عکس — قسط نمبر ۵

انہی دنوں میں بار بی ڈول نے چند بار اس سے چڑیا کا پوچھا۔ وہ اتنے دن سے چڑیا کو کہیں نہ دیکھنے پر جیسے کچھ تجسس کا شکار تھی۔ اصل تشویش شاید اسے لالی پاپس اور کینڈیز کی اس سپلائی کے بند ہونے کی وجہ سے ہوئی تھی جو پہلے چڑیا کی وجہ سے باقاعدگی سے جاری تھی۔
چڑیا یہاں سے چلی گئی ہے۔” اس نے باربی ڈول کے استفسار پر اسے بتایا۔
”کہاں چلی گئی ہے؟” باربی ڈول بری طرح حیران ہوئی تھی۔ اسے یہ سمجھ نہیں آیا تھا کہ چڑیا اپنا گھر چھوڑ کر کہیں اور کیسے چلی گئی تھی۔
” وہ اپنے نانا کے ساتھ اپنے گاؤں چلی گئی۔” اس نے باربی ڈول کے سوالوں کے جواب میں مختصراً کہا۔
”کیوں؟” باربی ڈول پریشان ہوئی۔




”وہاں ان کا گھر ہے… وہ اب وہاں رہیں گے۔” اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
”ہمارے جتنا بڑا گھر ہے؟” باربی ڈول نے کچھ دیر خاموش رہ کر جیسے کچھ بے قراری کے عالم میں ماں سے کہا۔
”شاید…” ماں نے کچھ گول مول سا جواب دیا۔
”اب وہ کبھی یہاں نہیں آئے گی؟” باربی ڈول نے ایک بار پھر سے بے قرار ہو کر پوچھا۔
”نہیں۔” اس بار اس نے دوٹوک جواب دیا۔
”اور اسکول بھی نہیں؟” باربی ڈول کو مزید تشویش ہوئی۔
”اسکول تو آئے شاید۔” اس نے چند لمحے سوچ کر باربی ڈول کو تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کی۔
”اوکے… ”باربی ڈول بے ساختہ مطمئن ہوئی۔ یعنی چڑیا سے ملاقات کے امکانات ابھی باقی تھے۔
گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد باربی ڈول نے اسکول جانا دوبارہ شروع کیا۔ چڑیا سے دوبارہ ملاقات کی خواہش جیسے اسکول جانے میں اس کی بنیادی دلچسپی کی وجہ بن گئی تھی۔ پہلے دن اسکول میں وہ متلاشی نظروں سے بریک ٹائم میں چڑیا کو ڈھونڈتی رہی اس سے پہلے پورا دن ہر بار کلاس روم کے دروازے کے سامنے سے کسی کے گزرنے پر وہ بے اختیار دروازے کو اس مسکراتے ہوئے چہرے کے نظر آنے کی امید میں دیکھتی رہی تھی۔ وہ بہت اداس پہلے دن اسکول سے واپس آئی تھی۔ اگلے دو دن چڑیا کا انتظار کرنے کے بعد وہ چوتھے دن خود چڑیا کی کلاس میں چلی گئی تھی۔
”وہ تو اسکول ہی نہیں آرہی۔” اس کی ایک فرینڈ نے باربی ڈول کو دیکھنے پر اسے بتایا اور ساتھ ہی اس سے پوچھا۔ ”وہ بیمار ہے کیا؟”
باربی ڈول کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس کی فرینڈ کے سوالات کا کیا جواب دے۔ چڑیا تو واقعی اس کے گھر میں تھی، اسے پتا ہونا چاہئے تھا اس کے بارے میں۔
” وہ گاؤں چلی گئی ہے۔” اس نے سوچ سوچ کر اس کی فرینڈ کووہ وجہ بتائی جو اس کی ممی نے بتائی تھی اور وہاں سے آگئی۔
ایک ہفتہ گزرنے کے بعد چڑیا کی کلاس ٹیچر اس کے پاس آئی تھیں اور انہوں نے ایک وارننگ لیٹر اس کی ڈائری میں چڑیا کو دینے کے لیے اسٹیپل کردیا تھا۔ وہ ایک ہفتے سے اسکول سے بغیر اطلاع اور بغیر ایپلیکیشن کے غائب تھی۔ کچھ دن اور گزرجاتے تو اسکول سے اس کا نام کاٹ دیا جاتا۔ اسکول کے پاس چڑیا سے رابطے کا واحد ذریعہ باربی ڈول تھی کیونکہ چڑیا اور باربی ڈول کا ہوم ایڈرس ایک ہی تھا۔
چڑیا کی کلاس ٹیچر کو اپنی کلاس کی سب سے برائٹ بچی کے یوں اچانک غائب ہونے پر بے حد تشویش تھی۔ اس سے پہلے اس نے کبھی اسکول سے چھٹی نہیں کی تھی… بغیر اطلاع چھٹی کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔ وہ باربی ڈول سے چڑیا کے بارے میں سوالات کرتی رہیں اور اس کے یہ بتانے پر کہ چڑیا گاؤں چلی گئی وہ گاؤں میں اس کا ایڈریس پوچھنے کی کوشش کرتی رہیں۔
اس دن شام کو ہوم ورک کے لیے بیگ کھولتے ہوئے اس کی ممی نے اس کی ڈائری میں چڑیا کو اسکول کی طرف سے ملنے والا وہ وارننگ لیٹر دیکھا جو DC ہاؤس کے پوسٹل ایڈرس پر بھیجا جاتا اگر باربی ڈول خود اسکول نہ جارہی ہوتی۔ خیر دین کے دیے ہوئے فون نمبر پر رابطہ کرنے پر یقینا اسکول کلرک کو کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا تھا اور خاطر خواہ جواب ملتا بھی کیسے۔ DC ہاؤس کا آپریٹر چڑیا کے اسکول سے آنے والی ایک کال پر خیر دین کے بارے میں انہیں کتنی تفصیلات دے سکتا تھا۔ خاص طور پر جب گھر کا ہر ملازم اندر کی کہانی سے واقف تھا لیکن خاموش تھا تو آپریٹر کے پاس بھی یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ خیر دین جاب چھوڑ گیا تھا۔




