فصیح باری خان – گفتگو

٭ اگر ایک تجرباتی ڈرامہ کامیاب ہوبھی جاتا ہے تو پھر چینل والے اور پروڈیوسر ہر رائٹر سے کہتے ہیں کہ ویسا ہی ڈرامہ لکھ کر دو، ریٹنگ اچھی آتی ہے،جیسے ایک ڈرامہ rape پر بناتو ہر پروڈیوسر اس ہی ٹاپک کو لے کر ڈرامے لکھوانے لگا، آپ ریٹنگ کے حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

فصیح: میری تو سمجھ میں ریٹنگ سسٹم آتا ہی نہیں ہے، کوئی کہتا ہے یہاں آٹھ سو میٹرز ہیں، کوئی کہتا ہے ہزار میٹرز ہیں، اس سے زیادہ نہیں ہیں۔ آپ آٹھ سو ہزار میٹرز پر تو فیصلہ نہیں کرسکتے۔ میں اکثر فیس بک پیجز پر دیکھتا ہوں اتنے عجیب و غریب ڈراموں کی کبھی 4.5 تو کبھی 5.5 ریٹنگ آرہی ہوتی ہے اور کسی سے پوچھوں تو کسی نے دیکھا تک نہیں ہوتا وہ ڈرامہ۔ہمارے یہاں جہالت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آپ rape کے حوالے سے بات کررہی ہیں، میں آپ کو کہتا ہوں کہ اگر ہمارے یہاں کبھی کوئی ایسا ڈرامہ بنے جس میں برہنہ حالت میں دکھایا جائے اوربھلے آپ اس وقت بولیں کہ یہ اتنا بولڈ ہے لیکن اگر اس ہی چیز کی ریٹنگ آجائے تو آپ بھی وہی دکھانے لگ جائیںگے۔ہمارے یہاں پروڈیوسر اور چینل دکان دار ہیں، بنیوں کی طرح اپنا کام کررہے ہیں، ان میں چند ایک کو چھوڑ کر کوئی creative بندہ نہیں ہے، رائٹر بھی پس گئے ہیں، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تیل دیکھو ، تیل کی دھار دیکھو۔ آج بھی بہت سی اچھی اچھی چیزیں سامنے سے چلی جاتی ہیں، لیکن لوگ نہیں دیکھ پاتے جیسے بی گل کا ڈرامہ تلخیاں، جو چیز خاموشی سے آئی اور خاموشی سے چلی گئی۔میں نے بہکاوا سیریل لکھا، میرے ڈائریکٹر فرجاد نیویارک گئے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ وہاں لوگ پاگل ہیں اس سیریل کے لئے۔ کراچی میں وہ ڈرامہ پورا شوٹ ہوا تھا یہاں اس کی کوئی ریٹنگ نہیں آئی۔اس میں بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو لوگوں کو پسند نہیں آسکتی تھیں جیسے اس میں دکھایا تھا کہ میاں بیوی میں طلاق ہوگئی تھی اور پھر بھی وہ ساتھ میں رہ رہے تھے، ایک اور چیز جو اس میں تھی وہ یہ دکھائی تھی کہ لے پالک بھائی ہے جو اپنی بہن کو پسند کرنے لگتا ہے۔ اس کے اندر حنا دل پزیر نے ہم جنس پرست عورت کا کردار کیا تھا، اس کا باہر سے مجھے ابھی تک رسپانس ملتا ہے۔ یہاں لوگوں کو وہی چیزیں چاہیے ہوتی ہیں typical والی۔



