”آپ مجھے دے دیں کتاب… میں ریٹرن کروادوں گی جب اسٹاف میں سے کوئی آئے گا۔” شیر دل نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ بڑے شستہ انداز میں اسے آفر رکررہی تھی، ایک غیر متوقع آفر۔ وہ چند لمحوں کے لیے حیران ہوا پھر اس نے کہا۔
”تھینک یو… آپ کو جلدی نہیں ہے کیا؟”
”بہت زیاد ہ جلدی نہیں ہے۔” وہ مسکرائی تھی، وہ بھی مسکرادیا۔برف پگھلنے لگی تھی۔ شیر دل نے اپنی کتاب اس کے پاس کاؤنٹر پر چھوڑدی اور خود وہاں سے چلا گیا۔
عکس سے اس کی دوسری ملاقات ایک ویک اینڈ اکیڈمی کے گراؤنڈ میں صبح سویرے جوگنگ کے دوران ہوئی تھی۔ ان کے بہت کم بیچ میٹ چھٹی کے دن سورج کے نکلنے سے بھی پہلے اس طرح کی کسی جسمانی سرگرمی میں مصروف پائے جاتے تھے۔ شیر دل نشے کی حد تک رننگ اور جوگنگ کا عادی تھا اور عکس صبح سویرے طلوع آفتاب کو دیکھنے اور اس وقت چہل قدمی کی۔ شیر دل اس کو اکثر رننگ کے دوران وہاں دیکھا کرتا تھا لیکن عام دنوں میں اس وقت کچھ دوسرے کامنرز بھی وہاں پائے جاتے تھے اور شیر دل کو پہلے کبھی موقع ملا بھی تو اسے عکس کو مخاطب کرنے میں دلچسپی نہیں تھی… لیکن لائبریری والے واقعے کے بعد اس نے پہلی بار رننگ کے دوران عکس کو اکیلے دیکھا تھا اور وہ اس کو دیکھتے ہوئے رک گیا تھا۔
”بہت ہمت ہے آپ کی سنڈے کو بھی نکلی ہوئی ہیں۔” شیر دل نے اس کے قریب رکتے ہوئے علیک سلیک کے بعد کہا۔
”آپ سے کم ہی ہے ہمت… میں تو صرف ہلکی پھلکی چہل قدمی کے لیے نکلی ہوں… آپ کی طرح ڈھائی تین میل کی رننگ تو نہیں کرتی سنڈے کو۔” شیر دل نے بے حد حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا تھا وہ واقعی ڈھائی تین میل رننگ کیا کرتا تھا اورعکس کے منہ سے یہ بات اسے بے حد حیران کن لگی تھی۔ یہ تبھی ہوسکتا تھا جب وہ اسے ٹریک کے چکر لگاتے باقاعدگی سے دیکھتی رہی ہو۔ اس کے چہرے اور آنکھوں میں یک دم شاید اتنی حیرانی آئی تھی کہ عکس بھی پوچھے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
”کیا ہوا؟”
”کچھ نہیں…” شیر دل نے مسکراتے ہوئے ٹالا۔
”چلیں پھر آپ چہل قدمی کریں اور میں اپنے تین میل پورے کرتا ہوں۔” اس نے رننگ دوبارہ اسٹارٹ کرتے ہوئے عکس سے کہا۔ چند منٹوں کے بعد ٹریک کے بینڈ پر اس نے اپنے عقب میںعکس کو دیکھنے کی کوشش کی وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی۔ وہ حیران رہ گیا تھا، وہ اتنی جلدی کہاں غائب ہوسکتی تھی۔ اس کے چلنے کی رفتار اتنی زیادہ تو نہیں تھی کہ وہ منٹوں میں وہاں سے اپنے ہاسٹل پہنچ جاتی… باقی رننگ کرتے ہوئے وہ مسلسل اس جگہ پر عکس کو کھوجتا رہا جہاں وہ اس سے ملا تھا لیکن وہ اسے نظر نہیں آئی اور پھر اچانک اس نے اسے ایک درخت کے ساتھ پشت ٹکائے کھڑے دیکھا تھا وہ اب ٹریک پر اسی طرف تھا جس طرف وہ پہلے عکس سے مل چکا تھا۔ ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا تھا اسے جیسے عکس کو ڈھونڈ لینے پر۔ رننگ کرتے ہوئے وہ وقتاً فوقتاًنظریں اٹھا کر اس کو دیکھتا رہا وہ اسی طرح درخت کے ساتھ ٹکی کھڑی تھی۔ ٹریک پر اس کی طرف بڑھتے ہوئے شیر دل کو احساس ہوا کہ وہ کچھ دور کسی چیز کو دیکھنے میں مگن تھی۔ اس نے بھاگتے بھاگتے عکس کی نظروں کا تعاقب کیا۔ ٹریک کے بالمقابل روش کے دوسری طرف نظر آنے والے لان کی ایک باڑ کے پاس بلی اپنے کچھ بچے لیے پھر رہی تھی۔ شیر دل نے ٹریک پر بھاگتے ہوئے ا س سے بات کرنے کی شدید خواہش کے باوجود بھی اس درخت کو کراس کیا جس کی دوسری طرف وہ کھڑی تھی۔
