فصیح باری خان – گفتگو



٭ میں آپ کو نہیں بتاسکتی کہ مجھے بہت افسوس ہوا تھا تارِ عنکبوت میرا پسندیدہ ڈرامہ تھا جو اپنے موضوع کی وجہ سے بند کیا گیا۔

فصیح: مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم آج ڈراموں میں دکھا رہے ہیں کہ کُھلا پن چل رہا ہے، وہ سب جائز ہے لیکن آپ ٹاپک کی آزادی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آپ دیکھیں کہ میرے ڈراموں میں کبھی بھی کردار وں کے درمیان باڈی کیمسٹری بہت زیادہ نہیں ہوتی ہے، صرف موضوع ہوتے ہیں، ہر رائٹر کا اپنا ایک سٹائل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ سماجی مسائل پر لکھتے ہیں، کچھ گھریلو مسائل پر لکھتے ہیں۔ میں نے شروع سے ہی tabbos پر کام کیا ہے،میں نے جب صحافت بھی کی تو اس وقت بھی ان پر کام کیا۔

٭ آپ کو کیوں مخصوص کردیا گیا کہ فصیح صرف چند ہی topics پر لکھ سکتے ہیں؟ فصیح پر یہ الزام کیوں لگتا ہے کہ فصیح کی عورت آج بھی ویسی ہی ہے جیسی برنس روڈ کی نیلوفر تھی؟

فصیح: آپ اگر دیکھیں تو نئے ٹاپک تو ہوتے ہیں میرے ڈراموں میں، تارِ عنکبوت کا ٹاپک بالکل الگ تھا، ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ تنقید بہت ہورہی ہے لیکن تنقید تعمیری نہیں ہورہی، میرے کردار عام زندگی کے کردار ہوتے ہیں، اور میری حتی الامکان کوشش ہوتی ہے چاہے میرا پہلا سیریل ہو ”خالہ کلثوم کا کنبہ” یا پھر جو اب چل رہا ہے ”فالتو لڑکی” میرا ڈرامہ حقیقی زندگی سے قریب ہو، ٹھیک ہے اس میں ادبی رچاؤ بھی ہو۔ آپ ایک بات دیکھیں لوگوں نے قدوسی صاحب کی بیوہ پر بڑا اعتراض کیا تھا ، ہمارے یہاں ایک عورت اگر ڈرامے میں جوتے کھارہی ہو، شوہر سے پٹ رہی ہو تو لوگوں کو مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر ایک ڈرامہ میں عورت اپنے شوہر کو ہنٹر سے مار رہی ہو تو وہ لوگوں کو ہضم نہیں ہوتا۔

٭ یہ بات تو شایدہضم ہوگئی تھی، لیکن لوگوں کو شاید یہ بات ہضم نہیں ہوئی تھی کہ قدوسی صاحب کی بیوہ میں ایک ہی اداکارہ سے اتنے زیادہ کردار کروائے گئے تھے۔

فصیح: دیکھیں ان تجربات کو شاید آج نہ مانا جائے، دو سال بعد نہ ماناجائے لیکن دس سال بعد آپ کو نہیں پتا کہ یہ تجربات کہاں جائیں۔ لوگوں نے جب بھی تجربے کئے ہیں،اس وقت کے عہد میں نہیں مانے گئے اور میرا تجربہ قدوسی صاحب کی بیوہ میں کافی کامیاب رہا۔ جہاں تک آپ کی یہ بات ہے کہ میرے ڈراموں کی عورت ایک جیسی ہے تو میں نچلے متوسط طبقے کی عورت کو اگر portray کرتا ہوں تو وہ اس ہی طریقے سے کروں گا ۔ اب فالتو لڑکی جو میرا ڈرامہ ہے اس میں مضبوط عورتیں ہیں، لوگوں کو اس کے نام پر اعتراض ہے کہ جی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ لڑکی باعثِ رحمت ہوتی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں فالتو لڑکی، لوگ سمجھ نہیں رہے کہ جن کرداروں کو ہم اپنی زندگی میں غیر اہم اور فالتو سمجھتے ہیں وہ غیر اہم اور فالتو انسان کب اپنی اہمیت دکھاتا ہے،اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میرے ڈرامے کی عورت ہمیشہ مضبوط ہوتی ہے، وہ روتی ہوئی کبھی نہیں ہوتی ہے۔

٭ آپ کے حوالے سے یہ سنا گیا ہے کہ آپ اپنے سکرپٹ کے حوالے سے rigid ہیں، تبدیلی نہیں کرواتے اپنے سکرپٹ میں، اس کا آپ کو فائدہ ہوتا ہے؟ آپ کو نہیں لگتا کہ ڈائریکٹر کا بھی ایک opinion ہوتا ہے، اس کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے؟

فصیح: میں بالکل اپنے سکرپٹ میں تبدیلی نہیں کرواتا ،لیکن یہ بات نہیں ہے کہ میں دوسرے کے opinion کو بالکل اہمیت نہیں دیتا، بعض اوقات آپ کو compromises کرنے پڑتے ہیں جیسے آپ کو پتا چلتا ہے کہ فلاں آرٹسٹ چلی گئی ہے تو ڈائریکٹر آپ کو کہتا ہے کہ کچھ کردیں، تو وہ ظاہر سی بات ہے مجھے بھی اندازہ ہوتا ہے، میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ ہمارے یہاں رائٹرز سکرپٹ دیتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ میں اپنے ڈراموں میں شروع سے آخر تک بیٹھتا ہوں، اب تو خیر نہیں لیکن میں پہلے ایڈیٹنگ پر بھی بیٹھتا تھا۔ میرے زیادہ تر سیریلز مظہر معین نے کئے ہیں، اس کے پاس اور لوگوں کے سکرپٹ بھی آتے ہیں اور وہ پریشان ہوجاتا ہے۔لیکن میں ہمیشہ ٹیم ورک پر یقین کرتا ہوں،میںجب اپنا سکرپٹ خود لکھتا ہوں تو اس کو ایڈٹ بھی خود کرتا ہوں۔ لیکن مجھے ایک چیز سے چڑ ہے جو رائٹر کو یہاں پر منشی بنا دیا گیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس سے رائٹر نے اپنی self respect بھی گرائی ہے، اور اس میں رائٹر کا بھی قصور ہے۔میں کہتا ہوں کہ رزق دینے والی ذات اوپر بیٹھی ہے، مجھے زمینی خداؤں سے کبھی ڈر نہیں لگتا، اور اس کے باوجود الحمداللہ مجھے کام مل جاتا ہے۔ میں نے اپنی ایک پالیسی بنائی ہے، میں اپنا سکرپٹ دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ جی یہ میرا سکرپٹ ہے آپ کو کرنا ہے آپ کرلیں، نہیں کرنا تو آپ مجھے واپس دے دیں۔



٭ اس پالیسی کی وجہ سے کبھی کسی ڈائریکٹر سے جھگڑا تو نہیں ہوا؟

فصیح: کبھی نہیں ہوا۔میں نے شروعات میں مہرین جبار ، عاطف حسین کے ساتھ کام کیا، ان میں سے کسی نے میرے ساتھ مسئلہ پیدانہیں کیا حالاں کہ مہرین کے لئے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سکرپٹ میں کافی تبدیلیاں کرتی ہیں، انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ میں نے انہیں سکرپٹ دیا، ان سے پوچھا ٹھیک ہے انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے، میری ان سے صرف فو ن پر بات ہوئی تھی۔باقی بھی کسی ڈائریکٹر کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

Loading

Read Previous

منّزہ سہام مرزا – گفتگو

Read Next

حسینہ معین – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!