عکس — قسط نمبر ۶

”تیری ہے زمیں، تیرا آسماں
تو بڑا مہرباں تو بخشش کر
سبھی کا ہے تو سبھی تیرے ہیں
خدا میرے تو بخشش کر
باربی ڈول کا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا ۔وہ اگر اس وقت اسمبلی ایریا میں کھڑی نہ ہوتی تو چھلانگیں لگاتی جا کر چڑیا سے لپٹ جاتی۔ کئی ہفتوں کے بعد اس دن اس نے کمبائنڈ اسمبلی کے دوران پہلی بار دوبارہ چڑیا کو دیکھا تھا اور اسے وہ سب گاتے سناتھا جسے گاتا سنتے ہوئے وہ پہلی بار چڑیا کے عشق میں گرفتار ہوئی تھی۔وہ آواز ویسی ہی میٹھی تھی، میٹھی، مدھر، پرسوز،ملائم اور پراثر… اور اسمبلی ایریا آج بھی اسی ٹرانس میں تھا جس ٹرانس میں چڑیا کی آواز انہیں لے جاتی تھی۔
اس دن بریک کے دوران باربی ڈول بہت دیر چڑیا کی منتظر رہی۔ بریک گزرگئی چڑیا نہیں آئی اور جب وہ نہیں آئی تو وہ جیسے کچھ بے قراری کے عالم میں باتھ روم جانے کا بہانہ کر کے خود اس کی کلاس میں چلی آئی تھی۔




باربی ڈول کو اس کی کلاس کے دروازے میں نمودار ہوتے سب سے پہلے چڑیا کی دوست نے دیکھاتھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح دروازے کے سامنے سے ایک بار گزری تھی، دوبار گزری تھی۔ اس نے اپنی آمد اور موجودگی کا احساس چڑیا کو دلانے کی کوشش کی تھی۔ ہمیشہ وہ یہی کیا کرتی تھی اور چڑیا اسے بار بار اپنے دروازے کے سامنے سے گزرتے دیکھ کر کلاس ٹیچر سے کوئی بہانہ کر کے باہر آجاتی تھی لیکن آج ایسا نہیں ہوا تھا۔ باربی ڈول بار بار دروازے کے سامنے سے گزرتی رہی اور اپنی دوست کے احساس دلانے کے باوجود بھی چڑیا نے ایک بار بھی گردن موڑ کر دروازے کی طرف دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ دروازے کی طرف دیکھنے کی کوشش نہ کلاس سے باہر جانے کا تردد۔ کسی بت کی طرح بیٹھی وہ سامنے بلیک بورڈ کو دیکھتی رہی اور اپنی نوٹ بک میں کلاس ورک اتارتی رہی۔ٹیچر کے بورڈ صاف کرنے کے بعد بھی وہ گردن سیدھی کیے بلیک بورڈ کو بے مقصد دیکھتی رہی اور تب تک دیکھتی رہی جب باربی ڈول نے اس کی بے اعتنائی محسوس کر کے بڑی مایوسی کے عالم میں دروازے کے سامنے سے باربار گزرنا چھوڑ دیا اور جب اس نے دروازے کے سامنے سے گزرنا چھوڑدیا تو چڑیا نے گردن موڑ کر پہلی بار دروازے کو رنجیدگی کے عالم میں دیکھا۔ وہ کتنی بار دروازے کے سامنے سے گزری تھی۔ دروازے کی طرف متوجہ نہ ہونے کے باوجود چڑیا بتا سکتی تھی اور اب جب وہ باہر نہیں تھی تو کلاس کے اندر بیٹھے بیٹھے چڑیا یہ بھی جانتی تھی وہ اور باربی ڈول کبھی فرینڈز نہیں بن سکتی تھیں۔ نہ وہ اور باربی ڈول۔ نہ وہ اور ایبک-
باربی ڈول کی صبح جتنی خوشی اور سرشاری کے عالم میں گزری تھی باقی کا دن اتنی ہی اداسی میں گزرا تھا۔ چڑیا نے اس سے بات نہیں کی تھی اور اس بات نہ کرنے کی وجہ باربی ڈول کی سمجھ سے باہر تھی۔
اس نے اس دن گھر جا کر اپنی ممی کو سب سے پہلے چڑیا کے بارے میں ہی بتایا تھا۔ اس کی ممی چڑیا کی واپسی کے بارے میں جان کر چونکی تھی پھر اس نے موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ موضوع نہیں بدل سکی تھی۔ چڑیا نے اس سے بات کیوں نہیں کی باربی ڈول کی زندگی کا اہم ترین ایشو تھا۔ لنچ ،ڈنر، ہوم ورک کہیں بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ اپنے باپ کے گھر آنے پر بھی باربی ڈول نے اسے سب سے پہلے چڑیا کے بارے میں ہی بتایا تھا اور ا س کے باپ کا رنگ جیسے فق ہوگیا تھا۔ وہ کچھ دیر چپ کا چپ بیٹھا رہ گیا تھا پھر اس نے باربی ڈول کو بے حد تحکمانہ انداز میں کہا۔”تم آئندہ کبھی چڑیا سے نہیں ملوگی، نہ ہی اس سے بات کروگی، نہ ہی اس کی کلاس میں جاؤ گی۔” باربی ڈول باپ کا منہ دیکھتی رہ گئی تھی۔ اسے باپ سے یہ سننے کی توقع نہیں تھی۔




