”ڈاکٹریٹ تو کرلیا اس نے… اب آگے کیاکررہا ہے یہ؟امریکا میں سیٹل ہوگا کیا…؟” شیر دل نے بات کرتے کرتے اچانک اس سے پوچھا۔
”نہیں یہاں فیملی بزنس ہے، اسی کو سنبھالے گا۔” عکس نے بتایا۔
”اور ملہی فیملی کے بزنس کے حوالے سے آپس میں ہی بہت سارے جھگڑے چل رہے ہیں… میں اس حوالے سے زیادہ نہیں جانتا لیکن تم چاہو تو پتا کر کے بتاسکتا ہوں۔” شیر دل نے کہا۔
تھینک یو ویری مچ… میرا نہیں خیال اس کی ضرورت ہے۔” عکس نے بے حد سنجیدگی سے اس کی آفر ٹھکرائی۔ شیر دل مسکرایا۔
”ویسے تمہارا خیال ہے کہ تم کسی پولیٹیکل فیملی میں ایڈجسٹ کرلوگی؟ ” I don’t think so شیر دل نے اپنے سوال کا جواب اس کے منہ کھولنے سے پہلے خود ہی دے دیا۔
”جواد بہت اچھا لڑکا ہے۔” عکس نے بے اختیار اس کا دفاع کیا۔میری اور اس کی بہت انڈر اسٹینڈنگ ہے، مجھے نہیں لگتا زیادہ مسئلہ ہوگا۔”
”مجھے یقین ہے وہ بہت اچھا ہوگا لیکن تم پھر بھی بہت جلدی مت کرو… تھوڑا سوچ لو۔” شیر دل نے سنجیدگی سے کہا۔
”دو سال سے سوچ رہی ہوں۔” عکس نے بے اختیار کہا۔
”اوہ تو دوسال سے اس لیے مجھ سے ہر طرح کا رابطہ ختم کر کے بیٹھی ہوئی تھیں۔”شیر دل نے عجیب جتانے والے انداز میں کہا۔
”بزی تھی بہت۔” عکس نے اسے دیکھے بغیر کہا۔
‘ ‘Obviously… وہ تو میں جان ہی گیا ہوں کہ اسٹیڈیز کے علاوہ کس چیز نے تمہیں وہاں مصروف رکھا ہے۔” شیر دل طنز کیے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ عکس نے ایک بار پھر بڑے تحمل سے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”واٹر سپلائی پروجیکٹ کی فزیبیلٹی رپورٹ ذرا شیئر کرلینا مجھ سے۔” اس نے بات کا موضوع بدلنے کی کوشش کی تھی اور شیر دل نے اس کی اس کوشش کو کامیاب ہونے دیا۔ وہ دونوں اب اپنے پروفیشنل معاملات ڈسکس کرنے لگے۔
……٭……
باربی ڈول اپنے باپ کی گود میں چڑھی اسے مسلسل اس فنکشن کی تفصیلات سنانے میں لگی ہوئی تھی جو وہ فیملی کے ساتھ ویک اینڈ پر اٹینڈ کر کے آئی تھی۔ اس کا باپ مسلسل ہوں، ہاں کے ساتھ اس کے سوالوں کے جوابات دے رہا تھا لیکن وہ باربی ڈول سے ہمیشہ کی طرح وہ سب نہیں پوچھ رہا تھا جو وہ پوچھتا تھا۔ باربی ڈول نے اس کی الجھن بھری خاموشی نوٹس نہیں کی تھی، یہ اس کی بیوی نے کی تھی اور رات سونے سے پہلے اس نے اپنے شوہر سے اس کے رویے کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کی۔”تم کچھ پریشان ہو؟” وہ اس کے سوال پر ایک کتاب پڑھتے پڑھتے چونک گیا۔
”نہیں تو… کیوں؟”
”بس ایسے ہی… تم بہت پریشان اور الجھے ہوئے لگ رہے ہوجب سے میں واپس آئی ہوں۔”
”وہم ہے تمہارا۔” اس کے شوہر نے بے ساختہ کہا اور دوبارہ کتاب پڑھنے لگا۔
”نہیں کچھ نہ کچھ تو ہے…تم شیئر نہیں کرنا چاہتے تو اور بات ہے۔” اس نے شوہر کے جواب کو قبول نہیں کیا تھا۔”
”یار بس آفس کے کچھ پرابلمز کی وجہ سے ٹینس ہوں شاید اس لیے ایسا لگ رہا ہے تمہیں۔” اس نے اس بار مسکرا کر اپنی بیوی کو وضاحت دینے کی کوشش کی۔
”آفس تو ہمیشہ ٹینشن کا باعث ہے تمہارے لیے …پھراب کیا ہوگیا؟ ” اس کی بیوی نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
”کام بہت ہے آج کل آفس میں۔” اس نے بیوی کو ایک گہرا سانس لے کر دیکھا۔
”اتنا کام ہو گیا کہ تمہارے پاس میرے یا اپنی بیٹی سے بات کرنے کے لیے بھی وقت نہیں رہا۔” اس کی بیوی نے گلہ کرتے ہوئے کہا۔
