عکس — قسط نمبر ۶

خیر دین روز زمین پر جاتا… بھائیوں اور بھتیجوں کے منہ نہ لگانے کے باوجود ڈھیٹوں کی طرح ان کے ساتھ کام کرتا پھر شہر جا کر سبزی بیچتا… اور اس ساری مشقت کے عوض کوئی اسے پچاس سو پکڑا دیتا۔ وہ چند نوٹ ہاتھ میں لے کر خیر دین خون کے آنسو روتا، اس پر چڑیا اور حلیمہ کی ذمے داری نہ ہوتی تو وہ مرجاتا لیکن کبھی اس طرح حق کے بجائے بھیک نہ لیتا لیکن اس کی زندگی میں موجود دو عورتوں نے اسے بہت کمزور کردیا تھا… مجبور،کمزور اور بے بس۔




چڑیا اپنے نانا کی اس بے بسی کی داستان کی عینی شاہد تھی۔ ایک بچہ انسانوں کے عروج اور زوال کے سائیکل کو نہیں سمجھتا۔ اپنے ارد گرد سب کچھ اچھا دیکھ کر وہ یہی سمجھتا ہے کہ دنیا بس ایسی ہی اچھی ہوتی ہے اور ایسی ہی رہے گی اور اپنے آپ کو برے حالات میں بھی دیکھ کر اس کی سوچ یہی ہوتی ہے ۔چڑیا نے اس گاؤں میں خیر دین کا عروج و زوال، عروج و زوال سے واقف ہوئے بغیر دیکھا تھا اور خیر دین کے ساتھ اس نے اپنا عروج وزوال بھی دیکھا تھا، وہ خیر دین کے ساتھ چھٹی پر گاؤں آتی تو وہاں اس کا بھی شاندار استقبال ہوتا تھا۔ وہ جتنے دن وہاں رہتی شاہانہ انداز میں رہتی کیونکہ وہ خیر دین کی نواسی تھی۔ انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتی تھی اور خیر دین کی طرح انگریزی بول سکتی تھی اور ہمیشہ فرسٹ آتی تھی۔ وہ فراک پہنتی تھی اور اپنے خاندان کے تمام بچوں سے زیادہ اچھی اور مہنگی چیزیں تھیں اس کے پاس۔ ربنز تھے، گھڑی تھی، بالیاں تھیں، بوٹ بھی تھے۔ وہ دوسرے بچوں کی طرح مسواک اور دنداسے سے دانت صاف نہیں کرتی تھی ٹوتھ پیسٹ کرتی تھی اور وہ اپنے بالوں کو دیسی صابن سے رگڑ رگڑ کر نہیں دھوتی تھی بلکہ شیمپو کرتی تھی۔ وہ اپنے بالوں میں برش کرتی تھی اور پاؤڈر اور کریم لگاتی تھی۔ وہ چاول ہاتھ سے نہیں کھاتی چمچ سے کھاتی تھی،شیشے کے گلاس میں پانی پیتی تھی اور اس کے پاس ایسے کھلونے تھے جو گاؤں میں کبھی کسی نے دیکھے تک نہیں تھے۔ خیر دین نے چڑیا کو میم صاحب کی طرح پالا تھا اور چڑیا اور چڑیا کا رہن سہن پورے خاندان کے بچوں کو اس پر رشک کرنے پر مجبور کردینے کے لیے کافی تھا۔
اور اب وہ میم صاحب ایک تماشے کی صورت میں ان کے بیچ واپس آئی تھی۔ اس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں دنوں میں ہر جگہ پھیل گئی تھیں اور انہیں پھیلانے میں خیر دین کے اپنے خاندان کا زیادہ حصہ تھا ۔چڑیا کے سامنے بچے چڑیا کے بارے میں اس کو دیکھتے ہوئے سرگوشیاں کرتے یا اسے عجیب مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے… اسے اپنے جیسا بلکہ اپنے سے زیادہ بری حالت میں دیکھنا خاندان کے بچوں سے زیادہ ان کے ان بڑوں کو خوشی اورتسکین پہنچارہا تھا جو اس سے پہلے اسے دیکھ کر اپنے بچوں کے حوالے سے مزید حسرتوں کا شکار ہوجاتے تھے۔
وہاں آنے کے چند دن کے بعد ہی خیر دین نے اسے گاؤں کے اسی اسکول میں دوبارہ داخل کروادیا جہاں سے اس نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا تھا۔ چڑیا اس دن پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔ اسے اس کانونٹ سے بہت پیار تھا جہاں وہ پڑھ رہی تھی وہاں اس کی فرینڈز تھیں فیورٹ ٹیچرز تھیں اور باربی ڈول بھی تھی۔ اس کی تصوراتی دنیا پہلے ہی جیتے جاگتے کرداروں سے محروم ہوچکی تھی اب اس کی حقیقی دنیا بھی ان تمام لوگوں سے محروم ہوگئی تھی جن سے وہ پیار کرتی تھی۔
گاؤں کے اسکول میں گزارے ہوئے چند ہفتے چڑیا کی زندگی کا ایک اور بے حد تکلیف دہ تجربہ تھا۔ وہ چھوٹا سا گاؤں چڑیا کے ساتھ ہونے والے واقعہ سے آگاہ تھا اور اسکول میں آنے والا ہر بچہ بھی چڑیا کو جیسے اسی حوالے سے پہچاننے اور اس میں دلچسپی لینے لگا تھا ۔ پہلے ہی دن اس کی ایک ٹیچر نے اسے اسٹاف روم میں بلوا کر وہاں تمام ٹیچرز کے درمیان ڈی سی ہاؤس میں ہونے والے واقعے کے بارے میں اسے کریدنا شروع کردیا۔ وہ خوف سے اسی طرح گنگ ہوگئی تھی جس طرح اس واقعے کے بارے میں کسی کے بھی سوالوں سے ہوجاتی تھی اور اس کی خاموشی نے جیسے ان ٹیچرز کوIrritate کیا تھا۔ چڑیا پہلے دن ہی اپنی ٹیچرز پر ایک برا تاثر چھوڑ کر آئی تھی جو اس کے اس اسکول میں آخری دن تک قائم رہا تھا۔