” لیکن کیوں۔” باربی ڈول نے حیران نظروں سے اپنے مخصوص انداز میں باپ سے پوچھا۔ وہ اسے کوئی جواب دیے بغیر کچھ جھنجلاہٹ کے عالم میں وہاں سے چلا گیا ۔چڑیا کی واپسی کب ہوئی تھی؟اور کیوں ہوئی تھی…؟ یہ اس کے لیے ایک نیا درد سر تھا۔ خیر دین کے ساتھ مصالحت کی شرطوں میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ اب دوبارہ شہر نہیں آئے گا اور چڑیا کے واپس آنے کا مطلب تھا کہ خیر دین ان شرائط کی خلاف ورزی کررہا تھا۔ لیکن بہت چالاکی اور عقلمندی دکھاتے دکھاتے بھی وہ ایک بے وقوفی کر گیا تھا کہ اس نے خیر دین کو بلیک میل کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ اس کی نوکری ختم ہوچکی تھی، پنشن روک لی گئی تھی، اسے کسی بھی قسم کی سرکاری نوکری کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا… اور اب اگر وہ خیر دین کو ایک بار پھر سے شہر چھوڑ دینے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا تو کس چیز کی دھمکی دے کر کرتا۔ مقدمے کانئے سرے سے آغاز۔ اسے یقین تھا اس دباؤمیں خیر دین نہیں آسکتا تھا۔ لے دے کے باقی یہی بچا تھا کہ وہ ناجائز طور پر اسے پولیس کی تحویل میں رکھتا… اور اس بار وہ یہ کام کرنے سے جھجک رہا تھا۔ خوف اسے اس طبقے سے صرف یہ تھا کہ اگر وہ کوئی درخواست لے کر شہر کے کسی دوسرے انتظامی آفیسر یا کسی MNA یا MPA کے پاس چلے جاتے تو اس کا دھڑن تختہ ہوسکتا تھا۔ وہ جس کو اس نے بڑی صفائی لیکن بے حد مشکل سے بوتل میں بند کیا تھا وہ دوبارہ آزاد ہوجاتا اور اس سے زیادہ خوفناک ثابت ہوتا جتنا وہ بوتل میں بند کرتے ہوئے تھا۔ اس رات کے واقعات کی بازگشت وہ کان بند کیے ہوئے بھی بہت جگہو ں پر سن رہا تھا اور اس کی وجہ ڈی سی ہاؤس کا عملہ تھا۔ وہ ڈی سی کو سرو کرتے تھے لیکن ان کی ہمدردیاں خیر دین کے ساتھ تھیں اور ڈی سی اس حقیقت سے واقف بھی تھا اور خائف بھی۔ طاقت سے وہ ان سب کو رسیاں تو ڈالے ہوئے تھا لیکن وہ لوئر مڈل کلاس سے آنے والے اس ماتحت عملے کی نفسیات سے واقف تھا۔ مالیوں، ڈرائیوروں، چوکیداروں، خانساماؤں، ویٹرز اور دوسرے ملازموں پر مشتمل یہ طبقہ کسی بھی آفیسر کے لیے آستین کا سانپ ثابت ہوسکتا تھا۔ ان کے پاس کسی بھی آفیسر کی ساکھ کو خراب کرنے کے لیے زبان جیسا خطرناک ہتھیار تھا جس کا وار کبھی خطا نہیں جاتا تھا۔خیر دین کے معاملے کی بازگشت کو ڈی سی صرف ڈی سی ہاؤس تک رکھنے کے لیے سر توڑ کوشش کررہا تھا لیکن وہ جانتا تھا اندرون خانہ شہر کے دوسرے بہت سارے انتظامی آفیسرز کو اپنے ماتحت عملے کے توسط سے خیر دین اور اس کے درمیان جھگڑے کی اصل نوعیت کا پتا تھا… اور اس تمام صورت حال میں خیر دین کا دوبارہ نمودار ہوجانا اس کے لیے گلے کی ہڈی کے برابر تھا جسے وہ اگل سکتا تھا نہ نگل سکتا تھا۔
