ریکویسٹ اسسیٹ کرنے کے لیے شکریہ، زویا نے پریزنٹیشن بنانے کے لیے لیپ ٹاپ کنیکٹ کیا ہی تھا کہ فیس بک پر موسیٰ کا میسج چمکا۔
”واٹ…؟” اُس نے اپنی آنکھیں کھول کر کمپیوٹر اسکرین کو یوں دیکھا جیسے یقین نہ آرہا ہو۔
”میں نے اس کو کب ایڈ کیا۔” وہ بڑبڑائی اور موبائل اُٹھا کر چیک کیا۔
”کہاں ہو؟ ناراض ہو؟ جواب تو دو… چاہے صاف جواب ہی دے دو۔” ایک اور میسج آیا تھا۔ جو ونڈو کھلی ہونے کی وجہ سے فوراً ہی seenہوگیا تھا۔
”یہ کیا میسج پڑھ بھی رہی ہو اور جواب نہیں دے رہی۔ آخر تم اتنی کیوٹ کیوں ہو؟” اس نے ساتھ سر پر ہاتھ مارنے والی emojiبھیجا۔
زویا بے اختیار مسکرائی۔ وہ اس کا فیورٹ emojiتھا۔
“smilling” سوال آیا تھا۔
وہ فوراً منہ بنا کر بیٹھ گئی۔ گویا وہ کیمرا آن کرکے بیٹھا ہوا ہو۔
I just love your reactions.
these are so spartanas & vatural.
ایک اور میسج آیا۔ وہ بے اختیار مسکرائی۔
اسے یہ میسج پسند آیا تھا۔
”اوہ… کل شاید جلدی میں موبائل لاک کرتے ہوئے اس کی ریکویسٹ ایکسیپٹ ہوگئی۔” بالآخر اس کے دماغ میں چکراتے سوال کو اس کا جواب ملا تھا۔
”کیا ہوگیا ہے۔ اتنا over reactکیوں کررہی ہوں میں۔ ایک فیس بک پروفائل ہی تو ہے۔ کئی آئے کئی گئے۔ اس کے بھی چھکے چھڑواتی ہوں۔” زویا کا ازلی اعتماد عود کر آیا۔
”لیکن اس کمینے کو میرا ایڈریس کہاں سے ملا۔” دوسرے ہی لمحے وہ پھر سے دانت پیس رہی تھی۔
”زویا…؟” اس کا اگلا میسج نمودار ہوا۔
”زیادہ ہیرو مت بنو اور سیدھی طرح بتاؤ تم نے میرا ایڈریس کہاں سے لیا۔”اُس کے ہاتھ تیزی سے کی بورڈ پر چلنے لگے۔
”کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے Phew۔”
”میں نے کیا پوچھا ہے؟”
”تم مجھے بلیک میل کرنا چاہتے ہو؟ harrasکرنا چاہتے ہو۔
ہاہا…ہاہا… موسیٰ نے لاتعداد بننے والے emojis بھیج دیے۔
”یار… you are super cute۔ تمہیں کیسے harrasکرسکتا ہوں۔بس تم مجھے اچھی لگتی ہو اور جو آپ کو اچھا لگتا ہے آپ اسے خوش رکھتے ہیں۔ کمفرٹیبل فیل کرواتے ہیں نہ کہ بلیک میل یا harrasکرتے ہیں۔ بے فکر رہو میں تمہاری ریپوٹیشن اور رسپکٹ کے اسٹیک پر کچھ نہیں کروں گا نہ ہی تمہیں کبھی نقصان پہنچاؤں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔”
زویا کو اس کا میسج اچھا لگا، وہ دھیمے سے مسکرائی اور میسج کو لائیک کردیا۔
”thanks۔” موسیٰ کا اگلا میسج تھا۔
”تھینکس والی کیا بات ہے۔” یہ اس کو بھیجے جانے والے لاتعداد میسجز میں سے ایک تھا۔
٭…٭…٭
”تمہاری پھپھو کا فون آیا تھا۔” زویا کل کے لیے اپنے کپڑے پریس کررہی تھی جب نجمہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بتایا۔
”تو… وہ تو آتا ہی رہتا ہے۔” وہ بیپروائی سے بولی۔
”پاگل معیز واپس آرہا ہے ہنگری سے… وہ شادی کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہیں۔” نجمہ نے اسے گھور کر تفصیلاً کہا۔
