عکس — قسط نمبر ۶

چند چوہوں پر ریسٹ ہاؤس کے ملازمین کی مدد سے بڑی آسانی سے کپڑا ڈال کر قابو پایا گیا اس کے بعد انہیں ایک تھیلے نما بیگ میں منتقل کردیا گیا اور لنچ کے بعد جب سب لوگ سویٹ ڈش سے محظوظ ہورہے تھے تو ایک کامنرز نے بڑے اطمینان کے عالم میں ٹیبل کے ایک کونے پربڑی احتیاط سے باری باری وہ دو تین چوہے چھوڑدیے تھے۔ ڈائنگ ہال میں دو تین ڈائنگ ٹیبلز کو جوڑ کر بہت لمبی چوڑی کھانے کی ٹیبل سجائی گئی تھی جس کے ایک سرے سے چوہوں نے بھاگنا شروع کیا۔ شروع کے چند قدموں کے بعد انہوں نے ٹیبل کے اطراف سے نکلنے کی کوشش کی لیکن دونوں اطراف میں لوگوں کی قطاروں کو دیکھ کر وہ کسی رکاوٹوں والی ریس میں شر یک کھلاڑیوں کی طرح بالکل سیدھا بھاگنے لگے تھے۔ ڈونگوں ،چمچوں ،پلیٹوں، ڈشز کی رکاوٹوں کو برق رفتاری اور ہوشیاری سے پھلانگتے ہوئے ان چوہوں کے اچانک کہیں سے نمودار ہوجانے پر وہاں بیٹھے پاکستان کی مستقبل کی اسٹیبلشمنٹ کو پہلے سکتہ ہوا، پھر ان میں سراسیمگی پھیلی اور پھر ہڑبونگ اور چیخ پکار کا آغاز ہوا… اور بھاگنے والوں میں پہلی صف میں وہ مرد کامنرز تھے جنہیں اس منصوبے سے لاعلم رکھا گیا تھا۔خواتین سے تو خیر چوہا نظر آنے پر اس کے علاوہ کسی اور رد عمل کی توقع کی ہی نہیں جاسکتی تھی۔کرسیاں الٹاتی ،چمچ پلیٹیں اور گلاس گراتی …بیگز اور سینڈلز کو پھینکتی … دوپٹوں سے الجھتی چیخ پکار کے کورس کے ساتھ ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں تمام خواتین کامنرز کمرے سے باہر تھیں۔ مرد کامنرز ان سے پہلے ہی باہر بھاگ چکے تھے۔ ہال میں اب ہنسی سے دوہرے ہوتے ہوئے ٹیبل کے ایک سرے پر کھڑے وہ چند کامنرز تھے جو اس پریکٹیکل جوک کے خالق تھے یا ٹیبل کے بالکل درمیان ایک کرسی پر کسٹرڈ پڈنگ کا ایک پیالہ ہاتھ میں لیے بیٹھی عکس مراد علی تھی جس کے سامنے سے اب وہ چوہے بھاگتے ہوئے گزر رہے تھے۔




وہ اس وقت کسٹرڈ پڈنگ کے چند آخری چمچ لے رہی تھی جب اس نے ٹیبل کے داہنی طرف چیخ پکار کے ساتھ افراتفری دیکھی اور اس افراتفری کی نوعیت جاننے کے لیے ٹیبل پر کچھ آگے کو جھک کر گردن موڑ کر اس نے داہنی طرف کی میز کے حصے کو دیکھا اور تب اس نے پہلی بار ٹیبل پر بے حد تیزی سے حرکت کرتی ان منحنی سی چیزوں اور ان چیزوں کے بیک گراؤنڈ میں کھڑے ہنسی سے بے حال شیر دل اور چند دوسرے کامنرز کو دیکھا۔ صورت حال کو سمجھے بغیر جو پہلا کام اس نے کیا تھا وہ نہایت سرعت اور سکون کے ساتھ سویٹ ڈش کا اپنا پیالہ اٹھانا تھا۔ اسے اندزاہ نہیں تھا کہ اس کی اس حرکت نے کسی کو حیرانی کا پہلا جھٹکا دیا تھا۔جہاں چمچ، پلیٹیں اور گلاس گرائے اور چھوڑ کر بھاگا جارہا تھاوہاں وہ بڑے اطمینان کے ساتھ میز پر بھاگتے چوہوں کو کسٹرڈ پڈنگ کھاتے ہوئے دیکھنے لگی تھی یوں جیسے وہ ومبلڈن کے سینٹر کورٹ میں رائل گیلری میں بیٹھی گرینڈ سلام کا فائنل دیکھ رہی تھی۔ شیر دل اس کے انداز کے لیے اس سے اچھی Analogy نہیں لاسکتا تھا۔ عکس نے اس کی امیدوں پر گھڑوں پانی ڈالا تھا۔ اس کے سامنے ٹیبل پر پڑے کسٹرڈ پڈنگ کے ایک باؤل کو خود کوا سپائڈر مین سمجھنے والے ایک چوہے نے پھلانگنے کی کوشش کی اور اس کوشش کے دوران وہ اس پلیٹ سے غڑاپ سے باؤل کے اندر گرا جس پر سے وہ ہوا میں چھلانگ لگا کر بلند ہوا تھا۔ پڈنگ کے چند چھینٹے باہر آکر گرے اوروہ بد حواسی کے عالم میں اس پڈنگ سے نکلنے کے لیے بری طرح ہاتھ پاؤں مارنے لگا جو اس وقت اس کے لیے دلدل ثابت ہورہی تھی اور اس کے سامنے بیٹھی”شہد کی دلدل” نے بے حد ہمدردی سے اسے دیکھا تھا۔اپنے ہاتھ میں پکڑے پیالے میں موجود پڈنگ کا آخری چمچ بڑے پر سکون انداز میں منہ میں ڈالتے ہوئے شیر دل نے عکس کو پڈنگ کا پیالہ میز پر رکھتے ہوئے دیکھا پھر اسی سکون کے ساتھ اس نے ہاتھ بڑھا کر سرونگ سپون کے ساتھ لجلجی پڈنگ سے نبرد آزما چوہے کو باؤل سے نکالا اور بے حد احتیاط کے ساتھ ٹیبل پر چھوڑ دیا۔ چوہا سیکنڈز میں وہاں سے غائب ہوا تھا۔ اپنی گود میں رکھا ٹیبل نیپکن بے حد نفاست سے تہ کر کے ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ کرسی کے پائے کے قریب رکھا اپنا ہینڈ بیگ اٹھائے ہوئے بڑے اطمینان کے عالم میں کرسی دھکیل کر ہال سے چہل قدمی کے انداز میں باہر گئی تھی۔ وہ اپنے جس Composure کے لیے گروپ ٹاسکس کے دوران مشہور تھی وہ Composure آج بھی حواس باختگی میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔ شیر دل کو اگر عکس مراد علی کو ایک چوہادیکھ کر بھاگتا نظر آنے کی تمنا تھی تو وہ تمنا پوری نہیں ہوئی تھی۔ اپنے حواس اور اعصاب پر قابو رکھنے کا اس سے بہترین ڈسپلے شیر دل نے کسی عورت میں نہیں دیکھا تھا۔
……٭……
اگر کوئی ایک چیز تھی جس کو چڑیا DC ہاؤس سے نکالے جانے کے بعد مس کرتی تھی تو وہ اس کے وہ سات ساتھی بونے تھے… ٹوکو، کٹو، شنٹو، ٹوفو، کنٹا،منٹا، ڈیڈو… جو اس رات اس گھر میں ہی رہ گئے تھے۔ کئی دن تو چڑیا کو ان کا خیال ہی نہیں آیا لیکن پھر آہستہ آہستہ اسے ان کا خیال آنے لگا تھا۔ وہ ایلس تھی جسے اس کے ونڈر لینڈ سے نکال دیا گیا تھا اور لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ اس ونڈر لینڈ میں دوبارہ نہیں جاسکتی تھی کیونکہ وہ اس ونڈر لینڈکا رستہ بھول چکی تھی اور اس کے سات ساتھی اس ونڈر لینڈ سے باہر نہیں آسکتے تھے۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی چڑیا اب کسی طرح بھی اس ونڈر لینڈ اور اس میں بسنے والے اپنے سات ساتھیوں کا کوئی تصوراتی رابطہ اور تعلق بھی نہیں ڈھونڈ سکتی تھی۔ چڑیا وہ پاس ورڈ بھول گئی تھی جسے استعمال کر کے وہ اپنے تصورات کی اس خوب صورت دنیا میں دوبارہ رسائی حاصل کرسکتی۔ وہ سات بونے کام پر گئے تھے اور ان کی عدم موجودگی میں سنو وائٹ زہر والا سیب کھا کر سوگئی تھی۔ چڑیا نے اپنی فیری ٹیل کا خاتمہ بھی نہیں کیا تھا۔ اپنے سات ساتھی بونوں سے بے پناہ شکایتیں رکھنے کے باوجود … وہ کیوں اس کی مدد کو نہیں آئے تھے؟انہوں نے کیوں اس کو اکیلا چھوڑ دیا تھا؟ انہوں نے کیوں اس کے ساتھ وہ سب کچھ ہونے دیا جو ہوا تھا؟ گلے شکوؤں کی ایک لمبی فہرست تھی جنہیں دل میں لیے چڑیا بہت دیر تک ان ساتوں سے خفا رہی تھی لیکن پھر وہ گلے شکوے آہستہ آہستہ خود ہی ختم ہوگئے تھے۔ وہ اب صرف بے حد رنجیدگی سے انہیں مس کرتی تھی۔ اس کی تصوراتی دنیا میں اب کوئی جیتا جاگتا ساتھی نہیں تھا اور اس تنہائی نے چڑیا کو اکیلا ہی نہیں خاموش بھی کردیا تھا۔ اکیلے بیٹھ کر اپنے آپ اور کنٹا، منٹا سے باتیں کرنے کا سلسلہ ختم ہوگیا تھا۔ ان کے ساتھ کھیل کود اور ان کو اپنے پورے دن کی سرگرمیوں کا بتا کر ان کے قصے سننے کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا تھا۔
خیر دین حلیمہ، چڑیا اور وہ بچا کھچا سامان لیے تھانے سے رہائی کے اگلے ہی دن اپنے گاؤں واپس چلا گیا تھا۔ جہاں اس کی اور چڑیا کی رسوائی کی داستان اس کی آمد سے بھی پہلے پہنچ چکی تھی۔ شہر میں اب اردلیوں،نائب قاصدوں ،مالیوں اور چوکیداروں کے طور پر سرکاری اداروں میں گاؤں کے بہت سارے لوگ کام کررہے تھے اور خیر دین کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ان تمام واقعات کو گاؤں اور وہاں موجود اپنے خاندان تک پہنچنے سے روک پاتا، چھپا سکتا… اور ایسا ممکن ہوتاتب بھی خیر دین اپنے خاندان سے یہ کبھی نہیں چھپانا چاہتا۔ وہ اپنے خونی رشتوں کے کندھوں پر سر رکھ کر رونا چاہتا تھا، اس اذیت اور تکلیف کو ان کے ساتھ بانٹنا چاہتا تھا جو وہ کسی کے ساتھ نہیں بانٹ پایا تھا۔
گاؤں پہنچنے کے بعد خیر دین کا پہلا کام اپنے گھر کے دروازے پر لگی وہ تختی اتارنے کا تھا جو پچھلی کئی دہائیوں سے اس کے گھر کے دروازے پر سجی گاؤں میں اس کے خاندان کی عزت اور پہچان کا باعث تھی اور اس تختی کے اترتے ہی گاؤں میں خیر دین کے نام اور خاندان کا دبدبہ بھی ختم ہوگیا تھا، وہ اب پھر سے کمی کمین ہوگئے تھے۔ وہ کمی کمین جو شاہ کے کتے تھے اور شاہ کی وجہ سے اپنی اوقات بھول بیٹھے تھے۔
سرکاری نوکری اور اس نوکری کے ساتھ ملنے والی تمام مراعات گنوا کر خیر دین زندگی میں پہلی بار خالی جیب اپنے گاؤں اور گھر پہنچا تھا۔ ساری عمر وہ جب بھی چھٹی پر گھر آتا رہا اس کے گھر ملنے کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔… گاؤں کے لوگ اور قریب اوردور کے رشتے دار اس کے پاس چھوٹے موٹے کاموں کے لیے یوں رقعے اور چٹھیاں لے کر آتے جیسے وہ ڈی سی کا خانساماں نہیں خود ڈی سی تھا اور خیر دین وہ ساری چٹھیاں اور رقعے اکٹھے کرتا اگلی چھٹی تک واقعی ایک ایک کر کے ان تمام درخواستوں پر عمل درآمد کے لیے اپنے صاحب اور صاحب کے جاننے والے دوسرے صاحبوں سے سفارش کرواتا پھرتا… اور خیر دین کے کہنے پر کام ہوتا تھا تو گاؤں میں خیر دین کے خاندان کے سر پر ایک اور کلغی کا اضافہ ہوجاتا تھا۔