٭ کون سا ایسا چینل ہے جس کے ساتھ کام کر کے آپ کو مزہ آیا ہو؟

فصیح: مجھے سلطانہ صدیقی کے ساتھ کام کر کے بہت مزہ آیا۔ میرا ایک ڈرامہ تھا ”کچھ مجبوری تھی” جس میں ایک عورت غربت کی وجہ سے اپنی دونوں بیٹیوں کو دھندے پر لگادیتی ہے۔ میں نے اس میں یہی دکھایا کہ اس میں اس لڑکی کو نفرت ہوجاتی ہے جب اس کو پتا چلتا ہے کہ اس کی ماں اس کا رشتہ ایک ایسے بندے سے کررہی ہے جس کو اس کے کام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، آخر میں وہ لڑکی خود کشی کرلیتی ہے۔ انہوں نے مجھے کبھی کسی طرح نہیں روکا، ابھی مجھے ٹیلی فلمز کرنی ہیں ان کے ساتھ اور میں بھی تھوڑا ڈر گیا ہوں کیوں کہ لوگ بہت کچھ کہتے ہیں۔ ابھی جیسے میں نے A Plus کے لئے فالتو لڑکی سیریل کیا ، میں نے اپنے ذہن میں رکھا کہ ہیروئن جو ہو وہ ہیروئن ہی رہے شروع سے آخر تک۔ لیکن ظاہر سی بات ہے جیسا میں نے آپ سے کہا کہ کچھ دوسروں کی بھی سننی چاہیے کچھ اپنی بھی کرنی چاہیے، لیکن زیادہ اپنی ہی کرنی چاہیے۔

٭ کوئی ایسا کردار جس پر آپ لکھنا چاہتے ہوں لیکن ابھی تک لکھ نہ سکے ہوں؟

فصیح: ایسے بہت سے کردار ہیں۔ کراچی میں اگر آپ دیکھیں جو گرمیوں کے شدید دنوں میں خواتین راجھستان وغیرہ سے آتی ہیں جنہیں ”اُٹ” کہا جاتا ہے، یہ لمبی لمبی ساڑھیاں لپیٹی گود میں بچہ لئے اور ڈھیریاں لئے بیٹھی ہوتی ہیں بادام کی، پستوں کی۔ میرا بڑا دل چاہتا ہے ان پر لکھنے کو ۔ اس کے علاوہ مجھے کراچی کے گجراتی کاٹھیاواڑی کمیونٹی پر لکھنے کو دل چاہتا ہے، ان کی عورتوں نے گھروں میں چھوٹے چھوٹے کارخانے بنائے ہوئے ہیں اور وہ کارخانوں میں کام کررہی ہیں، پاپڑ کے کارخانے لگائے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ میرا بہت دل چاہتا ہے جو حیدرآبادمیں عورتیں چوڑیاں بناتی ہیں۔ میں اپنی ایک فلم میں بھی اُس کردار پر کام کررہا ہوں۔ ان بے چاریوں کو رات کے ڈھائی بجے جگانے والے لوگ آتے ہیں جنہیں جگئیا کہتے ہیں، وہ اس وقت جاگتی ہیں، پھر ان کے پاس بوریاں آتی ہیں، جن میں دو دو ٹکڑے ہوتے ہیں جنہیں انہیں جوڑنا ہوتا ہے۔ ان کی آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں، ان کا سارا سسٹم اندر سے گل سڑ جاتا ہے اور اس کا ان کو بہت کم معاوضہ ملتا ہے، ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو میرا دل چاہتا ہے میں کروں۔

٭ قدوسی صاحب کی بیوہ آپ کا ایک ایسا پراجیکٹ تھا جس کو لوگوں نے جہاں بہت پسند کیا اتنا ہی ناپسندیدگی کا رجحان بھی رہا۔

