لیکھ — عطیہ خالد

رستم نے مختار کو گھر سنبھالنے پر اکسانا شروع کیا اور اس کی مدد کے لیے کل وقتی ملازمہ کا بندوبست کردیا ۔جانور سنبھالنے کے لیے بھی ایک کے بجائے دو کامے کردیے۔ کچھ ہی عرصے میں اس نے گھر کو شہری بنگلہ بنادیا۔شہرآنے جانے کے لیے گاڑی خرید لی ۔اب وہ اکثر شام کو مختار کو گھمانے شہر لے جاتا۔ ادھر وہ روانہ ہوتے ادھر سوہنی ان کی حفظ وامان سے واپسی کے لیے منتیں مانگتی اور سوہنی کی اماں کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے، لیکن وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔
تین سال گزر گئے۔ سوہنی نے آنے والے ہر رشتے کو موڑ دیا۔اس کی چاہ کھوٹی نہیں تھی ۔وہ اپنے اجلے من پر جس میں اس کا رستم بستا تھا کسی دوسرے کی پرچھائی بھی نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔
اور ان تین سالوں میں مختار کی گود سونی رہی اور یہی بات سوہنی کی اماں کے دل میں امید کو جلا دے رہی تھی۔نجانے سوہنی کی طلب اتنی شدید تھی یا مختار کے بخت ہی ماٹھے تھے جو شہر کی بڑی ڈاکٹر نے مختار کے چیک اپ کے بعد مکمل مایوسی کا پروانہ تھما دیا ۔اس کے حساب سے کوئی معجزہ ہی مختار کی گود بھر سکتا تھا ورنہ اس کے ماں بننے کی کوئی امید نہیں تھی۔یہ خبر سنتے ہی مختار نے رستم کو دوسری شادی کے لیے منا نا شروع کر دیا۔وہ اپنے رستم کی نسل بڑھتی پھولتی دیکھنے کے لیے رستم سے کہیں زیادہ بے قرار تھی۔وہ اپنی کوششوں میں سوہنی کو شامل نہ کرتی یہ کیسے ممکن تھا۔ اس نے ساری بات سوہنی کو بتا کر رستم کے لیے لڑکی ڈھونڈنے کی ذمہ داری سوہنی کے سپرد کردی۔ سوہنی کی تو رات کی نیندیں اور دن کا سکون اڑ گیا۔ وہ ہر پل سوچتی کہ مختار کو کیسے کہے کہ اس نے لڑکی تو کب سے ڈھونڈ رکھی ہے رستم کے لیے کہ ایک دن مختار نے خود ہی سوہنی کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
”میرے رستم علی سے شادی کرلو سوہنی ۔تمھیں میری محبت کا میری دوستی کا واسطہ۔ میری خالی جھولی میں اپنی ہاں کا قیمتی موتی ڈال دو۔”
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟”سوہنی تڑپ کے بولی۔
”کیوں نہیں ہو سکتا۔ رستم آج نہیں تو کل اولاد کی چاہ میں شادی کرے گا ہی کرے گا۔آنے والی نجانے کیسی ہو سوہنی۔ تمہیں میری محبت کا واسطہ میرے رستم کے لیے ہاں کہہ دو۔ مجھ پر یہ احسان کردو۔”