اس کی ٹیچر کا وہ تجسس صرف ایک ابتدا تھی اس کے بعد کے ہفتوں میں چڑیا نے اپنی ہم عمر بچیوں اورٹیچرز کی طرف سے بدترین جنسی سوالات اور harassment کا سامنا کیا تھا۔ اس کی اپنی کلاس کی بچیوں سے لے کر بڑی کلاسز کی بچیوں تک ہر ایک کو چڑیا سے اس واقعے کی تفصیلات جاننے کے لیے ایک عجیب ساتجسس اور بے چینی رہتی تھی۔ وہ کسی فری پیریڈ یا لنچ بریک کے دوران اسکول کے میدان میں بڑی کلاسز کی بچیوں سے چھپتی پھرتی جو اسے گروپ کی شکل میں گھیر لیتیں اور پھر ان سے انتہائی بے ہودہ سوالات کرنا شروع کردیتیں… ایسے سوالات جن پر چڑیا کبھی خوفزدہ ہوتی توکبھی شرم سے سرخ اور کبھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی۔ اس اسکول میں اس کا کوئی دن ایسا نہیں گزرا تھا جب وہ دن میں کم از کم ایک بار کسی بچی یا ٹیچر کی وجہ سے رونہ پڑتی ہو۔
اور اسکول میں اس کے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا وہ خیر دین نہیں جانتا تھا۔ چڑیا جو ہمیشہ اپنے اسکول میں ہونے والی ایک ایک بات خیر دین کو بتایا کرتی تھی اب اس واقعے کے حوالے سے کچھ بھی خیر دین کو بتانے سے ڈرتی اور جھجکتی تھی۔ اسکول سے اب اسے خیر دین کے بجائے حلیمہ لینے آتی تھی اور وہ حلیمہ کے سامنے اترے چہرے کے ساتھ اسکول سے برا مد ہوتی اور خاموشی سے اس کے ساتھ گھر کے رستے پر چل پڑتی۔ پورے دن میں وہ پہلا موقع ہوتا تھا جب وہ خوف وہراس کی اس کیفیت سے باہر آتی تھی اور جب وہ سر اٹھا کر رستے میں آنے والے کسی شخص کو دیکھ سکتی تھی، سر اورنظریں جھکائے نہیں چلتی پھرتی تھی۔ حلیمہ نے بیٹی کے اترے چہرے کو دیکھ کر پریشان ہونا یا سوال کرنا چھوڑدیا تھا۔ زندگی میں اب اتنے مسئلے ہوگئے تھے کہ چڑیا کی اداسی اور ناخوشی جیسا مسئلہ بہت پیچھے چلا گیا تھا۔
چڑیا اسکول والے عقوبت خانے سے گھر والے چھوٹے سے عقوبت خانے میں آجاتی جہاں باقی کا سارا دن وہ اس کمرے میں ہی بیٹھے بیٹھے گزار دیتی جس میں حلیمہ اور خیر دین کی رہائش تھی۔ وہ وہیں ہوم ورک کرتی وہیں کھانا کھاتی اور پھر وہیں اپنے کھلونے یا کہانیوں کی کوئی کتاب نکال کر بیٹھ جاتی اور اس طرح ایک اور دن گزر جاتا۔ خیر دین شام کو گھر آتا تھا اور اتنا تھکا ہوا ہوتا تھا کہ اس کے لیے چڑیا یا حلیمہ سے بات کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا تھا۔اسکول کی پڑھائی اتنی آسان تھی کہ خیر دین کو پہلے کی طرح اسے پڑھانے کی جدو جہد میں خود کو ہلکان نہیں کرنا پڑتا تھا۔ وہ اب بھی چڑیا کی ہر چیز کا خیال کرتا تھا اس کے کھانے پینے کا لباس کا… اب بھی وہی اس کی پونی یا چٹیا کر کے اسے صبح اسکول چھوڑ کر آتا تھا لیکن بس اس میں فرق یہ آیا تھا کہ اب اس نے اپنی پروا کرنی چھوڑ دی تھی۔ وہ بالوں کو نہیں رنگتا تھا اب، نہ ہی کپڑے استری کر کے پہنتا تھا… نہ اپنی داڑھی باقاعدگی سے منڈواتا تھا اور چڑیا کو خیر دین پر ترس آتا تھا اسے لگتا تھا خیر دین کے اس حلیے کی ذمے دار بھی وہی ہے اس نے اپنے نانا کو اتنا بوڑھا کردیا تھا۔
سب کچھ شاید اسی طرح چلتا رہتا اگر چڑیا زندگی میں پہلی بار امتحان میں فیل نہ ہوجاتی اور اس کی ناکامی خیر دین کے لیے جیسے ہارٹ اٹیک سے کم نہیں تھی۔ وہ بے یقینی کے عالم میں رزلٹ کارڈ میں تقریباً ہر مضمون کے نیچے لگی سرخ لکیر کو دیکھتا رہا۔ سہ ماہی امتحان کا نتیجہ لینے وہی اسکول گیا تھا اور رزلٹ کارڈ کو دیکھ کر ہونے والی بے یقینی اس کے پیپرز کو دیکھ لینے کے باوجود بھی قائم رہی تھی۔ اس کے برابر کھڑی چڑیا سرجھکائے نظر پاؤں پر جمائے ہوئے اس کے کسی سوال کا جواب نہیں دے رہی تھی اور اس کی کلاس ٹیچر خیر دین کو چڑیا کی شکایت پر شکایت لگارہی تھی۔ خیر دین گم صم اس کو لیے اسکول سے آگیا تھا۔ اس نے رستے میں چڑیا سے کچھ نہیں پوچھا تھا۔
گھر آکر اس نے گاؤں آنے کے بعد پہلی بار چڑیا سے اسکول کے حوالے سے بات کی۔” تم پڑھنانہیں چاہتیں چڑیا؟” چڑیا نے نفی میں سر ہلادیا خیر دین کو یقین نہیں آیا۔
”تم پڑھو گی نہیں تو کیا کروگی؟” چڑیا بے تاثر چہرے کے ساتھ خیر دین کو دیکھتی رہی۔
”میں نے تم پر کتنی محنت کی ہے چڑیا۔” اس نے جیسے بے بس سے انداز میں چڑیا سے زیادہ خود سے کہا تھا۔
”یہ اسکول مجھے اچھا نہیں لگتا۔” بہت دیر کے سوال جواب کے بعد چڑیا کے منہ سے بالآخر نکلا۔
”کیوں؟” خیر دین حیران ہوا۔
”یہاں سب مجھ سے غلط سوال کرتے ہیں۔”
اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ خیر دین دھک سے رہ گیا تھا اسے تو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ چڑیا کو اسکول میں ایسا کوئی مسئلہ ہوسکتا تھا۔ اس نے چڑیا سے غلط سوالوں کی نوعیت دریافت نہیں کی تھی، اسے اندازہ تھا وہ سوال کیسے ہوں گے۔
اس رات خیر دین نے بیٹھ کر ایک بار پھر سوچا تھا کہ اسے کر نا کیا ہے…وہ وہیں گاؤں میں رہے یا پھر شہر کو پلٹ جائے اور شہر کوپلٹ جانے کا مطلب اس معاہدے کی خلاف ورزی تھی جو وہ ڈی سی کے ساتھ کر کے آیا تھا۔ چڑیا اس کی زندگی کا فوکس تھا اس نے آج تک جو کچھ کیا تھا چڑیا کے لیے کیا تھا۔ ا س کو آگے بھی جو کچھ کرنا تھا چڑیا کے لیے ہی کرنا تھا۔
……٭……




