عکس — قسط نمبر ۵

وہ بات ختم کر کے چند لمحے بیوی کو دیکھتا رہاپھر جیسے اس نے کچھ بے بس ہو کر کہا۔”تم اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو؟… میں جانتا ہوں خیر دین بہت اچھا کک تھا But you just don’t worry… ایک آدھ ہفتے میں اس سے بھی اچھا کک مل جائے گا ہمیں… میں نے ایک دو لوگوں کو بتایا ہے تب تک جمشید سے کام چلاؤ…”اس نے کچن میں خیر دین کے مددگار کا نام لیا اور دوبارہ کتاب کھول لی۔
”میری جیولری بیڈروم میں نہیں تھی۔” وہ چند لمحوں کے لیے ہل نہیں سکا، آئینہ دیکھے بغیر بھی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کے چہرے کا رنگ اس وقت زرد ہوگا۔ سر اٹھا کر اس نے اپنی بیوی کو دیکھا جس کے چہرے پر بے یقینی اور الجھن اب بھی ویسے کی ویسی تھی۔
”بیڈ روم میں نہیں تھی تو کہاں تھی؟” اس نے خود کو نارمل دکھانے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”میرے پاس تھی… میں ساتھ لے کے گئی تھی۔”
اس کا رنگ اب زرد سے یقینا سفید پڑا ہوگا۔ اس نے دل ہی دل میں خود کو برا بھلا کہا تھا… کم از کم یہ جھوٹ بولنے سے پہلے اسے ایک بار الماری میں جیولری کی موجودگی کو ضرور کنفرم کرلینا چاہیے تھے۔
”میرا خیال ہے خیر دین کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے تمہیں…” اس نے بالآخر اپنی بیوی کو کہتے سنا۔
”شاید جیولری اسے الماری میں نہیں ملی اسی لیے اتنی دیر لگ گئی اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ورنہ وہ تو میرے آنے سے بہت پہلے تمہاری جیولری نکال کر غائب ہوجاتا۔” وہ اپنی بیوی کو یہ موقع نہیں دے سکتا تھا کہ وہ خیر دین کو بے گناہ سمجھے۔
”میں کمرے میں آیا تو وہ الماری اور دراز کھولے کھڑا تھا۔ میں تو یہی سمجھا کہ تمہاری جیولری نکال رہا ہے، یہ تو بہت اچھا ہوا کہ وہ وہاں تھی ہی نہیں تم ساتھ لے گئیں…” بات کرتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اس کی بیوی ایک بارپھر اسے بے یقینی کے انہی تاثرات کے ساتھ پلکیں جھپکائے بغیر دیکھ رہی تھی، اب کیا تھا؟ اس نے جیسے کراہتے ہوئے دل ہی دل میں خود سے پوچھا۔ وہ اتنا برا جھوٹ بولنے والا تو نہیں تھا کہ وہ اس پر یقین ہی نہ کرپاتی۔
”الماری اور دراز کی چابیاں تو میرے پاس تھیں… خیر دین نے انہیں کیسے کھول لیا؟” چند لمحوں کے لیے اسے سمجھ نہیں آیا کہ اس کے چہرے کا رنگ اب کیسا ہوگیا ہو گا یا کوئی رنگ اب رہا ہی نہیں تھا۔
اس نے اپنے آپ کو پھر کوسا۔ وہ DMG کے قابل ترین آفیسرز میں سے تھا اور اس نے خیر دین کے خلاف چارج شیٹ تیار کرتے ہوئے اپنی تقریباً ڈیڑھ سال کی ٹریننگ کے تقریباً ہر اصول کو نظر انداز کیا تھا…جھوٹ کو دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ پیش کریں۔ اسے اکیڈمی میں وہ مزاحیہ ڈیبیٹ یاد آئی جو اس نے جیتی تھی… سچا جھوٹ بولنے کے سو کار آمد طریقے…ہر خیالی پلاؤ پر ڈالنے کے لیے اصلی قورمہ تیار کریں۔ اسے اکیڈمی کے ایک انسٹرکٹر کا Proverb یاد آیا…
”یقینا اس نے بنوالی ہوں گی چابیاں…یہ کون سا مشکل کام ہے… یا پھر کسی اور چابی سے کھول لی ہوگی… کوئی پہلی بار تو چوری نہیں کررہا ہوگا وہ کہ بغیر تیاری کے کرے گا۔” کتاب کے صفحے ایک بار پھر برق رفتاری سے پلٹے جانے لگے… اس کی بیوی نے اس کی اس بات کے جواب میں بھی کچھ نہیں کہا اور اس کی اس خاموشی نے جیسے اس کی جان حلق میں اٹکادی تھی۔ ان کی شادی کے تمام سالوں میں آج تک ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس کی بیوی نے کبھی اس کے ساتھ اس طرح کے معاملات پر سوال جواب کیے ہوں، وہ اپنے شوہر کی رائے اور ہربات کو جوں کا توں قبول کرنے کی عادی تھی۔ یہ اپنے شوہر پر اندھا اعتماد کی سنہری مثال تھی اور ایسا اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ اس کے پاس نہیں تھی۔ وہ اپنے شوہر سے دیوانہ وار محبت کرتی تھی، یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کی کسی بات پر یقین کرنے میں وہ جذبات اثر انداز نہ ہوتے۔