وہ بہت دیر تک اس وارننگ لیٹر کے میٹر کو پڑھتی رہی۔ الجھنوں کی اس ڈوری میں ایک گرہ اور لگی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ خیر دین کتنے شوق اور محنت سے چڑیا کو پڑھارہا تھا اور وہ اس بات سے بھی واقف تھی کہ اس کی تعلیم کے اخراجات وہاں سے پوسٹ آؤٹ ہونے والے ایک پرانے آفیسر اور اس کی بیوی اٹھارہے تھے… اور وہ اس بات سے بھی آگاہ تھی کہ چڑیا ایک آؤٹ اسٹینڈنگ اسٹوڈنٹ تھی۔ وہ جتنی بار بھی باربی ڈول کے لیے اسکول جا کر سسٹر ایگنس سے ملی تھی ہر بار اس نے ان سے چڑیا کے قصیدے سنے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ اس بچی کے لیے اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھنے لگی تھی۔کئی بار اندر بیٹھے ہوئے اس نے چڑیا کولان میں باربی ڈول کے ساتھ نرسری rhymes گاتے ہوئے سنا۔ اس کی آواز اور لب و لہجہ اتنا خوب صورت اور عمدہ تھے کہ وہ بہت بار اس کی rhymes سننے بیٹھ جاتی تھی اور باقی رہی سہی کسر باربی ڈول کے سنائے ہوئے قصوں نے پوری کردی تھی۔ ایبک کی ماں کے برعکس چڑیا کے بارے میں یہ سب کچھ جان لینے کے بعد اس نے باربی ڈول کو کبھی اس کے ساتھ کھیلنے سے روکا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اسے ہمیشہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ بچی خود ہی ان لوگوں کے سامنے باربی ڈول یا دوسرے بچوں کے قریب آنے سے اجتناب کرتی تھی اور اب بیٹھے بٹھائے اس بچی کا اس طرح غائب ہوجانا اسے سمجھ نہیں آیا تھا۔
”خیر دین کی نواسی نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے کیا؟ آدھے گھنٹے بعد اپنے شوہر کے گھر آنے پر اس نے چڑیا کے وارننگ لیٹر کا تذکرہ اس کے سامنے چھیڑا۔ وہ دونوں ابھی کچھ دیر پہلے ہی شام کی چائے پینے کے لیے بیٹھے تھے۔ وہ چائے کا سپ لیتے ہوئے بری طرح بدکا۔
”خیر دین کی نواسی کا مجھ سے کیا تعلق ہے؟” وہ اپنے شوہر کے جواب پر جیسے ہکا بکا رہ گئی تھی۔ یقینا وہ اپنے سوال کے جواب میں اپنے شوہر کے منہ سے یہ جواب سننے کی توقع نہیں کررہی تھی۔
”میں کب کہہ رہی ہوں کہ آپ کا اس سے کوئی تعلق ہے… میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ وہ اسکول نہیں جارہی۔”اس نے دوبارہ اپنا سوال دہراتے ہوئے کہا لیکن اس بار اس نے سوال کو اطلاع بنا کر پیش کیا تھا۔
”اس کا اسکول جانا نہ جانا ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔” اس بار اس کے شوہر نے کچھ بہتر جواب دیا تھا۔
”چڑیا کی کلاس ٹیچر نے اس کا وارننگ لیٹر ہماری بیٹی کو دیا ہے۔” سرسری انداز میں یہ اطلاع اپنے شوہر کو دیتے ہوئے اگر اسے اپنے شوہر کے رد عمل کا اندازہ ہوتا تو وہ شاید ایسی اطلاع اسے دیتے ہوئے سو بار سوچتی۔
”کیا مطلب؟ انہوں نے اس کا وارننگ لیٹر میری بیٹی کے ذریعے بھجوایا ہے۔” اس کے شوہرنے چائے کا کپ رکھ دیا تھا۔ ”how dare they… ا نہیں ایک آفیسر اور نوکر کے بچے میں کوئی فرق نظر نہیں آیا… ان کی ہمت بھی کیسے ہوئی کہ وہ میری بیٹی سے آکر ایک نوکر کی بچی کے حوالے سے بات بھی کرتے۔” اس نے زندگی میں اپنے شوہر کو کبھی اس طرح اتنی معمولی سی بات پر اتنا غضبناک نہیں دیکھاتھا۔
”وہ ہمارے سرونٹ کوارٹرز میں رہ رہی ہے تو شاید اس لیے انہوں نے پوچھ لیا… یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے…” اس نے بے حد حیرانی کے عالم میں اپنے شوہر کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ شیر دل نے چند منٹوں کے اندر آپریٹر سے باربی ڈول کے اسکول کی پرنسپل سے بات کروانے کا کہا تھا۔
”تم اوور ری ایکٹ کررہے ہو۔”اس نے اپنے شوہر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۴

Read Next

بلّی اور پرندہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!