”قسط نمبر5)”چنبیلی کے پھول )


ماموں کہہ کرچلے گئے۔ وہ سن بیٹھی رہ گئی۔ کیا وہ فارس کی کورٹ میرج والی بارت کے بارے میں جان چکے تھے۔ مگر انہیں اس بارے میں کیسے پتا چلا ۔یہ بات تو صرف اس کے اور فارس کے درمیان ہی ہوئی تھی۔ کیا یہ صرف ان کا اندازہ تھا یا وہ فارس کو اتنا جانتے تھے۔
وہ کتنی دیر اسی طرح بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔
محبت، قربانی، عزت… اس کا ذہن اسی تکون میں گم ہوگیا ۔ وہ ساری رات نہیں سوپائی۔
صبح اس کی آنکھ نو بجے سے پہلے ہی کھل گئی مگر وہ اپنے بستر سے نہیں اُٹھی۔ وہ گھڑی کی ٹک ٹک سنتی رہی۔
پونے نو بجے فارس کا فون آیا۔
پہلی بار وہ اس کے فون سے خوفزدہ ہوئی تھی۔
”باہر آجائو… میں تمہارا انتظار کررہا ہوں۔”
وہ حکمیہ انداز میں بولا۔
وہ بول ہی نہیں پائی۔
”رانیہ! تم میری بات سن رہی ہو؟”
فارس نے جھنجھلا کرکہا۔
”میں نہیں آسکتی ہوں۔”
اس نے کانپتے ہونٹوں کے ساتھ بمشکل یہ جملہ کہا۔
”ہمت کرو رانیہ… باہر آئو… یہ میری اور تمہاری زندگی کا، ہماری خوشیوں کا سوال ہے۔ کم آن، یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔”
وہ اُسے بہکا رہا تھا۔
رانیہ نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
”میں کورٹ میرج نہیں کرسکتی فارس۔ ابھی میری بہن کی شادی ہونی ہے۔ پھر میری کزن کی باری آئے گی۔ میری فیملی اس صدمے کو برداشت نہیں کرسکے گی، انہوں نے پہلے ہی بہت دکھ جھیلے ہیں۔ میری امی ہائپرٹینشن کی مریض ہیں، خدانخواستہ کہیں انہیں، کچھ نہ ہوجائے۔ میرے ماموں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ میرا ہم عمر کزن اپنے ہم عمر لڑکوں سے نظر ملا کر بات نہیں کرسکے گا… نہیں فارس میں اتنے لوگوں کو دکھ نہیں دے سکتی۔”
اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
بعض فیصلے بہت مشکل ہوتے ہیں۔ دل پر پتھر رکھ کر کرنے پڑتے ہیں۔
”رانیہ… میری بات سنو۔”
فارس نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں کہا۔
مگر رانیہ نے موبائل آف کرکے رکھ دیا۔
اس نے فارس کو مایوس کردیا تھا۔ مگر محبوب کو مایوس کرکے انسان خود بھی دکھ کے گرداب سے نکل نہیں پاتا۔
٭…٭…٭
عشنا کینیڈ اجاتے ہوئے بڑی اداس تھی۔ اس کا دل یہاں لگ گیا تھا۔ گھر والوں نے ا س کے لئے فیئر ویل ڈنر کا اہتمام کیا۔ جیمو ماموں اور عنایا نے صحن میں باربی کیو کا انتظام کیا۔ امی نے بریانی بنائی۔ عقیل ماموں اور عطیہ ویزے اور پاسپورٹ کے کسی کا م کی وجہ سے آنہیں سکے۔
جیمو ماموں نے زوار کو بھی فون کرکے بلالیا۔ سب لوگ صحن میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ باربی کیو کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی تھی۔
دیوار کے پار بیٹھے ہمسائے نے اُس پار سے آتے شور کو سن کر سوچا۔
”ان لوگوں کو چین نہیں ہے۔ آئے دن دعوتیں کرتے رہتے ہیں۔ کام کاج کوئی ہے نہیں انہیں… فارغ لوگ لگتے ہیں۔”
چاندنی رات تھی۔ ہر طرف پھیلی چاندنی میں مدھم سے اجالے تھے۔ ماموں اپنی بانسری لے آئے اور اُسے بجانے لگے۔ ایسی مدھر اور خوبصورت تان کہ سننے والا بے اختیار سر دھنسنے پر مجبور ہوجاتا۔
دیوار کے پار بیٹھا ہمسایہ بھی چونک گیا۔