”اوہ…” زویا کا دل بے اختیار دھڑکا اس نے دائیں ہاتھ کی تیسری انگلی پر موجود انگوٹھی کو دیکھا۔
”اس کا ماسٹرز مکمل ہوگیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ شادی ہو جائے تاکہ وہ دوبارہ جانے کا کچھ کرسکے۔ اس کا اسکالر شپ تو دو سال کا ہی تھا نا۔” نجمہ مزید بولیں۔
”اُنہہ دو سال میں، تو اس نے ایک دفعہ بھی میسج کیا نہ کال اور اب اسے شادی یاد آگئی۔” اس نے مصنوعی خفگی دکھائی۔
”آرام سے بیٹھو۔ تم جانتی ہو اُسے یہ سب پسند نہیں ورنہ وہ ایک ذمہ دار لڑکا ہے۔ اس نے جب بھی تمہارے بابا کو کال کیا ہمیشہ تمہارا بھی پوچھا۔ اپنی مرضی پر ہی اس نے یہ منگنی کروائی تھی اور اب واپس بھی آرہا ہے ورنہ وہیں کہیں شادی کرلیتا۔” نجمہ کے لہجے میں معیز کے لیے محبت ہی محبت تھی۔
”واپس آنا تو اس کی مجبوری ہے، ظاہر ہے اس کا اسکالر شپ جو ختم ہوگیا۔
بدھانیٹ کے چیک ان لگا لگا کر تھوڑا شو آف نہیں کیا اور مجھے تو اس نے فیس بک پر بھی ایڈ نہیں کیا تھا۔ میں نے ریکویسٹ بھیجی تو ڈیلیٹ کردی۔” اُس نے زور و شور سے شکوہ کیا۔
”ایک تو تم یہ فیس بک کی دُنیا سے باہر نکل آؤ۔” ہر بات میں فیس بک کو نہ گھسیٹ لیا کرو اور اچھے سوبر لڑکے ایسے ہی ہوتے ہیں نہ کہ ہر جگہ ہا ہا ہو ہو کرنے والے۔” نجمہ نے اس کو لتاڑا۔
”امی ابھی میرا پورا سمیسٹر پڑا ہے اتنی جلدی میں…” وہ خاموشی ہوگئی۔
”کوئی بات نہیں شادی کے بعد مکمل کر لینا چھے آٹھ مہینے تو واپس جانے میں لگیں گے ہی اور یہ بات تو پہلے سے طے تھی کہ اُس کے آتے ہی شادی ہوجائے گی۔ تمہاری مرضی سے یہ رشتہ ہوا ہے تو اب واویلا کرنے کی ضرورت نہیں” نجمہ نے اُسے آڑھے ہاتھوں لیا۔
”او ہو تو میں کب منع کررہی ہوں۔ میں تو صرف یہی کہہ رہی ہوں کہ اسٹڈی کمپلیٹ ہوجائے” اس نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے معیز آتا ہے، تو اس سے بات کرلیں گے۔ پھر دیکھتے ہیں جیسے وہ لوگ کہیں گے” نجمہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولیں۔
”کب آرہا ہے وہ…” اُس نے کن انکھیوں سے ماں کو جاتا دیکھ کر پوچھا۔
”آیا کہہ رہی تھیں ایک ہفتے تک اس کی سیٹ کنفرم ہوجائے گی۔” وہ بتا کر باہر نکل گئیں۔ اُس نے کپڑے ہینگ کیے استری بند کی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔ معیز اور وہ بچپن کے ساتھی تھے۔ معیز نے بچپن میں ہمیشہ اسے پروٹیکٹ کیا تھا۔ نجمہ کے سامنے وہ ہر شرارت کا الزام اپنے سر لے لیتا تھا۔ اس کی اِسی عادت نے زویا کو اس کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ اُسے لگتا تھا وہ اسے دنیا کی ہر مصیبت اور سردو گرم سے بچا کر رکھ سکتا ہے۔ پھر وہ بڑے ہوگئے اور اس کے گریجوایشن کے ایگزیمز ختم ہی ہوئے تھے کہ معیز کو مکینکل انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد ہنگری میں MS کے لیے بہت اچھا اسکالرشپ مل گیا تھا۔ جانے سے پہلے وہ زویا اور اپنے رشتے کو نام دینا نہیں بھولا تھا۔ معیز سب کا لاڈلا تھا۔ اِنکا ر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پھپھو کو بھی زویا ہمیشہ سے پسند تھی۔ یوں اس کے جانے سے ایک دن پہلے شام میں سب کے بیچ معیز نے اسے انگوٹھی پہنا دی تھی جو زویا کو بے حد عزیز تھی۔ وہ معیز کے بارے میں کسی سے بات نہیں کرتی تھی اس کی بات کرنے پر وہ ہمیشہ مچل جاتی تھی اور اس کا دل چاہتا کہ معیز کہیں سے نکل کر اُس کے سامنے آن کھڑا ہو۔ اُس کے نزدیک بس زبان کی اہمیت تھی وہ لمبی چوڑی باتیں اور وعدے نہیں کرتا تھا۔ کبھی کبھی اُسے معیز کی بے پروائی اور بے نیازی پر غصہ بھی آتا تھا، لیکن اب اس کے واپس آنے کا سن کر گویا وہ سب کچھ بھول گئی تھی اور ہمیشہ کی طرح اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ دن پَر لگا کر اُڑ جائیں اور معیز آجائے۔
”ہیلو پارٹنر…” موبائل کی بیپ پر وہ چونکی موسیٰ کا میسج تھا۔ اس نے بے دلی سے اس کے میسج کا نوٹیفکیشن دیکھا اور موبائل سائیڈ پر رکھ دیا۔ وہ فی الحال صرف معیز کے بارے میں سوچنا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
”تم کل شام کہاں مری ہوئی تھی۔ میں نے اتنی کالز کیں۔” شزا نے زویا کو چٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔ وہ تینوں ڈھیلے ڈھالے انداز میں چلتی لائبریری کی طرف جارہی تھیں۔
”کل شام…” زویا کو یاد آیا معیز کے بارے میں بات کرنے کے بعد اس نے کسی سے بات نہیں کی تھی۔
”میں ذرا جلدی سو گئی تھی۔” اس نے بہانہ بنایا۔
”شام کو ہی سوگئی تم۔” نور نے اُسے گھورا۔
”ہاں تو… تمہیں کیا تکلیف ہے نیند آئی تو سوگئی۔” زویا نے اس کے متجسس انداز پر پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا۔ اُس نے سوچا کہ وہ انہیں بتائے کہ معیز واپس آرہا ہے، لیکن کچھ سوچ کر وہ خاموش رہی۔
”ایکسکیوز می…” وہ تینوں اپنے پیچھے مردانہ آواز سن کر چونکیں اور پلٹیں۔ سامنے ہی جینز شرٹ میں ملبوس کوئی نوجوان تھا۔
”جی آپ…” زویا نے اسے دیکھا، تو اُسے لگا شاید اُس نے اُسے کہیں دیکھا۔
”یہ والٹ شاید آپ میں سے کسی کا گرگیا۔” اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جس میں پرپل والٹ تھا۔
”دیکھیے یہ ٹرک کہیں اور جاکر آزمائیے گا۔ ہمارے والٹ ہمارے پاس ہی ہیں۔ Better luck next time ” نور نے اسے جھاڑ کر رکھ دیا۔
ایکسکیوز می… میں اپنے دوست کے ساتھ کھڑا تھا میں نے گرتے دیکھا، تو آپ کو دینے آگیا، لیکن کوئی بات نہیں اگر آپ کا نہیں ہے، تو ہوسکتا ہے مجھے غلطی لگی۔” اس نے مہذب طریقے سے جواب دیا اور ہاتھ پیچھے کرلیا۔
”نور… نور…” شزا نے اس کا بازو کھینچا۔
”کیا ہے…” نور تلملائی۔
”آئی تھنک نور یہ تمہارا ہی والٹ ہے…” زویا نے غور کیا۔
