”یہ جو کہتے ہیں اورنگزیب ٹوپیاں بیچ کر گزارہ کرتا تھا، یہ سب کہانیاں گھڑی ہوتی ہیں۔” قمر صاحب کی آواز کانوں پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی۔ شزا نے اپنی جماہی کو بہ مشکل روکتے ہوئے پہلے سر کی طرف اور پھر زویا کو دیکھا۔ اس کا دھیان نوٹ بک پر کم اور ہاتھ میں پکڑے موبائل پر زیادہ تھا۔
”یار یہ سر کب جائیں گے؟” اُس نے اکتاہٹ سے نوٹ بک کے کونے پر لکھ کر زویا کو کہنی ماری۔
”کک… کیا…” زویا ہڑبڑا گئی۔
”کیا ہورہا ہے؟” سر نے اسی دوران اُسے پکڑ لیا تھا۔
”کچھ نہیں سر…” زویا نے فوراً موبائل بیگ میں پھینکا۔
”تو کیا بتا رہا تھا میں۔” انہوں نے اسے گھور کر پوچھا۔ شزا نے ہنسی دبائی۔
”سر وہ… جہانزیب کی بات ہورہی تھی…” وہ گڑ بڑائی۔ کلاس میں زبردست قہقہہ لگا تھا۔
”اور یہ جہانزیب کون ہے؟” قمر صاحب کے غیظ و غضب میں اضافہ ہوا۔ شزا نے شرمندگی سے سر کو دیکھا اور انگلیاں مروڑنے لگی۔
”بیٹا… اپنے اندر کا شور کم کریں۔” انہوں نے اسے غصے سے دیکھتے ہوئے تحمل سے کہا۔
”جی سر…” وہ منمنائی۔
”اندر کا شور کم ہوگا، تو باہر کی چیزیں سنائی دیں گی بچہ۔” انہوں نے مزید طنز کیا۔
”یس سر۔”زویا نے سر ہلایا۔
بیٹھو … اور ہاں یہ اورنگزیب تھا۔” انہوں نے بالآخر اس کی جان بخشی کی۔ وہ فوراً بیٹھ گئی اور شزا کو مسکراتے دیکھ کر غصے سے گھورا۔
”تم مجھے بتا نہیں سکتی تھی۔” شزا کو کہنی مارتے ہوئے اس نے دانت پیسے۔
”کیا…؟ مثلاً کیا کہ سر تمہیں اُٹھانے والے ہیں؟ یا تمہیں نوٹس کررہے ہیں؟” شزا نے دبی آواز میں جواب دیا۔
”مرو تم…” وہ سر کو وائٹ بورڈ کی جانب جاتا دیکھ کر انہیں یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگی جیسے آنکھوں سے ہی سنے گی۔
٭…٭…٭
”توبہ ہے یونیورسٹی ہے کہ کوئی اسکول… یہ سر باجوہ تو نہ انہیں کسی اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہونا چاہیے تھا۔” زویا نے کلاس ختم ہونے کے بعد کاریڈور میں آکر کتابیں اور بیگ پھینکتے ہوئے غصے سے کہا۔
”سیریسلی یار! پوچھنے ہی بیٹھ جاتے ہیں کہ کیا پڑھایا۔” شزا نے اکتاہٹ سے کہا۔
”رکو ذرا statusہی اپ ڈیٹ کردیتی ہوں۔” زویا نے اپنے اسمارٹ فون پر انگلیاں چلائیں اور فیس بک کھولی۔
”کیا لکھو گی…؟” شزا نے اسے گھورا۔
”سوچنے دو… ہاں…” وہ کچھ دیر سوچ کر سیدھی ہوئی۔
“uff…this history feeling bored with shiza Javed.”
