گیارہ مارچ 2011ء
منظر ٹی وی کے ایک شو کا تھا۔ ‘‘ایک شام لیجنڈ کے ساتھ’’ نامی اس شو میں حاضرین خاموش بیٹھے اس شخص کے انتظار میں تھے جسے بولنا تھا۔ یہ وہی سولہ سال کا لڑکا تھا جس نے ایک زمانے میں یومِ دفاع کی یاد میں منعقد کیے ورائٹی شو میں پہلی بار اپنا ٹیلنٹ دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ وہ لڑکا اب ادھیڑ عمر شخص میں تبدیل ہو چکا تھا۔گزرے وقت نے اس کی شخصیت کو بدل دیا تھا۔ اب وہ دبلا پتلا نہ تھا۔ اس کی شخصیت میں ایک سحر تھا۔ آج جب اسے اسٹیج پر بلا یا گیا تو کوئی آوازیں کسنے والا نہ تھا۔ کسی کی اتنی ہمت ہی نہ تھی۔ انڈین اداکار قادر خان اس شخص کے بارے میں کہتا تھا کہ جب میں اس کے ساتھ شو کرنے اسٹیج پر جاتا تھا تب شو شروع ہونے سے پہلے اسے کہتا۔
‘‘سر میں نیا ہوں، مہربانی فرما کر مجھے معا ف رکھنا۔ اسٹیج پرآپ کسی اور کی ٹانگیں کھینچ لینا۔’’ا ور وہ مسکرادیتا۔ایسے شخص پر بھلا کون آواز کس سکتاتھا۔ بڑے بڑے کامیڈین، اداکار، میزبان ۔۔۔ اس کے سامنے پانی بھرتے دکھائی دیتے۔ اس شام میں وہ لیجنڈ تھا ۔وہ اپنی دھیمی رفتار کے ساتھ چلتا ہوا اسٹیج پرآیا۔ اس بار بھی اس کے منہ سے وہی الفاظ نکلے۔
‘‘السلام علیکم حاضرین۔۔ میں تمام لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے دس منٹ دئیے جائیں۔ میں اپنے ٹیلنٹ کا اظہار کروں گا۔ اگر آپ کومیری پرفارمنس پسند نہ آئی تو دس منٹ بعد میں خود ہی اسٹیج سے اتر جاؤں گا۔’’ مگر آج لوگ جانتے تھے۔۔۔ اس کو اور اس کے ٹیلنٹ کو۔ ایک بار پھر گہری خاموشی چھا گئی۔ اس نے بولنا شروع کردیا۔بڑھتی عمر نے اس کے جسم میں ضرور تبدیلیاں کی تھیں مگر اس کی آواز آج بھی جوان تھی اور یہ آواز ہر لمحہ بدل رہی تھی۔۔کبھی اس کے منہ سے کسی ایک شخص کی آواز سنائی دیتی تو کبھی کسی اور کی۔۔۔ وہ نقالی میں ماہر تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مزاحیہ جملوں اور انداز بنانے کا بھی ماہر تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک جادوگر تھا۔ وقت کی سوئیاں ایک بار پھر دوڑنے لگیں۔ دس، بیس، تیس، اور چالیس ۔۔ پینتالیس منٹ پورے ہو چکے تھے۔ شو ختم ہونے کا وقت ہو گیا تھا۔ وہ اسٹیج سے اتر رہا تھا۔ آج بھی لوگوں کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔
‘‘ونس مور۔۔۔ ونس مور’’ اور وہ بس ہاتھ ہلاتا ہوا اسٹیج سے اتر رہا تھا۔ یہ معین اختر کی آخری پرفارمنس تھی۔ ٹھیک ایک ماہ بعد وہ اس جہاں میں اپنی یادیں، باتیں، اور قہقہے چھوڑ کر چل بسا تھا۔
٭٭٭