اب وہی خیر دین لٹے پٹے حال میں واپس آیا تھا۔ اس سے ملنے کے لیے آنے والوں کا تانتا اب بھی اسی طرح بندھا ہوا تھا لیکن اب وہ سب لوگ تماشائیوں کا روپ دھار کر وہاں آئے تھے… یہ دیکھنے اور سننے کے لیے خیر دین آسمان سے زمین پر کس طرح آیا تھا… اور زمین پر آنے کے بعد اس کی حالت کیا تھی۔ خیر دین جس طبقے سے تعلق رکھتا تھا وہاں سانپ سیڑھی کا کھیل دیکھ کر خوش ہونے والوں کی بڑی تعداد تھی جن کے لیے دوڑ میں سب سے آگے بھاگنے والے کو فنشنگ لائن کے قریب پہنچنے سے پہلے منہ کے بل گرتے دیکھ کر تالی بجا کر اٹھنے والوں کی تعداد اس کی شاندار رفتار اور کارکردگی کو دیکھ کر دادو تحسین دینے والوں سے کہیں زیادہ تھی۔ خیر دین اب ان جیسا ہوگیا تھا۔ ان سب کی طرح اور یہ امر باعث اطمینان تھا۔ چار جملے اس سے ہمدردی اور ڈی سی اور حکومت پر ملامت کے بعد وہ سب جس ایک احساس کے ساتھ خیر دین سے مل کر رخصت ہوئے وہ یہی اطمینان تھا۔ ان کے اس یقین میں اضافہ ہوتا کہ لاکھ پڑھ لکھ لو، کچھ نہیں ہوگا۔ ان کے طبقے کے حالات نہیں بدلتے اور نہیں بدلیں گے۔ وہ خدمت اور ذلت کے لیے پیدا ہوئے تھے اور یہی دو کام کرتے مرجائیں گے۔ اب خیر دین کو ہی لے لو ساری عمر سرکار کی خدمت کر کے اتنا پڑھ لکھ کے بھی کیا مل گیا اسے، خود بھی خوار ہوا اور بچی کی زندگی بھی برباد کردی۔ اس سے تو اچھا تھا کہ گاؤں میں اپنی بھٹی پر بیٹھتا یا زمیندار کا مزارعہ بن جاتا یا پھر اپنی ہی خاندانی زمین پر کاشت کاری کرلیتا… دال روٹی تو اس سے بھی چل ہی جاتی۔ خیر دین ان سب کے لیے اپنی زندگی کو بہتر کرنے کے لیے جدو جہد نہ کرنے کے حق میں دی جانے والی ایک سنہری مثال بن گیا تھا۔
آہستہ آہستہ خیر دین کے گھر آنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی ہونا شروع ہوگئی تھی اور اس کمی کے ساتھ ساتھ خیر دین کے خاندان والوں میں بھی اس کے اور حلیمہ اور چڑیا کے لیے دکھائی جانے والی ابتدائی ہمدردی اور گرم جوشی بھی ختم ہوتی گئی تھی۔ خیر دین اس سے پہلے ساری عمر انہیں دینے والا تھا اب ان سے لینے والا بن کر پلٹا تھا۔ ایک کمرے اور دو وقت کی روٹی کے علاوہ خاندان والوں کے پاس خیر دین کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا اور خود خیر دین کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ گاؤں میں کیا کرے یا کیا کرسکتاتھا۔ بھٹی پر وہ نہیں بیٹھ سکتا تھا، نہ تو اسے اس کام کا تجربہ تھا اور نہ ہی ساری زندگی سرکاری نوکری کرنے کے بعد وہ اس مشقت والے کام کے قابل رہا تھا۔ واحد کام جو وہاں وہ کرسکتا تھا وہ کاشت کاری تھی اور اس کے لیے زمین چاہیے تھی۔ اس کے ماں باپ کی طرف سے وراثت میں ملنے والی زمین کا رقبہ اس کے تمام بھائی مشترکہ طور پر کاشت کرتے تھے۔ زمین کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا اس مشترکہ خاندانی کاشت کاری کے نتیجے میں صرف اس قابل ہوسکا تھا کہ پورے خاندان کو سال بھر کا اناج دے دیتا یا پھر اپنی سبزی پیدا کردیتا جو اس کے بھائی ،ہر روز قریبی شہر کی منڈی میں ریڑھے پر لاد کر بیچ آتے اوراس سے ملنے والی رقم سے ان کے اور زمین کے اخراجات پورے ہوتے رہتے۔ سبزی کی فروخت سے ملنے والی وہ رقم پہلے ہی بہت سارے حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد کبھی بھی ہر روز کسی کے حصے میں آنے والے چند سو سے زیادہ نہیں بڑھتی تھی اور ان چند سو میں سے بھی کچھ اور کمی کرنے کے لیے خیر دین کو حصہ دار بنانے کا فیصلہ خاندان کے ہر شخص کے لیے مشکل تھا۔ وہ اس حصہ داری کے بجائے صرف اس بات پر آمادہ تھے کہ خیر دین کی تین وقت کی روٹی مختلف بھائیوں کے چولھوں پر تقسیم کردی جاتی۔ خیر دین نے سرکاری نوکری کے دوران گاؤں میں ہی تھوڑی اور زمین خریدی تھی لیکن اپنے ماں باپ کی محبت میں اس نے زمین کے اس ٹکڑے کو بھی اپنے بھائیوں کو کاشت کاری کے لیے سونپ دیا تھا۔ زمین کا وہ ٹکڑا اس کے بھائیوں کے زیر استعمال ہونے کے باوجود اس کے اپنے نام تھا ۔گاؤں میں واپس آجانے کے چند ہفتوں میں ہی خیر دین کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ خاندانی زمین میں سے فوری طورپر کسی قسم کا کوئی مالی فائدہ ملنا مشکل تھا لیکن وہ اپنی ملکیتی زمین کو اپنے زیر استعمال لے آتا تو فوری طور پر اس کے بہت سارے مالی مسائل حل ہوسکتے تھے۔ اپنے بھائیوں سے اس نے ایک شام اس زمین کو واپس لینے کی خواہش کا اظہار کیا اور اگلے دن وہ جس گھر میں رہ رہا تھا وہ اس کے خونی رشتوں کا نہیں رہا تھا۔ ایک ہی رات میں ان سب کی نظریں بدل گئی تھیں۔ خیر دین نے ایسی بے گانگی اور بے رخی پہلے نہیں دیکھی تھی۔ وہ خیر دین کو اس گھر میں رکھنے پر تیار تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی خیر دین کو اس کی زمین واپس کرنے پر تیار نہیں تھا۔ وہ اس کا جائز حق ہوتا نہ ہوتا… خیر دین جن حالات سے گزررہا تھا ان میں اس کے لیے یہ ایک اور صدمہ اور دھچکا تھا۔ اپنوں سے ملنے والے زخم تھور کے زہر کی طرح ہوتے ہیں۔ شہر سے خیر دین مر کے آیا تھا اور خاندان والوں نے اسے دفن کردیا تھا۔ ایسا بوجھ اس نے کبھی زندگی میں نہیں اٹھایا تھا۔ ایسا محتاج اور کمزور خیر دین کبھی نہیں پڑا تھا۔ وہ اپنے بھائیوں سے زمین کا مطالبہ کرسکتا تھا لیکن ان سے لے نہیں سکتا تھا کیونکہ ان کے ساتھ ان کے بیٹے کھڑے تھے اوربھتیجوں کی اس لمبی فوج سے خیر دین ٹکر نہیں لے سکتا تھا۔ زندگی میں وہ پہلا موقع تھا جب خیر دین کو ایک بیٹا نہ ہونے کی حسرت ہوئی تھی۔ بیٹے شاید ایسے موقعوں کے لیے ہی مانگے جاتے ہیں۔




Loading

Read Previous

صلیب — ثمینہ طاہر بٹ

Read Next

عکس — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!