پہلی فتح
جنرل ضیاءالحق کا دور تھا۔ انہی دنوں معین اختر کو ایک شو کی میزبانی کرنے کا موقع ملا جس میں جنرل ضیاء خصوصی مہمان تھے۔ معین ان دنوں پی ٹی وی کا ایک جانا پہچانا چہرہ تھے۔ شوبزنس میں انہیں کافی سال بیت چکے تھے اور وہ ایک مشہورشخصیت تھے۔ ابراہیم صاحب نے سہ پہر کے وقت بیٹے کی تیاری دیکھ کر پوچھا۔
‘‘کدھر جانے کی تیاری ہے؟’’
‘‘ایک شو کرنا ہے۔ جنرل ضیاء مہمانِ خصوصی ہیں’’۔ اس دن پہلی بار ابراہیم محبوب نے اپنے بیٹے معین اختر کو فخر سے دیکھا تھا۔
‘‘اچھا۔۔ میں بھی چلوں گا۔’’ اس نے حیرت سے باپ کی طرف دیکھا۔ آج پہلی بار انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک فرمائش کی تھی۔
‘‘مگر وہاں سخت سکیورٹی ہو گی۔ پاس وغیرہ بنوانے پڑتے ہیں۔ ابھی اتنی ایمرجنسی میں نہیں بنا سکتے۔’’ ابراہیم صاحب مسکرائے اور بولے:
‘‘تمہیں کون روکے گا؟’’ یہ عام الفاظ نہیں تھے۔ یہ ایک باپ کا فخر تھا، مان تھا بیٹے پر۔ معین اختر کو محسوس ہوا اس نے اپنے صلاحیتوں کا لوہا دنیا میں تو منوا لیا مگر آج گھر میں بھی اسے تسلیم کرلیا گیا تھا۔ اس نے پاس پڑے ٹیلی فون سے اسٹوڈیو ڈائریکٹر کا نمبرملایا۔
‘‘السلام علیکم۔ میں نے کہنا یہ تھا کہ ابو بھی شو میں آنا چاہتے ہیں۔ ان کیلئے پاس بنوا دیں۔’’ ڈائریکٹر نے جواب دیا:
‘‘اتنی جلدی پاس نہیں بنا سکتے۔ آپ ابراہیم صاحب کو لے کر آجائیں۔ پاس کی ضرورت نہیں۔ ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔’’ ابراہیم صاحب معین کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ انہیں تیسری قطار میں جگہ ملی۔ وہاں بیٹھ کر انہوں نے مکمل شو دیکھا۔ بیٹے کی آواز گونجتی محسوس کی۔ لوگوں کو قہقہے لگاتے دیکھا۔ لوگوں کو اس کا دیوانہ بنتے دیکھا۔ وہ واقعی ایک سلیبرٹی تھا۔ شو کے اختتام پر جب جنرل ضیاء نے معین اختر سے ہاتھ ملایا تو معین نے کہا:
‘‘سر، میرے ابو بھی یہاں آئے ہیں۔’’
انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔ ‘‘کدھر؟’’
‘‘وہ تیسری قطار میں بیٹھے ہیں۔’’ جنرل ضیاء اس قطار کی طرف بڑھ گئے۔ ابراہیم محبوب نے بیٹے کے ساتھ صدر کو آتے دیکھا تو تیسری قطار سے باہر آگئے۔ معین نے آگے بڑھ کر انہیں سہارادیا۔ اس لمحے جنرل ضیاء نے ہاتھ ملا کر ان سے حال چال پوچھا اور وہ الفاظ کہے جو معین اختر کی شخصیت کی شان کے مطابق تھے۔
‘‘آپ کا بیٹا بہت ٹیلنٹڈ ہے۔۔۔ ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہے معین۔’’ باپ نے فخر سے بیٹے کی طرف دیکھا۔ معین کو لگا انہیں پہلی فتح آج ہی ملی ہے۔ یوں باپ نے آخر شو بزنس میں بیٹے کی شمولیت قبول کرلی تھی۔
٭٭٭