فصیح: بالکل میں مانتا ہوں کہ اس کے لئے دو بہت extremes تھیں۔ لوگوں نے اسے بہت ناپسند بھی کیا اور بہت زیادہ پسند بھی کیا۔ میں آپ کو بتاؤں یہاںسے جو لوگ چھوڑ کر امریکا وغیرہ گئے ہیں 70’s,80’s میں، وہ اس ڈرامہ کے پیچھے پاگل ہیں اور سب سے عجیب سی بات مجھے جو لگی وہ یہ کہ میں دو شہروں کا رہائشی ہوں، لاہو ر میں جس سے بھی ملا انہیں بہت پسند آیا وہ ڈرامہ، کراچی میں لوگوں نے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا اس ڈرامے کو۔ میں خود کراچی کا ہوں، لیکن ایک سچی بات آپ کو بتاؤں وہاں پر آپ ایک پٹھان کا کردار بناؤ، لوگ بہت خوش ہوں گے، الٹے سیدھے لطیفے منسوب کر کے، پنجابی کردار ایک بیوقوف سے بھائی جان چوہدری ٹائپ کا بناؤ لوگ بہت خوش ہوں گے، لیکن اگر ان کے حوالے سے بات کرو تو ان کے ساتھ ایک مسئلہ جو ہوتا ہے وہ ہماری ثقافت، ہماری زبان۔ میں شرمندہ اس لئے نہیں ہوتا کیوں کہ میں نے یہ سب کردار دیکھے ہیں۔ آدمی شرمندہ تب ہو جب وہ نادانستگی میں ایسی کوئی چیز لکھ دے۔میں آپ کو بتاؤں میڈیا کے بھی بہت سے بڑے جانے مانے لوگوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ قدوسی صاحب کی بیوہ کو بند کردیا جائے وہ تو اس لئے بند نہیں کیا گیا کہ اس کی ریٹنگ بہت زیادہ آرہی تھی، وہ دو ڈھائی سال تک چلا۔ کراچی میں سب کو یہ چیز بری لگی کہ جی دِلّی والے ایسے نہیں ہوتے، بہاری ایسے نہیں ہوتے۔ ہم نے سارے لوگوں کو دیکھا ہوا ہے۔ مزے کی بات جو لوگوں کو نہیں پتا کہ جو ڈائریکٹر ہے اس ڈرامہ کا مظہر معین وہ بہاری ہے،وہ یہ کہتا ہے کہ ہم نے تو کچھ نہیں دکھایا، بہت ہی لیچڑ قسم کے بھی بہاری ہوتے ہیں۔ اس میں جو ہم نے دکھایا، ظاہر ہے تھوڑا سا رائٹر exaggerate کرتا ہے، کوئی بھی چیز آپ as it is نہیں کرسکتے۔ لیکن سارے کردار میرے اور مظہر معین کے دیکھے بھالے لوگ تھے۔ اس کے اوپر لوگوں نے اتنی گھٹیا گھٹیا باتیں کیں، رمضانوں کے دنوں میں کراچی میں sms بہت پاس ہورہے تھے کہ جی ودود تو اللہ کا صفاتی نام ہے، اور اس میں ایک زنخے کا نام ودود رکھا گیا ہے۔ یہ اتنی stupid سی بات ہے۔ کیا کوئی transgender ہے اگر اس کا نام محمد رزاق ہے، تو وہ اپنا نام بدل دے؟ معذرت کے ساتھ ہمارے یہاں کے لوگ اتنےshallow ہیں ، مجھے اتنی لوگوں نے گالیاں دیں، کہ تم لوگوں نے اردو سپیکنگ کو ایسا دکھایا ویسا دکھایا، وہی چیز اگر کسی پنجابی یا پٹھان پر اگر ہم دکھاتے تو لوگ خوش ہوتے۔اردو سپیکنگ کو اپنی ثقافت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے کہ جی ہمارے یہاں تو ایسا نہیں ہوتا، دِلّی والے تو ایسے نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں دِلّی والے ایسے ہی چاٹ کر کھانے والے، آپ شادیوں میں دیکھیں جو یہ لوگ اسراف کرتے ہیں، جو آپ دکھاوا کرتے ہیں، آپ اس کو مانیں۔



Loading

Read Previous

منّزہ سہام مرزا – گفتگو

Read Next

حسینہ معین – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!