”میں سونے جارہا ہوں… بہت تھک گیا ہوں…” اس نے اپنی بیوی کی خاموشی سے جیسے کچھ خائف ہوتے ہوئے وہاں سے اٹھنے میں عافیت سمجھی۔ پتا نہیں اس کی خاموشی میں اب مزید کون سا سوال یا اعتراض چھپا ہوتا جو اسے لاجواب اور جھوٹا ثابت کردیتا۔




اور اس کا یہ اندازہ اور خدشہ ٹھیک تھا۔ شوہر کے بستر پر جا کر لیٹنے کے بعد بھی وہ وہیں بیٹھی رہی تھی۔ وہ اس کے جہیز کی لکڑی کی الماری تھی جس کی ایک دراز میں وہ جیولری رکھتی تھی۔ الماری کا ایک حصہ وارڈ روب پر مشتمل تھا مگر وہاں پر بہت قیمتی کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔ ایسے ملبوسات جو وہ عام طور پر بہت بڑے لیول کے فیملی یا دوسرے فنکشنز میں استعمال کرتی تھی۔ ان کے اپنے بیڈروم میں پرانے زمانے کی طرز کی ایک وارڈ روب دیوار میں موجود تھی اور اس کے اور شوہر کے روز مرہ کے ملبوسات اسی میں ہوتے تھے اور وہ وارڈروب کھلی رہتی تھی۔ خیر دین خود ہی اس وارڈ روب میں اس کے اور اس کے شوہر کے ملبوسات پریس کرنے کے بعد لٹکادیتا تھا… اور ایسا کئی بار اس کی عدم موجودگی میں بھی ہوتا تھا اور وہ وارڈ روب خیر دین کے لیے ممنوعہ چیز نہیں تھی… لیکن اس کا شوہر یہ کہہ رہا تھا کہ خیر دین وہ الماری کھولے کھڑا تھا جس میں اس کی جیولری تھی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ویک اینڈ شہر سے باہر گزارنے کے بعد واپس آنے پر اس نے اپنی الماری اور دراز کو اسی طرح لاکڈ پایا تھا جس طرح وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ اگر خیر دین نے انہیں توڑ پھوڑ کر کھولا تھاتو وہ اسے کھلے ہی ملنے چاہیے تھے اور اگر وہ کسی چابی سے کھولے گئے تھے تو خیر دین کے کھلی الماری اور دراز کے پاس پکڑے جانے کی صورت میں اسے انہیں دوبارہ لاک کرنے کا موقع نہیں مل سکتا تھا۔ اس صورت میں بھی اس کی الماری کو کھلا ہونا چاہیے تھا… اور اگر انہیں بعد میں اس کے شوہر نے لاک کیا تھا تو پھرا س کے شوہر کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ شاید اس نے چابیاں بنوالی ہوں گی اور ان کے ساتھ کھولا ہوگا۔
اس کے شوہر کے بیان میں تضاد ات تھے لیکن اس کے لیے یہ بات پریشان کن نہیں تھی۔ پریشانی اسے اپنے شوہر کے گھبرانے سے ہورہی تھی۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اپنے شوہر کو کنفیوژڈ دیکھا تھا۔ اس کا شوہر اگر اسے جھوٹ کے اس پلندے کے بغیر سیدھا سیدھا کوئی وجہ بتائے بغیر یہ کہہ دیتا کہ اس نے خیر دین کو نوکری سے نکال دیا ہے تو اسے شاید اس طرح کی عجیب فیلنگزکا احساس نہ ہوتا جواب ہورہا تھا۔ کچھ غلط تھا… مگر کہاں…؟ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ مسئلہ اس کے شوہر کی سائیڈ پر تھا خیر دین کی سائڈ پر نہیں… اور عقل یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ جو کچھ اس کا شوہر کہہ رہا تھا وہ ٹھیک تھا۔ وہ رات گئے تک بے مقصد بیٹھی رہی تھی پھر سونے سے پہلے اس نے پتا نہیں کیا خیال آنے پر ایک بار اٹھ کر الماری اور دراز چیک کیے جن کے حوالے سے اس کے شوہر نے خیر دین پر اتنے سنگین الزامات لگائے تھے۔ وہاں کسی لاک کو زبردستی کھولنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ دراز میں اس کی چیزیں جوں کی توں موجود تھیں جس طرح اور جس ترتیب سے وہ رکھا کرتی تھی۔