باربی ڈول نے چند ایک بار ہوم ورک کرتے ہوئے اپنی ممی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کی ممی فون پر اس کی دادی سے بات کررہی تھی اور بات کرتے ہوئے مکمل طور پر مگن تھی۔
”جی ممی بس ایک ہفتے تک شفٹ ہوجائیں گے۔” باربی ڈول کی ممی نے مسکراتے ہوئے اپنی ساس سے کہا تھا۔
”چلو اچھا ہے… حبیب نے سیکریٹری کے پیچھے پڑ کر پوسٹنگ کروائی ہے اس بار اور وہ بھی صرف تمہاری وجہ سے ورنہ حبیب کہاں اس چیز پر believe کرتے ہیں کہ ایک جگہ پر مدت پوری کیے بغیر کسی دوسری جگہ ٹرانسفر کروائی جائے۔”اس نے ساس کی باقی بات پر دھیان نہیں دیا۔
”میری وجہ سے؟ میری وجہ سے کیوں ممی؟” اس نے ساس سے کہا۔
”تم نے ہی تو کہا تھا ٹرانسفر کے لیے…تم کمفرٹیبل نہیں تھیں گھر میں… انہی بونوں وغیرہ کی وجہ سے… کہہ رہا تھا کہ گھر میں پھر کچھ عجیب وغریب واقعات ہونے لگے ہیں۔
اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اپنی ساس کو کیا جواب دے۔ وہ اس وقت حیرت کے ایک شدید جھٹکے کا شکار تھی۔ اس کے شوہر نے یہ امپریشن دے کر اس کے سسر سے اپنی ٹرانسفر کے لیے سفارش کروائی تھی کہ اسے اس گھر میں مسائل ہورہے تھے۔ حالانکہ وہ پرابلمز اب پرانی بات ہوچکی تھی وہ ان سب چیزوں کے ساتھ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرچکی تھی، یہ اب اس کے لیے کوئی بڑی بات نہیںرہی تھی… اور ابھی حال ہی میں تو ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا جس کی شکایت اس نے اپنے میاں سے کی ہو، پھر اس کے شوہر کو اچانک اس طرح بیٹھے بٹھائے کیا ضرورت پڑی تھی کہ اس نے اپنی بیوی کا نام استعمال کیا۔ اس نے ساس سے کوئی تردید نہیں کی تھی اور موضوع بدل کر بات کرنے لگی لیکن وہ بری طرح الجھ گئی تھی اور جب دس منٹ بعد فون رکھ کر وہ باربی ڈول کی طرف متوجہ ہوئی تو باربی ڈول بھی بے حد بیزار بیٹھی تھی۔
”Mummy I need to tell you something ”اس نے فون سے فری ہوتی ہوئی ماں کو اپنی طرف متوجہ ہوتے دیکھ کر کہا۔
”ہاں بتاؤ۔” اس کی کلاس ورک کی نوٹ بک اٹھاتے ہوئے اس کی ممی نے اس سے کہا۔
”بابا آج اسکول آئے تھے۔” وہ نوٹ بک پر نظر دوڑاتے ہوئے چونک گئیں۔
”بابا آئے تھے؟” اس نے حیرانی سے باربی ڈول سے پوچھا۔اس نے سر ہلایا۔