”کبھی ستار… کبھی بانسری … کوئی موسیقارقسم کے صاحب لگتے ہیں… ویسے لوگ دلچسپ ہیں۔”
پہلی بار اس نے ذرا مثبت انداز میں ان لوگوں کے بارے میں سوچا۔
ساتھ والے گھر سے برابر آوازیں آرہی تھیں۔
”باربی کیو اورد میوزک … واہ … واہ…”
عشنا نے پرشوق انداز میں بانسری سنتے ہوئے شوخی سے کہا۔
”یہ صرف جیمو ماموں کا ہی کمال ہے۔”
عنایا نے تکے کباب سیخوں سے پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”اور یہ بڑے بڑے کمالات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔”
ٹیپو کو ئلے سلگاتے ہوئے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
زوار کرسی پر بیٹھا مسکراتے ہوئے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
”ویسے جیمو ماموں کون سے سن میں ریٹائر ہوئے تھے؟”
اس نے مسکرا کر پوچھا۔
”سن تو ہمیں یاد نہیں مگر یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔”
عنایا نے ہنستے ہوئے کہا۔
جیمو ماموں بانسری بجانے میں مگن تھے۔
ہمسائے نے بھی بے اختیار انہیں سراہا۔

”یہ جیمو ماموں بڑی دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ یہاں ہر بندہ انہیں جانتا ہے اور میں ان کا ہمسایہ ہوکر بھی ان سے ناواقف ہوں۔”
اس نے دل میں سوچا۔
دیوار کے پاس دست کاری کا کچھ سامان رکھا تھا جو عنایا کی این جی او کی طرف سے آیا تھا۔
”آپ آج یہ سارے Handicrafts لے جائیں گے؟”
اس نے زوار سے پوچھا۔
”جی ہاں… اور ان کی payment میں آپ کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کردوں گا۔”
وہ مسکرا کر بولا۔
عنایا خوش ہوگئی۔
زوار آفندی ایک غیر معمولی آدمی تھا۔ اسے رانیہ کی بے وقوفی پر غصہ آیا جو ابھی تک اپنی منگنی ٹوٹنے کا سوگ منارہی تھی۔ فارس جیسے کم ظر ف انسان کی یاد میں آہیں بھر رہی تھی۔
”اصل میں، تھر کی ہنر مند اور غریب عورتوں کے لئے میں کچھ کرنا چاہتی ہوں تاکہ وہ صحرا میں بھی خوشحال زندگی گزار سکیں… ان Handicrafts کی آمدنی ہم ان عورتوں کو بھجوادیتے ہیں۔ یہ آمدنی صرف ان کی ضروریات ہی پوری نہیں کرتی بلکہ ان کے لئے امید کی کرن بھی روشن کرتی ہے کہ ان کے دن بھی بدل سکتے ہیں۔ خوشحالی پراُن کا بھی حق ہے اور اُن کے ہاتھ کا ہنر بھی قیمتی ہے۔”
عنایا نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”آپ ایک بہت اچھا کام کررہی ہیں عنایا۔ میں آپ کا ہر نیا اسٹاک خریدنے کے لئے تیار ہوں۔ اچھے causeکے لئے کئے جانے والے کاموں میں برکت ہوتی ہے۔ صحرا میں رہنے والے لوگ بہت ٹیلنٹڈ ہوتے ہیں۔”
وہ مسکرا کر بولا۔
”پھر آپ ان Handicrafts کو ایکسپورٹ کردیں گے؟”
ثمن نے پوچھا۔
”ہاں، یہ اسی نام ، اسی لیبل کے ساتھ ایکسپورٹ کئے جائیں گے۔ Handicrafts from thar, Pakistan تاکہ دنیا کو بھی پتا چلے کہ یہ ہنر مندی دراصل کن ہاتھوں کا کمال ہے۔ میں خود بھی اس سلسلے میں کچھ دنوں کے لئے باہر جارہا ہوں۔”
زوار نے کہا۔
”کہاں؟”
عشنا نے بے ساختہ پوچھا۔
”دبئی۔”
اس نے جواباً کہا۔
ہمسایہ یہ باتیں غور سے سن رہا تھا۔
”یہ آدمی تو کوئی بہت بڑا بزنس مین ہے۔ ان کے گیٹ کے باہر جو مرسیڈیز کھڑی ہوتی ہے وہ بھی اسی کی ہوگی۔ اتنے امیر کبیر آدمی کا بھلا یہاں کیا کام!”
