فصیح باری خان – گفتگو

٭ آپ کے جتنے بھی سیریلز ہوتے ہیں، ان کے ٹاپکس کے حوالے سے چینل آپ کو کتنی مدد دیتا ہے کہ آپ اس پر کھل کر کام کریں؟

فصیح: مجھے آج تک کبھی کسی چینل نے تنگ نہیں کیا،ہاں جیو والوں نے جو میرا ڈرامہ بند کیا وہ ذاتی دشمنی کی بنا پر بند کیا، میں نے تو بابر جاوید کے بارے میں اپنے فیس بک پروفائل پر پورا ایک آرٹیکل بھی چھاپ دیا تھا، نہ میں پہلے کسی سے ڈرا تھا نہ ہی اب ڈرتا ہوں۔ اب جو لوگ اڈاری کے اوپر کھڑے ہوئے تھے، میں اڈاری جیسے ڈراموں کے خلاف بالکل نہیں ہوں، مجھے خوشی ہوتی ہے کہ اڈاری جیسی چیزیں بننی چاہیے، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ تخصیص نہ کریں۔ آپ پچھلے وقت میں ایامِ جاہلیت کی جب باتیں کرتے ہیں تو اس وقت یہی ہوتا تھا کہ جو اثر و رسوخ والا ہوتا تھا، اس کو تو معاف کردیا جاتا تھا، جس کی گردن پتلی ہوتی تھی وہ پکڑا جاتا تھا، ابھی بھی یہی ہوا تھا۔ ابھی سب کو پتا ہے کہ مومنہ درُید کی good books میں شامل ہونا ہے تو سب نے یکجہتی بھی دکھائی، اتنے رائٹرز تھے جنہوں نے اڈاری کے حوالے سے اظہارِ یکجہتی دکھائی، مجھے تو کسی رائٹر نے فون تک نہیں کیا تھا کہ یار بڑا افسوس ہوا۔ بلکہ جب تارِ عنکبوت چل رہا تھا تو لوگ کہتے تھے کہ جی اس میں کون سی تعمیری بات تھی؟ ہماری ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ جادوٹونے میں صرف جاہل لوگ پڑے ہوتے ہیں، ایسے پڑھے لکھے ، بیوروکریٹس بھی ان چکروں میں پڑے ہوتے ہیں میں آپ کو نام بھی بتاسکتا ہوں۔ میرا ایک لانگ پلے ہم ٹی وی پر چلا تھا ”بڑے شہر کی اکیلی عورت” اس میں ایک عورت تھی جو مردے نہلاتی تھی، وہ میں نے اے آر وائی پر دیا، انہوں نے کہا بہت بولڈ ہے میں نے سلطانہ آپا کو دیا، انہوں نے کہا جاؤ کرو، مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا اور میں آپ کو ایک بات بتاؤں اس کا جو کردار تھا، وہ میرا آنکھوں دیکھا کردار تھا، میں سکول کے زمانے میں جب پڑھتا تھا تو میں نے ان کو دیکھا تھا اور اکثر ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتا تھا،آپ جتنا عام لوگوں سے سیکھتے ہیں، اتنا کسی سے نہیں سیکھتے۔

٭ آپ کی ٹیلی فلمز بہت مشہور ہوئی تھیں، اب کیا وجہ ہے آپ کی ٹیلی فلم نظر نہیں آتیں؟

فصیح: مجھے یہ لگتا ہے کہ ٹیلی فلم چینل والوں کے لئے اب فائدے کا سودا نہیں ہے اور نہ پروڈیوسر کے لئے اب جاکر individual plays کا ایک سلسلہ شروع ہورہا ہے اردو ون پر، اور دوسرا مجھے لگتا ہے کہ اب فلم کرنی چاہیے، ابھی میں ڈان والوں کے ساتھ ایک مکمل فلم کرنے جارہا ہوں۔ اس سے پہلے ایک فلم ”جیون ہاتھی” فیسٹیول فلم تھی جس کا دورانیہ پچپن منٹ تھا، وہ سنیما کے لئے نہیں بنی تھی۔ اب جو کررہا ہوں وہ دو، سوا دو گھنٹے کی فلم ہے۔

٭ وہ فلم کب تک ریلیز ہوگی، اور اس کا کیا ٹاپک ہے؟

فصیح: ان لوگوں کا پلان ہے کہ جنوری کے آخر میں شوٹ پر جائیں گے ، اور ڈارک کامیڈی ہے اور وہ عورتوں پر based کرتی ہے۔

٭ آپ کا اپنا پسندیدہ ترین پراجیکٹ کون سا ہے؟

فصیح: مجھے اپنے دو پراجیکٹ بہت پسند ہے، ان میں سے ایک بہکاوا بہت پسند ہے اور دوسرا تارِ عنکبوت۔ٹیلی فلم میں بھوپال والی بلقیس مجھے بہت پسند ہے۔حالاں کہ وہ زیادہ ہٹ نہیں ہوئے تھے لیکن مجھے بہت پسند ہیں۔

٭ آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے ٹیلی ویژن سکرین پر تجرباتی ڈرامے کرنے کی ضرورت ہے؟

فصیح: بالکل ، میں اس کے حق میں ہوں۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ جی ایسے ڈرامے کوئی دیکھتا نہیں ہے، تو ایک طرف اگر آپ رضیہ بٹ کو رکھیں اور دوسری طرف بانو قدسیہ یا قرة العین حیدر کو تو ظاہر ہے زیادہ fan following رضیہ بٹ کی ہوگی کیوں کہ ان کی کہانی عام فہم ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بانو قدسیہ یا قرة العین حیدر کو پڑھنے والے لوگ نہیں ہیں۔ہمارے یہاں چینل والے جو سب سے بڑی غلطی کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ساتوں دن ایک ہی جیسا ڈرامہ چل رہا ہوتا ہے، ہمیں ایک یا ڈیڑھ دن ایسا رکھنا چاہیے،جس میں آپ ذرا الگ سا ڈرامہ رکھیں۔



Loading

Read Previous

منّزہ سہام مرزا – گفتگو

Read Next

حسینہ معین – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!