منّزہ سہام مرزا – گفتگو

٭ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے،بدقسمتی سے بہت سے لکھنے والے اپنی تحاریر ایک جگہ سے لے کر دوسری جگہ دے دیتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ انہیں دوسری جگہ سے تھوڑے زیادہ پیسے آفر ہورہے ہوتے ہیں۔

منّزہ: یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اور میں نام نہیں لینا چاہ رہی لیکن اس کی روایت ایک ایسے ادارے نے ڈالی ہے جو رائٹرز سے agreement کرواتے تھے اور انہیں پابند کرتے تھے کہ آپ صرف ہمارے لئے ہی لکھیں گے، اس سے کیا ہوا؟ دو کروڑ کا شہر ہے، آپ کا پرچہ ایک لاکھ، یا پچاس ہزار یا ستر ہزار چھپ رہا ہے تو آپ کی failure ہے، لیکن انہوں نے صرف اپنا کچن چلانے کے لئے، اپنے بچے پالنے کے لئے تحریر کو محدود کیا، رائٹر کو محدود کیا، جس کی وجہ سے آج اردو کا یہ حال ہوگیا ہے۔ آج کا بچہ جو اردو بولتا ہے، وہ اردو نہیں ہے۔ وہ ہندی اور مختلف زبانوں کا ملغوبہ بن گئی ہے۔میں بہت سخت الفاظ کہہ رہی ہوں لیکن اردو کی تباہی میں ایک بڑا ہاتھ ایسے ایڈیٹرز کا ہے جو پتا نہیں کہاں سے اٹھ کر آجاتے ہیں، جو پیسے کے زور پر یا پیسوں کو سامنے رکھ کر اپنی زبان کو محدود کرتے ہیں، اس سے readership گری اور باقیوں کی نہیں ان کی اپنی بھی گری۔ جب پڑھنے والا نہیں ہوگا، تو لکھنے والا بھی نہیں ہوگا۔ آج ہم جسے بڑا رائٹر کہتے ہیں وہ بڑا کیوں ہے؟ کیوں کہ اس کو چھوٹا آدمی پڑھ رہا ہے۔ آپ کو مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس اردو زیادہ پڑھتی نظر آئے گی۔ آپ اس کو مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس میں اس لئے لے آئے کیوں کہ آپ نے یہ حرکتیں کیں۔ مجھے یہ بات پتا چلی تھی کہ ایک ادارے کے دو تین پرچے نکل رہے ہیں، اور ایک بہت اچھی لکھنے والی نے اپنی تحریر اس ہی ادارے کے دوسرے پرچے میں دے دی تو وہ مسودہ اٹھا کر رائٹر کے منہ پر ماردیا گیا کہ آپ نے اس ایڈیٹر کو کیوں دیا۔ تو یہ ایڈیٹرز نے اپنی بقاء کے لئے، اپنی روزی روٹی کے لئے اردو کو جو مارا ہے، اس سے اردو تباہ ہوئی ہے۔ اردو کو کسی نے باہر سے آکر تباہ نہیں کیا ہے۔ اپنے ہی لوگوں کی کارستانیاں ہیں یہ۔ وہ رائٹرز سے بات نہیں کرتی ہیں، رائٹرکو منہ نہیں لگاتی ہیں لیکن ان کی تحریر کے بدلے رائٹرز کو پیسے دیے جاتے ہیں تو رائٹرز بڑے خوش ہیں۔ ان کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ عزت دینا اور احترام دینا کیا چیز ہوتی ہے؟ آپ نے اردو کو کمرشل کرنے کی کوشش کی، بہت گندے پیرائے میں کہ کوئی کچھ بھی لکھے وہ چلے گا۔ اپنی تنخواہوں، اپنے پرچے کی فروخت کے لئے اگر کوئی حدود سے نکل جائے تو میں ایسے لوگوں کو ایڈیٹرز ہی نہیں مانتی۔ slow poisoning کی جارہی ہے ہمارے معاشرے کے اندر، لوگ کہتے تھے کہ ڈائجسٹ ہے، وہ بھی اردو کا، ایک گندی سی جگہ پر دفتر ہے، ایڈیٹر بھی عجیب سی ہیں، ان کی کوئی شخصیت ہی نہیں ہے۔ ان لوگوں نے ذہن خراب کئے ہیں، ریڈرشپ خراب کی ہے۔ جب آپ صاف چیز دیتے ہیں تو لوگ پڑھنا نہیں چاہتے۔