اس نے شزا کو ٹیگ کیا۔
”کہیں سر قمر ہی نہ پڑھ لیں۔” شزا کو فکر ستائی۔
”چل ہٹ… میری فرینڈ لسٹ میں تھوڑی ہیں وہ۔” زویا نے ناک سے مکھی اُڑائی۔
”لیکن…” شزا نے اسے ڈرتے ڈرتے دیکھا۔
”لیکن کیا…” زویا بیگ میں کچھ ڈھونڈنے لگی۔
”میں نے کل ہی انہیں ایڈ کیا ہے۔” شزا نے بے چارگی سے بتایا۔
”واٹ…” زویا چیخی۔ دماغ ٹھیک ہے تیرا، بے وقوف لڑکی پہلے نہیں پھوٹ سکتی تھی؟ ستر دفعہ بولا ہے کہ پرائیویسی سیٹنگ چیک کرو اور ٹیگ اپروو کرنے کے بعد الاؤ کیا کرو، لیکن نہیں محترمہ کو لوگوں کو بتانا ہے کہ وہ کتنی مشہور ہیں اور کتنے لوگ انہیں ٹیگ کرتے ہیں۔” زویا دانت پیستے ہوئے تیزی سے موبائل پر انگلیاں چلانے لگی۔
”جلدی ڈیلیٹ کرو ورنہ کل کلاس میں چھترول کریں گے۔” شزا نے اُس پر جھکتے ہوئے منمنا کر کہا۔
”پیچھے دفع ہو۔ وہی کررہی ہوں۔” زویا نے فیس بک کھولی۔
”ہائے کھل گیا شکر ہے۔ کسی نے ابھی دیکھا تو نہیں؟” شزا نے ناخن چباتے ہوئے زویا کو دیکھا۔
”گاڈ…” زویا کی نظریں اسکرین پر جم کر رہ گئیں۔
”کیا ہوا…” شزا نے گھبرا کر پوچھا۔
”تو دیکھ مرلے۔” زویا نے موبائل اس کے سامنے کیا جہاں باجوہ صاحب کی طرف سے لائیک کا نوٹیفکیشن جگمگا رہا تھا۔ شزا نے آنکھیں پٹپٹا کر دوبارہ دیکھا کہ شاید سکرین پر لکھا بدل جائے پھر ڈرتے ڈرتے زویا کو دیکھا جو کٹ گھنی بلی بنی تھی۔
”ہیلو Peeps” نور نے poutبنا کر دونوں کو گزیٹ کیا جو سر جوڑے موبائل پر نہ جانے کیا دیکھ رہی تھیں۔ اس نے بیگ سائیڈ پر رکھا اور اِن کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی۔
”کیا تکلیف ہے نور؟” شزا نے اس پر چڑھائی کی۔
”کیا دیکھ رہی ہو تم لوگ؟” اس نے تجسس سے پوچھا۔
”تمہارا دولہا۔” زویا نے دانت کچکچائے۔
”ہائے۔” نور نے انگلیاں مروڑ کر شرمانے کی ایکٹنگ کی۔
”مجھے بھی تو دکھا دو۔” اُس نے شرما کر کہا۔
”بکواس بند کرو اور یہ بتاؤ اتنی لیٹ کیوں آئی ہو۔ یہ صبح صبح مغلوں کا جغرافیہ پھانکنے کو ہم ہی ملتے ہیں باجوہ صاحب کو۔” زویا کا غصہ کسی طور کم نہ ہوا تھا۔
”یار بھائی کی کھٹکارا بائیک پھر سے خراب ہوگئی تھی۔” نور نے آنکھیں مٹکا کر بتایا۔
”چلو… تیرے پاس اور کوئی بہانہ نہیں ہے کیا۔”شزا نے دھپ لگائی۔
”لو مجھے کیا ضرورت ہے جھوٹ بولنے کی۔” نور نے برا مانتے ہوئے کہا۔
”اب یہ سرکس بند کرو اور اٹھو ابھی اسائنمنٹ کے پرنٹس لینے ہیں اور بائنڈنگ بھی کروانی ہے۔” زویا نے کتابیں اٹھائیں اور کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔
”ارے ہاں مجھے تو بھول ہی گیا تھا۔” شزا نے سر پر ہاتھ مارا۔ تینوں نے اپنی چیزیں اٹھائیں اور کیفے کی اور چل دیں۔
٭…٭…٭
شزا، نور اور زویا تینوں یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کررہی تھیں۔ تینوں بی اے سے ساتھ تھیں اور ایک دوسرے کی بہترین دوست بھی۔ بی اے کے بعد انہوں نے سوشیالوجی میں اکٹھے ہی ایڈمیشن لے لیا۔ تینوں سوشل میڈیا کی دلدادہ تھیں۔ خاص طور پر زویا کو تو ہر چیز فیس بک پر اپ ڈیٹ کیے بغیر چین ہی نہیں آتا تھا۔ اپنی ہر آؤٹنگ اور hangout کو پوسٹ کرنا اس کا شوق تھا۔