”تمہارے پاس ہی تو ہوتا ہوں ہر وقت …جیسے ابھی۔” اس نے جیسے اپنی بیوی کی تشویش کم کرنے کی کوشش کی۔ ”ہاں ہو تو تم پاس ہی لیکن پتا نہیں کہاں پہنچے ہوئے ہو پچھلے چند دنوں سے۔” اس بار اس کے شوہر نے کتاب کو دوبارہ کھول لیا۔ وہ جیسے اس سے اور اس ٹاپک سے مکمل طور پر بچنا چاہتا تھا۔
”اور یہ خیر دین کہاں چلا گیا ہے؟” شوہر سے بات کرتے کرتے اسے یک دم گھر کا سب سے اہم ایشو یاد آیا۔ کتاب پر اس کے شوہر کی گرفت کچھ اور سخت ہوگئی۔
”خیر دین کو نکال دیا ہے میں نے۔” ایک صفحہ پلٹتے ہوئے اس نے بیوی کو دیکھے بغیر کہا۔ بعض باتوں پر کسی سے بھی نظریں ملانامشکل ہوجاتا ہے خاص طور پر اس شخص سے جو آپ کی زندگی کا ساتھی ہو، آپ سے اندھی محبت کرتا ہو اور آپ کی ہر بات پر آمنا وصدقنا کہہ کر یقین کرنے کا عادی ہو۔
”نکال دیا؟” وہ بری طرح چونکی۔”کیوں؟” خیر دین جیسے خانساماں کو ملازمت سے نکال دینا اور وہ بھی اس طرح اچانک کسی وارننگ کے یا اس کو بتائے بغیر… وہ حیران نہ ہوتی تو کیا ہوتی۔وہ آج تک جہاں جہاں پوسٹڈ رہے تھے اور جن جن ملازمین سے ان کا واسطہ پڑتا رہا تھا ان میں خیر دین بلاشبہ سب سے بہترین تھا اوراس حقیقت کو انہوں نے پہلے چند دنوں میں ہی تسلیم کرلیا تھا۔
”چوری کی تھی اس نے۔” اس کے شوہر نے کتاب کا ایک اور صفحہ پلٹا۔ وہ اب بھی اس کی طرف دیکھے بغیر بات کررہا تھا۔
”خیر دین نے؟”اس کو جیسے شوہر کی بات پر کرنٹ لگ گیا۔
”ہاں…”
”کیا چرایا تھا اس نے؟”وہ اب بھی یقین نہیں کرپارہی تھی۔
”چرالیتا اگر میں آچانک بیڈروم میں نہ آجاتا… تمہاری جیولری نکال کر بیٹھا ہوا تھا۔” کتاب کے صفحے اب بہت رفتار سے پڑھے جارہے تھے۔
وہ بے یقینی سے ایک لفظ بھی کہے بغیر اپنے شوہر کو دیکھتی رہی۔کتاب پر نظریں جمائے ہوئے بھی اس نے بہت بری طرح سے خیر دین کے لیے بیوی کی زبان سے لعنت وملامت سننے کی خواہش کی تھی، یہ جیسے ایک تصدیق ہوتی کہ اس کی بیوی نے اس کی بات کا ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر یقین کرلیا ہے مگر بیوی خاموش تھی اور جب وہ اگلے کئی منٹ تک خاموش ہی رہی تو اسے کتاب سے نظریں ہٹانی پڑیں۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
” Impossible”۔وہ کم از کم یہ لفظ اپنی بیوی کے منہ سے سننے کا خواہش مند نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ بے ساختہ گردن نفی میں ہلا رہی تھی۔
Impossible “والی کیا بات ہے اس میں؟”نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ تند و تیز ہوگیا۔ نوکرتو نوکر ہوتے ہیں… کبھی بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں… ہم ان پر اعتماد تو نہیں کرسکتے… چاہے وہ کتنے بھی اچھے کیوں نہ ہوں۔” وہ خیر دین کے لیے بیوی کی پسندیدگی سے واقف تھا۔ مجھے بھی تمہاری ہی طرح شاک لگا تھا لیکن میں اگر اچانک بیڈ روم میں نہ آجاتا تو تمہاری جیولری غائب ہوچکی ہوتی۔ اس سے پہلے بھی کئی بار میری تھوڑی بہت رقم ادھر سے ادھر ہوتی رہی… میں نے تم سے ذکر نہیں کیا لیکن میں محتاط ہوگیا تھا بہت۔ خیر دین تو شاید یہ سمجھ رہا تھا کہ تم لوگ گھر میں نہیں ہو… میں رات گئے اسٹڈی میں بیٹھا رہتا ہوں تو وہ بڑے اطمینان سے جیولری کا صفایا کردے گا اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔” اس نے اتنی لمبی بات کیوں کی تھی اسے سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید یہ اس کی بیوی کے چہرے پر بے یقینی کے تاثرات تھے جن کو ختم کرنے کی ایک desperateکوشش تھی جو وہ کررہا تھا یا پھر یہ اس کی اپنی آوازکا کھوکھلا پن تھا جس کی بازگشت سے بچنے کے لیے اسے مسلسل بولنا پڑرہا تھا۔