”میں ایسی بات خود سے کیسے کہہ سکتی ہوں ۔یہ کام تو اماں کا ہے۔”سوہنی نے اپنے اڑتے ہوئے دل پر نجانے کیسے قابو کرکے مختار کو جواب دیا۔مختار نے فٹ اندر کمرے میں جا کر اماں کے آگے جھولی پھیلا دی ۔اماں کو تو شادیء مرگ ہوگیا جیسے ۔انہوں نے مختار کو گلے لگا کر اقرار کر لیا جس گھڑی کا وہ برسوں سے انتظار کر رہی تھیں وہ ساعت آج ان کی خوش بختی کا پیام لیے ان کی دہلیز پر آن کھڑی تھی۔بس مختار نے تو ‘ہاں ‘ سنتے ہی ہتھیلی پر سرسوں جما دی اور تیسرے دن سوہنی کا نکاح رستم سے کروا کر اسے اپنے گھر لے گئی۔دونوں ہی بے تحاشا خوش تھیں اپنی اپنی آرزوکے پورا ہونے پر… لیکن سوہنی کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہنہ تھا۔ وہ تو خوشی سے دیوانی ہوئی پڑی تھی۔رستم علی خوش تھا لیکن اس کی خوشی کی وجہ مختار کی خوشی تھی۔وہ مختار سے ایسی محبت کرتا تھا کہ اس کے دل کا ہر گوشہ کونہ مختار کے لیے تھا۔ زندگی میں تو سوہنی مصلحتاً آن بسی تھی مگر فی الحال دل میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، لیکن وہ بڑے انصاف سے دونوں سے حسن سلوک کر رہا تھا۔
ابھی شادی کو مہینہ ہی ہوا تھا کہ کھانا لگاتی مختار چکر کھا کر گر پڑی۔ جس معجزے کی رونمائی سے دنیا وی طبیبوں کو انکار تھا وہ رونما ہو گیا تھا ۔مختار ماں بننے والی تھی۔ ابھی اس نے اور رستم علی نے اس خبر پر پوری طرح یقین نہیں کیا تھا کہ سوہنی کے حوالے سے بھی خوشخبری مل گئی۔ رستم علی کے تو پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ ایک ساتھ دو دو خوشخبریاں۔ دفتر سے واپسی پر وہ پھلوں ،دودھ اور ٹانک کے ڈبوں سے لدا پھنداا تا اور پھر اصرار کر کر کے اپنے ہاتھوں سے دونوں کو کھلاتا۔ بڑے ارمانوں سے وہ دونوں کا خیال رکھ رہا تھا۔
اس کا انصاف ،اس کی محبت اور اس کا انتہائی اچھا برتاؤ بھی سوہنی کی ماں کو مطمئن نہیں کر پا رہا تھا۔ اسے لگتا کہ اس گھر میں مختار اور اس کے بچے کی جو حیثیت ہوگی وہ کبھی بھی سوہنی کی یا اس کے بچے کی نہیں ہوگی۔وہ ماں بیٹی جب بھی اکیلی ہوتیں اماں اپنے اندیشوں کا اظہار کرتی، لیکن سوہنی بے زار ی کا اظہار کرتی اور اسے یقین دلاتی کہ رستم اور مختار دونوں اس سے بہت محبت کرتے ہیں اور اس کی گھر میں پکی جگہ ہے ۔اماں کو فضول فکریں پالنے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن اس کی اماں کا ذہن مختار کا کانٹا نکال پھینکنے کی ترکیبیں سوچنے میں جتا رہتا ۔
دونوں کا وقت پورا ہو گیا تھا۔ رستم دونوں کو چیک اپ کے لیے شہر لایا ہوا تھا۔مختار کے لیے تو ڈاکٹر نے اسی روز آپریشن تجویز کیا تھا جب کہ سوہنی کو کچھ دن انتظار کرنے کو کہا۔ شام تک مختار ایک گل گوتھنے شہزادے کی ماں بن چکی تھی۔ رستم بے تحاشا خوش تھا۔ ابھی وہ ہسپتال ہی میں تھی کہ سوہنی کو بھی قدرت نے ایک پیارے سے بیٹے کی ماں بنا دیا۔ رستم نے سارے اسپتال میں مٹھائی بٹوائی۔ گھر میں تو کئی روز حلوائی بٹھائے رکھا۔ بے شمار صدقہ وخیرات کر کے وہ دونوں بیویوں اور بیٹوں کو گھر لے آیا۔ مختار کو پرسوت کا بخار آرہا تھا۔ وہ کوئی چیز بھی کھانے کو تیار نہ ہوتی۔ اسے سب کچھ کڑوا لگتا تھا۔ مگر سوہنی کی اماں بار بار اصرار سے اسے کچھ نہ کچھ کھلاتی رہتی۔رستم ان کا بہت ممنون تھا۔
یہ بچوں کی پیدائش کا ساتواں دن تھا جو رستم نے دونوں کا عقیقہ کرکے سارے گاؤں کی دعوت کردی۔رات گئے دعوت سے فارغ ہو کر اندر آیا تو سوہنی کی اماں نے بتایا کہ مختار نے کچھ بھی نہیں کھایا۔اب اس نے اس کے لیے ہلدی والا دودھ گرم کیا تھا اور اسے پلانے پراصرار کر رہی تھی۔مختار کا دل اس قدر متلا رہا تھا کہ انکار کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔جب کہ اماں مسلسل اس کو قسمیں دیے جارہی تھی۔
”لا اِدھر دے اماں مجھے گلاس میں خود پلا دوں گی اپنی مختار کو۔” سوہنی نے بڑھ کر گلاس اماں سے پکڑ لیا۔اماں مطمئن ہو کر بچوں کے پنگھوڑے کی طرف چلی گئی تو بخار سے بے حال مختار دودھ کا گلاس دیکھ کر رو پڑی۔ سوہنی نے اسے آنکھ سے اشارہ کیا اور اماں کے منہ پھیرنے سے پہلے پہلے دودھ کا گلاس اپنے منہ سے لگا لیا۔
”لے اماں پی لیا ہے دودھ مختار نے۔” سوہنی نے خالی گلا س اماں کی طرف بڑھایا ۔دن بھر کی دعوت کی وجہ سے سب ہی تھک کر گہری نیند سوگئے۔ صبح سب ہی اٹھ گئے ،لیکن سوہنی نہ اٹھی۔ مختار کی چیخیں، رستم کی پکار،اماں کے بین کچھ بھی تو اسے نہ اٹھا سکے۔ وہ رات کسی پہر اپنے ابدی سفر پر روانہ ہو چکی تھی۔ اماں کو ہی بہت شوق تھا سوہنی کے لیکھوں میں رنگ بھرنے کا۔ ارادہ تو بہت پرانا تھا لیکن موقع اب آیا تھا۔ پرسوت کے بخارمیں اکثر مر ہی جایا کرتی ہیں عورتیں۔ اماں نے بہت سوچ کے ہلدی ملے دودھ میں زہر ملایا تھا۔ اسے دودھ رات کو مختار کو پلانا تھا اور سوہنی کا لیکھ بدل جانا تھا۔ پل بھر میں سب اس کا ہوتا۔ اس اکیلی کا۔ گھر بار، زیور کپڑا اور سب سے بڑھ کر رستم علی۔ پورے کا پورا سوہنی کا۔
اماں کو اب اپنے لیکھ کا سفر پورا کرنا تھا ۔سیاہی ہی سیاہی یہاں سے وہاں تک۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

خود غرض — ماہ وش طالب

Read Next

سراغِ زندگی — خدیجہ شہوار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!