”میں ڈراپ کردوں آپ کو؟” ایک ہفتے کے بعد ان کی تیسری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بھی ایک ویک اینڈ تھا۔ سہ پہر کے قریب شیر دل اپنے گھر کاایک چکر لگانے کے لیے نکلا تھا جب اس نے اکیڈمی کے داخلی دروازے کی طرف جاتی ہوئی عکس کو دیکھا۔اس نے گاڑی روک کر اسے آفر کی۔
”نہیں تھینک یو…” اس نے انکار کیا۔
”اوکے…” شیر دل نے اصرار نہیں کیا۔ وہ شاید اس انکار کے بارے میں سوچتا تک نہیں اگر اکیڈمی کے گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے بیک ویو مرر میں وہ مجتبیٰ فرقان کی گاڑی کو اس کے قریب آکر رکتے اور اسے اس کی گاڑی میں بیٹھتا نہ دیکھ لیتا۔ خفگی کا ایک شدید احساس تھا جو اسے ہوا تھا۔ اس کے لیے شیر دل کے ساتھ جانا قابل قبول نہیں تھا مجتبیٰ کی گاڑی میں جانے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ عکس سے ایک بار پھر بری طرح چڑا تھا وہ۔
اکیڈمی کی سب سے خوب صورت لڑکی عالیہ نعیم اور سب سے hot لڑکی عکس ہے۔” وہ اس رات میس میں بیٹھا چند دوسرے کامنرز کے ساتھ گپ شپ کررہا تھا جب ان کی ساتھی لڑکیوں کاذکر شروع ہوا اور نافع نے تبصرہ کیا۔ شیر دل کو جیسے کرنٹ لگا تھا… اور اس کرنٹ کی وولٹج میں اس وقت کچھ اور اضافہ ہوا جب اس نے وہاں بیٹھے باقی تینوں کا منرز کو بھی نافع سے متفق پایا۔ عالیہ نعیم کو بیوٹی کوئین ماننے میں اسے بھی تامل نہیں تھا لیکن عکس کو ہاٹیسٹ وویمن ماننے میں اسے تذبذب تھا۔
”عکس سب سے ہاٹ ہے؟کم آن۔” اس نے جیسے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”تو تمہیں کون ہاٹ لگتی ہے؟”نافع نے جواباً اس سے کہا۔ شیر دل نے دومنٹ میں اپنے کامنرز کی تمام لڑکوں کی اسکریننگ کی اور پھر غیر محسوس طور پر وہ عکس کے نام پر آکر رکا۔
”ہاٹ” وہ اب بھی جیسے کچھ نہ ماننے والے انداز میں اس کو the most wanted وویمن کے معیار پر پرکھ رہا تھا۔ اور بالکل اس لمحے عکس مراد علی نے میس میں قدم رکھاتھا اور اکیڈمی میں کئی ہفتے گزارنے کے بعد اس دن پہلی بار شیر دل کو پتا چلا کہ عکس اپنے کامن میں پاپولر نہیں تھی وہ اس کا من کے تمام لڑکوں میں پاپولر تھی اور اس کی وجہ اس کی پہلی پوزیشن سے بڑھ کر بھی کچھ تھی۔ نافع اگر کہہ رہا تھا کہ اس کی فگر وہاں موجود لڑکیوں میں سب سے اچھی تھی تو وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ شیر دل نے اتنے ہفتوں میں پہلی بار اس کا سرسے پیر تک جائزہ لیا تھا۔ وہ ان لڑکیوں میں سے تھی جو کچھ بھی پہن لیتیں ان پر اچھا لگتا تھا… کامن کی کچھ دوسری لڑکیوں کی طرح وہ میک اپ زدہ نہیں تھی۔ ہلکے شیڈز کی ایک لپ اسٹک اور بڑے نفاست سے پن اپ کیے ہوئے شانوں سے کچھ نیچے تک جاتے گھنے بال جو اسٹیپس میں کٹے ہوئے تھے اور جنہیں وہ صرف وہاں سوشل ایوننگز میں کھلے رکھتی تھی… اس کا سنگھار تھی اور یہ اس کی شاندار فگر تھی جو اسے باقی تمام لڑکیوں میں غیر محسوس طور پر ممتاز کیے ہوئے تھی… اس دن وہاں بیٹھے ہوئے شیر دل کو پہلی بار اسے دیکھتے دوسرے لڑکے عجیب انداز میں چبھے تھے۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ عکس مراد علی کے حوالے سے اس طرح کی فیلنگز وہاں موجود تقریباً ہر اس لڑکے کی تھیں جو پہلے سے کہیں انٹرسٹڈ نہیں تھا۔
……٭……