”ہاں میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں۔” بالآخر شزا نے بھی حصہ ڈالا۔
”واٹ میرا…” نور اپنا بیگ چیک کرنے لگی۔
”پاگل ہے والٹ تو دیکھ لو بیگ بعد میں دیکھ لینا۔” شزا نے اس کے پاؤں پر پاؤں مارا۔
”اوہ یہ میرا ہی ہے… شاید موبائل نکالتے ہوئے گِر گیا۔” نور نے شرمندگی سے لڑکے کو دیکھا۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔
”لیکن آپ منع کرچکی ہیں۔ اب میں ایسے ہی تو آپ کو نہیں دے سکتا۔ آپ کوئی نشانی بتائیے۔” اس نے مسکراہٹ دبائی۔
”ایکسکیوز می…” زویا نے کمر پر ہاتھ رکھا۔
”ایکسکیوزڈ…” وہ اس کے مقابل آیا تھا۔
”آپ چپ چاپ ہمارا والٹ واپس کیجیے۔” وہ زیادہ دیر اس کی سیاہ روشن آنکھوں میں نہ دیکھا پائی تھی۔
”اب آپ کہہ رہی ہیں۔ اس لیے واپس دے رہا ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے والٹ اُس کے آگے بڑھا دیا جسے نور نے فوراً تھام لیا۔
”تھینکس اینڈ سوری…” وہ شرمندگی سے بولی۔
”اٹس آل گڈ…” وہ ہاتھ اٹھا کر مسکراتے ہوئے چلا گیا۔
”ستر دفعہ کہا ہے باجی ریڈیو آن کرنے سے پہلے کوئی فریکوینسی سیٹ کرلیا کرو کوئی آس پاس دیکھ لیا کرو۔ بس بھونپو مت بجانے لگا کرو۔” شزا نے نور کو آڑے ہاتھوں لیا۔ زویا پیٹ پر ہاتھ رکھے دہری ہورہی تھی۔
”بکو مت…” نور نے جھینپتے ہوئے اسے چپت لگائی۔
”بندہ دیکھ تو لیتا ہے بلبلے۔ تم بھلا اپنا والٹ نہ پہچان سکی۔” زویا ہنس رہی تھی۔
”ہیلو…” اِسی اثنا میں اس کا موبائل پر وائبریشن ہوئی۔ وہ موبائل دیکھتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے الگ ہوگئی۔
فیس بک میسنجر پر موسیٰ کا میسج تھا۔
”ہائے…” وہ مسکرائی۔
”میں تم سے ناراض ہوں۔” فوراً اگلا مسیج آیا۔
”تو ہوتے رہو۔” اُس نے بے نیازی سے کہا۔
”ظالم لڑکی بندہ منا ہی لیتا ہے۔” اِس نے سیڈ emogi بھیجا۔
”میں کیوں مناؤں۔” اس نے بے نیازی سے لکھتے ہوئے سامنے دیکھا شزا اور نور کسی لڑکی کے ساتھ بحث میں مصروف تھیں۔
”میں نے کل کتنے میسج کیے۔ تمہیں اِتنا مِس کیا، لیکن تمہیں میرا بالکل خیال نہیں آیا۔” اس نے خود ہی وجہ بتادی۔
”میں مصروف تھی۔” اس نے بال جھٹکے۔
”مصروفیت میں کیا اپنوں کو بھلا دیا جاتا ہے؟”
”کون اپنے…؟” وہ کھلکھلائی۔
تم کتنی بے مروت ہو۔ میں تمہارے پیچھے مرا جارہا ہوں اور تم ہو کہ…” اس نے بات ادھوری چھوڑی۔
”تو مت مرو…” وہ ہنسی۔
”بس کیا کروں۔ میں محبت میں مرنے اور مار دینے پر ہی یقین رکھتا ہوں۔” وہ ہنسا۔
”ہیلو کون سی محبت…؟” اس نے منہ بنایا۔
”وہی جو تمہیں مجھ سے ہے، لیکن مانتی نہیں ہو۔”
”تم پاگل ہو…” وہ بے اختیار ہنستی چلی گئی۔
”ہاں پاگل تو ہوں… کیا کروں…”
”اچھا میں جارہی ہوں۔ ہمارا لیکچر اسٹارٹ ہونے والا ہے۔”
شزا کے اِشارہ کرنے پر اس نے تیزی سے لکھا۔
”کبھی مجھ سے بھی ملو…” وہاں سے فرمائش آئی۔
”جی ضرور” اس نے ناک چڑھایا اور سائن آؤٹ ہوگئی۔
٭…٭…٭