ایسا کہاں سے لاؤں
میرا نام معین اختر ہے
میرے منہ پر سٹاپر ہے
پالیسی ہے لب نہ کھولوں
میں پھر بھی بڑھ چڑھ کر بولوں
تو سب کہتے ہیں یہ ٹر ٹر ہے
میرا نام معین اختر ہے
معین اختر شہرت کی بلندی پر صرف اس وجہ سے نہیں پہنچا کہ وہ ایک بہترین فنکارتھا۔ اس کی ایک اور بہت بڑی وجہ تھی۔ معین اختر اپنے ساتھی فنکاروں کی بہت عزت کرتے تھے۔ وہ اپنے دوستوں پر جان چھڑکتے تھے۔ انہوں نے ایک دوست کی مدد کرنے کیلئے اپنی کار بیچ دی۔ جب ان کا بائی پاس ہوا تو انہیں آرام کا مشورہ دیا گیا تھا مگر انہوں نے کینسر کا شکار ہونے والوں بچوں کیلئے ایک فنڈ جمع کرنے والی تقریب میں صرف بیس دن بعد پرفارمنس دی۔
ان کی شادی جلدی ہو گئی تھی۔ ان کی بیوی بھی معین ہی کی طرح نیک دل خاتون ہیں۔ گھر میں معین بہت سادہ آدمی تھے جو عام سے کپڑے پہنتا اور بالکل عام سی خوراک کھاتا تھا۔ معین کا یہ ماننا تھا کہ گھر میں جو چیز ضرورت سے زیادہ ہے اس پر ان کا حق نہیں بلکہ اس شخص کا حق ہے جسے اس کی ضرورت ہے۔ ان کو خدا نے ایک صلاحیت یہ بھی دی تھی کہ دوسروں کی مشکلات کو بہت جلدی سمجھ لیتے تھے۔ اس لئے وہ صرف غریبوں یا مانگنے والوں کی مدد ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے قریب موجود لوگوں کی ہر ضرورت پوری کرتے تھے۔ اس شخص نے اپنی آخرت کی تیاری پہلے کرلی تھی۔ آخری دنوں میں تو ملنے والا معاوضہ گھر ہی نہ لے جاتے بلکہ مختلف لوگوں میں بانٹ دیتے تھے۔
معین اختر کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ ابن صفی صاحب ان کو پسند تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی لکھاریوں اور شعراء کی کتابیں ان کی لائبریری میں سجی رہتی تھیں۔
ساتھی فنکاروں سے ان کی بہت دوستی تھی۔ ایک مرتبہ ایک شو میں دلیپ کمار جب اسٹیج پر آئے تو معین اختر میزبان تھے۔ انہوں نے مائیک پر دلیپ کمار کی نقل کی۔ یہ اتنی کامیاب نقل تھی کہ حاضرین کے ساتھ ساتھ دلیپ کمار بھی حیران رہ گئے۔ اس دن کے بعد ان کی اور معین کی دوستی بے مثال تھی۔
ایک مرتبہ شوٹنگ کے دوران بہروز سبزواری سے معین اختر لڑ پڑے اور اسے خوب باتیں سنائیں۔ ویسے معین ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے مگرکبھی کبھی غصہ آ ہی جاتا۔ بہروز جذباتی ہو گیا اورچپ کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔شام کو جب شوٹنگ ختم ہوئی تو معین آئے اور جہاں بہروز بیٹھا تھا، وہاں اس کے قدموں میں بیٹھ گئے اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔
‘‘یار بہروز مجھے معاف کر دو۔ مجھے غصہ آگیا تھا، موڈ خراب ہو گیا تھا۔’’ بہروز شرمندہ ہو کر اسے اٹھانے لگے۔
‘‘یار معین بھائی کیا کررہے ہیں۔۔۔’’ کچھ ایسا تھا وہ شخص۔ اسے خدا کی بنائی مخلوق سے بہت پیار تھا۔ کراچی میں شوٹنگ کے دوران ایک بار معین کو ایک دوست ملے جن سے انہوں نے خوب گپ شپ لگائی۔ معین اور اس کی ٹیم کو ملنے والا ہوٹل معیاری نہ تھا۔ معین کے دوست نے ان سے کہا۔
‘‘آپ میرے ساتھ آ جائیں، مجھے کمپنی کی طرف سے بنگلہ ملا ہوا ہے۔’’مگر معین نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ
‘‘میرے ساتھ میری ٹیم ہے اور مجھے اچھا نہیں لگے گا ان کو اس ہوٹل میں چھوڑ کر خود بنگلے میں بیٹھ جاؤں۔’’
منصور، معین اختر کا بیٹا یہ کہتا ہے:
‘‘اب سمجھ میں آتا ہے میرے والد رات تین بجے تک کیوں جاگتے تھے۔ کیوں انہیں نیند نہیں آتی تھی۔ وہ اس فکر میں تھے کہ میرے بعد ان سب کی مدد کون کرے گا جن کی میں کرتا ہوں۔ کون کرے گا یہ سب؟’’
معین اختر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہیں ڈیلاس کی شہریت اعزازی طور پر دی گئی تھی۔ ان کا مجسمہ مادام تساؤ کے میوزیم میں نصب کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ معین اختر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے مختلف وزرائے اعظم اور صدور کے لیے شو کئے ہیں جن میں کنگ حسین آف جورڈن، گیمبیا کے وزیراعظم داؤدی ال جوزا، جنرل ضیاء الحق، غلام اسحٰق خان، جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقارعلی بھٹو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں ان کی نقل بھی اتاری تھی۔
٭٭٭