اس نے سنجیدگی سے سوچا۔
پھر اس نے ثمن کو سادگی سے کہتے سنا۔
”آپ بہت اچھے اور نیک انسان ہیں۔”
اس تعریف پر زوار کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ اس کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔
”نہیں… میں بالکل اچھا اور نیک انسان نہیں ہوں۔”
اس کی آواز میں سنجیدگی در آئی۔
عشنا اور عنایا نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔ عشنا زوار کے ماضی کے متعلق عنایا اور ثمن کو بتا چکی تھی۔
”اپنے آپ کو اچھا اور نیک کہنے والے لوگ مغرور اور متکبر ہوتے ہیں۔ جو لوگ عاجزی سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرلیں ۔ وہی اچھے اور بھلے لوگ ہوتے ہیں۔”
عنایا فلسفیانہ انداز میں بولی۔
”بالکل، ایسا ہی ہے۔”
عشنا اور ثمن نے بھی تائیدی انداز میں سرہلایا۔ زوار مسکرا دیا پھر اس نے گھر کے داخلی دروازے کی طرف دیکھا۔
”آپ کے باقی گھر والے کہاں ہیں؟ نظر نہیں آرہے؟”
وہ معنی خیز انداز میں بولا۔
تینوں لڑکیاں اس کا مطلب سمجھ کر کھلکھلا کر ہنس دیں۔
دیوار کے اس پار بیٹھے ہمسائے نے بے اختیار جھرجھری لی۔
”اُف ان لڑکیوں کی ہنسی کتنی خوفناک ہے۔ ہنستی ہیں تو دل دہلادیتی ہیں۔”
وہ ان لڑکیوں کی آوازیں بخوبی پہچانتا تھا۔
”میں رانیہ باجی کو لے کر آتی ہوں۔”
عشنا فوراً اندر کی طرف بھاگی۔
عشنا زبردستی رانیہ کو ا سکے کمرے سے کھینچ کر باہر لے آئی۔
صحن میں آتے ساتھ ہی رانیہ کا موڈ آف ہوگیا۔
چنبیلی کے پھولوں کے پاس پڑی کرسی پر بڑی شان اور وقار کے ساتھ زوار بیٹھا تھا۔ اس کی وجاہت باکمال تھی اور اس کی شخصیت کی کشش سامنے والے کو کچھ دیر کے لئے ساکت کردیتی تھی۔
وہ رانیہ کو دیکھ کر مسکرایا۔ بالاآخر وہ نظر آہی گئی تھی۔ اسے یوں لگا جیسے چاندنی رات کے اجالے نکھر گئے ہوں۔
”میری منگنی ٹوٹ گئی اور یہاں دعوتیں ہورہی ہیں۔ کسی کو میرے دکھ کا احساس نہیں ہے۔”
رانیہ نے مدھم اور اداس آواز میں شکوہ کیا۔
”جیمو ماموں کا خیال ہے کہ اس طرح آپ کا دل بہلے گا اور منگنی ختم ہونا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے کہ بندہ اس غم کا سوگ ہی مناتا رہے۔ اور یہ کوئی اتنی بڑی دعوت تو ہے نہیں۔ میں واپس کینیڈا جارہی ہوں۔ اسی لئے سب لوگوں نے باربی کیو کا اہتمام کیا ہے۔”
عشنا نے دھیمی آواز میں کہا۔
”زوار یہاں کیوں آیا ہے؟”
اس نے عشنا کی وضاحت نظر انداز کرکے تنفر سے پوچھا۔
”ارے وہ تو مہمان ہے اور عنایا باجی کے Handicraftsکے سلسلے میں آیا ہے۔ سارے خرید لئے ہیں اُ س نے۔”
عشنا نے بات بناتے ہوئے کہا۔
