ایک بہت حساس ایشو ہے، باقی میں کسی چیز کو بھی رسکی نہیں سمجھتی۔ جیسے transgenders کے بارے میں لوگ لکھتے ہوئے گھبراتے ہیں، اس کے بارے میں چھاپتے ہوئے گھبراتے ہیں۔مجھے کوئی ایشو نہیں ہوتا ،میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ مسائل کا حل دے دیجیے۔ میں مذہب کے حوالے سے نہیں لکھتی۔ ڈائجسٹ انٹرٹینمنٹ کے لئے پڑھا جاتاہے، اس میں ہم نے ٹھیکہ نہیں اٹھایا ہوا کسی کے مذہب کی تصحیح کا، کسی کے گھر کو ٹھیک کرنے کا، ڈائجسٹ میں ہلکی پھلکی چیز شائع ہونی چاہیے جس سے لوگوں کا مو ڈ بہتر ہو، وہ مزید ڈپریشن میں نہ جائیں، اور بے ادبی نہ ہو۔ اکثر لوگ مجھے قرآن کی پوری آیت کا حوالہ اور تفاسیر بھیجتے ہیں، میں ویسی چیزیں نہیں چھاپتی۔ آپ کو خود اندازہ ہے کہ کس طرح ہمارے یہاں ڈائجسٹ سٹالز پر ملتا ہے، پھر کس طرح یہ load اور unload ہوتا ہے، میں یہ چیز گوارہ نہیں کرسکتی کہ مذہبی مواد کی کسی طرح بھی بے ادبی ہو۔

٭ کسی نئی تھیم پر کام کرنے کے لئے کون سے رائٹرز زیادہ موزوں ہوتے ہیں؟ نئے رائٹرز یا پرانے رائٹرز؟

منّزہ: میں نئے رائٹرز کو rule out تو نہیں کرسکتی لیکن ظاہر ہے تحریر میں نکھار مشاہدے اور تجربے سے ہی آتا ہے، اور تجربے سے میری مراد یہ نہیں کہ کسی رائٹر کی پندرہ بیس کتابیں آچکی ہوں مارکیٹ میں۔ جتنی اچھی پکڑ اپنی تحریر پر ایک سینئر رائٹر کی ہوتی ہے، وہ نئے لکھنے والوں کی نہیں ہوتی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نئے لکھنے والے اچھا نہیں لکھتے یا نہیں لکھ سکتے ، وہ بھی بہت اچھا لکھتے ہیں لیکن ان کو وقت لگتا ہے چیزوں کو سیکھنے میں اور ان کی تحریر میں نکھار پیدا ہونے میں۔

Loading

Read Previous

شکیل عادل زادہ – گفتگو

Read Next

فصیح باری خان – گفتگو

2 Comments

  • منزہ سے گفتگو بہت مختصر ہے برائے مہربانی ایسی تو بات چیت دیں کہ صلم ہو کہ انھو ں نے اس چھوٹی سی عمر میں ادب کی کتنی خدمت کی ہے ۔۔ ان کے کالمز کی کتاب اور افسانوں کہانیو ں کی کتاب کو زیر بحث لائیں اس ادھوری گفتگو سے ان کے طو یل انٹرویو کی لگن بڑھ گئی ہے

  • علم ہث

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!