ا پنی desperation میں اس نے خیر دین پر ایک اور وار کرنے کی کوشش کی تھی۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا وہ وار اس کے لیے کتنا تباہ کن ثابت ہونے والا تھا۔ اس سارے مسئلے سے اتنی ہوشیاری سے جان چھڑالینے کے بعد اس نے نادانستگی میں اپنے ہاتھوں سے دوبارہ اپنے لیے وہ جال بچھایا تھا جو اس کو لے ڈوبنے والا تھا۔
……٭……
”میں بہت خوش ہوں۔” اس نے فون پر چہکتے ہوئے عکس کو بتایا۔ and actually Im happy for you ”تم آنا چاہتی تھیں نا اس سیٹ پر۔”
”تم زہر لگتے ہو اس طرح کی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیر دل۔ صاف صاف کہو تمہاری دلی مراد بر آئی ہے بلکہ کیا کہوں… لاٹری نکل آئی ہے تمہاری۔” وہ عکس کی بات پر برا منائے بغیر ڈھٹائی سے ہنسا تھا،جانتا تھا وہ جھنجلائی ہوئی ہوگی۔ صوبے میں غیر متوقع انتظامی اکھاڑ پچھاڑ کا طوفان آیا تھا اور وہ دونوں بھی اس کی زد میں آئے تھے۔ عکس کی پوسٹنگ شیر دل سے زیادہ بڑے شہر میں تھی جو ڈویژن کا درجہ بھی رکھتا تھا اور اس کی وہاں سے شیر دل کی سیٹ پر تبدیلی کم از کم پروفیشنلی عکس کو اچھی نہیں لگ سکتی تھی یہ شیر دل جانتا تھا اور وہ اس صورت حال سے محظوظ ہوا تھا۔وہ ڈی ایم جی کے قابل ترین آفیسرز میں سے تھے اور آپس کے تعلق کے باوجود پرفیشنلی ان دونوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہتا تھا ہمیشہ۔ شیر دل کا خیال تھا کہ عکس بہت مواقع پر بہت جگہوں پر خوش قسمت رہی تھی اور قسمت کا یہ غیر متوقع ساتھ عکس کے کیریئر گراف کے مسلسل اوپر کی طرف سفر میں ایک اسٹرونگ فیکٹر تھا اور عکس کے بارے میں یہ رائے رکھنے والا وہ اس کے بیچ میٹس میں سے واحد نہیں تھا… اور اب خوش قسمتی کی دیوی کا چند لمحوں کے لیے شیر دل پر مہربان ہونا اس کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہی تھا۔
”دیکھوتم کو بھی خوش ہونا چاہیے… اپنے شہر میں پوسٹنگ کا موقع مل رہا ہے تمہیں، کم اعزاز کی بات ہے کیا۔” وہ اسی طرح ہنستے ہوئے اطمینان سے کہہ رہاتھا۔
”شیر دل تم کبھی مجھے اپنے سے کسی بہتر پوسٹ پر دیکھ ہی نہیں سکتے۔” اس نے شیر دل کے بہلاوے سے بہلنے کے بجائے کہا۔
”تم دیکھ سکتی ہو؟”شیر دل نے جواباً کہا۔
”ہاں….”
” Really ”
” Shut up ”




Loading

Read Previous

صلیب — ثمینہ طاہر بٹ

Read Next

عکس — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!