ولیم شیکسپیئر ۔ شاہکار سے پہلے

ولیم شیکسپیئر

صوفیہ کاشف
سولہویں صدی کے لندن کے تھیڑرز میں تفریح کے لیے آنے والا اعلیٰ مہذب اور متمدن طبقہ اشرافیہ گھوڑوں کی پشت پر سوار جب ترون اکڑائے تھیڑکے سامنے پہنچتا تو صدیوں تک انگلش ادب کی تاریخ کے پہلے صفحے سرفہرست زندہ جاوید رہنے والا ویلیم شیکسپیئر ان کے گھوڑوں کی لگامیں تھامنے کو موجود ہوتا۔ لندن کے نواب جب گھوڑے کی پشت سے چھلانگ لگاتے تو آج کے انگلش ڈرامہ کا یہ بے تاج بادشاہ انکساری اور عاجزی سے نظر جھکائے ان کے معزور گھوڑوں کی لگامیں تھامتا اور اصطبل کی طرف چل پڑتا کیونکہ ڈرامہ اور ادب کی دنیا میں سورج بن کر چمکنے سے پہلے ولیم نے روزقار کا آغاز لندن میں تھیٹر کے دروازے پر کھڑے ہونے والے ”ساستیں“ کے طور پر کیا تھا۔ وقت اور صدیوں کی ان گھڑیوں میں جھکے سر والا یہ ساستیں جانتا تھا کہ ادب کے صفحات پر اس کا نام گہرائی سے کھداے جانے والا ہے اور نہ اس کی طرف حقارت سے دیکھ کر گزر جانے والے نواب ہی یہ جانتے تھے کہ جھک کر کورنش بجا لانے والا یہ معمولی سا دربان ایک روز ادب کی سلطنت کا بادشاہ بننے والا ہے جس کی تعظیم کے لیے ان کی نسلیں اس کے حصّے اور الفاظ کو دہراتی اور ان سے شعور سیکھتی رہیں گی۔
”موٹ کی اُس نیند میں کس طرح کے خواب آتے ہیں؟“
موت کی سرزمین پر بسیرا کرتے آسیب ہے خوفزدہ شیکسپیئر اگر یہ ادراک رکھتا کہ اس کی حیات کا اختتام اس کا انجام نہیں بلکہ اس کی شہرت، مقبولیت اور عظمت کا آغاز ہے تو شاید وہ وقت سی پہلے ہی جنتوں کی اس سر زمین پر قدم دھرنے کا سوچنے لگتا۔
”شیکسپیئر کے والد) جان شیکسپیئر کو غربت اور تندرستی ورثہ میں نہ ملی تھی مگر گردشِ ماہ وسال میں جان شکسپیئر کی جائیداد اور کاروبار گھٹتے گھٹتے محض ایک صفائی کے کاروبار تک محدود رہ گیا تھا۔ قدرت کا قانون ہے کہ کل کے اندھیرے آنے والے دن کے سویروں میں ڈھل جاتے ہیں اور ایک نسل کی مفلسی دوسری نسل کی امارت لے کر آتی ہے۔ حکومتی محکموں میں سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے جان شیکسپیئر کو کچھ مراعات حاصل تھیں جن میں ایک خدائی تحفہ اس کے بچوں بشمول ولیم کے، کی مفت کی گرامر سکول میں تعلیم بھی تھی۔ شہر اس کے بعد تنگ دامنی آڑے آئی اور کالج میں داخلہ حاصل کرکے مزید تعلیم حاصل کرنا ولیم شیکسپیئر کا مقدر نہ ہوسکا۔ میں شاعرانہ مزاج لڑکے کو قصاب کے کاروبار میں باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے زندگی کے میدان میںنکلنا پڑا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یاکہ فطرت کا ایک خفیہ راز کہ سکولوں اور کالجوں کے باضابطہ سخت ماحول صرف ایک خاص معیار کے انسان بناتے تھک جاتے ہیں جبکہ ان کی حدوں سے دور رہنے والے، فطرت سے سرگوشیاں کرنے والے اور دنیا کی جکی میں گھن کی طرح پسنے والے کامیابی کے اسرارورموز پاجاتے ہیں۔
