محمد علی ۔ شاہکار سے پہلے

 محمد علی

 

(پہلا حصہ)
الماس آصف

دنیائے باکسنگ کا عظیم شہنشاہ محمد علی، ایک ایسا کھلاڑی کہ جس کے نزدیک شکست کا مطلب ”ہارنا“ نہیں، بلکہ گر کردوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے ہونا اور تکلیف کو کم زوری نہیں بلکہ طاقت کا ذریعہ بنانا تھا۔ وہ باکسر جو رنگ میں اتر کر اپنا مکا ہوا میں لہراتا تو اس کا مد ِمقابل آدھی جنگ ہار چکا ہوتا۔ جس کاپختہ عزم اور ناقابلِ یقین حوصلہ اس کی آنکھوں سے ہمہ وقت جھلکتا۔ جس کی برق رفتاری اورمیچ کے دوران اپنے حریف پر مکوں کی بارش سے حاضرین و ناظرین تک کے ہوش اڑ جایا کرتے۔ جس کے انداز زندگی نے اسے نہ صرف باکسنگ کے میدان میں بلکہ زندگی کے ہر مرحلے پر کام یابیوں کی اس معراج پر پہنچایا، جس کا ایک عام انسان محض خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس کی کام یابیوں کے اس طویل سلسلے کا آغاز کب، کہاں اور کیسے ہوا۔ یہ سب جاننے کے لیے ہمیں محمد علی کے بچپن میں جھانکنا ہو گا۔
1940ءکی دہائی وہ زمانہ تھا جب دوسری جنگ عظیم نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاہ فام امریکی اپنے جائز حقوق سے یکسر محروم تھے اور معاشرتی سطح پرانتہائی سخت حالات کا سامنا کررہے تھے۔ ان کی بستیاں، ہسپتال، سکول، کھانے پینے کے مراکز حتیٰ کہ ٹوائلٹس بھی الگ تعمیر کئے جاتے جب کہ حکم عدولی یا قوانین توڑنے کی صورت میں انہیں بھاری جرمانے یا قید کی سزا سنادی جاتی۔ اس افراتفری اور معاشی گھٹن کی فضا میں لوئیل کینٹکی کی مضافاتی بستی کے ایک متوسط سیاہ فام گھرانے میں 17 جنوری 1942ءکوایک بچہ جنم لیتا ہے، جس کا نام کاسئیس مارسیلس کلے جونیئر رکھا جاتا ہے۔ سات افراد پر مشتمل یہ خاندان سرخ اینٹوں سے تعمیر شدہ جس سنگل سٹوری مکان میں رہتا ہے، وہ پانچ کمروں پر مشتمل ہے۔ کلے کا باپ بل بورڈز اور سائن بورڈز پر رنگ و روغن کر کے گھر کا خرچ اٹھاتا اورہمہ وقت اپنے بچوں کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے فکر مند رہتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب کمسن کلے کو اپنے اردگرد کے حالات و واقعات سے آگاہی ہو نے لگی تو اس کے معصوم ذہن میں اپنی سیاہ رنگت اور سیاہ فاموں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک سے متعلق سوالات اٹھنے لگے۔ وہ اکثر اپنی ماں سے اس موضوع پر تجسس بھر ے سوالات کیا کرتا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ محض نسلی بنیادوں پراس کا خاندان اور دیگر سیاہ فام افراد کم تر کیسے کہلائے جا سکتے ہیں۔
”ماں! مجھے سمجھاﺅ ناں کہ ہر سفید چیز برتر اور سیاہ بدتر کیوں ہے؟ یسوح مسیح، فرشتے، سانتا کلاز، ٹارزن، مس ورلڈ، سنو وائٹ ، میری، اس کی سفید اون والی بھیڑ، ہمارا صدر اوروہ عمارت جہاں صدر رہتا ہے، وہ سب ہم سے بہتر اور برتر کیسے ہے جب کہ ہیلووین، اگلی ڈکلنگ، سیاہ بلی، بلیک میل وغیرہ کو منفی شیطانی اور ناپسندیدہ الفاظ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟“
کاسئیس کے ان سوالوں کے جواب اس کے ماں باپ دینے سے قاصر تھے۔ وہ سمجھتے تھے کاسئیس تھوڑا بڑا ہو کرہی ان مسائل کو بہتر طور پر سمجھ پائے گا۔ بچپن کا زمانہ اسی قسم کے منتشرخیالات سے لڑتے گزر رہا تھا۔ پھرایک روز جب کاسئیس کی بارہویں سالگرہ پر اس کے والد نے اسے سرخ رنگ کی چمکتی دمکتی بائیسکل گفٹ کی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا تھا۔ وہ روزانہ بڑے فخر سے اپنی بائیسکل لے کر پورے علاقے کا چکر لگایا کرتا تاکہ محلے کے سب لڑکے اس کی بائیسکل دیکھ لیں۔ بائیسکل نے اس کی زندگی میں یکدم جیسے بے شمار رنگ بھر ڈالے ہوں۔ اگر کوئی اور شوق بچا تھا تو وہ تھا سپورٹس جس کا وہ دیوانہ تھا۔وہ اکثر اپنے دوستوں کوباکسنگ کا اہم میچ ٹیلی کاسٹ ہونے پر گھر مدعو کیا کرتا تاکہ وہ سب اکٹھے ٹی وی پر میچ دیکھنے کا لطف اٹھا سکیں۔

Loading

Read Previous

معین اختر:صدائے ظرافت اب نہ آئیں گے پلٹ کر۔۔۔ ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

حضرت داؤد علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!