پہلی مار
معین کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ کالج کے لڑکوں نے اگلے ہفتے اس ایونٹ میں اسے خاص طور پر بلایا۔ اس بار بھی اسٹیج پر ایک بار پھر لوگوں نے معین کا راج دیکھا۔ وہ نہ صرف مشہور ادکاروں کی آواز کی نقل کرتا تھا بلکہ ان کے انداز اور مقبول ڈائیلاگز بھی اپنے مزاحیہ انداز میں پیش کرتا تھا۔ ہفتے کی رات شو کرنے کے بعد اسے معاوضے کے طور پر بیس روپے ملے۔ وہ خوش خوش گھر لوٹ آیا اور بیس روپے ماں کو پکڑائے۔ اس نے حیرت سے پیسوں کی طرف دیکھا اور بولی۔
‘‘نوکری کر لی کہیں؟’’معین نے پہلی بار گھر جھوٹ بولا اور جواب دیا۔
‘‘جی امی، نوکری کرلی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ رات کے اوقات میں ہو گی یہ نوکری۔ اس لئے مجھے رات کو گھر سے باہر رہنا پڑے گا۔’’وہ گھر نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ اسٹیج پر پرفارمنس دکھاتا ہے۔ اس زمانے میں شو بزنس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ماں نے سرہلا کر اعتبار کرلیا۔ اس کے بعد ہر رات کہیں نہ کہیں اسے شو کرنا پڑتا۔ کبھی کسی کمپنی کی طرف سے۔ کبھی کالج اور کبھی یونیورسٹی والے اسے معاوضہ دے کر لے جاتے اور اس کے حیرت انگیز ٹیلنٹ سے لطف اندوز ہوتے۔ یہ شہرت اس کیلئے اچھی ثابت نہ ہوئی۔
ایک دن ابراہیم صاحب کے ایک دوست نے اسے کسی شو میں دیکھ لیا۔ جس طرح لوگ اس کے دیوانے ہو رہے تھے۔۔وہ یہ مناظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور ابراہیم سے ذکر کردیا۔
‘‘بھئی تمہارا بیٹا تو غضب کا آرٹسٹ ہے۔ لوگ تو اس کے دیوانے ہیں۔’’ابرہیم صاحب نے حیرت سے اسے دیکھا۔
‘‘ارے میاں، وہ تو نوکری کرتا ہے کہیں۔’’ اب کی بار حیران ہونے کی باری دوست صاحب کی تھی۔ اس نے نفی میں سرہلایا۔
‘‘نہیں جی۔ میں نے خود دیکھا ہے، وہ پرفارم کررہا تھا ایک اسٹیج پر۔ کمپنی کی طرف سے شو تھا کوئی۔’’ ابراہیم اس شام غصے سے بھرے گھر واپس آئے۔ آتے ہی معین کا پوچھا۔ اتفاق سے وہ گھر ہی تھا ۔۔۔ اور اس دن اس کی شامت آئی۔ ابراہیم صاحب نے بیلٹ سے معین کو اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہونے کے قریب تھا۔ مارنے کے ساتھ وہ چیخ رہے تھے۔۔۔
‘‘یہ نوکری ہے؟ یہ کمائی کا ذریعہ ہے تمہارا؟ ناک کٹواؤ گے تم میری۔ اس لئے اسکول چھوڑا تھا؟’’ معین کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ وہ بس چپ چاپ مار کھا رہا تھا۔ زخم ملے، تکلیف محسوس ہوئی مگر معین کووہی آواز اپنی طرف کھینچ رہی تھی، اسے بلا رہی تھی، اور اس آواز کی پکار سننا اس کی مجبوری تھی۔
اس واقعے کے بعد اس سے باقاعدہ پوچھ گچھ ہونے لگی۔
‘‘کہاں گئے تھے؟ کدھر گئے تھے؟ کب آئے ہو؟ کتنا وقت وہاں لگا؟ کس کے ساتھ گئے تھے؟’’وہ واپس آکر یہ انٹرویو دیتا مگر اپنے کام سے باز نہ آیا۔ اس نے اسٹیج پر پرفارمنس دینا جاری رکھی۔ ابراہیم صاحب کو اندازہ ہو چکا تھا کہ بیٹا ہاتھ سے نکل گیا۔ انہوں نے معین کا شوبزنس کا یہ کام قبول نہ کیا مگر ایک سمجھوتہ کرلیا تھا۔
٭٭٭