قرون وسطیٰ میں شیکسپیئر اندرون انگلستان کا ایک مقبول خاندانی نام تھا جو اس کے بہت سے علاقوں میں بے تحاشا بکھرا ہوا تھا۔ شیکسپیئر جس کا لفظی مطلب نیزہ رافی میں مہارت اور جن کی اہمیت کا حامل تھا۔ خصوصاً سولہویں اور سترھوی صدی عیسوی میں یہ ایک خاندانی نام کے طور پر بکثرت استعمال ہوا یہاں تک کہ کوئی 34 علاقے شیکسپیئر نامی افراد کی آبادی کی اکثریت ظاہر کرتے ہیں یہی وجہ تھی کہ اس دورانیہ میں ولیم شیکسپیئر نامی افراد کی بڑی تعداد کا سراغ ملتا ہے جس کی وجہ سے تاریخ دان اکثر ڈرامہ نگار ویلیم شیکسپیئر کے سفرِ حیات اور حقائق کے بارے میں ابہام کا شکار ہوتے رہے اور آج تک اس کی زندگی کے رازوں کو کھوجنے اور سچائیاں آشکار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
“John Shakespear” کے گھر میں W.Shakespeare کی پیدائش کے ساتھ ہی ان علاقوں مںی بھیانک کالی (plague) موت کا اندھا رقصی شروع ہوگیا۔ بلدیہ کا سرگرم ملازم ہونے کی وجہ سے جان شیکسپیئر نے ان علاقوں میں بے تماشا امدادی کام کئے اور ایسے عہدے میں ترقیاں حاصل کیں جس کی بدولت اگلے کئی سالوں تک ولیم شیکسپیئر سکول کی تعلیم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مفت میں حاصل کرتا رہا۔
تیرہ سال کی عمر میں ولیم کو پڑھائی چھوڑ کر باپ کے بچ رہنے والے واحد مختصر کاروبار میں باپ کا ہاتھ بٹانا پڑا۔ عظیم مشاہدہ اور بہترین تخیلاتی دماغ رکھنے والے شیکسپیئر کے لیے یہ رووگار غیر رومانوی اور غیر دلچسپ تو تھا ہی لیکن کچھ تبصرہ نگاروں کے خیال میں درباروں اور بادشاہوں کی سرکار میں وعظ و خطاب کرنے والے اور شاہانہ زبان میں کلام کرنے والے ویلیم نے یقینا ہر کام بھی بہت شاہانہ انداز میں کیا ہوگا۔
”وہ بچھڑا مارے کے لیے اعلیٰ طریقہ اختیار کرتا اور اُس سے پہلے ایک پر مقز خطبہ دیتا!“
اٹھارہ سال کی عمر میں اپنی عمر سے بڑی خاتون کے ساتھ ویلیم کی شادب محبت کا بندھن تھی یا غم روزگار کا دُکھ، مگر یہ اٹل حقیقت ہے کہ Anne Hathaway کے ساتھ باندھے اس بندھن نے اس کے معاشی مسائل کو سختی کو خاصے حد تک کم کیا۔ Anne ایک بہتر مالی وسائل رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور باپ کی طرف کچھ جائیداد بھی اس کا حصہ بنی جس میں وہ فارم ہاو ¿س بھی شامل تھا جس میں شیکسپیئر کی یادگاراور نشانی کے طور پر محفوظ ہے۔
1585 کے آخری مہینوں میں ویلیم startford سے رخصت ہوکر اگلے کئی سالوں تک کے لیے تاریخ کے اوراق سے گمشندہ ہوگیا۔ 1596 تک ویلیم شیکسپیئر کی زندگی جدوجہد اور آسائشیں و مصائب کا کوئی تذکرہ نہ کسی دفتری کاغذات میں ملتا ہے نہ دوست احباب کی کہانیوں اور واقعات میں۔ ان گیارہ سال کے وقفے کے بعد ویلیم شیکسپیئر کا سراغ لندن کے مشہور تھیٹرز کی کہانیوں اور ڈراموں سے ملنا شروع ہوتا ہے۔ کچھ داستانوں کے مطابق اس دوران ویلیم بڑی صحت کا شکار ہوکر بیکاری کے دن رات میں آس پاس کے فارم ہاو ¿سز سے ہرن اور پرندے چرانے لگا جس کے نتیجے میںاس کی ان افراد کے ہاتھوں سزا، مار، اور قیدو بند کی صعوبتیں بھی اٹھانا پڑئیں اور یہی وہ ناکامی روزگار کی سزا نہیں تھیں جن سے ہر دل ہوکر شیکسپیئر نے بالآخر startford سے لندن کی طرف کوچ کر جانے کا فیصلہ کیا اور اگلے گیارہ سال تک ایسی بیوی اور بچوں سے لاتعلق نہ سہی بہت فاصلے پر ضرور رہا اور اپنی دلچسپی اور خواہش کے مطابق کوئی روزگار حاصل کرنے کی کوشش میں جگتا رہا!
وہ کچھ لوگ عظیم پیدا ہوتے ہیں کچھ عظمت حاصل کرلیتے ہیں اور باقیوں پر عظمت مسلط ہوجاتی ہے۔“
یہ وہ دور تھا کہ ویلیم کا نام نہ تو کسی آبائی عظمت کا وارث تھا نہ اس کے فارم ہاو ¿س سے یا اس کی محنت کی فصل سے عظمت نامی پھل ہی نکلنا شروع ہوئے تھے۔ ہر پہلے سفر پر نکلنے والے مشکلات میں پھسے مسافر کی طرح شیکسپیئر بھی بڑے لوگوں کی عظمت کا شکار تھا۔ اسی لیے ادب کی شاہراہ پر صدیوں تک دوڑنے والے اس شاہ سوار نے پنا سفر تھیٹر کے اصطبل میں ایک سائنس کے طور پر کیا تھا۔
starford کے دیہاتی علاقے میں گزاری زندگی نے ویلیم کے ذرخیز دماغ اور عظیم قوتِ مشاہدہ کو بہترین رنگوں سے نوازا۔ پرندوں، درختوں، پھولوں، جانوروں کے قریبی ساتھ نے اور فطرت و قدرت کے کُھلے نظاروں کے شیکسپیئر کے تخیل کو اُبھارا اور زندگی کی بہت سی خوبصورتوں اور بدصورتیوں سے متعارف کروایا۔ دیہی علاقے سے حاصل کیا یہی علم اور مشاہدہ تھا کہ گھروں کی کھڑکی پر بنا پرندوں کو گھونسلا گھر کے بابرکت اور پرُامن ہونے کی دلیل دیتا دکھائی دیتا اور تباہی اور بربادی کی رات اُلو اپنا سی گوشت نوچ کھاتے اور گھوڑے اپنے دوستوں کی گردنیں تناول کرجاتے!
”غیر فطری کام ہمیشہ غیر فطری نتائج کو جنم دیتے ہیں۔“
شیکسپیئر سے بہتر اور کون بتا سکتا ہے کہ رات کا اندھیرا گہرا ہوجائے تو برائی اور تباہی کو قوتیں اڑان بھرنے لگتی ہیں اور جرم، گناہ اور زیادتی کے دیوتا پر پھیلاتے زمین کے سکون، امن اور اچھائیوں کو ڈھانپنے لگتے ہیں۔ رات کی تاریکی جب کُھل کر کھیل جائے تو اپنے پیچھے اُدھڑے ہوئے ضمیر، سِسکتی روحیں اور تباہ کن نتائج کا گھمبیر سلسلہ چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ وجدان سکول کی کتابوں کے مطالبہ سے نہیں ویلیم شیکسپیئر نے startford کے ہرے بھرے پھولوں بھرے علاقے میں چمکتے دن اور تاریک راتیں گزار کر زندگی کی نرمیاں چھو کر اور گرمیاں سہ کر حاصل کیا تھا۔
لندن کے تھیٹرز کے دروازوں پر کی گئی خدمت ولیم کو جلد ہی تھیٹر کے اندر لے گئی۔ ملازم لڑے سے آغاز کرکے اب ویلیم کو تھیٹر کے اندر کام کا موقع ملنے لگا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Loading

Read Previous

ساغر صدیقی ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

معین اختر:صدائے ظرافت اب نہ آئیں گے پلٹ کر۔۔۔ ۔ شاہکار سے پہلے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!