٭…٭…٭
”امی دیکھا آپ نے۔” زویا نے چیخ ماری۔
”کیا ہوا اب۔” نجمہ نے استری والے کپڑوں کو پانی لگاتے ہوئے بے زاری سے اسے گھورا۔
”دیکھ لیں آپ اپنے بھتیجے کی حرکتیں۔” زویا نے موبائل دوسرے ہاتھ میں پکڑا۔
”تمہاری حرکتیں نہ دیکھوں پہلے؟ کام تم سے کچھ ہوتا نہیں ہر وقت موبائل کی ماں بنی رہتی ہو۔ کہا ہے کپڑوں کو پانی لگا دو وہ بھی محترمہ سے نہیں لگا۔” نجمہ نے اُلٹا اس کی کلاس لے لی۔
”افوہ امی… میرے پیچھے پڑی رہیں بس مجھے نہیں پسند یہ کام۔” اس نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے شاہانہ پن سے کہا۔
”تمہیں پسند کیا ہے آخر؟” نجمہ نے دانت پیسے۔
”میری بات تو سن لیں آپ… ذیشان بھائی آئے ہوئے ہیں دبئی سے ایک ہفتہ ہوگیا، لیکن آپ کو ملنے نہیں آئے۔” زویا نے آنکھیں مٹکا مٹکا کر بتایا اور کن انکھیوں سے ماں کا ری ایکشن دیکھنے کی کوشش کی۔
”تمہیں کیسے پتا؟” نجمہ کے ہاتھ پکڑا پر ڈھیلے ہوگئے۔
”یہ دیکھیں چیک ان کیا ہوا ہے لاہور کا۔ اپنی بہن کے ساتھ کھانے پر گئے تھے۔ اتنا نہ ہوا ہم سے بھی پوچھ لیتے۔” زویا نے ماں کو متوجہ پاکر چھلانگ ماری۔ نجمہ کے پاس آکر اسے تصویریں دکھانے لگی۔
”بڑا ہی بے دید ہے۔ باپ کی طرح سامنے کیسے پھپھو پھپھو کرتا ہے اور ایک شہر میں ہوتے ہوئے بھی ملنے کی توفیق نہ ہوئی۔” نجمہ خفگی سے بولیں۔
”اور کیا… ان کو لگتا ہے ہمیں پتا ہی نہیں چلے گا۔” زویا نے بال جھٹکے۔
”یہ فیس بک پر کیا سب پتا چل جاتا ہے۔” نجمہ نے معصومیت سے پوچھا۔
”ہاں امی آج کل تو لوگ کام بعد میں کرتے ہیں اور فیس بک پر لگاتے ہیں۔” زویا نے مزید روشنی ڈالی۔
”چلو بند کرو اس کو بلکہ یہ کپڑے اٹھاؤ اور آئرن اسٹینڈ پر رکھو۔” نجمہ کا دل کام سے اچاٹ ہوگیاتھا۔
”کیا ہوا اب آپ کو…” زویا نے آنکھیں گھمائیں۔
”دکھ ہورہا ہے مجھے۔ میں کون سا اس سے رقمیں مانگ لیتی ہوں یا پیسے… صرف مل کر جانے میں بھی اس کو تکلیف ہے۔ پال پوس کر میں نے بڑا کیا ہے اسے۔ ماں کو تو کبھی ٹی وی سے ہی نہ فرصت ملی۔” نجمہ کا لہجہ غمگین تھا۔
چلیں چھوڑیں امی، ہمیں کیا۔ ہم کون سا مرے جارہے ہیں۔زور زبردستی بھی تو نہیں کرسکتے۔” زویا نے نجمہ کا کندھا تھپکتے ہوئے تسلی دی، تو نجمہ نے بھی سر ہلا دیا۔
٭…٭…٭
گرلز، گڈ نیوز…” نور بھاگتی ہوئی شزا اور زویا کے پاس آئی۔
”واٹ…؟” زویا نے بے زاری سے مڑ کر پوچھا۔
”باجوہ صاحب نہیں آئے آج۔” نور تالی بجا کر اُچھلی۔
”واہ… شکر ہے۔” شزا نے شکر ادا کیا۔
”چلو کیفے چل کر چائے پیتے ہیں۔” زویا نے بیگ اٹھایا۔
”توبہ میں تو سوچ سوچ کر ہی بے ہوش ہوئی جارہی تھی کہ کہیں…” شزا خوشی سے بولتی ہوئی مڑی تو سامنے ہی ہاتھ میں ڈائری اور دوسرے ہاتھ میں گلاسز پکڑے باجوہ صاحب کھڑے تھے۔
