”قسط نمبر5)”چنبیلی کے پھول )

”تمہیں کس سے گلہ ہے رانیہ؟”
انہوں نے اس کی آنکھوں کے خالی پن کو دیکھ کر پوچھا۔
”گلہ؟”

رانیہ نے سرجھٹک کر اپنی آنکھ کا کنارہ صاف کیا… روشنی نے تسلی دینے والے انداز میں اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”رانیہ! ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ ہم ناراضگیوں کو دل میں رکھ کر فاصلوں کوبڑھا دیتے ہیں، بعض دفعہ ہم اپنے گھر والوں پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ہمیں یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ہم اپنے بڑوں سے بہتر فیصلے کرسکتے ہیں۔ یہ خوش گمانی اور غرور ہمیں اپنے بزرگوں سے بدطن کردیتا ہے۔ قربانیاں دے کر سمجھتے ہیں شاید ہم نے اپنی فیملی پر کوئی احسان کیا ہے۔ گلے شکوے دوریوں کو بڑھاتے جاتے ہیں۔ تم ان فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کرو۔ فاصلے رشتوں کی خوبصورتی ختم کردیتے ہیں۔ اپنے کمرے سے باہر نکلو، سب کے ساتھ ہنسا بولا کرو، تم دوبارہ تھیٹر جانا شروع کردو…”
انہوں نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”تھیٹر میں ایک آدمی مجھے تنگ کرتا ہے۔”
رانیہ نے دھیمی انداز میں کہا۔ وہ یہ بات صرف روشنی کے ساتھ ہی شیئر کرسکتی تھی۔
وہ اس انکشاف پر بری طرح چونک گئیں۔
”کون ہے وہ آدمی؟ اس کی اتنی جرأت کیسے ہوگئی! تم اس کی شکایت کردو۔”
انہیں اس اجنبی آدمی پر بہت غصہ آیا۔
”کسی سے شکایت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔”
رانیہ نے آہ بھر کر ملول سے انداز میں کہا۔
”جیمو بھائی کو بتائو وہ تمہارے ساتھ جاکر اس آدمی کا دماغ درست کردیں گے۔”
انہوں نے اپنی طرف سے اسے بہترین مشورہ دیا۔
رانیہ چند لمحے ان کی طرف دیکھتی رہی۔
”اس آدمی کا نام زوار آفندی ہے۔”
کچھ دیر بعد اس نے سپاٹ انداز میں گویا انکشاف کیا۔ روشنی حیران پریشان رہ گئیں۔
”ارے زوار ایسا لڑکا نہیں ہے، ضرور تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔”
وہ حواس باختہ سے انداز میں بولیں۔
رانیہ نے عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھا۔
”اگر میں یہ بات جیمو ماموں کو بتاتی تو وہ بھی مجھے یہی جواب دیتے۔”
اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔
”وہ کیوں تمہیں تنگ کرے گا ! وہ کوئی آوارہ یا سڑک چھاپ لڑکا تو نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ اور سلجھا ہوا لڑکا ہے۔ ادب آداب سے واقف ہے۔ سب کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہے۔ کتنی ہی بار تو وہ تمہارے گھر بھی آچکا ہے۔”
روشنی نے الجھ کر کہا۔
”وہ اس گھر میں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے۔ اسے لوگوں کو ہپناٹائز کرنا آتا ہے۔ لوگ اس کی شخصیت سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اور وہ اسی بات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اپنے پیسے کے بل بوتے پر وہ میرے گھر والوں کے ساتھ رابطے بڑھا رہا ہے۔ ان کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کررہا ہے۔”
رانیہ نے تلخی سے کہا۔ یوںظاہر ہوتا ہے جیسے اسے زوار سے بڑی شکایتیں ہیں۔ روشنی کی حیرت میں دوچند اضافہ ہوا۔
”مگر وہ ایسا کیوں کررہا ہے؟”
وہ حیرانی سے بولیں۔ رانیہ کی باتوں نے انہیں خوفزدہ کردیا تھا۔ رانیہ نے ان کی آنکھوں میں جھانکا۔
”کیونکہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔”
اس نے غیر معمولی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔ روشنی چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گئیں۔ پھر وہ جیسے ساری بات سمجھ گئیں۔
”دیکھو رانیہ تمہیں کسی نہ کسی سے تو شادی کرنی ہی ہے نا تو پھر زوار کیوں نہیں؟ وہ اچھا لڑکا ہے۔ امیر اور تعلیم یافتہ ہے۔ کیا کمی ہے اس میں؟”
انہوں نے نرمی سے کہا۔
”مجھے وہ پسند نہیں ہے۔ آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔ وہ ایک ظالم اور سنگدل آدمی ہے۔”
رانیہ نے تلخ لہجے میں کہا۔ روشنی متحیر رہ گئیں۔
”ظالم؟… سگندل؟… کس کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ اُس نے ؟”
انہیں اس کی بات پر یقین ہی نہ آیا۔
”اپنی فیملی کے ساتھ۔”
رانیہ کے جواب نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔
”کیا مطلب؟ مجھے پوری بات بتائو رانیہ۔”
وہ الجھ کر بولیں۔ یہ کیسا جگساپزل تھا۔
”یہ ایک لمبی کہانی ہے۔”
رانیہ نے مدھم مگر سنجیدہ آواز میں کہا۔
”مجھے سنائو۔”
وہ فرصت سے بیٹھ گئیں او ربرقع اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔
رانیہ کچھ دیر سوچتی رہی۔ پھر اس نے ڈرامائی انداز میں بات شروع کی۔
‘ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کالج میں ایک لڑکی پڑھتی تھی، دور دور تک اس کے حسن کے چرچے تھے اور اس کا نام ناصرہ تسکین تھا۔”
روشنی متجسس انداز میں بہت غور سے یہ کہانی سن رہی تھی۔
٭…٭…٭
برف باری کا موسم شروع ہوگیا تھا۔ تاحد نگاہ برف ہی برف دکھائی دیتی۔ درخت، پودے، زمین سب برف اوڑھے نظر آتے۔
ناصرہ کھڑکی کے پاس بیٹھی تھیں۔ ٹانگوں پر گرم کمبل ڈالا ہوا تھا۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ وہ کھڑکی سے دور تلک نظر آتی برف کو دیکھ رہی تھیں اور اداس بھی تھیں۔
سارہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔ پھر وہ ایک ہاتھ میں کافی کا کپ تھامے اور دوسرے ہاتھ میں وانسٹ بریڈ لئے لائونج میں آئی۔
”ممی! کافی پی لیں۔ میںنے آپ کے لئے گارلک بریڈ بھی بیک کی ہے۔”
اُس نے میز پر بھاپ اڑاتا کافی کا کپ اورگارلک بریڈ کی پلیٹ رکھی۔
”کھانے میں کیا بنارہی ہو؟”
ممی نے پوچھا۔
”چاول اور مکس سبزیاں۔”
سارہ نے جواب دیا۔
اس نے اپنے لباس کے اوپر نیلے رنگ کا ایپرن پہنا ہوا تھا۔ جس پر جابجا داغ لگے ہوئے تھے۔ وہ ایک ٹین ایجر لڑکی تھی مگر حالات نے اُسے وقت سے پہلے ہی سمجھدار اور ذمہ دار بنا دیا تھا۔ وہ محنت اور مشقت کی عادی ہوگئی تھی۔
”یہ گارلک بریڈ تو بہت ہی لذیذ ہے۔”
ممی نے بریڈ کھاتے ہوئے تعریف کی۔ سارہ خو ش ہوگئی۔
ممی تو زیادہ باتیں بھی نہیں کرتی تھیں اور آج تو انہوں نے سارہ کی تعریف کی تھی۔ سارہ کا استاد انٹرنیٹ بھی تھا جس سے اس نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔
”کل عشنا کے لئے بھی لے جائوں گی اسے بھی یہ بہت پسند ہے۔”
سارہ نے بے ساختہ کہا۔
”ہاں ضرور لے جانا۔ تمہاری دوست بہت اچھی ہے۔ پاکستان سے تمہارے لئے بہت سارے تحفے بھی لے کر آئی تھی۔ اچھے لوگ قسمت سے ہی ملتے ہیں۔ ان کی قدر کرنی چاہیے۔”
انہوں نے کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا پھر وہ کھڑکی سے نظر آتی برف کو دیکھتے ہوئے خاموش ہوگئیں۔ برف کا موسم انہیں اداس کردیتا تھا۔
یکا یک باہر ڈور بیل بجی۔
”اس وقت کون آگیا!”
سارہ حیران ہوئی۔