اس رات اسے نیند مشکل سے آئی تھی۔اگلی صبح اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان خیر دین کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ اس کے شوہر نے جیسے سکون کا سانس لیا تھالیکن شوہر کے گھر سے جانے کے بعد اس نے جمشید سے خیر دین کے بارے میں سوال کیا اور اس وقت اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ گھر کے تمام ملازم کچھ عجیب سے طریقے سے ری ایکٹ کررہے تھے۔ خیر دین کے نام پر وہ سب جیسے گونگے ہوجاتے تھے یا ان کے چہروں پر عجیب سی ہوائیاں اڑنے لگتی تھیں۔ جمشید وہ پہلا ملازم تھا جس سے اس نے خیر دین کے بارے میں پوچھا تھا۔ جواب عجیب رٹے رٹائے انداز میں ملا تھا۔
”وہ نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔جواب اس سے مختلف تھا جو اس کے شوہر نے دیا تھا۔وہ کھٹکی لیکن اس نے نظر انداز کردیا۔
”کہاں چلا گیا؟”
”گاؤں۔” جمشید اس سے نظریں ملائے بغیر میکانیکی انداز میں بول رہا تھا یوں جیسے وہ کوئی روبوٹ تھا اور پھر اگلے دو تین دن میں اس نے خیر دین کے نام پر گھر کے تمام ملازموں کو روبوٹ بنتے دیکھا تھا۔ وہ الجھنے اور چڑنے لگی تھی ان کے اس ایک جیسے رد عمل سے۔ وہ جیسے کسی تھیٹر کے ایکسٹراز تھے جو اپنی لائنز کو بے حد ناقص اور بھونڈے انداز میں ادا کر کے اپنے رول کو مضحکہ خیز بناتے ہوئے audience سے نوٹس ہورہے تھے۔ داد توقیر کیا لیتے… وہ ہوٹنگ کے مستحق بھی نہیں ہوپارہے تھے۔
وہ چند دن سے زیادہ خیر دین کا معما سمجھنے کی کوشش نہیں کرسکی۔ اس کی نند اپنے بچوں کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر واپس جارہی تھی اور اس کا بیٹا ایبک پچھلے کئی دن سے بری طرح بخار میں پھنک رہا تھا۔ اگلے چند دن ایبک کو ہاسپٹلائز کرنا پڑا اور خیر دین کی پراسرار گمشدگی بڑے آرام سے پس پشت چلی گئی۔ایبک اس کے شوہر کو بہت عزیز تھا یہ وہ ہمیشہ سے جانتی تھی لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایبک کی بیماری اس کے شوہر کو اس طرح اپ سیٹ کرے گی۔ اس نے اپنے شوہر کو اپنی بیٹی کی چھوٹی موٹی بیماریوں پراس طرح پریشان دیکھا تھا یا وہ اب اسے ایبک کی بیماری پر پریشان دیکھ رہی تھی۔ ایبک بیماری کے دوران بے حد چڑ چڑا ہوگیا تھا خاص طور پر اسے اپنے شوہرکے ساتھ ایبک کے رویے کی سمجھ نہیں آئی تھی۔ وہ اپنے انکل کو دیکھتے ہی بے وجہ ضد کرتا، بدتمیزی کرتا یا رونے لگتا اور اس کا شوہر جیسے اسے بہلانے کی ہر کوشش میں بری طرح ناکام ہورہا تھا۔ وہ شاندار چھٹیاں جو شروع میں اس کے لیے بے حد خوشگوار اور یادگار تھیں اب آخری دنوں میں ایبک کی بیماری اور اس کے رویے کی وجہ سے جیسے مستقل ٹینشن کا ایک ذریعہ بن گئی تھیں۔ اس کی نند کے پاس اب اس کے ساتھ آؤٹنگ یا شاپنگ کا ٹائم نہیں تھا۔اس کی مکمل توجہ اپنے بیٹے کی صحت یابی کی طرف تھی اور انہی حالات میں جب اسپتال میں ایبک کی حالت کچھ بہتر ہونے پر اس کی نند نے واپس لاہور جانے کا فیصلہ کیا تو اس نے جیسے سکون کی سانس لی۔ نند اور اس کی فیملی کے ساتھ بے حد دوستی ہونے کے باوجود وہ اب گھر میں ہونے والی اس مستقل تیمارداری سے بیزار ہونے لگی تھی جو گھر آنے کے بعد اس کے شوہر کا بچا کھچا وقت بھی لے لیتی تھی۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۴

Read Next

بلّی اور پرندہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!