”س…س…سر…” شزا نے ہکلا کر کہا۔ نور اور زویا نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ زویا نے نور کو قتل کرنے کا اشارہ کیا۔
”سر میں ایک ہی ”س” آتا ہے۔ باجوہ صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔
”سر ہم آپ ہی کا انتظار کررہے تھے ایک اسائنمنٹ…”
”میرا انتظار؟ کس لیے؟ اوہ بور ہونے کے لیے؟” انہوں اپنے سوالوں کے خود ہی جواب دیے۔ تینوں پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔
”سر وہ… ایکچوئلی ایسے ہی ہم بیٹھے تھے تو…” زویا نے بات بنانے کی کوشش کی۔
”سر وہ تو آپ کے پیریڈ کے بعد پوسٹ کیا تھا۔” شزا نے فوراً لب کشائی کی۔
”اچھا…” سر نے لمبا سا اچھا کہا۔
”اور وہ جو ہسٹری کی بات ہورہی تھی؟” سر نے معصومیت سے پوچھا۔
شزا نے زویا کو دانت کچکچا کر دیکھا۔
”سوری سر… ہمارا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔” بالآخر نور نے معافی مانگنے کا سوچا۔
”ارے آپ کیوں سوری کررہی ہیں آپ تو اس پوسٹ پر taggedبھی نہیں تھیں۔” سر نے گویا سارے بدلے آج ہی پورے کرلیے تھے۔
”سوری سر…” زویا نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
”کلاس میں چلیں۔” وہ تینوں کو گھورتے ہوئے لیکچر ہال کی طرف بڑھ گئے۔
”زویا کمینی، مروا دیا تم نے۔” شزا نے زویا کے بازو میں ناخن چبھوئے۔
”پیچھے مرو… میں نے کہا تھا سر کو ایڈ کرکے بیٹھ جاؤ۔ پھر تم نے taggedپوسٹس بھی کھلی چھوڑی ہوئی ہیں۔” زویا نے الٹا اسے قصور وار ٹھہرایا۔
”اوکے lets more peeps” نور نے گہری سانس بھری۔
”تم…” زویا خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھتی اس کی طرف بڑھی۔
”میں نے کیا کیا اب…” نور آگے بھاگی۔
”تم نے کہا سر آج نہیں آنے والے۔” زویا پھنکاری۔
”مجھے تو آلو، مم…میرا مطلب ہے شعیب نے بتایا تھا۔” نور نے سی آر کا نام لیا۔
”تم اور تمہارا Information saurced” شزا نے ناک سے مکھی اڑائی۔
”چلو اب… سر ہماری راہ دیکھ رہے ہوں گے۔” زویا نے چبا چبا کر غصیلے انداز میں کہا۔ اس کے انداز پر شزا اور نور کی ہنسی چھوٹ گئی۔ تینوں ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔
٭…٭…٭
تم ابھی تک جاگ رہی ہو۔” اس اچانک چنگھاڑ پر شزا کے ہاتھ سے موبائل گرتے گرتے بچا۔
”افوہ بجو ڈرا ہی دیا آپ نے۔” شزا نے سینے پر ہاتھ رکھا۔
”شزا شرم کرو صبح کے تین بج رہے ہیں۔ ہر وقت منہ اٹھا کر اس موبائل میں گھسی رہتی ہو اور کوئی کام نہیں تمہیں۔”
شرمین نے اپنا تکیہ سیدھا کرتے ہوئے آڑھے ہاتھوں لیا۔ وہ واش روم جانے کے لیے اُٹھی تھی۔ جب اس نے شزا کو موبائل کے ساتھ مصروف دیکھا۔
”اچھا… سونے لگی ہوں۔” شزا نے کروٹ بدلی اور موبائل کی برائٹ نس کم کردی۔ مبادا شرمین پھر سے شروع ہو جائے۔
”شہزاد بھائی…” شزا نے فون لاک کرتے کرتے کہیں نام پڑھا اور اس کے نام پر کلک کرکے پروفائل کھول لیا۔
٭…٭…٭