پھر اگلے ہی پل وہ اطمینان سے اٹھی۔
”عشنا ہوگی۔ اسے ہی لوگوں کو سرپرائز دینے کا شوق ہے۔”
وہ کہتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھی۔
اس نے دروازہ کھولا۔ کوئی سامنے کھڑا تھا۔ سیاہ لانگ کوٹ اور سیاہ لانگ شوز پہنے ہوئے، سر پر برائون رنگ کا ہیٹ تھا۔ آنے والا دراز قد تھا۔ اس کے کوٹ پر جابجا برف گری ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا سوٹ کیس تھا جیسے کسی سفر سے آیا ہو۔ دروازے کی طرف اس کی پشت تھی۔
“Who is this?”
سارہ نے اچھنبے سے پوچھا۔
آنے والا پلٹا، اس نے ذرا ساہیٹ اونچا کیا۔ سارہ کے سامنے گویا زمین و آسمان گھوم گئے۔
آنے والا سنجیدہ تھا مگر اُسے دیکھ کر مدھم انداز میں مسکرایا۔
سارہ چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گئی۔ اس کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں۔
وہ ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑا تھا۔
پھر اُس کی نظر سارہ کے ایپرن پر پڑی جس پر جابجا داغ لگے ہوئے تھے۔ اس کے بال گھونسلے کی صورت میں جوڑے میں بندھے تھے۔ جن پر آٹے کے ذرات نظر آرہے تھے۔ شاید وہ کچن میں کام کررہی تھی۔ اس عمر میں اتنا کام… زوار کے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔ وہ اُسے کئی سالوں بعد دیکھ رہا تھا۔ یوں لگا کئی زمانوں بعد دیکھ رہا ہے۔
وہ دم بخود انداز میں کھڑی زوار کو دیکھ رہی تھی۔ کیا وہ واقعی برسوں بعد، سات سمندر پار کرکے وہاں آگیا تھا… اور اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ کیا یہ حقیقت تھی یا کوئی خواب تھا!
”سارہ!”
زوار کی سنجیدہ مدھم اور گھمبیر آواز گونجی۔
سارہ جیسے ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔ کیا عشنا نے واقعی اُسے سرپرائز دیا تھا… یا پھر یہ اُس کے پاکستانی گروپ کا کارنامہ تھا… وہ سمجھ نہ پائی۔
”ممی… ممی…”
وہ نم آنکھوں ، کانپتے ہونٹوں اور پرجوش آواز کے ساتھ چیخیں مارتے ہوئے اندر کی طرف بھاگی۔
”کیا ہوگیا سارہ؟ باہر کون آیا ہے؟”
ممی حواس باختہ ہوگئیں۔
”ممی… زوار بھائی آگئے۔”
وہ آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر مسکراہٹ لئے پرجوش آواز میں کہہ رہی تھی۔
ممی کو لگا کہ وہ مذاق کررہی ہے یا اُس کا دماغ چل گیا ہے۔ اتنے سالوں بعد بھلا زوار وہاں کیسے آسکتا ہے۔
وہ حیرت اور بے یقینی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”ممی!”
یہ آواز تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھیں۔ اس آواز میں تو ان کے دل کی دھڑکن قید تھی۔ اس آواز کے سراب نے انہیں برسوں بے خواب کئے رکھا تھا۔
وہ اپنی جگہ پر منجمد ہوگئیں۔
و ہ اب لائونج میں داخل ہورہا تھا۔ اونچا لمبا وجیہہ اور شاندار … اس نے اپنے لانگ کوٹ پر سے برف جھاتے ہوئے ہیٹ اتارا۔
کتنا وقت بیت چکا تھا۔ کتنے سال، کتنے مہینے، کتنے لمحے… یہ تو کوئی ماں کے دل سے پوچھتا۔
”زوار ! میرا بیٹا۔”
وہ خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور ہچکیوں سے روپڑیں۔
زوار نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لیا۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

Read Next

چنبیلی کے پھول6 :قسط نمبر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!