رانیہ دیوار کے ساتھ پڑی دست کاری کی سب چیزیں دیکھ چکی تھی۔ اس نے سوچا کہ اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے بھلا وہ کیوں عنایا کا نقصان کرے۔ اس لئے وہ خاموش ہوگئی۔
”آئیں نا… چلیں … اگر آپ زوار کو avoid کریں گی تو سب لوگ مشکوک ہوجائیں گے کہ نجانے کیا بات ہے جو آپ اُسے اگنور کررہی ہیں۔ آپ نارمل رہیں۔”
عشنا کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر سب کے پاس لے گئی۔ ثمن نے اس کے لئے کرسی آگے کی۔
وہ خاموشی سے بیٹھ گئی مگر اس نے زوار سے کوئی بات نہیں کی۔
کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں ۔ پھر ماموں کاکوئی فون آگیا۔ وہ اندر چلے گئے۔ عنایا کچن میں چلی آئی۔ ٹیپو تکے کبابوں کی پلیٹ لے کر باہر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا۔
آہستہ آہستہ سب وہاں سے کھسک گئے۔
عنایا نے عشنا اور ثمن کو بھی کچن میں ہی بلالیا۔
زوار اور رانیہ صحن میں تنہا رہ گئے۔
رانیہ سمجھ نہیں پائی کہ اُن دونوں کو یہ موقع جان بوجھ کر دیا گیا تھا۔ وہ بھی اٹھ کر اندر جانے لگی تو زوار نے اُسے روک لیا۔
”اچھی لڑکیاں زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہتیں۔”
وہ اُسے دیکھتے ہوئے مسکراتی آواز میں بولا۔
رانیہ نے ناراض سی نظر اُس پر ڈالی۔
”میں صرف ا س لئے آپ کو اپنے گھر میں برداشت کررہی ہوں۔ کیونکہ میں عنایا کابزنس خراب نہیں کرنا چاہتی۔ آپ تو شغل میلے کے لئے یہاں آتے ہیں۔ مگر میری بہن غریب عورتوں کے لئے کام کررہی ہے۔ اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے میں اُس کا نقصان کیوں کروں۔”
رانیہ نے خفا سے انداز میں جتاتے ہوئے کہا۔
”کافی ہمدرد طبیعت پائی ہے آپ نے… تھوڑی سی ہمدردی مجھ سے بھی کرلیں۔”
وہ گہری آواز میں بولا۔

”کیوں مذاق کررہے ہیں؟ آپ کی وجہ سے مجھے تھیٹر بھی چھوڑنا پڑا۔”
وہ ناراض آواز میں بولی۔
”میری وجہ سے تھیٹر نہ چھوڑیں۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوگاکہ آپ مجھ سے خوفزدہ ہیں۔”
وہ اسے منانے کی کوشش کررہا تھا۔
”نفسیاتی مریضوں سے لوگ خوفزدہ ہو ہی جاتے ہیں۔”
اس نے خفا سے انداز میں کہا۔
وہ اس کی بات پر ہنس پڑا۔
”آ پ کو مجھ سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائوں گا۔”
اُس نے اُسے یقین دلاتے ہوئے کہا۔
”نقصان تو آپ مجھے پہنچا ہی چکے ہیں۔”
اُس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

Read Next

چنبیلی کے پھول6 :قسط نمبر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!