معین اختر:صدائے ظرافت اب نہ آئیں گے پلٹ کر۔۔۔ ۔ شاہکار سے پہلے

چھ ستمبر1966ء

1965ء کی جنگ کو ایک سال بیت گیا تھا۔ جنگ کے اثرات کے بعد ملک میں رفتہ رفتہ زندگی معمول پر آنے لگی تھی۔ ایسے میں پاکستان کے مختلف کالجز نے پہلے یومِ دفاع کے موقع پر ایک ورائیٹی شو منعقد کروایا جس میں ملک بھر سے باصلاحیت نوجوان طلباء کو شرکت کرنے کا موقع ملا۔ اسٹیج پر اپنا ٹیلنٹ دکھانے والوں میں سے ایک وہ بھی تھا۔ دبلا پتلا، خوبصورت نقوش کا مالک۔ مضبوط آواز کے ساتھ پراعتماد پندرہ سال کا لڑکا۔ وہ کسی کالج کا طالبِ علم نہ تھا۔ اردگرد والے لڑکے اس پر آوازیں کس رہے تھے۔ کوئی اس کے دبلے پتلے وجود کو نشانہ بنا رہا تھا تو کوئی چال ڈھال کو، مگر اس لڑکے کے اعتماد میں رتی برابر بھی کمی محسوس نہ ہوئی۔ اس کے اردگرد آوازیں گونج رہی تھیں۔
‘‘اوئے چھوٹے ماں سے پوچھ کر آیا ہے یا واپس جا کر مار کھانی ہے؟’’ لیکن وہ خاموش رہا۔ جب کافی دیر یہ شورمچا رہا تو وہ کھڑا ہوا اور بولا:
‘‘میں بھی تم لوگوں کی طرح نوجوان ہوں۔ مجھے دس منٹ دو اسٹیج پر۔ اگر آپ لوگوں کو پرفارمنس پسند نہ آئے تو مجھے اسٹیج سے نیچے پھینک دینا۔’’ اس کی بات نے چند لیڈر نما طلباء کو متاثر کیا۔ ایک نوجوان جو ان سب سے عمر میں بڑا تھا، کھڑا ہوا اور بولا:
‘‘سب خاموش ہو جاؤ۔’’ اور اس نئے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ ‘‘جاؤ معین ۔۔۔ تم پرفارمنس دکھاؤ’’۔ لیکن اسٹوڈنٹس کہاں چپ ہونے والے تھے۔ اس کے اسٹیج پر سوار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہنگامہ مچا رہا، پراس نے کسی بات پر بھی توجہ دئیے بغیر مائیک کو تھاما اور اپنے مخصوص لب ولہجے میں بولا:
‘‘السلام علیکم حاضرین ۔۔۔ میں تمام لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے دس منٹ دئیے جائیں۔ میں اپنے ٹیلنٹ کا اظہار کروں گا۔ اگر آپ کومیری پرفارمنس پسند نہ آئی تو دس منٹ بعد میں خود ہی اسٹیج سے اتر جاؤں گا۔’’۔کچھ تھا اس کی آواز میں ۔۔ ایک عجیب سا رعب جو بتایا نہیں جا سکتا تھا مگر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ہال میں خاموشی چھا گئی۔ اس نے بولنا شروع کر دیا۔ اس کا جسم اس کی مرضی کے مطابق حرکت کررہا تھا۔۔ اس کے جسم کا ایک ایک ٹکڑا اس کی آواز کے ساتھ مل رہا تھا۔ وہ باتیں کررہا تھا۔۔ دنیاجہان کی، امریکہ کی، برطانیہ کی، پاکستان کی ۔۔۔ حاضرین پلکیں جھپکائے بغیراسے دیکھ رہے تھے۔ ورائیٹی شو دیکھنے آنے والوں میں آٹھ سال کے بچے سے لے کر ساٹھ سال کا بوڑھا تک موجود تھا مگر کچھ تھا اس لڑکے کی باتوں میں ۔۔۔ پرفارمنس میں۔ سب ہنس رہے تھے۔ بے تحاشا ہنس رہے تھے۔ ان کا ہنسنا اس کے اعتماد میں اضافہ کررہا تھا۔ وہ انہیں ہنسانے ہی تو آیا تھا۔ کون جانتا تھا، اگلے کئی سالوں تک اس نے لوگوں کے ہونٹوں پر ہنسی لانی ہے۔ وقت گزر رہا تھا ۔۔۔ دس منٹ، بیس منٹ،ت یس ۔۔۔چالیس۔۔۔ ٹھیک پینتالیس منٹ بعد جب وہ اسٹیج سے اترا تو لوگ اس کے مانگے گئے دس منٹ کو گھنٹوں میں تقسیم کرنے پر تیار تھے۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ تالیوں کے ساتھ چیخیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔
‘‘ونس مور۔۔ ونس مور’’۔ آوازیں کسنے والے اب خاموش تھے۔ کچھ متاثر تھے تو کچھ حسد کی آگ میں جل رہے تھے۔مگر وہ لڑکا بے پرواہ تھا۔ اسے پرواہ تھی تو صرف اپنے مقصد کی جس کی جانب وہ بڑھ رہا تھا ۔۔۔ اس کا مقصد دلوں کو فتح کرنا تھا اور پہلا حملہ وہ کرچکا تھا۔ کالج کے چند لڑکے اس کی طرف بھاگتے ہوئے آئے۔
‘‘معین تم نے کمال کر دیا۔ اس ہفتے ہمارا شو ہے۔ اس میں شرکت کرو۔’’وہ ہچکچایا۔ ایسے میں ایک سمجھدارلڑکے نے جیب سے دس روپے نکال کر اسے دئیے۔
‘‘یہ لو ایڈوانس۔ ضرور آنا پلیز۔’’۔جواب میں معین نے سرہلایا اور‘‘اچھا’’ کہہ کر گھر کی طرف چل دیا۔ یہ پیسے ہی تھے جس کی وجہ سے اس نے تعلیم چھوڑی تھی۔ انہی پیسوں کی اسے ضرورت تھی۔

٭٭٭

Loading

Read Previous

ولیم شیکسپیئر ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

 محمد علی ۔ شاہکار سے پہلے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!