”لیکن وہ مجھ سے نہیں ملے… ان کو ملنا چاہیے تھا نا ممی۔” باربی ڈول نے اسے بتایا پھر ساتھ ہی شکایت کی۔
”تم سے نہیں ملے تو پھر تمہیں کس نے بتایا؟” اس نے سنجیدگی سے باربی ڈول سے پوچھا۔
”مجھے ٹیچر نے بتایا۔ ”He had a fight with sister ”وہ باربی ڈول کی بات پر کچھ لمحے ہل نہیں سکی پھر اس نے بے یقینی سے کہا
”Your Papa had a fight with sister ”
”yes”۔ باربی ڈول نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
‘‘Which sister? ”
”Sister Agnus ” وہ اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
”اور ممی پاپا نے سسٹر سے کہا تھا کہ چڑیا کو اسکول سے نکال دیں۔” باربی ڈول نے روانی سے لیکن کچھ بے چینی سے کہا۔
……٭……
فاطمہ نے ایبک کو اپنی ڈیبیٹ کا آغاز کرنے کے لیے اسٹیج کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھا۔ اس کا نام اناؤنس ہونے سے لے کر اب تک وہ اس پر اپنی نظریں نہیں ہٹا پائی تھی۔ اپنی ڈیبیٹ کا کاغذ ہاتھ میں لیے وہ ایک بت کی طرح بیٹھی اس کی تین منٹ کی ڈیبیٹ سنتی رہی تھی جس کے دوران ہال کئی بار تالیوں سے گونجا تھا اور کئی دفعہ حاضرین کے چہروں پر مسکراہٹیں آئی تھیں ۔صرف وہ تھی جس نے نہ تالی بجائی تھی نہ وہ مسکرائی تھی۔ وہ گم صم اسے دیکھتی رہی تھی۔ وہ اسٹیج سے تالیوں کی گونج میں نیچے اترا تھا اور اپنی ٹیم کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔ فاطمہ کو اب اپنے ادارے کی ٹیم کو لیڈ کرنا تھا اور اب ان کی ٹیم کی باری تھی اور میزبان ٹیم ہونے کی حیثیت سے وہ تالیوں سے گونجتے ہال میں اپنا نام لیے جانے پر اپنی کرسی سے اٹھی تھی۔ اس کے ادارے کے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز کے تالیاں بجاتے ہاتھوں میں پہلے سے بھی زیادہ جوش آگیا تھا۔ وہ اپنے ادارے کی سب سے بہترین ڈیبیٹر تھی اور جہاں وہ ہوتی وہاں پہلی پوزیشن کہیں اور نہیں جاسکتی تھی… تو آج بھی وہ سارے اس ہال میں اسی اندھے اعتماد اور یقین کے ساتھ بیٹھے تھے… صرف سیڑھیاں چڑھتی فاطمہ تھی جو اس اعتماد اور یقین سے محروم تھی۔
……٭……




Loading

Read Previous

صلیب — ثمینہ طاہر بٹ

Read Next

عکس — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!