٭ مطلب جو ہم سنتے ہیں کہ گھر میں مائیں بیٹیوں کے ڈائجسٹ پڑھنے پر پابندی لگا دیتی ہیں تو یہ تو ٹھیک ہی ہوا؟

منّزہ: بالکل،آپ کو ایک بات بتاؤں؟ جب دوشیزہ شروع ہوا تو اس وقت بہت ہی صاف چیزیں لکھی جاتی تھیں، پڑھ کر ایسا لگتا تھا کہ طمانچہ پڑا ہے منہ پر، ارے ہم بھی ایسے ہی سوچتے ہیں۔ اس وقت کچھ رسالوں میں صرف عشق چل رہا تھا، انہوں نے ایک مخصوص طبقے میں ایسی چیزیں دے دے کر اپنی ریڈرشپ بنائی۔ اس سے یہ ہوا کہ آپ کی ریڈرشپ تو بن گئی لیکن آپ کی فروخت برائے نام ہے، آپ نے اپنی credibility بالکل ختم کردی ہے۔ آپ اپنی تنخواہ کے لئے اس کا مطلب ہے کچھ بھی کرجائیں گے۔ آپ چھاپیں وہ چیز جو آپ کی اپنی بیٹی پڑھ سکے، آپ چھاپیں وہ چیز جو آپ اپنی بہن، بیٹی، بیوی اور ماںکو دے سکیں۔

٭ ایک چیز جو ڈائجسٹ کے سر ورق کے اوپر لکھی ہوتی ہے وہ ہوتی ہے بہنوں کا اپنا ، دوشیزاؤوں کا اپنا، خواتین کا اپنا۔ حالاں کہ آپ مانیں یا نہ مانیں، وہ سب پڑھ رہے ہوتے ہیں، نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی۔ ڈائجسٹ میں جنس کی یہ تفریق کیوں ہے؟ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟

منّزہ:اصل میں یہ شروعات اس وقت ہوئیں جب خواتین کے پاس ان کی تفریح کے لئے کچھ نہیں تھا۔ اچھے اور پڑھے لکھے گھروں کی خواتین گھروں میں بیٹھ کر گھر کے کام کرتی تھیں،بچوں کو سنبھالتی تھیں، شوہر کا خیال رکھتی تھیں اور پھر فارغ وقت میں پڑھا کرتی تھیں۔ ان کے لئے ایک تحفے کی مانندرسالوں کے اوپر یہ لائن چلنی شروع ہوگئی تھی کہ خواتین کے لئے، خواتین کا اپنا یا دوشیزاؤں کے لئے۔ دوشیزاؤں کے لئے تو ایک اچھی لائن ہے کہ میری عمر کی خاتون بھی یہ لائن پڑھ کر کہیں گی ارے میں بھی دوشیزہ ہوں، تو وہ دوشیزہ اٹھائیں گی(قہقہہ) یہ اس وقت سے چل رہا ہے جب ٹیلی ویژن نہیں ہوتا تھا، خواتین دوپہر میں فارغ وقت میں پڑھا کرتی تھیں۔ ہاں اب اس لائن کو ہٹ جانا چاہیے، کیوں کہ ہم اب چیزیں ایسی چھاپتے ہیں، جو سب کے لئے ہوں۔ وہ شاید ایک temptation بھی تھی، کہ اگر پرچے پر لکھا ہوگا کہ صرف خواتین کے لئے تو مرد حضرات کو تجسّس ہوگا اور وہ پڑھیں گے، اور خواتین خوش ہوں گی کہ یہ خالصتاً ہمارے لئے ہے۔

Loading

Read Previous

شکیل عادل زادہ – گفتگو

Read Next

فصیح باری خان – گفتگو

2 Comments

  • منزہ سے گفتگو بہت مختصر ہے برائے مہربانی ایسی تو بات چیت دیں کہ صلم ہو کہ انھو ں نے اس چھوٹی سی عمر میں ادب کی کتنی خدمت کی ہے ۔۔ ان کے کالمز کی کتاب اور افسانوں کہانیو ں کی کتاب کو زیر بحث لائیں اس ادھوری گفتگو سے ان کے طو یل انٹرویو کی لگن بڑھ گئی ہے

  • علم ہث

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!