معین اختر:صدائے ظرافت اب نہ آئیں گے پلٹ کر۔۔۔ ۔ شاہکار سے پہلے

چوبیس دسمبر 1950ء کے ایک سرد دن کراچی میں محمد ابراہیم محبوب کے گھر پہلے بچے نے جنم لیا۔ اسے گود میں اٹھا کر ابراہیم خوشی سے نہال ہو گئے۔ پہلا بچہ اور وہ بھی بیٹا۔۔ خوشی تو ہونی ہی تھی۔ اس کا نام معین اختر رکھا گیا۔ معین کا خاندان تقسیم سے پہلے آدھا انڈیا اور آدھا پاکستان میں رہتا تھا۔ معین کے والد تقسیم سے پہلے کراچی سے انڈیا گئے تھے ۔ وہاں اتر پردیش کے ایک ضلع مراد آباد میں معین کے دادا رہتے تھے۔ تقسیم کے بعد یہ پورا خاندان پاکستان آبسا۔ ابراہیم، گارمنٹس کے بزنس میں ایک کنٹریکٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ کام زیادہ نفع بخش نہ تھا۔ تقسیم کے بعد پاکستان ویسے بھی نازک حالات سے گزر رہا تھا۔ مہاجرین مشکل کا شکار تھے۔

معین ایک شریف اور معصوم بچہ تھا، شرارتوں سے دور۔ چھوٹی سی عمر میں ہی اس کے اندر ایک خصوصیت ظاہر ہوتی، اس کی نرم دلی۔ اس دن ماں نے معین کو کھانے کیلئے کچھ بنا کردیا۔ وہ پلیٹ ہاتھ میں پکڑ کر باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں خالی پلیٹ تھی۔ اس نے ماں سے کہا۔ ‘‘امی مجھے اور دیں۔’‘ ماں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
‘‘ارے ابھی تو دیا تھا؟ کھا بھی لیا؟’’ معین نے معصومیت سے نفی میں سرہلادیا۔ ‘‘پھر کہاں گیا؟’’ ماں کے پوچھنے پر اس نے باہر کی طرف اشارہ کردیا۔ ماں نے دروازے سے باہر دیکھا تو وہاں ایک اور چھوٹا بچہ ہاتھ میں معین کا کھانا لئے کھا رہا تھا۔ وہ مسکرادی اور فخر سے بیٹے کے بالوں میں ہاتھ پھیرکر بکھیردئیے۔
معین کو اسکول میں داخل کروایا گیا تو اس سیدھے سادے معصوم بچے کا ٹیلنٹ کھل کر سامنے آیا۔ وہ قدرتی طور پر اسٹیج کیلئے بنا تھا۔ میٹروپولیٹن سیکنڈری اسکول میں معین آرٹس اینڈ کرافٹ سوسائٹی کا سیکرٹری اور ادبی بحث مباحثہ کا صدر بھی تھا۔ تقریری مقابلے ہوں، میزبانی ہو یا بحث و مباحثہ، ہر جگہ اپنے اساتذہ کوحیران کر دینے کی صلاحیت رکھنے والے معین نے صرف تیرہ سال کی عمر میں اسکول کے ایک ایونٹ میں اپنا پہلا ڈرامہ کیا۔ ولیم شیکسپئر کے ڈرامے ‘‘مرچنٹ آف وینس’’ کا مرکزی کردار ادا کرنے والے معین کو اس ڈرامے میں اداکاری کا جوہر دکھانے پر پہلا انعام ملا۔ لیکن اس کے بعد زندگی کے حالات پلٹا کھا گئے۔

ابراہیم محبوب کی طبیعت بگڑی تو گھر کے مالی حالات خراب ہو گئے۔ معین حساس تھا۔ کچھ گھر میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے ذمہ داری کا احساس بھی تھا۔ اس نے اسکول چھوڑ کرگھر کو مالی لحاظ سے مضبوط کرنے کی ٹھان لی۔ جس دن اس نے اسکول چھوڑا، ابراہیم صاحب کیلئے یہ دھچکا تھا۔ انہوں نے معین کو اپنے پاس بلایا اور کہا:
‘‘تم پڑھو۔ تمہاری پڑھائی کے اخراجات میں خود کو بیچ کر بھی پورے کروں گا۔’’مگر معین کا سر انکار میں ہل گیا۔ وہ فیصلہ کرچکا تھا۔ اس نے جواب دیا:
‘‘ابا، میں ایسی پڑھائی کا کیا کروں گا جوتم لوگوں کو بیچ کر حاصل کی گئی ہو؟’’ ابراہیم لاجواب ہوگئے۔ اس دوران اسکول پرنسپل کو پتہ چلا تو اس نے خاص طور پر معین کو اپنے آفس بلایا ۔وہ اس باصلاحیت لڑکے کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے سب کے سامنے معین کو آفر دی۔
‘‘میں تمہاری پڑھائی کے تمام اخراجات اٹھانے کو تیار ہوں۔’’ لیکن معین ایسی پڑھائی نہیں چاہتا تھا جو کسی کا احسان ہو۔ ۔وہ کسی کا محتاج نہیں رہنا چاہتا تھا نہ کسی کا احسان اٹھانا چاہتا تھا۔ اس نے تعلیم چھوڑنے کے بعد چھوٹی چھوٹی نوکریاں کیں جن میں معراج اینڈ کمپنی کیلئے بطور سروئیراور ثنا اللہ وولین ملز کیلئے ریپشنسٹ شامل تھیں۔ پھر ایک جگہ مکینک کی نوکری کرلی۔ لیکن کچھ عرصے بعد اس نے مکینک کی نوکری چھوڑ دی۔ ایک آواز اسے اپنی طرف بلاتی رہتی تھی۔۔۔ اور وہ آواز اسے کھینچ رہی تھی۔

٭٭٭

Loading

Read Previous

ولیم شیکسپیئر ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

 محمد علی ۔ شاہکار سے پہلے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!